ابنِ عاطف ہوا کرے کوئی
مجھ کو "ابا” کہا کرے کوئی
گھر سے جب جاؤں کام پر باہر
یاد مجھ کو کیا کرے کوئی
لوٹ کر جب میں آؤں دفتر سے
کھلکھلا کر ہنسا کرے کوئی
ویڈیو گیم کھیلنے کیلیے
اپنی ماں سے لڑا کرے کوئی
میری آنکھوں میں دیکھنے کو غرور
دل لگا کر پڑھا کرے کوئی
بے ادب، بد تمیز ،نا ہنجار
میں کہوں اور سنا کرے کوئی
کر کے جھوٹے بہانے ٹیوشن کے
مجھ سے پیسے لیا کرے کوئی
بیٹھ کر بزمِ دوستاں میں مجھے
مثلِ ہٹلر کہا کرے کوئی
اپنی تنہائیوں میں رو رو کر
میرے حق میں دعا کرے کوئی
مانتی ہی نہیں وہ شادی پر
ایسی صورت میں کیا کرے کوئی
٭٭٭