فراقؔ کا شمار ارد و کے ان عہد ساز شعراء میں ہیں جنہوں نے اپنی حیرت انگیز فنکارانہ صلاحیتوں سے نہ صرف اردو بلکہ پورے عالم ادب کو متاثر کیا ہے۔ ان کے یہاں فن کاری کے نئے نئے چشمے پھوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بڑے بڑے ناقدین کو انہوں نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے متاثر کیا۔ موجودہ دو رکے ایک بڑے ناقد گوپی چند نارنگؔ ‘ فراقؔ کو حسن و جمال کی بولتی ہوئی روح کے شاعر قرار دیتے ہیں۔ کلیم الدین احمد انہیں غزل کا ایک اہم ستون تسلیم کرتے ہیں۔ مجنون گورکھپوری ان کی شخصیت سے متاثر ہو کر لکھتے ہیں کہ فراقؔ جیسی جامع شخصیتیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں تو شکیل الرحمن کے نزدیک فراقؔ آہنگ جلال و جمال کے بڑے شاعر ہیں۔
فراقؔ کی شاعری کی فنی خوبیوں کا جائزہ لینے سے قبل شکیل الرحمن لفظ ’’آہنگ‘‘ کے معنیٰ و مفہوم اور اہمیت سے سیر حاصل بحث کرتے ہیں اور کائنات کی ہر تخلیق چاہتے وہ ادبی تخلیق ہو یا مصوری‘موسیقی ہو یا کوئی اور فن ہو تمام عوامل کاحسن ’’آہنگ‘‘ ہی میں مضمر پاتے ہیں۔ فراقؔ کی شاعری میں سب سے پہلے جو چیز شکیل الرحمن کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ وہ ’’آہنگ‘‘ ہی ہے جو فراقؔ کی شاعری میں حسن و جمال کے کرشمے پیدا کرتا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’اس عہد میں فراق ادبی روایات کے جلال و جمال کے آہنگ کی مکمل طور پر نمائندگی کرتے ہیں ‘کلاسیکی روایات کے حسن و جمال کو خوب جانتے پہچانتے ہیں۔ ان کی شاعری میں آہنگ جلال و جمال کاجو منفرد احساس ملتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ‘‘۔
( ’’ادب اور جمالیات‘‘ ص 254)
شکیل الرحمن ‘فراقؔ کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے جمالیاتی حس کو کائنات کے تناظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی سعی کرتے ہیں۔ شکیل الرحمن کے نزدیک کائنات کی وحدت ’’آہنگ‘‘ سے ہی قائم ہے ‘ زندگی میں جوتسلسل ہے ‘ انسان اور انسان کے درمیان جو رشتہ ہے ‘ انسان کو اپنے ماحول‘ فضا‘ سماج اور کائنات کے ساتھ جو رشتہ ازل سے رہا ہے جو ایک وحدت کی صورت میں موجود ہے بالکل اسی طرح آہنگ فراقؔ کی شاعری میں ایک وحدت کی صورت میں موجود ہے جو ان کی شاعری میں شدت تاثیر پیدا کرتا ہے۔
شکیل الرحمن کا ماننا ہے کہ کائنات کا وجود بھی جمالیاتی شعور کے تحت ہی معرض وجود میں لایا گیا۔ روشنی ‘آواز‘ آہنگ کا دلکش اظہار جمالیاتی فکر و نظر کی بنیادی سچائی ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں ہر فن چاہیے وہ بیانیہ ہو یا اشاریہ آہنگ کے ایسے بے مثال نمونے ملتے ہیں جن سے نہ صرف فنون لطیفہ بلکہ پوری کائنات کے توازن کا راز آہنگ میں ہی مضمر نظر آتا ہے۔ شکیل الرحمن کے نزدیک ’’آہنگ‘‘ قانون قدرت کا ایک ایسا پوشیدہ راز ہے جو کائنات کی ہر شے میں توازن بر قرار رکھتا ہے۔ بغیر آہنگ کسی صورت کا وجود ہی ممکن نہیں ہے شاعری میں ان کے نزدیک جب دو مصرعے آپس میں ہم آہنگ ہو کر ایک تجربہ یا جذبہ خلق کرتے ہیں تو آہنگ کی ایک جمالیاتی تصویر ابھر آتی ہے۔ فراقؔ کی شاعری میں چونکہ ہندوستانیت رچی بسی ہے ان کی شاعری میں جو آہنگ ملتا ہے اس کی افق بہت وسیع ہے پوری ہندوستانی جمالیات کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ فراقؔ کی شاعری میں آہنگ کی جو عمدہ مثال ملتی ہے۔ اس کا اظہار شکیل الرحمن اور ش۔ اختر یوں اپنے الفاظ میں کرتے ہیں :
’’کلام کا آہنگ عمدہ جذبوں کے رسوں کی دین ہے۔ حسیات ولمسیات کی اس شاعری کا آہنگ ہی مختلف اور منفرد ہے ‘‘۔
( شکیل الرحمن ادب اور جمالیات ص 254)
’’فراقؔ کا مخصوص آہنگ موسیقی شیو کی جمالیات سے تعلق رکھتا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ شیو رقاص عالم ہیں۔ فراقؔ اس کی پرستش کرتے ہیں اسی لیے وہ ہندوستانی تہذیب اور روایات کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں ……وہ اکیلے شاعر ہیں جنہیں ہم ہندوستانی جمالیات کا نمائندہ کہہ سکتے ہیں۔ شاعری کے آہنگ سے ایک طرح کا جمالیاتی سکون بھی ملتا ہے سکون اور شدت تاثیر کی کیفیت فراقؔ کی شعریات میں مضمر ہے ‘‘۔
(ش۔ اختر ’’شکیل الرحمن کی جمالیاتی تنقید‘‘ ص 110)
فراقؔ نے اپنی شاعری میں جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ معنیٰ کی کئی جہات اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ فراقؔ کی شاعری میں لفظ شب یا شام کا تجزیہ کرتے ہوئے شکیل صاحب ان الفاظ کی اہمیت اور جمال کا احساس دیتے ہیں۔ فراقؔ کی شاعری میں انہیں شب و شام اور احساس و ادراک کی ہم آہنگی کا ایک عمدہ جمالیاتی منظر دیکھنے کو ملتا ہے جس کا اعتراف خود فراق کے الفاظ سے یوں کراتے ہیں :
’’رات کی کیفیتیں اور رات کی رمزیت جس طرح میرے اشعار میں فضا باندھتی ہے وہ کہیں اور نہیں ملے گی‘‘۔
(ادب اور جمالیات ص:258)
فراقؔ کے یہاں رات کا جو تصور ملتا ہے وہ اس روایتی تصور سے بالکل مختلف ہے کہ رات خوف زدہ، ڈراؤنی اور تاریکی ہوتی ہے بلکہ ایک حسین تصور ہے جسے کائنات کے کئی اسرار و رموز کھل جاتے ہیں۔ شکیل الرحمن ، فراقؔ کی شاعری کا جائزے لیتے ہوئے ’’رات‘‘ کو وجود کا حصہ قرار دیتے ہیں کیونکہ رات کی تاریکی اور خاموشی میں انسان حسین یادوں کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ لطیف جذبات و احساسات کی عمدہ تصویریں لیے بیٹھتا ہے۔ ہجر کی تڑپ اور وصل کی راحت محسوس کرتا ہے جنسی اضطرابی اور اس کی حصولیابی کی لذت سے محظوظ ہوتا ہے اور یہ سب کچھ شکیل صاحب کے نزدیک شب و آہنگ کی ہی دین ہے۔
’’فراق کی جمالیات‘‘ میں شکیل الرحمن نے فراقؔ کے شعری سرمایہ میں موجودہ فنی اور جمالیاتی خوبیوں کا جائزہ لیا، فراق گورکھپوری ان کے نزدیک وہ واحد شاعر ہے جس کے کلام میں اپنے ملک کی مٹی سے معطر کرنے والی خوشبو ملتی ہے انہوں نے فراقؔ کے شعری تجربوں میں جھانک کر رات اور عورت کے جمال کی جو صورت پائی اس کو بڑی خوبصورتی سے ابھارنے کی کوشش کی ’’ ادب اور جمالیات‘‘ میں ان دو آرچ ٹائپس(Archetypes)کے متعلق یوں لکھتے ہیں :
’’فراقؔ کی جمالیات میں دو آرچ ٹائپس (Archetypes)کے تحرک کا احساس بار بار ملتا ہے۔ ’’رات اور عورت‘‘! ‘‘
شکیل الرحمن ‘ فراقؔ کی تخلیقات کے ذریعہ فراقؔ کی سائیکی میں اتر کر وہاں موجودہ رات اور عورت کی اہمیت اور اس کے حسن و جمال کے مختلف رنگوں اور جہتوں سے آشنا کراتے ہیں۔ فراقؔ نے عورت کے جتنے روپ ابھارے ہیں ان کا صحیح تجزیہ شکیل الرحمن نے کیا۔ ان کے نزدیک عورت فطرت کا حصہ، تخلیق کا سرچشمہ ہے جنسی لذتوں کا مجسمہ ہے۔ کائنات کی تکمیل اسی پر منحصر ہے ‘ انسان کی نفسی خواہشات کی پیاس بجھاتی ہے ‘ انسان اپنی نفسی خواہشات کی تکمیل کے بعد ہی روحانی تسکین پاتا ہے اور عشق مجازی سے آشنا ہونے کی بعد ہی عشق حقیقی کی راہ پاتا ہے بقول شکیل الرحمن ’’سیکس‘‘ ہی سمادھی کے اسرار تک پہنچا دیتا ہے۔
شکیل الرحمن ‘فراقؔ کے اشعار سے واضح کرتے ہیں کہ کس طرح ان کی شاعری میں عورت سرایت کر گئی ہے چند اشعار ملاحظہ ہو
عالم کا جمال قدِ آدم
آئینہ نما تیرا بدن ہے
ہر عضو ہے اعتراف صنعت
تعریف و ثنا ترا بدن
رنگ تیری کچھ اور نکل آتی ہے
یہ آن تو خوروں کو بھی شرماتی ہے
رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا
کروٹیں لیتی ہوئی صبح چمن کیا کہنا
نظریں ہیں کہ رہ رہ کے اپنا اٹھتی ہیں
ہر عضو بدن سے وہ چھلکتا ہوا رس
(فراقؔ )
شکیل الرحمن خود عورت کے حسن و جمال، اوصاف و اہمیت سے متاثر ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں اس لیے اصطلاحوں اور مثالوں کے ذریعے اس کائنات میں عورت کے کردار سے آشنا کراتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’کہ تبتی زبان میں ایک اصطلاح ہے ’’ یب یم‘(Yab Yam) جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ مرد عورت کے بدن ہی سے اپنی زندگی شروع کرتا ہے ‘ اس کی روحانی زندگی کی ابتداء بھی عورت کے جسم کے ذریعہ ہوتی ہے روحانی سفر ہی میں محسوس ہوتا ہے کہ عورت ایک مختلف وجود ہے کہ جس میں مٹی کی سچی خوشبو‘ پراسرار حرارت کی طرح پھیلنے کی صلاحیت اور مرد کو آکاش یا مکان تک کھینچ لے جانے کی طاقت ہے ‘‘۔
(ادب اور جمالیات ص 285)
مختصراً یہ کہ شکیل الرحمن کے نزدیک پوری کائنات ہی جمالیاتی شعور کے تحت معرض وجود میں لائی گئی۔ سورج‘آواز‘آہنگ‘ تخلیق کا دلکش اظہار جمالیاتی فکر و نظر کی ہی بنیادی سچائی ہے۔ اسی طرح ادبیات میں شکیل الرحمن جب فراقؔ کی شعری تخلیقات کا جائزہ لیتے ہیں توہر اعتبار سے انہیں فراق کے یہاں جمالیاتی اقدار کی پاسداری ملتی ہیں چاہے وہ جذبات کی پیش کش ہو یا ماضی کے تجربوں کا بیان ہو یا ہندوستانی تہذیب و تمدن کی عکاسی ہو یا لفظوں کی ترتیب و تکرار ہو یا پھر پر اسرار کیفیتوں کا بیان ہو ہر اعتبار سے ان کی شاعری جمالیاتی انبساط فراہم کرتی ہے۔
٭٭٭