غزل ۔۔۔ فوزیہ رباب

 

تم بھی اب شہر سے ڈر جاتے ہو حد کرتے ہو

دیکھ کر مجھ کو گزر جاتے ہو، حد کرتے ہو

 

نین تو یونہی تمہارے ہیں بلا کے قاتل

اس پہ تم روز سنور جاتے ہو، حد کرتے ہو

 

میری آنکھوں سے بھی آنسو نہیں گرنے پاتے

میری آنکھوں میں ٹھہر جاتے ہو، حد کرتے ہو

 

میرے جذبات میں تم بہہ تو لیا کرتے ہو

کیسے دریا ہو، اتر جاتے ہو، حد کرتے ہو

 

میں بھی ہر روز ہی کرتی ہوں بھروسہ تم پر

تم بھی ہر روز مکر جاتے ہو حد کرتے ہو

 

کیسے دنیا سے چھپاؤں میں تمہاری خوشبو

تم جو چپ چاپ بکھر جاتے ہو حد کرتے ہو

 

تم تو کہتے تھے ربابؔ اب میں تری مانوں گا

پھر بھی تم دیر سے گھر جاتے ہو، حد کرتے ہو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے