اقتباس
یہ اشعار فیضؔ کے کلام کے جوہر (Essence) کی نمائندگی کرتی ہیں، ان کے مزاج، رجحان اور بنیادی رویے کو سمجھاتے ہیں، ان سے ان کے کلام کے بنیادی رنگ اور اس رنگ کی جہتوں کی پہچان ہوتی ہے، ان کی جمالیاتی تجربوں کا سفرنامہ احساس اور حساس جذبے کی آنچ اور سوز کے لمس کو لیے اسی طرح پیش ہوا ہے۔ فیضؔ نے تحریر کیا ہے :
’’۔ ۔ ۔ یونیورسٹی میں ایم۔ اے کی ڈگری کے لیے انگریزی ادب اور خاص طور سے اٹھارہویں اور اُنیسویں صدی کا ادب میرا مضمون تھا، انگریزی ادب کے ساتھ ساتھ اس عہد کے باقی یورپی ادب کا مطالعہ بھی لازمی تھا، کبھی ہم شوقیہ بھی اِدھر اُدھر کی کتابیں پڑھتے رہتے تھے اور یوں روس کے کلاسیکی ادب سے تعارف ہوا، چنانچہ گوگلؔ، پشکن، دوستویفسکی، ترگنیف، ٹالسٹائے، چیخوف، باری باری سے سب کو بہت ڈوب کر پڑھا اور پرانے روس کی پوری دنیا نظر میں گھوم گئی۔ ‘‘ (مہ و سال آشنائی، صفحہ 918)
آگے چل کر تحریر کرتے ہیں :
’’کالج میں میرے دوچار اور ہم جماعت بھی اس سرزمین اور اِس کے رہنے والوں سے اسی طرح مسحور تھے اور ہم لوگ گھنٹوں بیٹھ کر ان کلاسیکی کتابوں اور اُن کے کرداروں کا تجزیہ کرتے رہتے لیکن ہم اس پرانی دنیا میں اتنے کھوئے رہے کہ انقلاب کے بعد کی نئی سوویت دنیا پر ہم نے زیادہ توجہ نہ کی البتہ اس دنیا کے وجود کا کچھ موہوم سا احساس بھی ضرور تھا، وہ اس وجہ سے کہ صدی کی دوسری دہائی کے آخر میں گلی کوچوں میں تو نہیں لیکن بعض نوجوان حلقوں میں لیننؔ، سوشلزم اور انقلاب کا چرچا ضرور ہونے لگا تھا، برصغیر میں یہ دہشت پسند تحریک کے عروج کے دن تھے، چٹاگانگ آرمی کیس، کاکوری ڈکیتی کیس، بھگت سنگھ آزاد، شیر جنگ، گھر گھر یہی تذکرہ تھا، میرٹھ سازش کیس وغیرہ کا ہم پہلے سے سن چکے تھے، بھگت سنگھ تحریک میں میرے دو تین قریبی دوست بھی شامل تھے اور اُن کے سرغنے خواجہ خورشید انور نے جو اَب مشہور میوزک ڈائرکٹر ہیں ہوسٹل میں میرے کمرے کو اپنے خفیہ لٹریچر بانٹنے کا اڈّہ بنا رکھا تھا۔ یہ تحریریں بیشتر کارلؔ مارکس، لیننؔ اور انقلابِ روس سے متعلق تھیں اور کبھی کبھی سرسری نظر سے میں بھی دیکھ لیا کرتا تھا، اس کے علاوہ قریب قریب ہر روز، کبھی کوئی انقلابی پوسٹر کالج کے نوٹس بورڈ پر چسپاں نظر آتا، کبھی روزانہ اخبار کی تہ میں چھپا ہوا ملتا۔ ‘‘ (ایضاً، صفحہ 10/9)
اس کے بعد لکھتے ہیں :
’’1935ء میں جب میں نے امرتسر کے ایک کالج میں پڑھانا شروع کر دیا تو نوجوان اساتذہ میں انہی مسائل پر بحث رہتی تھی۔ ایک دن میرے رفیق کار صاحبزادہ محمود الظفر (مرحوم) نے ایک پتلی سی کتاب میرے حوالے کی اور کہا لو یہ پڑھو اور اگلے ہفتہ اس پر ہم سے بحث کرو، لیکن غیر قانونی کتاب ہے اس لیے ذرا احتیاط سے رکھنا، یہ کتاب تھی کمیونسٹ مینی فیسٹو جو میں نے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی بلکہ دو تین بار پھر پڑھی۔ انسان اور فطرت، فرد اور معاشرہ، معاشرہ اور طبقات، طبقے اور ذرائع پیداوار کی تقسیم، ذرائع پیداوار اور پیداواری رشتے اور معاشرے کا ارتقائ، انسانوں کی دنیا کے پیچ در پیچ اور تہ بہ تہ رشتے ناتے، قدریں، عقیدے، فکر و عمل وغیرہ وغیرہ کے بارے میں یوں محسوس ہوا کہ کسی نے اس پورے (خزینۂ اسرار) کی کنجی ہاتھ میں تھما دی ہے۔ یوں سوشلزم اور مارکسزم سے اپنی دلچسپی کی ابتدا ہوئی۔ پھر لینن کی کتابیں پڑھیں اور یوں لینن کا اکتوبر انقلاب اور اُس کی انقلابی سرزمین سے واقفیت کی شدت سے طلب ہوئی، انقلاب کے بارے میں جانؔ ریڈ کی کتاب Ten days that shook the world وسط ایشیا کے بارے میں کنٹرؔ کی کتاب Dawn over Samarkand مطالعہ کی اور پھر سوویت معاشرے کے بارے میں سڈنیؔ اور پیٹرس دیب کی کتاب ’’ڈین ہیولیٹ جانسن مارسؔ ڈاب اور لندن کے لیفٹ بک کلب کی شائع کردہ دوسری کتابیں۔ ‘‘ (ایضاً، صفحہ 11/12)
اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح آہستہ آہستہ مارکسزم اور لینن ازم کے قریب آئے ہیں ان کے ذریعہ کس طرح تہذیبی زندگی اور اس کے ارتقاء اور معاشرتی اور طبقاتی زندگی اور اس زندگی کی کشمکش کو سمجھا ہے، ان کی کتاب ’’مہ و سال آشنائی‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ انقلابِ روس اور مارکسزم اور لیننؔ ازم کی حقیقت اور بنیادی سچائیوں کو سمجھتے ہوئے وہ برصغیر کے معاشی اور سیاسی حالات اور نظامِ زندگی پربھی گہری نظر رکھے ہوئے تھے اور ایک بڑے فلسفے کا مطالعہ کرتے ہوئے ہندوستان کے حالات کو بھی بخوبی سمجھ رہے تھے مارکسزم کی روشنی میں برصغیر کی معاشی اور سماجی اور سیاسی اور نفسیاتی حقیقتوں کا تجربہ کر رہے تھے، کسادبازاری اور اقتصادی بحران، کسانوں کی منتشر زندگی، بے روزگاری، سرمایہ داروں اور ساہوکاروں کے استحصال کا عمل، سیاسی بحران، سامراجی نظام اور قومی آزادی کا مسئلہ، قومی دولت کی تقسیم، کسان سبھاؤں اور مزدور تحریک کا فطری تحرک، سوشلزم اور سماجی عدل و مساوات کے تقاضے، یہ سارے مسائل اور موضوعات ان کے سامنے تھے۔ ترقی پسند مصنفین کی انجمن قائم ہوئی تو اُن کے ذہن نے بھی برصغیر میں ایک آزاد اور غیر طبقاتی معاشرے کی تصویر میں رنگ بھرنا شروع کر دیا، دوسری جنگ عظیم کو انھوں نے بہت ہی قریب سے دیکھا اور روس کے عوام اور سرخ فوج کے کارناموں سے بے حد متاثر ہوئے، فاشزم کی شکست میں سوویت یونین نے جو تاریخی کارنامہ انجام دیا اس کا اُن پر بڑا گہرا تاثر تھا ہیومنزم کا وہ تصور جو اُن کی شاعری کا سرچشمہ بھی ہے اور بنیادی جوہر بھی، ان ہی تجربوں کی دین ہے۔ تحریر فرماتے ہیں :
’’یہ 1943ء کا ذکر ہے جب قریب قریب ہر محاذ پر انگریز اور امریکن اتحادی فوجیں پسپا ہو رہی تھیں، ہمارے اور فاشسٹ حملہ آوروں کے درمیان اگر کوئی دیوار کھڑی نظر آ رہی تھی، تو وہ سوویت یونین ہی کے عوام اور سپاہی تھے جو قدم قدم پر غنیم سے مصروف پیکار تھے، ہم نے ان کی فوجوں کے اعلیٰ کمانڈروں کے نام سنے، ژوکوفؔ، کوہنفؔ، تموشنکوؔ، بڈینی، راکوسوفسکیؔ، ہیلیؔ نوفسکی، گودروف وغیرہ، چھاپہ مار گوریلا بہادروں کے کارنامے پڑھے، زویا، متروسوف، گاستوا۔ ‘‘ (مہ و سال آشنائی،ص 17-18)
ہیومنزم کا یہی تصور تھا کہ جس نے ایسی نظم کی تخلیق کی تھی:
یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شبِ مست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رُکے گا سفینۂ غمِ دل
جگر کی آگ، نظر کی اُمنگ، دل کی جلن
کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگارِ صبا، کدھر کو گئی
ابھی چراغ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
٭٭٭