غزلیں ۔۔۔ عبدالوہاب سخن

 

لبِ خموش سے اُس نے ‘خوش آمدید’ کہا

اسی کو لوگوں نے پھر’ گفت اور شنید’ کہا

 

جنوں میں پہلے تو اقرار کر لیا اُس نے

جنوں کی بات کو پھر عقل سے بعید کہا

 

حسین تبصرہ موسم پہ جب تمام ہوا

تو اُس نے کان میں چپکے سے کچھ مزید کہا

 

نہ ہم سے پوچھا گیا ضبط کا سبب کوئی

نہ ہم نے درد کو اپنے کبھی شدید کہا

 

بہارِ لالہ و گل سے خزاں کی آمد تک

ہر ایک واقعہ موسم نے چشم دید کہا

 

مری سرشتِ سخن میں ہیں کچھ نئے اسلوب

نئی غزل نے مجھے بھی خوش آمدید کہا

٭٭٭

 

 

 

۔۔۲۔۔

 

 

تھر تمام شہرِ ستمگر کے ہو گئے

جتنے تھے آئنے وہ مرے گھر کے ہو گئے

 

شاید کہ یہ زمانہ انہیں پوجنے لگے

کچھ لوگ اِس خیال سے پتھر کے ہو گئے

 

سفاک موسموں نے عجب سازشیں رچیں

ٹکڑے ہوا کے ہاتھوں گلِ تر کے ہو گئے

 

محور سے اُن کو کھینچ نہ پائی کوئی کشش

شوقِ طواف میں جو ترے در کے ہو گئے

 

وہ اپنے لاشعور سے ہجرت نہ کر سکا

میرے ارادے سات سمندر کے ہو گئے

 

میری بلندیوں پہ تھی جِن کی نظر سخنؔ

میں خوش ہوں وہ بھی میرے برابر کے ہو گئے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے