جوگندر پال کا ناول ’’پار پرے ‘‘ ۔۔۔ حیدر قریشی

 

جوگندر پال تخلیقی ذہن رکھنے والے اردو کے انتہائی زرخیز فکشن رائٹر ہیں۔ افسانہ، افسانچہ، ناولٹ اور ناول تک ان کی تخلیقات بجائے خود اردو فکشن کی کہکشاں سی بنا چکی ہیں۔ پار پرے ان کا تازہ ناول ہے۔ یہ ناول جوگندر پال کی تخلیقی فعالیت کا حیران کن مظہر ہے۔ عمر کے اس حصے میں جہاں ہمارے بیشتر لکھنے والے یا تو لکھنے سے توبہ تائب ہو جاتے ہیں یا خود کو دہراتے چلے جاتے ہیں، جوگندر پال ایک انوکھے موضوع کے ساتھ اپنا ناول پار پرے لے کر آئے ہیں۔

دس ابواب اور ایک پس لفظ پر مشتمل یہ ناول بنیادی طور پر بابا لالو کی داستان ہے۔ لیکن اس داستان میں اور بھی کئی کرداروں کی کہانیاں آتی چلی گئی ہیں۔ جالم سنگھ جیسے رحم دل سنگھ سردار کی کہانی، مولوی منظور احمد کی کہانی، انڈیمان کے جاروائی قبیلے کی کہانی، شبو چور کی کہانی، بھائی شری رام کی کہانی، اور بہت ساری کہانیاں۔ گوراں چاچی کی کہانی تو خود بابا لالو کی کہانی سے مل کر اگلی کہانیوں کو جنم دیتی ہے۔ یہ ساری کہانیاں جزائر انڈیمان کے معروف اور عبرتناک مقام کالے پانی سے ابھرتی ڈوبتی ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں خطرناک مجرموں کو سزا کے طور پر کالے پانی کی سزا دی جاتی تھی۔ حکمرانوں نے جن خطرناک مجرموں کو سزا کے طور پر وہاں بھیجا تھا ان میں سے اکثر نہ صرف خطرناک نہیں تھے بلکہ اتنے معصوم تھے کہ زندگی بھر اپنے معاشرے کے معززین کے استحصال کا نشانہ بنتے رہے۔ اور اسی کے نتیجہ میں یہاں پھنکوا دئیے گئے۔

بابا لالو کو اپنے آگا پیچھے کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ وہ بے سہارا تھا اور ماسٹر اللہ دتہ اسے ترس کھا کر اپنے گھر لے گئے۔ وہاں انہوں نے اسے بیوی کی طرح رکھا اور باپ کی طرح پالا۔ اسکول ٹیچر کی وفات ہوئی تو اسکول منیجر ستیہ وتی اسے ترس کھا کر اپنے ہاں لے گئی اور وہ ماسٹر اللہ دتہ سے بھی دو ہاتھ آگے نکلی۔ پھر ایک بار ستیہ وتی نے اپنے بوڑھے شوہر کے ساتھ جھگڑے کے دوران اسے گولی مار دی۔ الزام بابا لالو کے سر لگا دیا گیا۔ اور جب معاملہ عدالت میں پہنچا تو بقول بابا لالو:

’’ستیہ وتی کے وکیل کی بحثیں سن کر مجھے بھی یقین آ گیا تھا کہ خونی میں ہی ہوں ‘‘۔

بابا لالو کا یہ ایک جملہ تیسری دنیا اور بالخصوص جنوبی ایشیا کے ممالک کے نظامِ عدل پر اور معاشرے کی اصلیت پر ایک کاری ضرب ہے۔ یوں بابا لالو اندھے انصاف کی بھینٹ چڑھ کر قاتل کا گناہ اپنے ذمہ لے کر کالے پانی کی سزا کے لئے بھیج دیا گیا۔ یہاں اس کی ملاقات ایک طوائف گوراں چاچی سے ہوتی ہے۔ گوراں چاچی کو ایک گاہک نے کام کے بعد معاوضہ نہیں دیا تو اس نے اسے دھکا دیا اور وہ اوپری منزل سے نیچے گر کر ہلاک ہو گیا اور گوراں چاچی قتل کے الزام میں سزا پا کر کالے پانی بھیج دی گئی۔ بہر حال دونوں کے درمیان بات بڑھتی ہے تو دونوں شادی کر لیتے ہیں۔ قید سے رہائی کے بعد کالے پانی کے بیشتر سزا یافتہ لوگ وہیں بس جاتے ہیں۔ یوں پورٹ بلیئر ایک شہر بن کر پھیل چکا ہے۔

کالے پانی کے سزا یافتہ ان لوگوں کی بڑی تعداد اپنے رہن سہن سے رام راج یا ست یگ کی یاد دلاتی ہے۔ پیار، محبت، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک۔ ۔ دینی غیرتوں اور تہذیبی بے غیرتیوں سے پاک صاف۔

مسلمان، ہندو، سکھ، مسیحی، اور مقامی جاروائی لوگ، سب تعصبات سے پاک اچھے انسانوں کی طرح جی رہے ہیں۔ لالو اور گوراں کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے دوست جالم سنگھ کے کہنے پر وہ پہلا بیٹا واہگورو کو دے دیتا ہے۔ اس کا نام بیکل سنگھ رکھا گیا۔ دوسرا بیٹا ہوا تو اسے مسلمانوں کے حوالے کرنے کا سوچتا ہے اور اس کا نام علی رکھ دیا جاتا ہے۔ میاں بیوی دونوں ہندو۔ بیکل سنگھ بڑا ہو کر اچھا کاروباری ثابت ہوتا ہے۔ باپ کی کریانے کی چھوٹی سی دوکان کو بڑھا کر پرویژن سٹور میں بدل دیتا ہے۔ چھوٹا بیٹا پڑھائی کی طرف توجہ دیتا ہے اور گریجوایشن کر کے اسکول ٹیچر بن جاتا ہے۔ ذہنی طور پر وہ غور و فکر میں مبتلا رہتا ہے۔ اس کا انگریز پرنسپل بھی اس کی ذہنی صلاحیتوں کی قدر کرتا ہے۔ بیکل سنگھ کی شادی ایک لڑکی سے ہو جاتی ہے۔ علی ایک مقامی لڑکی سو کو پسند کر چکا ہے۔

اسی دوران ہندوستان سے بعض ہندو رہنما پورٹ بلیئر آتے ہیں اور وہاں کے ہندوؤں کو بتاتے ہیں کہ ماضی میں مسلمان حکمرانوں نے ان کے آباء و اجداد پر کیا کیا مظالم ڈھائے تھے۔ سنگین مقدمات میں سزا یافتہ لوگوں سے بسا ہوا شہر پورٹ بلیئر سزایافتہ لوگوں کا گڑھ ہونے کے باوجود امن و سکون کا گہوارہ تھا اور مذہبی نفرت کے زہر سے ابھی تک پاک تھا۔ لیکن ہندوستان سے آنے والے ہندو رہنماؤں نے پہلی ہی اشتعال انگیز تقریب میں زہر پھیلایا تو اسی تقریب میں بابا لالو اور گوراں کا بیٹا علی کھڑا ہو گیا۔ اس نے مقرر کو مخاطب کر کے کہا:

’’کیا آپ اس وقت تاریخ کے پَنوں میں سانس لے رہے ہیں یا بیسویں صدی کے خاتمے پر یہاں پورٹ بلیئر میں ؟آپ آخر چاہتے کیا ہیں ؟۔ ۔ ۔ فرقہ وارانہ فساد؟۔ ۔ مارا پیٹی؟۔ ۔ ۔ وحشیانہ قوت؟۔ ۔ کیا؟۔ ۔ ۔ کیا چاہتے ہیں آپ؟۔ ۔ ۔ ہماری جانیں ؟‘‘

علی کی اس بے ادبی پر ہنگامہ ہو گیا۔ پولیس نے فائرنگ کر کے فساد پر قابو پا لیا۔ لیکن اس فائرنگ سے انتہا پسندوں کا ایک ساتھی مارا گیا۔ پولیس انسپکٹر نے خود کو بچانے کے لئے اس کے قتل کا الزام علی پر لگوا دیا۔ مقدمہ چلا۔ علی کا کہنا تھا کہ وہ نفرت پھیلانے والے مذہبی لوگوں سے نفرت کرتا ہے لیکن اس نے کوئی قتل نہیں کیا۔ لیکن اس کی نفرت کا اعتراف اور جائے وقوعہ کے دوسرے شواہد کی بنا پر ہی اسے عمر قید سنا دی گئی۔ کالے پانی میں رچے بسے ہوئے خاندان کے نوجوان کو نئے کالے پانی کی سزا سنا ئی گئی۔ اسے بال ٹھاکرے جی کے شہر بمبئی کی جیل میں بھیج دیا گیا۔

بابا لالو جو خود قتل کے جھوٹے الزام میں کالے پانی کی سزا بھگت چکا تھا، اب اپنے پڑھے لکھے اور ذہین بیٹے کو قتل کے جھوٹے الزام میں سزا کے لئے جاتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ علی کے ساری بہی خواہ، سارے عزیزاس نا انصافی پر اس ظلم پر گھلنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ بابا لالو، علی کے پرنسپل سے شاید من ہی من میں باتیں کر رہا ہے :

’’میری کہانی تو پوری ہو لی ہے۔ پر کہاں پوری ہو ئی ہے۔ پِٹ سن صاحب؟وہ تو بمبئی جیل میں جا کھوئی ہے، اور اس کی پرچھائیاں مجھے یہاں گھیرے رکھتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ خدارا میری مدد کیجئے۔ ۔ ۔ پِٹ سن صاحب، جو ابھی ہونا ہے وہ سارے کا سارا ایکدم ہو جانے دیجئے۔

ہاں، آپ کیا کر سکتے ہیں ؟۔ ۔ ۔ ۔ ہاں، پِٹ سن صاحب کوئی پوری کہانی بھلا کہیں پوری ہوتی ہے ؟‘‘

بابا لالو کی اسی خود کلامی پر ناول کا اختتام ہو جاتا ہے اور باقی کہانی ہم سب اپنے اپنے ذہنوں سے سوچتے ہوئے علی کی، بابا لالو کی، گوراں کی، جالم سنگھ کی، فادر ڈینیئل بخش کی، اور مقامی جاروا لڑکی سُو کی، اور کئی دوسرے کرداروں کی کتنی ہی کہانیاں بنا سکتے ہیں۔

جوگندر پال اپنے مخصوص ڈکشن کے ساتھ اس ناول میں خوشیوں اور دکھوں کے کتنے ہی پھول سجائے ہوئے ہیں۔ آئیے ان کے چند جملوں کے پھولوں کو کسی حوالے کے بغیر دیکھتے ہیں۔

٭٭ ’’اتنا نیک تھا، معلوم نہیں اتنا دکھی کیوں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’بابا۔ ۔ کسی نے اسے ٹوکا۔ ۔ جب اتنا نیک تھا تو دکھی تو ہو گا ہی‘‘

٭٭بیرکوں کی قید اور کام سے چھٹی پا کر بابا لالو کو سب سے پہلے یہ مسئلہ لاحق تھا کہ اب رہیں گے کہاں،

’’اس میں کیا مشکل ہے ‘‘ گوراں چاچی نے اُس سے کہا ’’تم میرے دل میں رہو گے اور میں تمہارے دل میں ‘‘

’’اس طرح تو ہم کبھی مل ہی نہ پائیں گے۔ ‘‘

٭٭ ’’رب کے ان نیک بندوں کو اپنی سجا بھگتنا بھی نئیں آتا بھابھی۔ ہماری تراں چور ڈاکو ہوں تو جیل کو بھی سسرال بنا لیں ‘‘

٭٭مولوی کو بھُنے ہوئے چنے بہت مرغوب تھے۔ ۔ ۔ جالم سنگھ نے اُس کے سامنے اپنی ہتھیلی کھول دی۔ ’’موجھے تو ایوائی پھکر کھائی رکھ دی ہے مولویا، کے جنت میں تو سِرپھ دودھ اور شہد کی ندیاں بہتی ہیں، تجھے اوتھے بھنے ہوئے چنے کیسے ملیں گے ‘‘

٭٭ ’’تم ایک نہاتی بہت ہو بی بی‘‘

’’تم جو نہیں نہاتے، بابا۔ تمہارا نہانا بھی نہ نہا لیا کروں تو تمہارے قریب کھڑا ہوکے سانس لینا بھی دشوار ہو جائے‘‘

٭٭فادر  ڈینیل بخش نے لاکھ زور لگایا کہ بِلّو اور بیکل کی سادی عیسائی ریتی رواج کے مطابق چرچ میں انجام پائے، پر جالم سنگھ اڑ گیا کہ وہ اپنے بیکل کا بیاہ خود آپ گرنتھ صاحب کے روبرو گوردوارے میں کرائے گا۔

’’اوئے میرے پیارے فادر، میری بات کان دھر کے سن‘‘جالم سنگھ فادر کو سمجھاتا رہا ’’تمہارا یسوع، واہگورو کا ہی پتر ہے نا۔ ۔ بول، ہے کہ نئیں ؟۔ ۔ ہے !۔ ۔ ۔ تو پھر اسے بھی اپنے واہگورو کے سامنے بیٹھ کے بیاہ کا نجارہ کرنے سے کیوں روکدیے ہو؟۔ ۔ کیسے پھادر ہو پھادر؟باپ بیٹے کو مل بیٹھنے کا موکا مل ریا ہے تو انہوں کو مل بیٹھنے دو، کیاؤں ان کی ملاخات میں روڑا اٹکاتے ہو؟‘‘۔ ۔ ۔ یہ اچھا ہوا جالم کی بات آخر فادر کی سمجھ میں آ گئی۔

٭٭جب ہم آپ یادداشت کھو بیٹھیں تو ہماری یادداشت بھی ہماری تلاش میں نکلی ہوتی ہے۔

٭٭ ’’اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ گاندھی نے بات بات میں ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی کے بھائی بھائی ہونے پر اتنا زور کیوں دیا۔ جو ہوں ہی بھائی بھائی، اُنہیں کیا ایک دوسرے کو ہمہ وقت بھائی بھائی کہے بغیر اپنا رشتہ یاد نہیں رہے گا؟

وہ جی ہی جی میں یہ دیکھ کر ہنس رہا ہے کہ ہمارا علی اپنی بامنی ماں کو یقین دلا رہا ہے، ماں، ہم بھائی بھائی ہیں۔ ‘‘

اس ناول کا ایک کمال تو یہ ہے کہ اس میں کالے پانی کے سزایافتہ لوگوں کی جوگندر پال نے ایسی خوبصورت تصویر کھینچی ہے کہ دل ان کی محبت سے بھرنے لگتا ہے۔ یہ ناول ہمارے معاشرے کی منافقتوں کو بالواسطہ طور پر بے نقاب کرتا ہے۔ بے قصوروں یا معمولی قصور واروں کو بڑا مجرم بنانے کے باوجود ہمارے معاشرے سے گندگی ختم نہیں ہوتی لیکن وہی لوگ جنہیں گندہ قرار دے کر پورٹ بلیئر میں بسا دیا گیا تھا وہ وہیں اپنی جنتِ ارضی بسا لیتے ہیں۔ اور پھر اس جنت ارضی میں بھی انسان کو بہکانے والے پہنچ جاتے ہیں۔

ناول کے سرورق پر چار تصاویر سلیقے سے سجائی گئی ہیں۔ ۱۔ ایبرڈین بازار پورٹ بلیئر کے سیلولر جیل کے بیرونی دروازے کی تصویر۔ ۲۔ جیل کے طویل برآمدے کی تصویر۔ ۳۔ جیل کی باہر سے اور فضاسے لی گئی تصویر اور ۴۔ بیلوں کی جگہ قیدیوں کے کولہو چلانے اور تیل نکالنے والے مقام کی تصویر۔ اسی مقام کو بطور خاص کالے پانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

پورٹ بلیئر شہر کو اور کالے پانی کے مکینوں کی نفسیات کو جوگندر پال نے اتنی خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ان کی اس مہارت پر رشک آتا ہے۔ قاری نہ صرف خود پورٹ بلیئر جا پہنچتا ہے بلکہ سچ مچ وہاں جا کر کالے پانی کے صاف دل، میٹھے لوگوں سے ملنے کی خواہش کرنے لگتا ہے۔ کم از کم میرا تو بہت جی کرنے لگا ہے کہ خود کو سزا کے طور پر نہیں بلکہ جزا کے طور ایک بار کالے پانی لے جاؤں اور وہاں کے ان سارے اندر، باہرسے ٹوٹے ہوئے کرداروں سے ملوں، جو ایک دوسرے سے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں، جنہیں جوگندر پال نے امر کر دیا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے