خوف ۔۔۔ داؤد کاکڑ

 

اسے ہوش آیا تو چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔  اس نے خاموشی سے کچھ سن گن لینے کی کوشش کی لیکن مکمل سناٹا تھا یہاں تک کہ زمینی حشرات بھی خاموش تھے۔  ہاں، البتہ دل دھڑکنے کی دھم دھم ضرور محسوس ہو رہی تھی۔  وہ یکسوئی کے ساتھ کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک اٹھنے والی ٹیسوں نے اس کے بدن میں بجلیاں بھر دیں اور وہ تلملا اٹھا۔  اسے محسوس ہوا کہ وہ رسیوں میں جکڑا ہوا تھا اور اس کی آنکھوں پر بھی پٹی بندھی ہوئی تھی۔  اس احساس نے اس کا خون خشک کر دیا۔  بیتے واقعات ایک فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے۔

یہ شام سے ذرا پہلے کا وقت تھا جب وہ ایک گاؤں میں چند زعماء سے ملاقات کے بعد اپنے بیس (Base) کی طرف واپس جا رہے تھے جو چند ہی میل دور تھا۔  افغانستان میں نیٹو کے یونٹ کے ساتھ بطورِ مترجم یہ اس کا پہلا مشن تھا۔ ابھی وہ گاؤں کی حدود سے نکلے ہی تھے کہ زمین میں دفن بارودی مواد پھٹا اور ان کی ٹنوں وزنی فوجی گاڑی ہوا میں اچھلی اور پوری قوت کے ساتھ زمین سے ٹکرائی۔  وہ گاڑی کے پچھلے اور بغیر چھت کے حصے میں گَنر (Gunner) کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔  گاڑی کے ہوا میں اچھلتے ہی وہ دونوں بھی ہوا میں اچھلے۔  گنر کا تو اسے پتہ نہ چلا لیکن وہ اچھل کر کئی گز دور ایک خشک نالے میں جا گرا تھا اور اسی لمحے اسے تابڑ توڑ گولیاں چلنے کی بھی آوازیں آئیں تھیں جو یقیناً گھات میں بیٹھے طالبان کی طرف سے آ رہی تھیں اورپھراسے ہوش نہ رہا۔

اب کیا ہو گا۔۔۔؟ حالات کی نزاکت کا احساس ہوتے ہی اس کے وجود میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔  اسے یقین تھا کہ اس کے یونٹ کا کوئی فرد بھی زندہ نہ بچا ہو گا اور جو دھماکے میں بچ گیا ہو گا طالبان کی گولیوں کا نشانہ بن چکا ہو گا۔  وہ مترجم تھا اور طالبان کے ہاتھوں مترجموں کی اذیت ناک موت کی وہ ساری کہانیاں اسے یاد آ گئیں جو اس نے ٹریننگ کے دوران سنی تھیں۔  طالبان کی دانست میں اتحادی فوجوں کے ساتھ کام کرنے والے مترجم غدّار تھے اور ہر غدّار کو عبرت ناک انجام تک پہچانے کے لیئے وہ ہر قسم کی اذّیت جائز سمجھتے تھے۔  قیدی کی آنکھیں نکالنا اور ہاتھ پاؤں الگ کر دینا تو نہایت عام سی بات تھی طالبان تو قیدی کا چہرہ اتارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔  بلکہ اسلام اور جہاد کے نام پر مر مٹنے کا دعویٰ کرنے والے مذہب کے یہ ٹھیکیدار لاش کی بے حرمتی کرنے سے بھی نہیں گھبراتے تھے۔

اس کے لئے یہ احساس ہی روح فرسا تھا کہ وہ طالبان کے ہتھے چڑھ چکا تھا اور لمحہ بہ لمحہ اس خوف میں اضافہ ہو رہا تھا کہ اچانک اسے یوں لگا جیسے کسی نے اسے پکارا ہو۔  اس نے غور کیا تو کوئی واقعی اس کا نام لے کر اسے پکار رہا تھا اور پھر کسی نے اس کے چہرے پر سے کمبل کھینچ لیا۔

اٹھو یار! ہم افغانستان میں لینڈ کر چکے ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے