دوسری سوچ ۔۔۔ آنند لہر

لوگوں کے گھروں میں کام کرتے کرتے اس کا بدن تقسیم ہو گیا تھا، کسی گھر میں اگر ہاتھ اچھے طریقے سے کام کرتے تھے تو دوسرے گھروں میں پاؤں۔ کسی گھر میں پورا جسم بھی کام کرتا تھا۔ سامنے والی پڑوسن کے برتن کھردرے تھے اور سخت بھی اور لوگ تھوکتے بھی ان میں تھے۔ سب کی صفائی لازمی تھی۔ اس لیے یہاں اس کے پاؤں پیارے تھے اور پھر دوسرے گھر میں بہت کمرے تھے، سب کی صفائی لازمی تھی اور تیسرے گھر میں رہنے والے کی بیوی مر چکی تھی اور بچے چاہتے تھے کہ ان کا باپ دوسری شادی نہ کرے، اس لیے یہاں اس کا جسم پیارا تھا۔ وہ بٹ گئی تھی اور اس کے بچے بٹ گئے تھے۔ دال اگر ایک گھر کی کھاتے تو چاول دوسرے گھر کے اور سبزی تیسرے گھر کی۔ غریب انسان کا بدن بٹا ہوا رہتا ہے، مگر اس کی روح ہمیشہ قائم و دائم ہوتی ہے، کیوں کہ وہ ہمیشہ محبت کی تلاش میں ہوتی ہے پھر گوپالنی بھی تو تقسیم ہو کر رہ گئی تھی۔

کہانی یہاں سے شروع ہوئی ہے۔ گوپالنی کا گھر والا ایک مزدور تھا۔ ان کا ایک چھوٹا سا گھر تھا اور گھر کے اندر ایک چھوٹا سا آنگن۔ اس آنگن میں نہ جانے کیوں بہت سبزی پیدا ہوتی تھی، وہ سبزی ہی ان کا گزارہ تھا۔ بس ایک بیج اور سیکڑوں پھل اور جو اسے ہر روز کی مزدوری کا روپیہ ملتا، اس سے ان کے گھر کا گزارہ چلتا تھا۔ وہ اسی سے اپنے ماں باپ کی سیوا کرتا تھا۔ اسی طریقے سے وقت بیت رہا تھا۔ دو بچے تھے نہ کوئی شکوہ نہ کوئی شکایت۔

ایک دن وہ بازار جا رہا تھا کہ ایک جلوس حکومت کے خلاف تھا، بلکہ یوں کہا جائے کہ سخت خلاف تھا۔ راجہ ایک دیوار کے ساتھ کھڑا تھا چپ چاپ، لوگ نعرے لگا رہے تھے حالانکہ یہ جلوس مہنگائی کرنے والوں نے ہی نکلوایا تھا، جلوس نکلوانے والے کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ دیہاڑی داروں کو مستقل کرو۔ ان میں سے کوئی دیہاڑی دار نہ تھا، پھر ایک شخص نے زور سے کہا ریفوجی مسئلہ حل کرو گو ان میں کوئی ریفوجی نہیں تھا، غریب تو روٹی روزی کمانے میں مصروف تھے اور جو نعرے لگانے کے لیے اکٹھے کیے گئے، وہ لاٹھی و گولی کھانے کو کسی بھی صورت میں تیار نہ تھے اور جلوس کی خبر تب تک نہیں آتی جب تک اس پر گولی نہ چلے، لاٹھی نہ چلے، جلوس لوگوں کو خبر دیتا ہے۔ لیڈروں کو بیان دینے کا موقع دیتا ہے۔ جلوس کی وجہ سے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ لڑکپن سے جوانی سے بڑھتی ہوئی لڑکیوں کے جسموں کو چھیڑا جاتا ہے۔ لوگوں کو جلوس میں شامل کر کے ان کے گھروں میں چوریاں کرائی جاتی ہیں۔ وہ دیہاڑی داروں کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔

ریفوجیوں کے حق میں نعرے لگا رہے تھے اور لوگ یہ نعرے اس لیے لگا رہے تھے کیوں کہ جلوس کے وجود کے لیے ضروری ہیں۔ جلوس آگے بڑھ رہا تھا، کچھ لوگ رکتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، پولس والوں کے اندر ڈر پیدا ہوا کہ کہیں یہ جلوس آگے نہ بڑھ جائے، جلوس کے وجود کے لیے وجود ہی جلوس میں ضروری، ہر جلوس میں لاٹھی چلتی ہے، گولی چلتی ہے، کچھ پولس والوں کو میڈل ملتے ہیں، جلوس کو کنٹرول کر کے پولس والوں کا نام آگے جاتا ہے، وہ مشہور ہوتے ہیں۔ ان کے بیان آتے ہیں، مگر جلوس والوں میں سے لاٹھی گولی کھانے کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ آفیسر نے دیکھا کہ ایک شخص ڈرا ہوا دیوار کے ساتھ کھڑا ہے اور غریب دکھائی دیتا ہے ،اس کے لیے لوگوں نے جلوس نکالا ہے، مگر وہ جلوس میں نہیں، یہ نعرے اس کے لیے ہیں، مگر بدقسمتی سے وہ نعروں کا حصہ نہیں اور یہ سارا سلسلہ جب آگے چلنے لگا تو جلوس کو ڈرانے کے لیے گولیاں چلیں اور ایک گولی راجہ کو لگی، ایک معمولی سا واقعہ رونما ہوا کہ راجہ مرگیا۔ بھاگنے والوں کو موقع مل گیا، خبر ڈھونڈنے والوں کو خبر مل گئی، لیڈروں نے خوب مذمت کی۔ پولس والوں نے ضروری بتایا۔ اگلے الیکشن میں اس کی موت بھی چناؤ کا مدعا بنی، مگر اس کی بیوی بیوہ ہو گئی، بچے یتیم ہو گئے، ماں باپ بے سہارا ہو گئے ، اس کے بعد اس نے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کیا۔ گھروں سے بچا ہوا کھانا اور سبزیاں بچوں کو کھلاتی تھی اور پھر جب بجلی والا بجلی کا کرایا مانگتا تو بوڑھے ساس سسر گھر سے چلے جاتے تھے تاکہ ان کی بہو الگ گھر میں رہ سکے اور جب راشن ڈیلر گھر میں آتا تب وہ ایسا ہی کرتے، مگر ان سب چیزوں سے الگ رہ کر وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے میں مصروف تھی، ساس سسر کی خدمت کرنے میں کھوئی رہتی تھی اور یہ سلسلہ در سلسلہ قائم رہا۔ اب تھک گئی تھی کئی برس ہو گئے تھے اور چہرے پر لگاتار کئی جھریاں پڑ گئی تھیں اور سچ یہ ہے ایک وقت میں وہ سب سے خوبصورت لڑکی تھی۔

پھر ایک دن راحت کا دن آیا، اس کے بوڑھے باپ کو پنشن کے کچھ روپے ملے، اس نے ایک دم اسے بلایا اور پیغام بھجوایا کہ اسے ضرور ایک دن کے لیے آنا ہے، وہ بہت خوش ہوئی، کیوں کہ اسے چار دن کے لیے کوئی کام نہ کرنا تھا، صبح اپنی مرضی سے اٹھنا تھا اور شام کو مرضی سے سونا تھا، دن کو جس وقت چاہے کھانا کھا سکتی تھی اور پھر اپنے باپ کے گھر جہیز کے وہ تمام کپڑے پہن سکتی تھی جو ابھی خراب نہ ہوئے تھے۔ اگلے روز صبح اس نے اچھا سوٹ پہن کر پھر تیاری کی اور بچوں اور ساس سسر سے کہا کہ ’’میں چار دن کے بعد آؤں گی۔‘‘ بوڑھے سسر نے حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’جاؤ بیٹی چار دن کے لیے آرام کرو۔‘‘

ان ہی خوابوں کے ساتھ وہ تیار ہوئی تھی۔ اس نے ایک تانگہ کیا اور اپنے میکے کے گھر چلی گئی، جوں ہی گھر کے دروازے کے قریب پہنچی اسے دھکا لگا کہ اس کا بھائی اپنی بیوی یعنی کہ اس کی بھابھی سے کہہ رہا تھا ’’گھبراؤ مت مجھے معلوم ہے کہ تم کام کرتے کرتے تھک گئی، میری بہن آ رہی ہے، وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے۔ چار دن وہ سارے کام کرے گی، آرام کر لینا، اگر ہو سکا تو سنیما دیکھنے بھی جائیں گے۔‘‘ یہاں پہنچ کر وہ یہ جان کر حیران ہو گئی کہ یہاں تو سوچ ہی دوسری ہے۔

٭٭٭

 

 

One thought on “دوسری سوچ ۔۔۔ آنند لہر

جاسمن کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے