اپنے مختصر ناولوں کے لیے مشہور غضنفر کا تازہ ناول ’’مانجھی ‘‘ رسالہ ’آمد‘ پٹنہ میں چھپنے کے بعد فوری طور پر ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی کے زیر اہتمام شائع ہو کر منظرِ عام پر آ گیا ہے۔ ’پانی‘(1989)کے بعد ’کینچلی‘، ’کہانی انکل‘، ’مم‘، ’دویہ بانی‘، ’فُسوں ‘، ’وش منتھن‘، اور ’شوراب‘ کے بعد ’مانجھی‘ میں لازمی طور پر غضنفر کی مشق اور قصہ گوئی کی مہارت بڑھی ہے ورنہ یہ آسان نہیں تھا کہ دو تین گھنٹے کے ناؤ کے سفرپر ناول کے مکمل 140صفحات صرف ہو جائیں اور پڑھنے والا سانس روک کر اس کا مطالعہ کرنے کے لیے مجبور ہو۔
ناول کو اپنے زمانے کا رزمیہ مانا جاتا ہے۔ مطالعۂ کائنات کی صلاحیت کے بغیر کوئی ناول نگار بہتر تخلیقی شہ پارہ پیش نہیں کر سکتا۔ زندگی کی پیچیدگی اور بوقلمونی کی تہہ در تہہ کیفیت اگر ناول کا حصہ نہیں بنے تو لکھنے والا راندۂ درگاہ ہو جاتا ہے۔ غضنفر نے ناول کا عرصۂ حیات اتنا مختصر رکھا کہ زندگی کی پرت در پرت صورت حال کو ناول میں شامل کرنے کے لیے بہ ظاہر زیادہ گنجائش تھی ہی نہیں۔ ناول کا تقریباً پورا پورا معاملہ ناؤ پر بیٹھنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ناؤ سے اترنے کے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ناول کے دونوں مرکزی کردار زمین پر آتے ہی کہاں ہیں۔ ندی میں تیرتی کشتی تک ہماری دنیا بھلا کیسے پہنچے لیکن غضنفر’ شعور کی رَو‘ کی تکنیک کا اگر جگہ جگہ استعمال نہیں کرتے تب یہ ناول گنگا، جمنا اورسرسوتی کی یاترا یا بہت ہوتا تو انتر یاترا تک مقید ہو کر رہ جاتا۔ لیکن شعور کی روسے انھوں نے اس ناول کو بحر سے بَر میں اتار دیا ہے۔
اس ناول میں قصہ، اگر ہے تو اس کی دوسطحیں ہیں۔ پہلی سطح پر قصہ کشتی پر تیار ہوتا ہے۔ پڑھے لکھے وی۔ ان۔ رائے کا کوئی مختصر سا سوال ویاس نام کے ملّاح سے ہوتا ہے اور جواب میں تفصیل سے ویاس محوِ گفتگو ہوتا ہے۔ یہ باتونی ناوِک اپنے جواب میں اکثر ہندو صنمیات یا دنت کتھاؤں کو پیش کرتا ہے۔ کبھی کبھی ویاس ان ہزاروں سال پرانی کہانیوں کے ہم عصر مطالب بھی بیان کر دیتا ہے۔ لیکن یہ کام زیادہ مستعدی سے وی۔ ان۔ رائے کی مختصر باتیں یا سوال سے تکمیل کو پہنچتا ہے۔ ایک ہی ناؤ پر بیٹھے یہ دو کردار قصے کو ایک طرف عہد قدیم تک کھینچ کر لے جاتے ہیں تو دوسری جانب عہد حاضر اورمستقبل تک کے اشارات اسی مرحلے میں فراہم ہو جاتے ہیں۔ اطلاق کا یہ عمل یا کھینچ تان ناول کے پہلے صفحے سے لے کر آخری صفحے تک جاری رہتا ہے۔ ناول نگار کا فائدہ یہ ہے کہ نئے کردار اور پرانے کی کشمکش میں قاری بڑی آسانی سے بغیر کسی اضافی صبر کے مطالعے کے شوق کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دیتا ہے۔
غضنفر کے ناولوں میں ہندو اسطور رفتہ رفتہ بہت گہرائی سے جگہ بنا رہے ہیں۔ ’دویہ بانی‘ اور ’وش منتھن‘ کے بعد ’مانجھی‘ میں انھیں دوبارہ یہ موقع ملا ہے کہ ہندو صنمیات کا پھر سے استعمال کریں۔ ’مانجھی‘ میں سب سے قدیم اسطور کی بحث شروع ہوئی ہے۔ ندیوں کے کنارے ہی پہلی آبادی کا تصوّر رہا ہے اور شیو کی جَٹا سے نکلی گنگا پریاگ میں جمنا اور سرسوتی میں ملتی ہے۔ سرسوتی دکھائی نہیں دیتی، آج گنگا اور جمنا کا وجودِ ظاہری آنکھوں کے سامنے بچا ہوا ہے۔ غضنفر نے اپنے تینوں ناولوں میں ہندو صنمیات کا استعمال اطلاع، تعارف یا زندگی کی ایک قدیم شکل میں دکھانے کے لیے ہر گز نہیں کیا ہے بلکہ استعجاب تجسّس اور کشمکشِ حیات کو ابتدائی منظر کے طور پر استعمال کر کے وہیں سے عصری معنویت کے پَروں سے وہ Take-off کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کے یہاں صنمیات کی بوسیدگی کے بجائے ایک دانشوارانہ طَورسامنے آتا ہے۔ یہ کیفیت نہ ہو تو ان کے پڑھنے والے انھیں اتنی محبّت اور اپنائیت سے کیوں کر پڑھتے۔
دیومالا کی تعبیرو تشریح کے لیے غضنفر صرف نئے نئے تناظر پیش کرنے پر قانع نہیں ہیں۔ ایک ماہر قصہ گو کے لیے سچے قصے کو جھوٹا اور جھوٹے قصے کو سچّا بنا کر پیش کرنے میں کون سی بڑی پریشانی ہوتی ہے۔ غضنفر نے ’مانجھی‘ سے پہلے جو ناول لکھے، ان میں دیومالا کی تعبیرات اور نتائج میں ذرا ہیر پھیر اور تغیر و تبدل تو کیا تھا لیکن ’ مانجھی ‘ میں تو خود ساختہ دیومالائیں ہی کھڑی ہو گئیں۔ انتظارحسین کے علاوہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غضنفر ہی ایسے واحداردوافسانہ نگار، ناول نگار ہیں جنھیں اپنے طور پر دیومالائی کہانیاں گڑھنے کا ایسا فن آتا ہے کہ پڑھنے والا یقین کر لے اور انھیں ’مہابھارت‘، ’رامائن‘، ’پنچ تنتر‘ اور منواسمرتی وغیرہ سے لازمی طور پر متعلق مان لے۔ یہ فنّی ریاضت کی نہایت ارفع منزل ہے۔ یہ نئی دیومالا مشق اور قدرت بیان دکھانے کا حربہ نہیں ہے بلکہ غضنفر اس کے سہارے اپنے قصّوں میں انسانی زندگی کی کشمکش اور جبر مسلسل کے زخموں کو ابھار کر اس انسانی سوز کی تلاش میں کامراں ہوتے ہیں جس کے بغیر تاریخ و تہذیب کا ارتقا اورانسانی جد و جہد کی منزلوں کی سیر ہی نہیں ہو سکتی۔
غضنفر نے آٹھ ناول لکھنے کے بعد نواں ناول ’ مانجھی‘ لکھا ہے۔ غور کریں کہ اس کا موضوع کیا ہے تو ذہن کام نہیں کرتا۔ آغاز میں کچھ اندازہ بھی ہوتا ہے لیکن آگے بڑھتے ہوئے قصّے میں اتنے پینچ اور موڑ شامل ہوتے جاتے ہیں جن کی وجہ سے کسی مرکزی موضوع کی طرف ہمارا ذہن ٹھہر ہی نہیں پاتا۔ دیومالائی گفتگو سے لے کر قاضی افضال حسین اورسید محمد اشرف اور کئی جانے انجانے کرداروں اور واقعات کی شمولیت مزید پیچ و خم میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ اسی طرح اس ناول کے کرداروں پر بھی غور کریں تو ایسا لگے لگا کہ جس وی۔ ان۔ رائے کو ہم آغاز میں مرکزی کردار سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ سنگم یاترا کے دوران مانجھی کی گفتگو میں دھوئیں کی طرح اڑ ج اتا ہے۔ ہر جگہ مانجھی ویاس ہی دکھائی دیتا ہے اور ظاہری سطح پر یہ یک کرداری ناول بن جاتا ہے جس کی وجہ سے مصنف نے بجا طور پر اس ناول کا نام ’مانجھی‘ رکھا۔ وی۔ ان۔ رائے تو تصورات میں، توجیحات میں اور غیاب میں دکھائی دیتا ہے۔
’مانجھی‘ کسی طے شدہ موضوع کو سامنے رکھ کر لکھنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ناول نگاروں پر غیر ضروری طریقے سے زمانے نے یہ لا دیا ہے کہ وہ ناول کے موضوع کا کسی نہ کسی جہت سے اعلان کریں۔ کسی غزل گو سے ایسے سوالات کہاں دریافت کیے جاتے ہیں۔ موہن راکیش کے ناول’ اندھیرے سے بند کمرے ‘میں مختصر پیش لفظ میں مصنف نے یہ باور کرایا ہے کہ اس کا موضوع دلّی ہے۔ اسی طرح غضنفر کے ناول ’مانجھی‘ کا موضوع دنیا ہے۔ گنگا، جمنا اورسر سوتی یا ناؤ کی سیر، دیومالائی حکایات وہ بھول بھلیاں ہیں جن کے پار گئے بغیر اس ناول کا ’ جہانِ دیگر‘ سامنے نہیں آ سکتا۔ ایک مشاق ناول نگار کے طور پر غضنفر کو یقیناً یہ حق پہنچتا ہے کہ موضوع، کردار یا زبان کے سلسلے سے ایسے حیرت انگیز یا انقلاب آفریں تجربے کریں۔ تجربوں کی کامیابی یا ناکامی سے بڑی دولت وہ تخلیقی حوصلہ ہے جس کی وجہ سے ’مانجھی’ جیسی کوئی تحریر سامنے آتی ہے۔
غضنفر کے فکشن کا مجموعی طور پر جائزہ لیتے ہوئے ان کی چار ایسی خصوصیات کا پتا چلتا ہے جو شاید ہی ان کے ہم عصروں میں کسی ایک کے پاس ایک ساتھ ملیں۔ دیو مالاؤں سے خاص رغبت، اشاراتی مناظر کا جگہ جگہ قائم کرنا، زبان کی تخلیقی جہات روشن کرنے کے لیے جانے انجانے تجربے کرنا اور ہر موقعے سے قومی یا بین الاقوامی سیاست کے بنیادی سوالوں سے نبرد آزما ہونا ——- غضنفر کے فکشن کی یہ چہار دیواری ہے جس میں وہ ضرورت کے اعتبار سے زاویے یا اطلاع کی کمی بیشی سے اپنی پسند کا ماڈل تیار کرتے ہیں۔ ’پانی‘ سے لے کر ’مانجھی‘ تک ان کی ہر تحریر کم و بیش انھی مداروں پر گردش کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ غضنفر کی مہارت یہ ہے کہ انھوں نے الگ الگ موضوعات یا تکنیک کو برتتے ہوئے اس چوکھٹے کو ضرورت کے مطابق Re-adjustکیا جس کی وجہ سے ان کا ہر ناول ایک دوسرے سے علاحدہ ہوتا ہے۔
دیو مالاؤں سے غضنفر کید ل چسپی تو ’پانی‘ میں ہی سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ غضنفر نے دیو مالاؤں کو اُن کی مذہبی صداقت روشن کرنے کے لیے کہیں بھی استعمال نہیں کیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دیو مالاؤں کے نام پر غضنفر اپنے متعدد ناولوں میں جو صنمیاتی قصے پیش کر رہے ہیں، ان کا مذہبی تعلق برائے نام ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کبھی یہ ہندو مذہب سے متعلق ہیں۔ ایسی زبان لکھ کر غضنفر یہ ثابت بھی کرنا چاہتے ہیں کہ یہ قصے ہندو صنمیات کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ ’دو یہ بانی‘، ’وش منتھن‘ اور ’مانجھی‘ میں بھی مصنف کے زبان کے داؤ پیچ چلتے رہتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان قصوں کا تعلق کہیں نہ کہیں ہندو مذہب سے ہی ہے لیکن شاید یہ مکمل سچائی نہیں ہے۔
غضنفر کے پاس قصہ گوئی کی ایک بھر پور ماہرانہ صلاحیت ہے لیکن ایک تخلیق کار کے طور پر ان کا ذہن نہایت ہی اختراعی ہے۔ اسی کے ساتھ ان کی ہندو مذہب سے متعلق معلومات بھی کام آتی رہتی ہیں۔ یہ سب مل کر ان کے دیو مالائی قصے تیار ہوتے ہیں۔ ان کے تخلیقی نمونوں میں یہ باتیں اس طرح سے شیرو شکر ہو کر آتی ہیں کہ کوئی ایک صورت یا کسی ایک جہت سے اس کی پہچان تقریباً نا ممکن ہے۔ اس لیے وہ دیو مالا ہے بھی اور نہیں بھی۔ اس کا ہندو دھرم سے تعلق ہے بھی اور نہیں بھی۔
یہ سوال کسی کے ذہن میں بھی آ سکتا ہے کہ دیو مالائی قصوں کو اُن کے سیاق سے الگ کر کے آخر غضنفر کیوں قصوں کی بنی بنائی دنیا سے محاربہ کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر دروازے سے غضنفر دیو مالاؤں کو شامل کرتے ہیں تاکہ پڑھنے والے قصے کید ل چسپی میں تجسس کے تحت بڑھتے چلے جائیں۔ مقصد یہ ہے کہ پڑھنے والے کو کسی رخنہ یا رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے، لیکن اتنے صفحات پڑھ کر اگر پڑھنے والے کو وہی پرانا قصہ حاصل ہو گیا تو سب اکارت جائے گا۔ غضنفر قدیم قصوں کی شمولیت کے اس خطرے کو بہت اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ اسی لیے قصوں میں انھوں نے چھیڑ چھاڑ بہت کیا یا انھیں ایسے بدل دیا کہ وہ نئے ہو جائیں۔ یہاں آخری حربہ ایسے قصوں کے اطلاقی پہلو کا ہوتا ہے جب وہ کوئی چھوٹی سی بات جوڑ کر ان قصوں کے عصری مفاہیم روشن کر دیتے ہیں۔ ایک لمحے میں ہمارا ذہن ہزاروں سال کا فاصلہ طے کر لیتا ہے اور ہم قدیم سے عہد جدید میں فوراً چلے آتے ہیں۔
غضنفر کا ہر ناول مختصر ہوتا ہے۔ انھوں نے اتنے سارے ناول لکھے لیکن پانچ سو یا ہزار صفحے کا کوئی ناول ابھی تک نہیں لکھا۔ ’گؤدان‘، ’ میدان عمل‘، ’آگ کا دریا‘، اداس نسلیں ‘ سے لے کر ’ فائر ایریا‘ تک اردو کے بیش تر بڑے ناول ضخیم ہیں۔ ’فسوں ‘، ’ وش منتھن‘ اور شوراب میں انھوں نے جو موضوعات قائم کئے ‘ان کی بنیاد پر ہزاروں صفحات لکھنے میں شاید انھیں کچھ زیادہ پریشانی بھی نہیں ہوتی۔ لیکن انھوں نے کسی ناول کو بھی بے وجہ طویل نہیں بنایا۔ ناول کے اختصار میں غضنفر کی یہ خصوصیت چھپی ہوئی ہے۔ ’ایک چادر میلی سی ‘کو راجندر سنگھ بیدی چاہتے تو پھیلا کر طویل ناول بنا سکتے تھے۔ تب وہ شاید ہی ہمارے لیے ایک یادگار تخلیق ثابت ہوتی۔ کچھ لکھنے والے اپنی زبان میں ایسے طلسمات پوشیدہ رکھتے ہیں جن کے استعمال سے وہ غزل کے شعر کی طرح اپنی باتیں اختصار میں کہہ کر پڑھنے والوں کو ضخیم شرحیں لکھنے کے لیے مجبور کر سکتے ہیں۔ غضنفر اپنی نثر میں اشاروں کنایوں کی وہی طاقت رکھتے ہیں جن سے ان کے ابو اب مناظر میں اور مناظر جملوں میں سمٹ کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔
’مانجھی‘ میں غضنفر کی زبان کی اشاراتی جہات سب سے زیادہ اس کے کردار وی۔ ان رائے کے ذہن میں ابھرنے والے سوالوں سے مخصوص ہے۔ کشتی پر سیر کرتے ہوئے قریب اور دور کے جو مناظر قائم ہوتے ہیں ‘ وہاں بھی اشاروں اور کنایوں میں جو اطلاعات یا مشاہدات درج کرتے ہیں وہاں ایک ایک لفظ یا ایک ایک منظر طول طویل واقعات کا نمائندہ بن کر سامنے آتا ہے۔ جدید قصہ گوئی کا یہ ایسا ہنر ہے جہاں سینکڑوں صفحوں میں قید ہونے والی باتیں محض چند جملوں یا چند صفحات میں کامیابی کے ساتھ سمٹ آتی ہیں۔ غضنفر نے ’پانی‘ میں ہی اختصار اور ایجاز کی یہ تکنیک سیکھ لی تھی جس کی وجہ سے چاہے وہ کسی موضوع پر لکھیں، ان کا ناول سو سوا سو صفحات میں اپنا سارا کام مکمل کر لیتا ہے۔ ’مانجھی‘ میں بھی وہ چاہتے تو قصے کی ڈور کھینچتے چلے جاتے ‘ غنیمت سے انھیں ایسا ماہر قصہ گو ’مانجھی‘ بھی ہاتھ آ گیا تھا جس کے تاروں کو بس چھیڑنے کی دیر ہے ؛ قصے اپنے آپ پھوٹنے لگتے ہیں۔ اس پر مستزاد کہ ناول میں دیو مالائی اثرات بہت ہیں۔ یہ سب قصے کو پھیلانے کے اوزار ہو سکتے تھے لیکن غضنفر نے قصے کو پھیلانے کے بجائے اختصار پسندی کا اپنا پرانا سبق یاد رکھا۔ اسی لیے ’مانجھی‘ کا قصہ بے وجہ طویل نہیں ہوا۔
غضنفر کے ہر ناول میں ایک دانشورانہ لہر آتی جاتی رہتی ہے جو اُن کے تخلیقی سوتے کو استحکام دیتی ہے۔ ’فُسوں ‘ میں ان کی یہ صفت شرح وبسط کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ ’مانجھی’ میں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ دانشوارانہ شخصیت وی۔ ان۔ رائے اور ویاس میں منقسم ہو گئی ہے۔ یہ دونوں کردار اپنی ہر بات میں دانش کا کوئی نہ کوئی سرمایہ ضرور لُٹاتے ہیں۔ عام موضوع ہویا خاص لیکن ان کے تاثرات اپنے اندر گہری معنویت رکھتے ہیں۔ فنکاری تو وہاں اجاگر ہوتی ہے جہاں یہ کردار بولنے کے بجائے چپ ہو جاتے ہیں۔ کبھی پانی کی لہریں، کبھی ہوا میں اڑتے پرندے اور پانی میں پھینکے جانے والے دانے سب اپنی اپنی علاحدہ کہانی، پس منظر اور نئی کہانیوں کا ذخیرہ کھولتے چلتے ہیں۔ کہانی اور کرداروں کو متعین نہیں کرنے کی وجہ سے اس ناول میں ایک عجیب بوقلمونی پیدا ہو گئی ہے۔
غضنفر نے یہ اچھا کیا کہ اس ناول میں پیغام، نپا تلا تصوّرِ زندگی اور کائنات کے راز کو سمجھ لینے والا کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا۔ موجودہ عہد میں فکر وفلسفہ کے چوکھٹے اتنے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں کہ انسانی زندگی کے لیے نجات کا کوئی ایک راستہ صاف صاف دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ مذاہب آپس میں گتھّم گتّھا ہیں اور گاندھی واد سے لے کر پونجی واد تک سب کہیں نہ کہیں ہمیں راستے میں چھوڑ دے رہے ہیں۔ ایک ادعّایت ہے جس میں نجات کی معصوم چڑیا اپنے زخموں سے کراہ رہی ہے۔ ’ مانجھی‘ میں یہ آہیں اور غم کے آنسو اپنے تخلیقی تاثّر کے ساتھ کبھی آسمان کے کسی منظر میں، کبھی پانی کی لہروں میں اور کبھی سنگم استھان پر گنگا اور جمنا کے پانی کے نیچے سرسوتی کے روپ میں پوشیدہ ہیں۔
’مانجھی’ ایک دل چسپ، قابل مطالعہ اور فکر وفلسفہ سے بھرپور ناول ہے۔ ایک بار شروع کر دینے پر اسے ختم کرنے سے قبل آسانی سے ادھورا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ لکھنے والے کی پہلی کامیابی ہے۔ پڑھنے کے دوران مافوق الفطرت کہانیاں بار بار آتی ہیں لیکن ان کی عصری معنویت قائم رہتی ہے۔ یہ ناول نگار کی دوسری کامیابی ہے۔ جانے پہچانے واقعات کی بالکل علاحدہ تاویلیں پیش کر کے غضنفر نے پڑھنے والوں کے قوتِ استعجاب کا بھر پور امتحان لے لیا ہے۔ ناول کی کامیابی میں یہ اضافہ ہے۔ ضروری اور غیر ضروری، چھوٹی یا بڑی اور متعلق یا غیر متعلق واقعات اور اشاروں کو غضنفر نے پورے ناول میں اس طرح پھیلا دیا ہے جیسے یہ ہمارا ملک اور یہ پھیلی ہوئی کائنات یا ہماری مکمل زندگیاں ہیں۔ اس سے ناول کی موضوعاتی کائنات کی توسیع ہوتی ہے۔ ناول کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے غضنفر نے زبان کا آخری سحر کارانہ حربہ استعمال کیا ہے۔ یہ بحث کا موقع نہیں کہ ’ہندستانی‘ ہندی یا اردو میں یہ کون سی زبان ہے لیکن اس ناول میں یہ جسم و جان کی طرح سے پیوست ہے۔ اسی لیے ’مانجھی‘ ایک بھر پور ناول بن گیا ہے۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ غضنفر کے پڑھنے والے اسے ان کے پرانے ناولوں سے زیادہ دل چسپی اور محبّت کے ساتھ مطالعہ کریں گے۔
٭٭٭