غزل — عبد الحمید عدم

گا ہے گا ہے۔۔۔۔۔

غزل

عبد الحمید عدم

 ہمیں اتنا نہ خستہ حال رکھو

تم اپنے پاس اپنا مال رکھو

 ذرا سا لطف بھی ہے کبریائی

ذرا سی پرسشِ احوال رکھو

 اندھیروں کے مداوے اور بھی ہیں

رخ روشن پہ پردہ ڈال رکھو

 ستم اور لطف دونوں حادثے ہیں

حسینو! درمیانی چال رکھو

 ہمیں راحت ملی تو مر گئے ہم

ہمیں اے حادثو پامال رکھو

 کسی کا دل نہ رنجیدہ ہو تم سے

عدم اندازۂ اعمال رکھو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے