غزلیں ۔۔۔ سعید الرحمن سعیدؔ

 

جُدا کیا ہو گئے تم سے نہ پھر یکجا ہوئے خود سے

ملا وہ اختیار آخر کہ خود تنہا ہوئے خود سے

 

تہ ِ آب ِ دل و جاں موتیوں کی طرح رہتے ہیں

جو منظر اس جہانِ خاک میں پیدا ہوئے خود سے

 

چھپا لیتے رخِ جاناں ہم اپنی پیاسی آنکھوں میں

لب ِ گویا کے ہاتھوں کس لیے رسوا ہوئے خود سے

 

اڑی وہ خاک ِ دل صورت نظر آتی نہیں اپنی

پریشان ہو گئے اتنے کہ برگشتہ ہوئے خود سے

 

جلا کر چاند آنکھوں میں دو عالم دیکھتے تھے ہم

حجاب ِ لا مکاں پایا جو بے پروا ہوئے خود سے

 

پڑے تھے بے خبر مدت سے خاموشی کے ساحل پر

ہوا ایسی چلی ہم زمزمہ پیرا ہوئے خود سے

 

اب اس ذوق ِ حضوری کے مزے کس سے بیاں کیجے

ہم اپنی خلوتوں میں کس طرح گویا ہوئے خود سے

 

سعیدؔ اپنے سفینے کو بہا کر لے گئے ہر سو

جو طوفان قلزم ِ جاں میں مرے برپا ہوئے خود سے

٭٭٭

 

۔۔۲۔۔

 

دل سے کس کا خیال گزرا ہے

دور تک دشت ِ عشق چمکا ہے

 

چاندنی شب میں جل رہے ہیں چراغ

اس نے پلکیں اٹھا کے دیکھا ہے

 

اس کو کیسے غزل میں قید کریں

حسن جو باد ِ صبح جیسا ہے

 

تشنگی بھی وہ تشنگی نہ رہی

اور نہ پہلے سا تیرا دریا ہے

 

کیسے تصویر کھینچ پائے سخن

ان کو جس جس طرح سے دیکھا ہے

 

دل عجب شہر ہے جہاں ہر دم

آرزوؤں کا میلہ رہتا ہے

 

درد سوغات ہے شب ِ غم کی

غم نسیم ِ سحر کا جھونکا ہے

 

ان کے ہونٹوں پہ عشق کا پیماں

دشت میں ماہتاب نکلا ہے

 

بھڑک اٹھے جنوں کی آگ تو پھر

کوئی شب ہے نہ شب کا دھڑکا ہے

 

خاک ہے ہاتھ کی لکیروں میں

آئینہ آسماں پہ رکھا ہے

 

وحشت ِ زندگی سے دل میں سعید

ہر طرف اک غبار پھیلا ہے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے