غزلیں ۔۔۔ سید کاشف

زندگی باقی بچی، تیرے خیالات کے نام !

تری آنکھوں کی چمک حسنِ کرامات کے نام !

 

کتنی مشکل سے شبِ ہجر تُو گزری مجھ پر

جا تجھے چھوڑ دیا تیری عنایات کے نام !

 

میں نے اک عمر گزاری کسی خوش فہمی میں

اب جو ایّام بچے، اپنے مفادات کے نام !

 

اپنے رخ تم کرو، میں اپنی طرف کی چُن دوں

آؤ دیوار اُٹھاتے ہیں روایات کے نام !

 

کچی بستی کے مکیں کب کے جگہ چھوڑ گئے

اب یہ آثار ہیں کچھ پکّے مکانات کے نام !

 

مری خود داری میرے حق کے مقابل نہ کرو!

مری محنت کا صلہ کیوں ہو مراعات کے نام؟

 

آؤ اللہ سے بخشش کی دعائیں مانگیں

قول اور فعل میں موجود تضادات کے نام!!

٭٭٭

 

۔۔۲۔۔

خواہشِ وصلِ دائمی نہ گئی

زندگی سے یہ تِشنگی نہ گئی

 

شاخِ وابستگی تو سوکھ چکی

ہجر کے گل کی تازگی نہ گئی

 

حرف گیری سے اعتبار گیا

چشمِ حیراں تری نمی نہ گئی

 

ہم تلافی کریں یا کفّارہ

ایک الجھن ہے منطقی نہ گئی

 

ق…..

وقت کے ہم ہیں، دو کناروں پر

کب کی گزری ہوئی گھڑی نہ گئی

پاٹ دریا کا اب ہوا سیلاب

دھار بر وقت پار کی نہ گئی

………

 

ظرف کاشف انہی کا ہے اعلیٰ

جن کی لہجے سے عاجزی نہ گئی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے