بچوں کے بابا کبیر۔۔۔ شکیل الرحمن

 

ایک دِن ایسا ہوا بچو بابا کبیر ایک بڑے  گھنے  پیڑ کے  نیچے  بیٹھے  اللہ کو یاد کر رہے  تھے  کہ اچانک اُسی گاؤں  کے  دو بھائی مہندر  اور  جوگندر لڑتے  جھگڑتے  تو تو میں  میں  کرتے  وہاں  آن پہنچے۔ وہاں  پہنچ کر  اور  بابا کبیر کو دیکھ کر بھی دونوں  کا جھگڑا کم نہ ہوا۔ دونوں  ایک دوسرے  سے  اُلجھے  رہے اور تو تو میں  میں  کرتے  رہے۔ کچھ دیر تو بابا کبیر نے  ان دونوں  کا تماشا دیکھا۔ جب ان کی چیخ پکار بڑھ گئی تو بولے: ’’بھائی تم لوگ اس طرح کیوں  جھگڑا کر رہے  ہو۔ بیٹھ جاؤ اس گھنے  پیڑ کے  نیچے اور اپنا معاملہ ٹھیک کر لو۔ ا چھے  لوگ بھلا کبھی اس طرح لڑتے  جھگڑتے  ہیں۔‘‘

’’کیا ٹھیک کر لیں  اپنا معاملہ، بابا پہلے  سن لیجیے  معاملہ کیا ہے۔ یہ جو مہندر ہیں، یہ میرے  بڑے  بھائی ہیں۔‘‘  جوگندر نے  کہنا شروع کیا ’’بابو جی کے  مر نے  کے  بعد اُن کے  کھیت کا بٹوارہ ہوا۔ آدھا کھیت مہندر بھائی نے  لیا  اور  آدھا میں  نے۔ اب دیکھئے  بابا مہندر بھائی کی نیت خراب ہو گئی  اور  اُنھوں  نے  میرے  کھیت پر قبضہ کر لیا۔ لاکھ کہا ہاتھ جوڑے، یہ سنتے  ہی نہیں  ہیں۔ آپ ہی بتایئے  بابا کبیر یہ کوئی انصاف ہے  دوسروں  کا حق مارنا کہاں  کا انصاف ہے۔‘‘  جوگندر  رونے  لگا۔

بابا کبیر نے  جوگندر کو ڈھارس دیتے  ہوئے  کہا ’’روتے  نہیں، تمھارے  دُکھ کو خوب سمجھ رہا ہوں۔‘‘  پھر بابا کبیر نے  مہندر کی طرف دیکھ کر پوچھا ’’کیا یہ سچ ہے؟تمھارا چھوٹا بھائی جوگندر جو کہہ رہا ہے  وہ سچ ہے؟‘‘

مہندر نے  آہستہ سے  کہا ’’ہاں  بابا۔‘‘

’’بھائی کا حق مار رہے  ہو، یہ کوئی اچھی بات تو نہیں  ہے  مہندر، اُس کا   حصہ واپس کر دو، جوگندر تمھارا چھوٹا بھائی ہے  نا۔‘‘

’’بابا، جوگندر نے  مجھ سے  دس سیر چاول قرض کے  طور پر لیے  تھے، سال بیت گیا، ابھی تک واپس نہیں  کیا ہے۔ اسی واسطے  میں  نے  اس کے  حصّے  کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔‘‘   مہندر نے  کہا۔

’’دس سیر چاول کے  لیے  تم نے  اُس کے  حصّے  کے  کھیت پر قبضہ کر لیا؟ یہ تو حد ہو گئی۔‘‘  بابا کبیر بولے۔

’’یہ سچ ہے  بابا، پچھلے  سال میں  نے  مہندر بھائی سے  دس سیر چاول لیے  تھے، کہا تھا جلد واپس کر دوں  گا۔ اِس برس میرے  کھیت میں  اچھا اناج پیدا ہوا ہے۔ میں  نے  کہا  بھیا میں  تمھیں  دس کی جگہ پندرہ سیر چاول دے  دوں  گا، میرے  کھیت پر قبضہ مت کرو، لیکن یہ مانے  نہیں۔ اپنے  ساتھیوں  کو لے  کر آئے اور ڈنڈے  کے  زور پر میرے  حصّے  کے  کھیت پر قبضہ کر لیا۔ بابا میں  اِس سال چاول ضرور واپس کر دوں  گا۔ ان سے  کہیے  یہ میری زمین چھوڑ دیں  ورنہ میری بیوی بچے ّ سب بھوک سے  مر جائیں  گے۔ بابو جی کا دیا ہوا یہی تو ایک سہارا ہے۔‘‘

’’مہندر میری بات غور سے  سنو  اور  تم بھی   سنو جوگندر، اس چھوٹی سی زندگی میں  جتنی خوشیاں  آ سکیں  سمیٹ لو، آپس میں مِل  جل کر رہو، ہوس لالچ سے  دُور رہو۔ ایک دن اس زندگی کو تیاگ دینا ہے۔  اگر  ہم ایک دوسرے  سے  محبت کریں اور اچھی صفات پیدا کرتے  رہیں  تو زندگی بہت خوبصورت بنتی جائے  گی۔ انسان کے  پاس اپنی صفات کے  علاوہ  اور  کیا ہے۔ جانور مرتے  ہیں  تو اُن کی ہڈّیاں  کام آتی ہیں، ان سے  زیورات بھی بنتے  ہیں، اُن کے  چمڑے  سے  ڈھول نقاّرے  بھی بنتے  ہیں۔ انسان مرتا ہے  تو اُس کا گوشت بھی کام نہیں  آتا، اس کی ہڈّیاں  بھی کام نہیں  آتیں۔ اس کے  چمڑے  بھی کام نہیں  آتے، اس لیے  اُسے  سوچنا چاہیے  کہ اچھی صفات ہی سب کچھ ہے۔ ا چھے اور نیک کام کرو، دوسروں  کی مدد کرو، دُشمنی حسد بے  ایمانی، کڑواہٹ سے  بچو۔ انسان اپنی عمدہ صفات ہی سے  پہچانا جاتا ہے۔ میری یہ بات یاد رکھو:

 

مانس تیرا   گن بڑا، مانس نہ آوے  کاج

ہاڑنہ ہوتے  آبھرن تو چانہ باجے  باج

 

میرا کہنا یہ ہے  کہ انسان کا سب سے  بڑا   گن اُس کی انسانیت ہے، جانوروں  کے  گوشت کی طرح اس کا گوشت کام نہیں  آتا، اس کی ہڈّی سے  زیور نہیں  بنتے اور چمڑے  سے  ڈھول نقاّرے  نہیں  بنتے۔ تم دونوں  بھائی میری اس بات پر خوب ا چھی طرح غور کرنا۔  اگر  میری بات سچ نہ ہو تو  ہر گز نہ ماننا  اور   اگر  سچ ہو تو  محبت سے  رہنا بھائی بھائی کی طرح کھیت کھلیان سب پڑے  رہ جائیں  گے۔ جب انسان اِس دُنیا سے  چلا جائے  گا صرف اس کی صفات ہی لوگوں  کو یاد  رہیں  گی۔‘‘

بابا کبیر اُٹھے، چلنے  کو تیاّر ہوئے، اِدھر دونوں  بھائیوں  مہندر  اور  جوگندر نے  ایک دوسرے  کو  محبت کی نظر سے  دیکھا  اور  خوشی سے  ایک دوسرے  سے  لپٹ گئے۔ بابا کبیر نے  اُن کی جانب دیکھا، مسکرائے اور یہ گاتے  ہوئے  چلے  گئے:

مانس تیرا   گن بڑا مانس نہ آوے  کاج

آہستہ آہستہ آواز بہت دُور چلی گئی۔

 

بچو، اپنے  ملک ہندوستان میں  بابا کبیر ایک بہت بڑی  اور  بہت پُر وقار  اور  پُر عظمت شخصیت کا نام ہے۔ ایک بڑے  صوفی بزرگ تھے  جن کی گہری نظر دُنیا کے  حالات، اپنے  ماحول  اور  خالقِ کائنات  اور  انسان کے  رشتے  پر تھی۔ ہر طبقے اور ہر قوم و ملّت کے  لوگ اُن کے  قدر داں  رہے اور آج بھی ہیں۔ ان کے  دوہے  صدیوں  سے  لوگوں  کو یاد ہیں، کم سے  کم لفظوں  میں  بڑی بڑی باتیں  کہہ جاتے  ہیں، بابا کبیر چودھویں  صدی عیسوی کے  ایک ممتاز صوفی بزرگ تصوّر کیے  جاتے  ہیں، اُن کا زمانہ غالباً ۱۴۴۰ء سے  ۱۵۱۸ء تک کا ہے۔ اتنا عرصہ گزر گیا ان کی زندگی کی کہانی ابھی تک دھُندلکوں  میں  چھپی ہوئی ہے۔ ان کی زندگی مختلف قسم کی کہانیوں  میں  لپٹی ہوئی ہے  لیکن اس بات کو سبھی مانتے  ہیں  کہ اُن کی پرورش ایک مسلمان جولا ہے  کے  گھر میں  ہوئی تھی۔ اُنھیں  بھی کپڑا   بننے  کا شوق تھا۔ کپڑا    بنتے     بنتے  شاعری بھی کرتے  رہتے  تھے۔ اپنے  ایک دوہے  میں  کہا ہے  ’’جی چاہتا ہے  کپڑا   بننا چھوڑ کر صرف اپنے  مالک کی یاد میں  پوری زندگی بسر کر دوں۔‘‘  ایک خدا کو ماننے  والے  اس سنت صوفی نے  ہندوؤں اور مسلمانوں  کے  درمیان پیار محبت کے  رِشتوں  کو مضبوط کر نے  کی ہر ممکن کوشش کی، مذہب دھرم کے  نام پر آپس میں  جھگڑے  کر نے  والوں  کو طرح طرح سے  سمجھانے  کی کوشش کی۔ ہندو  اور  مسلمان دونوں  ان کے  زبردست عقیدت مند رہے۔ بابا کبیر نے  جب کپڑا بننا چھوڑ دیا  اور  اللہ کی یاد میں  وقت گزار نے  لگے  تو کبھی ایسا نہ کیا کہ وہ خود کو لوگوں  سے  الگ کر لیں۔ وہ ہمیشہ لوگوں  کے  درمیان میں  ہی رہنا پسند کرتے  تھے اور اُنھیں  اچھی ا چھی باتیں  سمجھاتے  تھے، کبھی اپنی تقریروں  سے اور کبھی اپنی شاعری سے۔ جس راستے  سے  گزرتے  لوگ اُن کے  ساتھ ہو جاتے  ان میں  بچے ّ، جوان، بوڑھے  سب ہوتے، اُن کی زبان سے  جو بات نکلتی اُسے  بہت سے  لوگ اپنے  دماغ میں  محفوظ کر لیتے۔ اس طرح اُن کا کلام ایک نسل سے  دوسری نسل تک پہنچتے  پہنچتے  ہم تک پہنچا ہے۔ ایک بار ایسا ہوا بابا کبیر گھر سے  نکلے  تو اُن کے  ساتھ بہت سے  لوگ ہولیے۔ چلتے  چلتے  بابا ایک دوسرے  گاؤں  پہنچ گئے، اُن کے  ساتھ وہ لوگ بھی پہنچ گئے  جو ان کے  ساتھ چل رہے  تھے۔ دوسرے  گاؤں  کے  لوگوں  نے  جب بابا کبیر کو دیکھا تو بڑی  محبت سے  ان کا استقبال کیا، اُنھیں  بٹھایا  اور  اُن تمام لوگوں  کو بھی جو اُن کے  ساتھ آئے  تھے اور اُن کے  مہمان تھے۔ اُس گاؤں  کی روایت کے  مطابق سب کے  سامنے  مکئی کی روٹی  اور   گڑ کے  ٹکڑے  رکھے  گئے۔ بابا کبیر نے  خوش ہو کر گڑ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اپنے  منہ میں  ڈال لیا  اور  پانی پیا۔ مہمان روٹی  اور   گڑ کھا کر بہت خوش ہوئے۔ اُس دِن بابا کبیر نے  لوگوں  کو یہ سمجھانے  کی کوشش کی کہ انسان کا دماغ ہمیشہ بے  چین  اور  بے  قرار رہتا ہے  سمندر کی تیز لہروں  کی طرح، لیکن انسان دِماغ کی بے  چینی  اور  بے  قراری کو روک لے  تو دِماغ کی لہروں  کے  رُکتے  ہی اسے  زندگی کی نعمتیں  حاصل ہوں  گی، زندگی کی قیمت سمجھ میں  آئے  گی اُسی طرح کہ جس طرح سمندر کی موجوں  کے  ٹھہر جانے  کے  بعد قیمتی پتھر حاصل ہوتے  ہیں۔ سمندر کی لہروں  کے  ٹھہرتے  ہی ہم قیمتی پتھر ہیرے  چننے  لگتے  ہیں۔ اسی طرح دماغ کی لہروں  کے  ٹھہرتے  ہی بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے، زندگی کی طرف سے  زیادہ بیداری پیدا ہو گی۔ اُنھوں  نے  ایک دوہا پڑھ کر اس بات کو اس طرح سمجھایا:

 

جیتی لہر سمدر کی تیتی من کی دور

سہجے  ہیرا نِپجے  جو من آوے  ٹھور

 

یعنی سمندر کی اَنگنت لہریں  ہوتی ہیں، اسی طرح دماغ کی بھی بہت سی لہریں اور موجیں  ہوتی ہیں۔ جب سمندر کی موجیں  ٹھہر جاتی ہیں  تو انسان موتی   چننے  لگتا ہے  اسی طرح دماغ کی لہروں  پر قابو پا لیا جائے  تو زندگی کے  بہت سے  موتی حاصل ہوں  گے۔

یہ باتیں  سمجھا کر بابا کبیر آگے  بڑھ گئے اور وہ تمام لوگ یعنی دونوں  گاؤں  کے  لوگ بابا کی باتوں  پر غور کرتے  رہے، آپس میں  بات چیت کی  اور  اس نتیجے  پر پہنچے  کہ بابا نے  جو کہا ہے  وہ درست ہے، انسان اپنے  دماغ کی لہروں  کو تھامنے  کی کوشش کرتا رہے  تو اُسے  یقیناً بہت سی نعمتیں  حاصل ہوں  گی۔ پچھلے  گاؤں  سے  آنے  والے  یہی پڑھتے  اپنے  گاؤں  واپس چلے  گئے:

 

جیتی لہر سمدر کی تیتی من کی دُور

سہجے  ہیرا نِپجے  جو من آوے  ٹھور

 

بابا کبیر نے  پوری زندگی ا چھی ا چھی باتیں  کیں، انسان  اور  زندگی کی سچائیوں  کو سمجھایا،بچوں اور نوجوانوں  کو بہت چاہتے اور پسند کرتے  تھے  اس لیے  کہ ملک و قوم کے  خوبصورت مستقبل کا انحصار ان ہی پر ہے۔ اچھی اچھی باتوں  کو سمجھاتے  ہوئے  ایک بہت ہی گہری بات اُنھوں  نے  اس طرح کہی تھی:

 

سیپ جونہی پتلگ اُترتی جیلک کھا لی پیٹ

آٹی سیپ پیرے  گئی بھئی سوتی سے  بھیٹ

پہلے  یہ بتا دوں بچو کہ بابا کبیر کی زبان بہت ہی قدیم اُردو ہے  جسے  اودھی کھڑی کہتے  ہیں۔ ’’وہ کھڑی اُردو‘‘  کے  پہلے  شاعر ہیں، اس طرح اُردو زبان کے  پہلے اور سب سے  بڑے  شاعر۔ یہ مِلی  جلی زبان ہے۔ کھڑی اُردو نے  علاقائی  اور  مقامی بھاشاؤں اور بولیوں  کے  لفظوں  کو اپنا بنا لیا تھا، اُردو زبان ابھی نکھری نہیں  تھی۔ ہاں  دیکھو اس دوہے  میں  وہ کیا کہہ رہے  ہیں۔ وہ کہہ رہے  ہیں  سمندر میں  سیپ اُلٹی تیرتی رہتی ہے  سویتی کی بوند کے  انتظار میں  پیاسی رہتی ہے۔ جیسے  ہی سویتی کی بوند پیتی ہے  وہ سمندر کے  اندر گہرائیوں  میں  چلی جاتی ہے۔ اس کے  اندر ایک قیمتی موتی آ جاتا ہے، وہ گھومتے  ہوئے  سمندر کے  اندر چلی جاتی ہے۔ بابا کبیر کے  کہنے  کا مقصد یہ ہے بچو کہ ارادہ مضبوط رکھو، سیپ کی مانند رہو، جب تک ارادہ مضبوط  اور  مستحکم نہ ہو گا تم دُنیا کو قیمتی موتی کی طرح کچھ دے  نہ سکو گے۔

غور کرو بابا کبیر نے  دُنیا کے  تمام بچوں اور نوجوانوں  کو کتنی اہم بات سمجھا دی ہے۔

 

ایک بار ایسا ہوا بچو، بابا کبیر اللہ کی یاد میں  مست ایک گھنے  جنگل سے  گزر رہے  تھے  کہ اُنھوں  نے  دیکھا ایک سادھو آنکھیں  بند کیے  تنہا بیٹھا ہے، رام رام ہری ہری کے  نام کی مالا جپ رہا ہے۔ قریب پہنچے  تو اندازہ ہوا کہ سادھو دُنیا سے  بے  خبر اپنی دُنیا میں   گم ہے۔ تھوڑی دیر پاس کھڑے  رہے  پھر سادھو کو مخاطب کر کے  کہا ’’آپ یہ کیا کر رہے  ہیں؟ آبادی سے  اِتنی دُور اس گھنے  جنگل میں  بھگوان کو یاد کر رہے  ہیں۔ کیا بھگوان اللہ صرف اس خاموش جنگل میں  ملے  گا؟ دُنیا سے  کٹ کر آپ بھگوان کو تلاش کر نے  تنہا اس جنگل میں  پڑے  ہیں۔ کھاتے  ہیں اور نہ کچھ پیتے  ہیں۔ جسم سوکھ رہا ہے  رام رام ہری ہری کہتے  کہتے  ہونٹ زخمی ہو گئے  ہیں۔ سمجھ رہا ہوں  کہ آپ بھگوان کو ڈھونڈھ رہے  ہیں  جانے  کب سے  خود کو تکلیف  اور  اذیت میں  ڈال کر مالک کو تلاش کر رہے  ہیں۔ آپ یقیناً سچے ّ انسان ہیں  لیکن اتنے  دِنوں  کی عبادت  اور  تپسیا کے  بعد بھی اب تک بھگوان آپ کو نہیں  ملے  ہیں  یہ بھی توسچی بات ہے  نا؟‘‘

یہ باتیں   سن کر سادھو کی آنکھیں   کھل چکی تھیں اور وہ بابا کبیر کو ٹکٹکی باندھے  دیکھ رہا تھا، اُسے  ان کی باتیں  قطعی ا چھی نہیں  لگ رہی تھیں، سوچ رہا تھا یہ عجیب شخص ہے، رنگ میں  بھنگ ڈالنے  آ گیا ہے۔ میری عبادت  اور  تپسیا کو خراب کر نے  پہنچ گیا ہے۔ سادھو نے  جب اپنی آنکھیں  کھولیں  تو بابا کبیر نے  دیکھا آنکھیں  زرد ہو چکی تھیں اور اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ اُنھوں  نے  سادھو سے  کہا ’’کیا اسی طرح بھگوان ملیں  گے؟ خود کو تباہ  اور  برباد کر کے، خود کو دُنیا سے  الگ کر کے، بھگوان کی دی ہوئی خوبصورت زندگی کو توڑ کر، جسم کو دُکھ  اور  تکلیف پہنچا کر، نہیں  سادھو، بھگوان اس طرح ہر گز نہیں  ملتے، بھگوان نے  ہمیں  ایک خوبصورت زندگی دی ہے، خوبصورت جسم دیا ہے  اس لیے  تو نہیں  کہ ہم اس طرح پہاڑوں اور جنگلوں  میں  اُسے  تلاش کر کے  ہر دی ہوئی نعمت سے  خود کو الگ کر دیں۔ خود اپنی روح  اور  آتما کو دکھ دیتے  رہیں، اپنے  جسم کو   گھلا دیں۔‘‘

’’میں  نہیں  جانتا تم کون ہو۔ برسوں  برسوں  سے  یہاں   تپسیا کر رہا ہوں، بھگوان کو پانے  کی کوشش کر رہا ہوں، اتنے  برسوں  میں  اس گھنے  جنگل میں  کوئی نہیں  آیا تم کہاں  سے  آ گئے  تم ہو کون؟‘‘  سادھو نے  آہستہ آہستہ کمزور آواز میں  کہا۔

’’سادھو مہاراج میں  کبیر ہوں۔ اس جنگل سے  گزر رہا تھا کہ آپ کو اس حال میں  دیکھا بڑا ترس آیا آپ پر، آپ سچے ّ انسان ضرور ہیں  لیکن یہ نہیں  جانتے  بھگوان کس طرح ملتا ہے۔‘‘  بابا کبیر نے  کہا۔

’’بتاؤ بھگوان کیسے  ملتا ہے، تم تو اس طرح کہہ رہے  ہو جیسے  تم نے  بھگوان کو پا لیا ہو، میں  برسوں  برسوں  سے  تپسیا کر رہا ہوں، اب تک بھگوان کو پانہ سکا ہوں، تم بھگوان کو پانا مذاق سمجھتے  ہو۔‘‘  سادھو نے  کچھ تیز لہجے  میں  کہا۔

بابا کبیر نے  جواب دیا ’’سادھو مہاراج، ہری ہری رام رام کہنے  کے  لیے  جنگل  اور  پہاڑوں  میں  آنا عقلمندی نہیں  ہے۔ آپ بھگوان کا جپ لوگوں  کے  درمیان میں  رہ کر بھی کر سکتے  ہیں۔ اپنے  آپ کو اذیت  میں  ڈالے  رہنا کہاں  کی ہوش مندی ہے۔‘‘

’’آپ کے  بال بچے ّ تو ہوں گے؟‘‘  بابا کبیر نے  پوچھا۔

’’ہاں، تو اس سے  کیا؟‘‘  سادھو نے  ذرا  رُوکھے  پن سے  جواب دیا۔

’’کیا آپ کو اپنے  بال بچوں  میں  بھگوان نہیں  ملے، رام  اور  ہری تو وہاں  بھی مل سکتے  تھے،  ّبچوں  کے  بھولے  پن میں، ان کی مسکراہٹوں  میں، کیا اُن کی خوبصورت پیاری آوازوں  میں  کرشن کی بانسری کی آواز سنائی نہیں  دی؟‘‘

سادھو بابا کبیر کی باتیں  سن کر حیرت سے  اُن کی جانب دیکھ رہا تھا۔

’’رام ہری کرشن سب آپ کے  گھر میں  موجود ہیں، آپ کے  ٹولے  میں  موجود ہیں، آپ کی بستی میں  موجود ہیں، محنت کر نے  والوں  کی جانب آپ نے  کبھی غور سے  دیکھا، بھگوان کی طاقت ان میں  نہ ہوتی تو وہ اتنا بھاری بھاری کام کس طرح کر سکتے  تھے۔ بھگوان تو اُن کے  اندر بیٹھا بل دیتا رہتا ہے، طاقت دیتا رہتا ہے  سب کے  اندر، سب کے  بھیتر بھگوان بسے  ہیں، آپ کے  اندر بھی بھگوان بیٹھے  ہیں، آپ نے  خود اپنے  آپ کو نہیں  دیکھا، آپ کو بھگوان مل جاتے۔ جنگل پہاڑ کی طرف بھاگنے  سے  مہاراج بھگوان نہیں  ملتے، زندگی سے  بھاگنا انسان کا دھرم نہیں  ہے، آپ اپنے  اندر تلاش کیجیے  بھگوان کو، بھگوان ضرور ملیں  گے۔‘‘  اس کے  بعد بابا کبیر نے  اپنا شعر پڑھا:

 

برجھا پوچھئی بیج سون برجھ کے  مانیہہ

جیو سو ڈھونڈھے  برہم کو برہم جیو کے  پانیہہ

 

’’سادھو مہاراج درخت نے  کہا اے  بیج دیکھو تم میرے  اندر کیسے  بسے  ہو، اسی طرح سائیں  سب کے  دل میں  بسا ہے اور انسان ہے  کہ اُسے  یہاں  وہاں  ڈھونڈتا رہتا ہے، اپنے  اندر دیکھو برہم ملے  گا، بھگوان ملے  گا، اللہ ملے  گا۔ خود کو پہچانو مالک کو پہچان لو گے۔‘‘

یہ کہتے  ہوئے  بابا کبیر آ گئے  بڑھ گئے۔

اور  سادھو بیٹھے  بیٹھے  غور کرتا رہا، اُسے  یقین آ گیا کہ بابا کبیر جو کچھ کہہ رہے  تھے  سچ کہہ رہے  تھے۔ اچانک اس کمزور نڈھال سادھو کو اپنی بیوی بچوں  کی یاد آئی رو پڑا، سوچنے  لگا میں  بھی کیا آدمی ہوں  جہاں  بھگوان بستے  ہیں  وہاں  سے  جنگل کی طرف دوڑ پڑا بھگوان کی تلاش میں، میں  نے  تو خود اپنے  اندر جھانک کر نہیں  دیکھا مجھے  بھگوان برہم اپنے  دِل کے  اندر مل جاتے۔ درخت نے  ٹھیک ہی کہا بیج سے  کہ جس طرح تم میرے  اندر بسے  ہوئے  ہو اسی طرح بھگوان سب کے  دِل میں  بسا ہوا ہے۔ یہ سب کچھ سوچنے  کے  بعد سادھو نے  اپنا ڈنڈا اُٹھایا، کمنڈل لیا  اور  ہری ہری رام رام کرتا ہوا اپنی بستی کی جانب روانہ ہو گیا۔ جہاں  اُس کی بیوی بچے ّ تھے۔ ہاں، دِل میں  ایک خواہش لیے  ہوئے  بستی کی طرف جا رہا تھا کہ کاش بابا کبیر سے  ایک بار پھر ملاقات ہو جائے اور اُن سے اور بھی اچھی اچھی بہت ہی اچھی اچھی باتیں  سنوں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے