ہے روز و شب کا یہ عالَم اداس ، آ جاؤ
ہے سوز آنکھوں میں ، ہونٹوں پہ پیاس، آ جاؤ
نہ زندگی پہ بھروسا ، نہ وصل کی امّید
کوئی کرن تو ہو میری اَساس ، آ جاؤ
پروں پہ یاد کے موتی لگائے بیٹھی ہوں
خموشیوں نے بُنا ہے لباس ، آ جاؤ
مَحبّتوں کی زمیں نے اُگائے کڑوے پَھل
تمام لہجوں سے گم ہے مٹھاس ، آ جاؤ
فَضا میں چھایا ہوا ہے مہیب سنّاٹا
ہرا بھرا کوئی موسِم ہو خاص ، آ جاؤ !
ذرا امید کی کلیوں میں رنگ آیا ہے !
بہار کب مجھے آئے گی راس ، آ جاؤ
کبھی امنگ ، کبھی یاس، سَر اٹھاتی ہے
کبھی بھرا ، کبھی خالی گلاس ، آ جاؤ
اُڑا کے وقت کی کونجوں کو دُور دُور کہیں
بس ایک پَل کے لئے میرے پاس آ جاؤ
عجیب خوف ہے، تتلی کے اُڑتے رنگوں سا
ہیں کب سے میرے یہ نیناںؔ اداس آ جاؤ
٭٭٭