غزل ۔۔۔ م محمود مغل

دائرہ حلقۂ پرکار بنا دیتا ہے

اور قلم حاشیہ بردار بنا دیتا ہے

 

کیا کہا جائے کہ تعمیرِ دروں حالی میں

کون آ جاتا ہے دیوار بنا دیتا ہے

 

کیا اسے دھوپ کے زنداں میں مقید کرتا

جو مرے سائے پہ اشجار بنا دیتا ہے

 

کون پھولوں کی نمائش سے بچایا ہوا جسم

دشت میں رونقِ گلزار بنا دیتا ہے

 

ہائے وہ عسرتِ ملبوس کہ قامت نہ ملے

آخرش جبّہ و دستار بنا دیتا ہے

 

اوّلیں وہ مجھے آثار مسافت کے دکھائے

اور پھر راستہ دشوار بنا دیتا ہے

 

اک انا زاد تحیّر ہے معمّہ تو نہیں

آئنہ عکس کو دشوار بنا دیتا ہے

 

وصل اک لحظہ ترے لمس کی خوشبو پا کر

عرصۂ فرصتِ بے کار بنا دیتا ہے

 

پہلے وہ آس پرندوں سے سجاتا ہے شجر

پھر کسی ڈال پہ چہکار بنا دیتا ہے

 

اک غزل اور غزالِ دلِ بے کل کے لیے

لمس جس کا مجھے فنکار بنا دیتا ہے

 

شعر در اصل حدائق ہیں معانی کے تئیں

لفظ جن کو ترا معیار بنا دیتا ہے

 

عشق ہے لذتِ تحدیثِ شبستاں آثار

وصل سے ہجر کو بیزار بنا دیتا ہے

 

رہ روِ تابِ سخن رمزِ مسافت ایجاد

دل کہاں راہ کو رہوار بنا دیتا ہے

 

یہ بھی اک شعر کی محفل میں کھلا ہے محمودؔ

عشق بھی قافیہ بردار بنا دیتا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے