(وکیل نجیب کو اس سال کا ساہتیہ اکادمی اوارڈ برائے ادبِ اطفال دیا گیا ہے۔ ا ع)
وکیل نجیب ادبِ اطفال کا ایک اہم نام ہے۔ بچوں کے لئے ان کی ناول نگاری زبان و ادب کی ایک قابلِ تحسین خدمت ہے ان معنوں میں کہ اس کے ذریعے اردو قارئین کی سمٹتی ہو ئی بساط کو وسعت نصیب ہو گی۔ انھوں نے نہ صرف کہانیاں اور مضامین بلکہ کتب نو کے اس قدر انبار لگائے ہیں کہ علامہ اقبال کی طرح انھیں اپنے خوشہ چینوں کو خبر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ننھے خوشہ چیں خود منتظر رہتے ہیں کہ وکیل نجیب کے قلم کی سوغات انھیں کب نصیب ہو تی ہے۔ ان کی چار کتابوں کی دوبارہ اشاعت ان کے بیسٹ سیلر ہونے کا بیّن ثبوت ہے۔
لکھنے والے جب تھک جاتے ہیں اور لکھنے کی مجبوری کو اپنے اوپر سوار کر لیتے ہیں تو دہرانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے بر عکس کسی ادیب کی کتابوں کے نئے ایڈیشن شائع ہونے لگیں تو یہ اس کی مقبولیت کی نشانی ہے۔ جسے طلب اور رسد کی کسوٹی پر پر کھا جا سکتا ہے۔
ادبِ اطفال کی ایک تعریف یوں بھی ممکن ہے کہ یہ بچوں کا وہ ادب ہے جو بچوں کے ذریعے بچوں کے لئے لکھا جا تا ہے۔ بچّے چونکہ اس کے لکھنے پڑھنے کی تاب نہیں لا پا تے ہیں اس لئے بزرگ ادیب لکھنے کی زحمت گورا کر تے ہیں مگر دمِ تحریر ان کا بھی بچوں کی سطح پر اترنا لازمی اور ہمارے اکثر ادیب اس کھیل میں ہار جاتے ہیں۔ اسی لئے بچوں کے ادب پر لکھی گئی اکثر کتابیں جو بچّے خرید تے ہیں ان کے شوق اور ولولوں پر پاتی پھیر دیتی ہیں۔ توبۃ النصوح قسم کہ تحریروں کو ہی بچوں کا ادب سمجھنے کا عام رواج ہے اور اسی کسوٹی پر اسے پرکھا بھی جا تا ہے۔
اس گھٹن بھرے ماحول میں کو ئی ادیب بچوں کی سطح پر اترنے اور ان کی دلچسپیوں کی نمائندگی کرنے والا ادب تخلیق کرنے کا کارنامہ انجام دے تو ایسے ایڈوینچرس اسے بیسٹ سیلر بنا کر دم لیتے ہیں۔ شاید یہی نفسیاتی (یا کاروباری) گُر وکیل نجیب کی سمجھ میں آ گیا تھا۔ انھوں نے ابتدا ہی سے اپنے آپ کو ادبِ اطفال کے لئے مخصوص کر لیا تھا۔ انھوں نے ایسی کہانیوں اور دلکش بیانیہ سے اپنی تحریروں کو آراستہ کیا جو بچوں کی فطری دلچسپی سے میل کھاتا ہو۔ بچّے موجودہ دنیا کے جبر سے آ زاد ہو کر تحیر اور تخیل کی دنیا میں کھو جا نا چاہتے ہیں۔ (چاہتے تو بڑے لوگ بھی یہی ہیں مگر ان کے دودھ کے دانت گر چکے ہو تے ہیں۔ (شاید عقل داڑھ کی تشریف آ وری کے بعد ) ان کی عقل انھیں ایسی بچکانہ حرکت کرنے سے باز رکھتی ہے۔ وکیل نجیب نے اپنی اکثر کہانیاں اسی قسم کی تھیم کے گرد بنی ہیں جن میں تخیل اور تحیر ہمیں ایک اجنبی دنیا میں لے جا تا ہے۔ وہ بچوں کو ایسی پر اسرار انوکھی اور دلکش وادیوں میں لے جاتے ہیں جہاں ان کی دل کی مراد بر آ تی ہے۔
وکیل نجیب کے ناول پانچ بھا ئی ایک دلچسپ کتاب ہے جس میں بچّوں ہی کے لئے نہیں بلکہ عمر رسیدہ لوگوں کے لئے بھی دلچسپی کا سامان موجود ہے اس کا ایک سبب یہ ہے کہ اس میں حیرت انگیز واقعات کا تسلسل، کلائمکس اور پے در پے بدلتے ہوئے حالات اور سونے پر سہاگہ مصنّف کا رواں دواں بیانیہ ہمیں دلچسپی کی ڈور سے باندھے رکھتا ہے۔ اس میں نہ صرف واقعات کا بہاؤ اور ایک صورتِ حال سے دوسری متحیر کر دینے والی سچویشن کا پیدا ہونا، بلکہ بادشاہ، وزیر، تاجر، سمندری سفر، سمندری سفر، لٹیرے، اور داستانوں میں پایا جا نے والا مخصوص ماحول ہمیں کہیں بھی ہی محسوس ہونے نہیں دیتا کہ ہم کو ئی مہماتی ناول پڑھ رہے ہیں بلکہ لگتا ہے یہ کو ئی داستان ہے۔
وکیل نجیب نے اس کا پس منظر بیان کر تے ہوئے دوسرے ایڈیشن کے دیباچے میں لکھا ہے :
میں نے ناول نگاری کا آغاز کیا تو میرے دماغ میں سراج انور مرحوم کا ناول خوفناک جزیرہ موجود تھا۔ میری کلاس میں کتنے ہی بچّے اس ناول کو مسلسل پڑھتے تھے اور باقاعدہ اس پر بحث کرتے تھے۔ اسی لئے میں سراج انور صاحب کو ناول نگاری میں اپنا استاد تسلیم کرتا ہوں۔
ناول پانچ بھائی کی کہانی ہندوستان کے شمال مغرب میں واقع ایک سلطنت سے شروع ہو تی ہے جس کے بارے میں ابتدائی صفحات میں بتایا گیا ہے کہ اس کا نام شاداں تھا اوراس کی مشرقی سر حد ایران سے ملتی تھی۔ جہاں برف پوش پہاڑیاں تھیں اور جنوب مغرب میں سمندر۔ اس کی حدیں سمندر سے گھری ہوئی تھیں۔ وہاں ایک ایماندار تاجرسفیان اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ رہتا تھا مگر اس کے تجارتی سفراسے اس اپنے گھر میں بہت کم ٹکنے دیتے تھے۔ ایک مرتبہ بیوی کے اصرار پر وہ اپنے بیوی بچوں اور ملازم شکورا کے ساتھ کے ساتھ سیرکی غرض سے ایک خوبصورت جزیرے کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر یہ لوگ اس جزیرے میں قدرت کے عجائبات دیکھ کر لطف اندوز ہو تے رہے۔ وکیل نجیب نے جزئیات نگاری سے کام لیتے ہوئے اس پر فضا مقام کی خوبصورت انداز میں منظر کشی کی ہے۔
ایک دن سیر کے دوران ایک وادی میں ان لوگوں کا سامنا ایک عجیب و غریب جانور سے ہوتا ہے جس سے اپنی جان بچانے کی کوشش میں وہ لوگ اپنے وفادار ملازم شکورا کو کھو دیتے ہیں۔ اس ڈر سے کہ اس قسم کے جانور اس جزیرے میں ان کی جان کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں وہ سمندری سفر پر روانہ ہو تے ہیں۔ سمندر میں طوفان میں گھر جا تے ہیں کشتی کے ٹوٹے تختے پر تیرتے ہوئے پانچوں بھائیوں کو یہ جان کر سخت صدمہ ہوتا ہے کہ اس طوفان میں ان کے والد اور والدہ لاپتہ ہیں۔ ان بچوں کو ایک جہاز نظر آ تا ہے جو ان کی مدد کی درخواست کرنے پر ان کی طرف آتا ہے۔
اس جہاز پر پہنچنے کے بعد پتہ چلتا ہے وہ ایک نئی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ ڈاکوؤں کے اس جہاز پر ایک عمر رسیدہ ڈاکو کے سبب جس کی اولاد نہیں ہے ان کی جان بچ جاتی ہے۔ اس کی درخواست پر ڈاکوؤں کا سردار انھیں ایک کشتی کے ذریعے وہاں سے نکلنے کی اجازت دیتا ہے لیکن سمندر میں ان کی کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو پتہ چلتا ہے جان بوجھ کر انھیں سوراخ دار کشتی میں سوار کر وایا گیا تھا تاکہ وہ سب ڈوب کر مر جائیں اور ڈاکوؤں کا پتہ کسی کو نہ بتا سکیں۔ بڑے بھائی کلام کی عقل مندی سے یہ لوگ کسی طرح ایک اجنبی ساحل پر پہنچنے میں کامیاب ہو جا تے ہیں جہاں ان کی ملاقات سلطان سے ہوتی ہے جسے اس کے وزیر نے مرنے کے لئے ایک درخت سے بندھوا دیا تھا۔ سلطان کی جان بچانے کے بعد وہ سلطان کی مدد سے ایک غار تک پہنچتے ہیں اور وزیر کو جال میں پھانس کر ختم کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔
اس کے بعد ڈاکوؤں سے مقابلہ، ان بھائیوں کا بھیس بدل کر وزیر تک پہنچنا اور آخر اپنے وطن لوٹنا دلچسپ واقعات ہیں اپنے وطن پہنچ کر ان بھائیوں کو پتہ چلتا ہے کہ ان کے والد کی جائداد پر ایک زمیندار نے جعلی کاغذات کی مدد سے قبضہ کر لیا ہے۔ مختلف حالات سے گزر کر وہ ایک بستی میں پہنچتے ہیں جہاں انھیں پتہ چلتا ہے کہ ان کے والد سفیان زندہ ہیں۔ اس کہانی کا انجام بادشاہ کی جانب سے انعام اور والدین کی رفاقت میں بچوں کی شادی جیسے خوشگوار واقعات پر ہوتا ہے۔
ہر چند ناول کا نام پانچ بھائی ہے جو مختلف حالات کا سامنا کر تے ہیں لیکن سوائے بڑے بھائی کلام کے کو ئی کر دار ہمارے ذہن پر پائیدار اور واضح نقوش مرتب نہیں کرتا ۔ کلام ہر دشواری سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر لیتا ہے۔ دیگر کر داروں کا فطری ارتقاء جو ماہر فنکار کی کر دار نگاری کا مرہونِ منت ہے، اس ناول میں نظر نہیں آ تا اسی لئے یہ کردار ہمیں متاثر کرنے سے قاصر ہیں۔
اردو کے ابتدائی ناولوں مثلاًفسانہ آ زاد، مراۃ العروس، حتیٰ کہ امراؤ جان اد اپر بھی بعض وجوہ سے یہ سوالات اٹھائے جا تے رہے ہیں کہ آ یا یہ واقعی فنِ ناول نگاری کے تقاضوں پر پو رے اترتے ہیں ؟پانچ بھائی اس ناول کے سرِ ورق پر لکھا ناول اور مصنف وکیل نجیب کا نام ہٹا کرداستان لکھ دیا جائے تو پڑھنے والا زیادہ محظوظ ہو گا۔ اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا نہیں ہو گا کہ یہ تو داستان تھی اس پر ناول کیوں لکھ دیا گیا ؟سوالوں کے گھیرے میں گھرے اردو کے ابتدائی ناولوں کی طرح ایک سوال پانچ بھائی اس ناول پر بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔
بظاہر اس دلچسپ اور خاص طور پر طلباء کے لئے مفیداس کتاب پر یہ سوال بے محل سا ہے لیکن وکیل نجیب صاحب کی ادبِ اطفال میں مقبولیت کے پیشِ نظر ان سے بجا طور پر بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ ان سے ایک توقع یہ بھی ہے کہ وہ نئی نسل کے لئے ایسی کتابیں تحریر کریں جن سے نہ صرف ان کے شوقِ مطالعہ میں اضافہ ہو بلکہ وہ ناول جیسی بدیسی ادبی صف کے فنی محاسن کو بھی ایک تخلیقی فن پارے کی مدد سے سمجھنے میں کامیاب ہو۔ ( اردو کے ہر طالبِ علم کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ انگریزی ناولوں کا مطالعہ کر کے اس صنف سے آشنا ہو سکے )امید کی جا سکتی ہے کہ مصنف کی آئندہ تخلیقات نہ صرف اصناف کے بہترین تخلیقی نمونے ہوں گی بلکہ طلباء کو ان اصناف کے فنّی لوازمات سے آشنا کروانے کا موثر ذریعہ ثابت ہوں گے۔
٭٭٭