شمع کی طرح شبِ غم میں پِگھلتے رہیے
صُبح ہو جائے گی جلتے ہیں تو جلتے رہیے
وقت چلتا ہے اُڑاتا ہُوا لمحات کی گرد
پیرہن فکر کا ہے، روز بدلتے رہیے
آئینہ سامنے آئے گا تو سچ بولے گا
آپ چہرے جو بدلتے ہیں، بدلتے رہیے
آئی منزِل تو قدم آپ ہی رُک جائیں گے
زِیست کو راہِ سفر جان کے چلتے رہیے
صُبح ہو جائے گی تو ہاتھ آ نہ سکے گا مہتاب
آپ اگر خواب میں چلتے ہیں، تو چلتے رہیے
عہدِ اِمروز ہو، یا وعدۂ فردا منظوُر
ٹوٹنے والے کِھلونے ہیں بدلتے رہیے
٭٭٭