نینی تال، 5 جون 2012
پیاری دیپا،
تمہارا خط ملا، پڑھ کر لگا کہ تم میرے بارے میں جاننے کے لئے زیادہ فکر مند بھی ہو اور پریشان بھی۔ کیوں نہ رہو گی، میں فیروز پور سے اپنا سب کچھ راتوں رات سمیٹ کر، تم سے بنا کچھ کہے، بنا کچھ بتائے یہاں نینی تال آ گئی۔ یہاں آ کر اب دو مہینے ہو گئے ہیں، اپنے ماضی سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں دل کسی حد تک کچھ ٹھہراؤ پانے لگا ہے۔ میں پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں چاہتی، ان یادوں کی پرچھائیوں میں جینا نہیں چاہتی۔ پر آج پھر تمہارے خط نے میرے من میں ایک انقلابی اتھل پتھل مچا دی ہے۔ بہاؤ میں بہہ جانے کے خوف سے خود کو تمہارے ساتھ بانٹنے کے لئے قلم اٹھا لی ہے، اور یہ خط ۔۔۔۔۔! اور پھر ہمارا ساتھ کوئی ایک دو دن کا نہیں، لگتا ہے برسوں کا ناطہ ہے۔ صدیوں کا، جیسے ازل سے ہم ایک دوسرے سے واقف ہیں۔ خود کو تمہارے سامنے بے پردہ کرنے میں مجھے اب کوئی حجاب نہیں۔
تم تو جانتی ہی ہو، میں گھر میں سب سے چھوٹی ہوں۔ میری دو بڑی بہنیں اب بھی گھر میں بیٹھے بیٹھے بڑی ہو رہی ہیں۔ میری ضد کے باعث مجھے آگے پڑھنے کی اجازت دینے کے لئے پتا جی مجبور ہو گئے تھے۔ میں نے پانچ سال پڑھائی کرنے کے بعد پوسٹ گریجوئیشن کرنے کے لئے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ ابھی تک دونوں بہنیں ایک آٹھویں پاس اور دوسری میٹرک پاس گھر میں پچھلے سات سالوں سے بیٹھی جانے کس کے انتظار میں اپنی عمر کے سال بڑھا رہی ہیں۔ اب تک پڑھ لکھ کر نوکری پر لگ گئی ہوتیں تو زندگی یوں ٹھونٹھ سی نیرس نہ ہوتی، کچھ معنی خیز رنگوں سے ضرور رنگی ہوئی ہوتی۔ مجھے وہ زمانہ اچھی طرح یاد ہے اور ہو بھی کیوں نا؟ آخر اس وقت میں انیس برس کی تھی۔ اس عمر میں تو لڑکیوں کو پورا ہوش ہوتا ہے اور وہ ذہنی طور پر لڑکوں سے دو قدم آگے ہوتی ہیں۔
خیر، میں اپنی بات پر آتی ہوں۔ تم بھی تو کالج پڑھی ہو، وہاں کے ماحول سے، وہاں ہو رہی سرگرمیوں کی ہلچل سے واقف ہو۔ میں بھی نا واقف ہونے کا ڈھونگ نہیں کروں گی۔ سیدھے اپنی بات پر آتی ہوں۔ اب یہ یقینی روپ سے جان گئی ہوں کہ زندگی رشتوں کا ایک پلندہ ہے، اور رشتے بھی کوئی اپنی پسند کے نہیں ہوتے۔ کچھ قدرتی ہوتے ہیں جیسے ماں باپ بہن بھائی اور کچھ بن جاتے ہیں، جیسے اپنے پرائے، دوست، دشمن اور پھر پنپتے رہنے پر ان سے ایک لگاؤ سا ہو جاتا ہے، اپنے سے لگنے لگتے ہیں، عزیز ہو جاتے ہیں۔
ایسے ہی ایک موڑ پر مجھے آفتاب ملا۔ میرا بھی اس کے ساتھ ناطہ جڑ گیا، ایک بندھن سا بندھ گیا۔ سچ کہتی ہوں دیپا، جتنی جلدی وہ ناطہ جڑا، اس سے کہیں زیادہ رفتار سے وہ اپنی پٹری سے اتر بھی گیا۔ میں بھی ٹوٹنے لگی کسی واردات کی طرح۔ اب اس رشتے کو کوئی نام دینا ٹھیک نہ ہو گا! شاید اس لیے کہ میں نے اس رشتے کو پہچاننے میں بھول کی۔ اب تو اسے بھول کہنے کا بھی کوئی مطلب نہیں۔ بھول بھی کیسی؟ بس یوں سمجھو خود کے لئے سزا مقرر کی ہے۔ یہاں میں اپنی کہی بات کا سدھار کرنا چاہتی ہوں۔‘زندگی یوں ویران و نیرس نہ ہوتی، کچھ معنی خیز رنگوں سے رنگی ہوئی ہوتی اگر کوئی ہمسفر مل جاتا۔ ’کہنے والی میں اب اپنی زندگی کو بے رنگ کرنا چاہتی ہوں۔ جس نے مجھے دھنک کے رنگوں سے سجا خوابوں کا آسمان دکھایا وہ اب میری زندگی میں کہیں نہیں۔ تم سمجھ رہی ہو نا، میں کیا کہہ رہی ہوں؟ میں آفتاب کی بات کر رہی ہوں جو کہا کرتا تھا۔‘اپرنا میں تمہیں چاند ستاروں کی ایسی دنیا دینا چاہتا ہوں، جو تمہاری مانگ میں سندور نہیں ستاروں کی جگمگاہٹ بھر دے۔۔ ۔۔!’
‘کب آفتاب ۔۔۔۔ ۔۔؟’میں کنکھیوں سے اس کی اور دیکھتے ہوئے کہتی۔
‘جب ہماری پڑھائی ختم ہو گی تب! جب ہمیں نوکری مل جائے گی تب! جب ہم تم دونوں اپنی ذمہ داری سنبھالنے کے قابل ہو جائیں گے تب!’
‘ذمہ داری سے تمہارا مطلب۔۔ ۔۔ ۔؟’
‘ارپنا کیا یہ بھی تمہیں بتانا پڑے گا؟ ذمہ داری تو ذمہ داری ہوتی ہے نہ؟ جب کمائیں گے، تب کہیں گھر لے کر بس جائیں گے، پھر میاں بیوی کہلائے جانے پر، امی ابو کہلائے جانے کی للک تو ہو گی نا؟ ہو گی کہ نہیں۔۔ ۔۔ ۔؟’وہ میری اور دیکھتے ہوئے ہنس پڑتا۔ میں نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا –‘اس سلسلے میں شادی کا تو کہیں ذکر ہی نہیں ہوا آفتاب! وہ کب کرو گے؟’
‘شادی کیوں ہو گی، با قاعدہ نکاح ہو گا، پوری ریتی رسموں کے ساتھ اور میں نے تو تمہارا نام بھی سوچ رکھا ہے زرینہ! نام کیسا لگا؟’
دیپا سچ کہتی ہوں مجھے جیسے ایک نہیں ہزار سانپ ڈس گئے۔ میرا اس طرف دھیان ہی نہیں گیا تھا کہ آفتاب اتنا کٹر مسلمان ہو گا، اس طرح اپنی دھرم کی روایتوں کو مجھ پر تھوپے گا۔ تب مجھے آفتاب پر غصہ آنے لگا تھا، پیار کا رنگ باتوں کی کڑواہٹ سے دھیرے دھیرے نہیں، بہت تیزی سے اترنے لگا۔ غلطی تو میری تھی، میں نے ہی عشق محبت کے ان گنت قصوں کی طرح اسے بھی اپنی سلونی پریم کہانی کے روپ میں انجام دینے کا سپنا دیکھا تھا۔ سوچا تھا پتا جی سے بغاوت کروں گی، پریم بھرا ایک نیا سنسار سجاؤں گی جہاں ہم دو، ہمارے دو ہوں گے۔۔ ۔!
‘آفتاب تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے، پر میں سنجیدہ ہوں۔ میں تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہوں یہ تو تمہیں پتہ ہے۔ ہم نے اس بارے میں بات کی ہے اور تم نے وعدہ کیا تھا کہ جلد ہی اس بات کو گھر میں چھیڑ کر کوئی حل نکال لو گے! اور آج یہ عجیب اور حیرت انگیز باتیں لے کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟’
دیپا، ایک بات میں تمہیں بتانا بھول گئی کہ جب آفتاب سے میری آنکھیں لڑی تھیں، مجھے اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں ہوا کہ میں ہندو ہوں اور وہ مسلمان۔ لگا دل کا معاملہ ہے، دلوں میں سلجھ جائے گا۔ پر میرا وہ گمان ایک اصولی مسئلہ بن کر سامنے آیا۔
اچانک مجھے لگا کہ میں خود کو سنبھال نہیں پا رہی تھی، بدن کانپنے لگا تھا۔ غصے سے یا ڈر سے، یہ اس پل طے نہیں کر پائی۔ پر جب آفتاب کا ضدی رویہ دیکھا تو مجھے یقین ہوا کہ میرے ڈر کی بنیاد ٹھوس تھی۔
‘کیوں کیا ہوا ارپنا، کانپ کیوں رہی ہو؟’
‘آفتاب تمہیں میرے ساتھ آج ہی، ابھی شادی کرنی ہو گی۔ یہ کیوں اتنا ضروری ہے تم اچھی طرح جانتے ہو؟’
‘میں نے تو تم سے کہا تھا ارپنا۔۔۔۔، پر تم بھی کبھی کبھی اڑ جاتی ہو۔‘
‘کیا مطلب؟ کیا اس کی ذمہ دار صرف میں اکیلی ہوں؟ تم نے تو کہا تھا حل نکال لو گے، گھر میں بات کرو گے۔۔۔!’
‘کی تھی، پر ابو امی ضد پر اڑ گئے ہیں کہتے ہیں انہوں نے کہیں زبان دے رکھی ہے۔’
‘مطلب۔۔۔۔ ہے آفتاب، صاف صاف بتاؤ؟’
‘وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ اپنی جان دے دیں گے ’
‘کیسا نہیں ہو گا تو، آفتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘
’اگر میں نے ان کی پسند کی ہوئی لڑکی سے نکاح نہیں کیا تو۔۔۔۔!’
سکھی، کیا بتاؤں، کیسے بیاں کروں کہ اس وقت اس‘اگر مگر’ کو سن کر مجھ پر کیا گزری؟ جیسے ایک ساتھ کئی جوالا مکھی میرے پورے وجود کی دھجیاں اڑانے کے لئے پھٹ پڑے۔ میرا سہما سہما وجود بس نا امیدی سے آفتاب کو دیکھتا رہا۔
‘تو تم نکاح کرو گے۔۔۔؟ اس کے ساتھ جس کو تم جانتے ہی نہیں، صرف تمہارے والدین نے وعدہ کیا ہے۔۔ ۔ اور میرا کیا؟ میرے پیٹ میں پل رہے اس بچے کا کیا، ان وعدوں کا کیا جو تم نے میرے ساتھ کئے؟’
‘ارپنا میں تم سے۔۔۔!’
‘تم سے کیا آفتاب۔۔۔۔؟ ابھی ابھی جو تم ہم دونوں کی ذمہ داری کی بات کر رہے تھے، اس کا کیا؟ اس ذمہ داری کو سنبھالنے کی بات کر رہے تھے، اس کا کیا؟ اب تم اپنی ہی کہی بات سے مکر رہے ہو!’
اس پل میرا سارا بدن کانپ رہا تھا، ڈر سے نہیں، بلکہ غصے سے۔ دیپا، ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر جرم میں مرد کی بھی بھاگیداری ہوتی ہے، پر سزا اکیلی عورت کو بھگتنی پڑتی ہے؟ کیا آزادی صرف مردوں کے حصے میں آتی ہے کہ وہ من مانیوں کی گنگا میں نہاتے رہیں اور گنگا کو میلی کرتے رہیں؟ کیوں اس تنگ ذہن سماج کی ان گھسی پٹی روایتوں سے عورت کو سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے؟
سکھی، پھر جو ہوا اس نے تو میرے سر سے پیار کا بھوت ہی اتار دیا۔
بے شرمی کی ہر دیوار کو پھلانگتے ہوئے ایک پاک جذبے کو ناپاک کرتے ہوئے اس نامراد نے کیا کہا، جانتی ہو؟ سنو گی تو جان پاؤ گی کہ درندگی کیا ہوتی ہے؟ حیوانیت کا چہرہ کیسا ہوتا ہے؟ صاف ورق پر کالی تحریریں لکھنے والے عورت کے ساتھ کھلواڑ کر کے، بے بسی کی حالت میں اسے گراوٹ کی راہ پر کیسے چھوڑ جاتے ہیں؟
’کمبخت ذمہ داری سے کون مکر رہا ہے ارپنا؟ میں تو تمہیں اپنے سر پر آئی ہوئی مصیبتوں کی داستاں بتا رہا تھا، یہ امی ابو بھی نا ۔۔۔۔۔۔! کچھ سمجھتے ہی نہیں عورت ذات کی پریشانی۔۔۔۔۔۔!‘
’اپنے امی ابو کو دوش دینے کے پہلے، اپنا چہرہ کسی صاف آئینے میں دیکھ لو۔ وہ تو دئیے ہوئے وعدے کو بھلی بھانتی نبھانے کی روایت پر مر مٹنے کی بات کر رہے ہیں۔ شاید تم ہی زندگی میں رشتوں کی اہمیت نہیں سمجھ پائے، یا سمجھتے ہوئے ناسمجھ بن رہے ہو۔ اب تو مجھے تمہاری نیت پر شک ہونے لگا ہے۔۔ ۔!’
’کیسا شک ارپنا؟ میرے ارادوں کو یوں شک کی دھول سے مٹ میلا نہ کرو، میں تمہیں دل و جان سے چاہتا ہوں۔‘
’چاہت کیا ہوتی ہے تم اس سچ سے کوسوں دور ہو آفتاب! اب اپنے ناپاک ارادوں سے تم مجھے اور جھانسا نہیں دے سکتے۔ تم ابھی، اسی وقت میری زندگی سے اپنے اس منحوس سائے کے ساتھ رفع دفع ہو جاؤ۔‘
’ارپنا ۔۔۔۔۔!’آفتاب ممیاتا رہا۔
’تم نے میرے نام پر کالک پوت کر، میری عزت کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ ایک عورت کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ اب اس بے حیائی سے توبہ کر لو۔۔ ۔ بہتر ہے۔‘
’ارپنا مجھے کہنے کا موقع تو دو۔۔!’
‘مجھے اپنی لا پرواہیوں کا پوری طرح احساس ہے، اب تمہاری کوئی بھی بات میرے گھاؤ کا مرہم نہیں بن سکتی۔ اور ویسے بھی تجربے بار بار نہیں کئے جاتے۔ بہتر ہے اپنے امی ابو کے دئیے ہوئے وعدے کو نبھا کر ایک اور زندگی تباہ ہونے سے بچا لو۔ اگر زندگی میں کبھی باپ بننے کا سکھ حاصل ہو تو اس اجنمے بچے کی قسم، میں تمہیں بد دعا دیتی ہوں کہ تمہارا وہ سکھ بھی دکھ میں بدل جائے!‘
‘اتنی کٹھور نہ بنو اپرنا، میں نے سوچ لیا ہے کہ امی ابو کی تمنا پوری کر کے اس لڑکی کو طلاق دے کر تمہیں اپنا لوں گا۔ اور اس بچے کو اپنا نام دوں گا۔‘
دیپا، اب اس کی لرزتی ہوئی آواز میں ڈر تھا، اپنے محفوظ نہ رہنے کی بد دعا کا خوف جھلک رہا تھا۔ انسان اتنا بزدل بھی ہو سکتا ہے، یہ پتہ نہ تھا۔ اپنی سلامتی کو لے کر کوئی اتنا خود غرض ہو جاتا ہے یہ اس سمے جانا جب آفتاب کو خود غرضی کی بین پر ننگا ناچ کرتے ہوئے پایا۔ میرے کومل جذبوں کو اس نے اس قدر کٹھور بنا دیا کہ میرے دل کی ساری کڑواہٹ زہر بن کر شبدوں میں بہنے لگی۔
‘مجھے تم سے اب کوئی امید نہیں۔ جانے کون سے کھنڈروں پر اپنے سپنوں کے محل بنانے کے منصوبے گڑھتے ہو، جو تمہارے پاپی من میں ایسے خیال آ رہے ہیں۔ یہی خیال ذہن کو تاریک کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔ تم اندھیرے میں رہنے کے عادی ہو چکے ہو، اب روشنی تمہارے کس کام کی؟ میں تم جیسے بزدل انسان کا سایہ نہ خود پر، اور نہ ہی نہ اپنے آنے والے بچے پر پڑنے دوں گی۔ ایک اور بات ضرور سن لو، مجھے نہ تمہارے سہارے کی ضرورت ہے اور نہ میرے بچے کو تمہارے نام کی!‘
دیپا سچ کہتی ہوں، اس دن میں نے اس بزدل انسان کو دیکھا، جو گناہ تو ڈنکے کی چوٹ پر کرتا ہے اور معافی بھی مانگتا ہے تو اپنا حق سمجھ کر۔ پتہ ہے پھر کیا ہوا؟ وہ اپنی جگہ سے اٹھا، اپنی قمیض جھٹکی اور بالوں کو سنوارتا ہوا دو قدم آگے گیا اور پھر رک کر کہنے لگا۔۔۔ ’ارپنا ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔‘
انسانیت جہاں اپنے معانی پر پوری نہیں اترتی شاید وہیں ذمہ داری کا اختتام ہو جاتا ہے۔ اب بھی سوچتی ہوں کہ کیا اس کے ساتھ جڑی ہوئی زندگانیوں کے ساتھ بھی وہ اسی طرح نبھائے گا؟ کیا عورت کی اپنی عزت اور مان کو اپنے چھل کپٹ اور کمینگی سے تباہ و برباد کرتا رہے گا؟ اپنی غرض کے آگے بے گناہ معصوم، مسکراہٹ کو سانس لینے کے پہلے ہی گھونٹ کر ایک بدگمان زندگی کا حقدار بناتا رہے گا؟
یہ سوال بجلی کی مانند میرے دماغ میں کوند اٹھے، جن کے جواب آنے والے کل میں یہ معصوم زندگانیاں ہم سے طلب کریں گی۔ کیا ہم انہیں کوئی ذمہ دے پائیں گے ۔۔۔۔۔! اب تھک گئی ہوں دیپا، پھر کبھی لکھوں گی۔
تمہاری سکھی، ارپنا
٭٭٭