خانہ بدوش ۔۔۔ ابن کنول

خانہ بدوش

 

                   ابن کنول

 

گذشتہ ستر سال سے بلال کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی اور اس آواز کے ساتھ وہ صلاۃ اور فلاح کی طرف دوڑ پڑتا تھا۔ پہلی اذان کی آواز اس نے اس وقت سنی تھی جب ماں کے بدن سے الگ ہو کر باپ کی گود میں آنکھیں کھولی تھیں ۔ خدا کی وحدانیت، رسول کی شہادت اور فلاح کی جانب بڑھنے کا یہ پہلا سبق تھا اور اس سبق کو وہ ستر سال تک دہراتا رہا جس کے سبب اس کی پیشانی کے درمیان سیاہ نشان نمودار ہو گیا تھا اور اب اس پیشانی کے نشان نے عمر کے اس آخری پڑاؤ میں اس کے اندر یہ تڑپ پیدا کر دی تھی کہ وہ اس سمت کا سفر اختیار کر کے آخری فریضہ کو بھی ادا کر دے کہ جس کی جانب سجدہ کرتے کرتے اس کی پیشانی سیاہ ہو گئی تھی۔ اور جب اس ارادے کا اظہار اس نے اہل خانہ کے روبرو کیا تو سب بہت خوش ہوئے کہ وہ خاندان کا پہلا شخص تھا کہ جس نے بیت اللہ کا قصد کیا تھا۔ سب نے بخوشی اس کے لیے اسباب سفر مہیا کئے، سب خوش تھے، بہت خوش کہ بیت اللہ کی زیارت ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔ اس کے بیٹے، بیٹیوں اور بہوؤں نے اپنے ماں باپ کے لیے تمام ضروری اشیا فراہم کی تھیں کہ وہ جانتے تھے کہ اتنا طویل سفر ان کی زندگی کا پہلا سفر ہے۔ چاروں بیٹے خوف زدہ بھی تھے کہ انھیں اپنے والدین کی ضعیف العمری کا احساس تھا وہ سب اپنے بوڑھے ماں باپ کو اس طرح سمجھا رہے تھے جیسے وہ ان سے بہت بڑے ہو گئے ہوں ۔ مشتاق بھائی اور فاطمہ بی بی سعادت مند بچوں کی طرح ہر ایک کی بات سنتے تھے۔ اقبال جو سب سے بڑا بیٹا تھا کہتا :

’’ابا اماں کو کہیں اکیلا مت جانے دیجئے گا اور اماں تم بھی ابا کا ہاتھ پکڑے رہنا۔ وہاں پچیس تیس لاکھ حاجیوں کی بھیڑ ہو گی۔ ‘‘

ابراہیم کہتا :

’’ہاں اگر خدا نخواستہ بچھڑ گئیں تو ملنا مشکل ہو جائے گا۔ ‘‘

سب سے چھوٹا بیٹا کہتا:

’’ابا شیطان کے کنکریاں مارتے وقت بڑی بھیڑ ہوتی ہے، آپ لوگ بھیڑ میں نہیں جائیے گا۔ سنا ہے اس بھیڑ میں اگر کوئی گر جائے تو اٹھ نہیں پاتا، آپ رش کم ہونے کے بعد جائیے گا۔ ‘‘

بیٹیوں اور بہوؤں نے سارا سامان پیک کر دیا تھا۔ اٹیچی میں کپڑے رکھتے ہوئے زینت کہہ رہی تھی :

’’دیکھو ماں ! آپ دونوں کے چھ چھ جوڑی کپڑے رکھ دیئے ہیں ، وہاں زیادہ گندے تو ہوں گے نہیں ، ویسے کپڑے دھونے کا صابن بھی رکھ دیا ہے۔ اور ہاں اماں جب مدینہ شریف جاؤ تو بالکل نئے کپڑے پہننا، روضہ پر جا کر ہمارا بھی سلام کہنا اور دعا کرنا کہ اللہ ہمیں بھی زیارت کی توفیق دے۔ ‘‘

دوسری طرف سے عائشہ پکارتی:

’’اماں میرے لئے بھی دعا کرنا۔ اور یہ دیکھو میں نے اس بیگ میں میٹھی پوریاں رکھ دی ہیں ، ناشتہ میں کام آئیں گی، بسکٹ اور نمکین بھی اسی بیگ میں ۔ ‘‘

گھر کا ہر فرد تیاری میں لگا ہوا تھا رشتہ دار اور ملنے والے دعاؤں کی درخواست کے لئے مستقل آرہے تھے۔ بچے، بڑے سبھی خوش تھے۔ دعاؤں کی درخواست کے ساتھ ان کی فرمائشیں بھی تھیں ۔ کوئی کہتی :

’’اماں میرے لئے اچھا سا برقعہ لائیے گا۔ ‘‘

کسی کی فرمائش ہوتی:

’’نانی میرا اسکارف نہیں بھولئے گا۔ ‘‘

بچے معصوم لہجہ میں کہتے:

’’دادا میاں میرے لئے اچھے نمبروں کی دعا کیجئے گا۔ ‘‘

’’دادی آپ میرے لئے دعا کیجئے گا کہ میرا حافظہ جلدی پورا ہو جائے۔ ‘‘

دعاؤں کی درخواستیں اور معصوموں کی فرمائشیں مشتاق بھائی اور فاطمہ بی بی نے اپنے ڈائری میں لکھ لی تھیں ۔ روانگی سے قبل انھوں نے اپنے سب بچوں کو پاس بلایا اور کہا :

’’دیکھو اقبال تم سب سے بڑے ہو سب کا خیال رکھنا، کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ ہمارے آنے سے پہلے پورے گھر کی سفیدی کرا لینا، عید پر بھی نہیں ہو پائی تھی اور دیکھو اوپر کے کمرے کی چھت باقی رہ گئی ہے وہ پوری کرا لینا۔ گووند بھائی کے یہاں سے جو بھی سامان چاہیے منگوا لینا میں آ کر حساب کر دوں گا۔ ‘‘

’’ہاں ابا آپ بے فکر ہو کر جائیے، میں سب کام پورا کرالوں گا۔ ‘‘

’’ اور ابراہیم تم پابندی سے دکان پر جانا، ذرا جلدی اٹھنے کی عادت ڈال لینا۔ صبح ہی صبح سب کو کام پر بھیجنا ہوتا ہے، تنخواہ سب کی وقت پر دے دینا، کرشنا اور اسماعیل خاں کے سو سوروپے پچھلے مہینے کے رہ گئے ہیں ، وہ ضرور دے دینا ورنہ میرا حج بھی نہیں ہو گا۔ ‘‘

’’جی ابا۔ ۔ ۔ آپ پریشان نہ ہوئیے۔ ۔ ۔ ۔ اپنے سفر کی تیاری کیجئے۔ ‘‘

مشتاق بھائی سب کو سب کام سمجھا رہے تھے کہ ان کا سفر چالیس دن کا تھا اور جب وہ اس مبارک سفر کے لیے ہوائی اڈے کے اندر داخل ہوئے تو خوشی اور غم کے آنسو لئے گلے مل کر سب نے رخصت کیا۔ خوشی تھی کہ بیت اللہ کی زیارت کے لئے جا رہے ہیں ، غم تھا کہ بچھڑ رہے ہیں ، سفر مبارک ہے لیکن دشوار ہے۔ عزیز و اقربا سے بچھڑ کر مشتاق بھائی کے منھ سے نکلا ’’لبَّیک اللّٰہم لبّیک‘‘ اب اس نے خود کو خدا کے سپرد کر دیا تھا۔ ایئر پورٹ کے احاطے میں جس وقت اس نے احرام باندھا تو موت یاد آ گئی۔ اس وقت بھی تو یہی دو سفید چادریں ہوں گی اسے لگا کہ جیسے سفر آخرت کے لئے روانہ ہو رہا ہے۔ یوں بھی ہوائی جہاز کے سفر اور حج کے مجمع کثیر سے وہ دونوں ہی خوف زدہ تھے۔ جس وقت ہوائی جہاز نے پرواز کی تو عازمین حج نے بیک زبان لبّیک کا نعرہ بلند کیا۔ لبیک کی گونج سے ان دونوں کا خوف جاتا رہا کہ اب وہ خدا کے راستے میں تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاز ہزاروں فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا نیچے سمندر تھا مگر کسی کے دل میں خوف نہیں تھا۔ اس لئے کہ وہ سب بیت اللہ کی زیارت کی تڑپ دل میں لئے ہوئے تھے اور جب کسی کی زیارت کی تڑپ دل میں ہوتی ہے تو تمام خدشات رفع ہو جاتے ہیں ۔

جدہ ایرپورٹ پر اتر کر مشتاق بھائی نے سجدۂ شکر ادا کیا اور حیرت و عقیدت سے وہاں کی زمین کو دیکھا اور یاد کیا کہ یہ وہ مقدس مقام ہے جہاں سے بوقت ہجرت رسول اکرم کا گزر ہوا تھا۔ نہ جانے کیوں اسی وقت اس نے سوچا رسول کو تو مدینہ مل گیا تھا، ہمارا مدینہ کہاں ہے کہ ہماری زمین بھی تو ہم پر تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ اب وہ سب مضطرب تھے کہ جلد از جلد مکہ معظمہ پہنچ جائیں کہ ان کی منزل مقصود وہی تھی۔ تا حد نگاہ ریگستان اور پہاڑوں کو دیکھ کر وہ اپنے سفر کی آسانیاں اور رسول اکرمؐ  کے سفر کی پریشانیوں کے بارے میں سوچ کر نمدیدہ ہوا۔ اسی لمحہ اس نے اس ریگستان میں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں محسوس کیں کہ جو قیصر و کسریٰ کے تخت کو روندتی چلی گئیں ۔ دور سمندر کے کنارے اسے طارق بن زیاد کے جہازوں کے بادبان نظر آئے جن کے رخ اسپین کی جانب تھے۔ اسے اپنا قد بلند ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی افتخار کے عالم میں جب وہ دونوں سب کے ساتھ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو چہار جانب دل و نگاہ نے گلہائے عقیدت بکھیر دیئے۔ تمام عالم کے مسلمانوں کا اتنا بڑا اجتماع دیکھ کر وہ اپنی بے بسی اور کسمپرسی کی حالت بھول گیا، کہ مکہ معظمہ کی زمین پر قدم رکھتے ہی اسے اس زمین سے اپنے رشتے کا احساس ہونے لگا۔ وہ اس زمین سے لپٹ جانا چاہتا تھا کہ صدیوں پہلے یہیں سے اس نے ہجرت کی تھی کہ رسول ﷺ کا حکم تھا کہ تمہاری اونٹنیوں کا رخ جس سمت کو ہے، چلے جاؤ کہ تمہیں تمام عالم میں امن و امان کا پیغام پہنچانا ہے۔

اب وہ بیت اللہ کے بالکل قریب تھے وہ دونوں سوچ رہے تھے کہ سب سے پہلے وہ اپنے بچوں کی خیر کی دعا مانگیں گے کہ وہ تو اپنی عمر گزار چکے۔ دعا کے لئے الفاظ ڈھونڈھتا ہوا وہ خانہ کعبہ کی جانب بڑھا اور جلال خداوندی دیکھ کر سب کچھ بھول گیا۔ ستر سال کے سجدوں کی حقیقت آج اس پر منکشف ہوئی۔

وہ بے اختیار سجدے میں گر پڑا، آج اس کا ایک سجدہ سترسال کے سجدوں سے زیادہ اہم تھا اور اس سجدے میں اس نے سب کے لئے خیر کی دعا مانگیں ۔ پھر اس نے خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ فاطمہ بی بی بھی اس کے ساتھ تھی، فاطمہ کو اپنے بیٹوں کی باتیں یاد تھیں ، اس نے اپنے شوہر کا ہاتھ چھوڑا نہیں تھا، بعد طواف کرنے کے وہ مقام ابراہیم تک پہنچے اور دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر آب زمزم پی کر صفا و مردہ کی پہاڑیوں کی طرف چلے گئے۔ اب پہاڑیاں نہیں تھیں صرف نشان باقی تھے، انھیں بی بی ہاجرہ کی پانی کی تلاش یاد آئی، فاطمہ اپنے بچوں کو یاد کر کے افسردہ ہو گئی۔ مشتاق بھائی نے دلاسا دیا، اور پھر عمرہ کے ارکان کی ادائیگی کے بعد اس نے سب سے پہلے اپنے گھر فون کر کے حال معلوم کیا، سب کچھ ٹھیک تھا ان کی آواز سن کر سب خوش ہوئے۔

اگلے روز انھیں مدینہ منورہ جانا تھا وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کون سا مقدس شہر ہے جو مہاجرین کے لئے راستوں میں پلکیں بچھا دیتا ہے، وہ کون لوگ ہیں جو گھروں کے دروازے ان کے لئے کھول دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تصویروں میں دیکھی ہوئی مسجد نبوی کو دیکھ کر وہ خود تصویر بن گیا، جمال نبیؐ  ہر گوشے سے ٹپک رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ایک بار پھر اس نے دست دعا بلند کئے اور گڑ گڑایا:

’’اے رب العالمین تو مجھے بھی کوئی مدینہ دے دے۔ ‘‘

مدینہ منورہ کے راستوں پر وہ برہنہ پا چلتا رہا کہ یہاں رسولؐ  کے قدموں کے نشان باقی تھے۔ اسے تین سو تیرہ کی فتح یاد آئی، وہ سوچنے لگا کہ اس وقت وہ تین سو تیرہ کیوں فتح یاب ہوئے تھے اور آج۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بعد چند روز کے مدینہ منورہ سے بادل نخواستہ آنکھوں میں آبشار لئے مکہ معظمہ آئے کہ فریضہ حج ادا کرنا تھا کہ جس کے لئے یہ سفر دور دراز اختیار کیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر لاکھوں عازمین حج کا سفید پوش قافلہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے منیٰ روانہ ہوا۔ منیٰ خیموں کا شہر ہے، پہاڑوں کے بیچ میں تا حد نگاہ خیمے نظر آرہے تھے۔ ان دونوں نے ایک خیمے میں اپنی چٹائیاں بچھائیں اور عبادت الٰہی میں مشغول ہو گئے۔ اگلے روز وہ قافلہ لبیک کی صدا بلند کرتا ہوا میدان عرفات میں پہنچ گیا۔ مستقبل کے اس میدان حشر میں وہ بہت رویا، دعائیں مانگیں اپنی سلامتی کے لئے، اپنے بچوں کی کامرانی کے لئے۔ وہ اپنے بچوں کا مستقبل تابناک دیکھنا چاہتا تھا۔ غروب آفتاب کے وقت عرفات سے مزدلفہ کے لئے روانہ ہوئے، مزدلفہ کے وسیع و عریض میدان میں پہنچ کر پھر اس نے اپنی چٹائی بچھائی اور عبادت میں مشغول ہو گیا۔ اسے یاد آیا کہ یہ وہی میدان ہے جہاں ابرہہ کی فوج آ کر ٹھہری تھی، جس کا ارادہ بیت اللہ کو ڈھانے کا تھا لیکن ابابیلوں نے اس قدر ان پر کنکریاں برسائیں کہ وہ بے دم بے جان ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پوری رات اس میدان میں گزار کر مشتاق بھائی پھر اپنی چٹائی اٹھا کر سب کے ساتھ منیٰ میں اپنے خیمے کی طرف چل دئے، آج انھیں شیطان کو کنکریاں مارنے کی رسم ادا کرنی تھی وہ سوچنے لگا کہ ہر سال لاکھوں آدمیوں کے ہاتھوں سنگسار ہونے کے باوجود شیطان آج بھی کس طرح زندہ ہے۔ شاید شیطان ہمارے اندر سما گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمام ارکان حج کی ادائیگی کے بعد اسے ایسا لگا جیسے دوبارہ زندگی ملی ہے۔ احرام کی سفید چادریں اتار دی تھیں ، جن سے کفن کا احساس ہو رہا تھا، اب ان دونوں کو اپنا گھر یاد آنے لگا تھا، وہ اپنی حیات نو کے ساتھ اپنے عزیز و اقربا کے درمیان جانا چاہتا تھا کہ جن سلامتی اور خوشحالی کی دعا اس نے خدا اور رسولؐ  کے دربار میں مانگی تھی، اسے یقین تھا کہ اس کی دعا قبولیت کے مقام تک ضرور پہنچی ہو گی۔ اس نے حج کی روداد اپنے گھر والوں کو ٹیلی فون پر بتائی۔ وہ سب بھی ان سے ملنے کے لئے بے چین ہوئے، اقبال نے بتایا کہ گھر کی سفیدی ہو چکی ہے۔ اوپر کے کمرے کی چھت پڑ گئی ہے، کام اچھا چل رہا ہے، سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔

اب فاطمہ بی بی کو سب کی فرمائشیں یاد آئیں ، اس نے اپنے بیٹے، بیٹیوں ، بہوؤں اور ان کے بچوں کے لئے بہت سا سامان خریدا، وہ دونوں بہت خوش تھے کہ بہت جلد اپنے گھر پہنچ جائیں گے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب اس زمین سے رخصت کا وقت قریب آیا تو انھوں نے خدا اور رسولؐ  سے اجازت چاہی، پھر اپنی نگاہوں میں تمام مناظر کو سمیٹ کر وطن کے لئے روانہ ہوئے۔ وہ دونوں جہاز کی بلندی سے بے نیاز محو گفتگو تھے۔

’’ہمارے بچے ہمیں دیکھ کر کتنا خوش ہوں گے۔ ‘‘

’’ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سب ہی ہمارے منتظر ہوں گے، اقبال نے گھر کی سفیدی کرالی ہے۔ اوپر کا کمرہ بھی پورا ہو گیا ہے۔ اب مہمانوں کو پریشانی نہیں ہو گی۔ تم نے سب کے لئے تحفہ لے لئے ہیں نا ؟‘‘

’’ ہاں لے تو لئے ہیں ، سب سے بڑا تحفہ تو زم زم اور کھجوریں ہیں ۔ ‘‘

’’ وہ تو ٹھیک ہے لیکن تمہارے بچے تو سب سے پہلے تمہارے سامان کی تلاشی لیں گے۔ ‘‘

’’اسی لئے تو میں نے سب کے لئے کچھ نہ کچھ لے لیا ہے۔ گھڑیاں تو اقبال، ابراہیم، نوشاد اور ندیم کی ہو گئیں ، زینت، عائشہ اور رقیہ کے لئے برقعے لے لئے ہیں ۔ امینہ نے اسکارف کے لئے کہا تھا عالیہ کے لئے بھی اسکارف لے لیا ہے۔ زید، سعد، یوسف تو اپنے کھلونے ہی دیکھ کر خوش ہو جائیں گے۔ ‘‘

’’’اچھا سنو! احمد بھائی کو جانماز ضرور دینی ہے، انھوں نے ہم دونوں کے کپڑے بھی بنائے تھے اور دعوت بھی کی تھی۔ ‘‘

’’ہاں ! ہاں ! خاص خاص لوگوں کو تو جانماز یں دینی ہی ہیں ۔ ‘‘

جہاز مسلسل اپنا سفر طے کر رہا تھا، ان دونوں کو وقت کا احساس ہی نہیں تھا، فاطمہ پھر پوچھنے لگی :

’’ہمارے آنے کی تاریخ تو ان لوگوں کو معلوم ہے نا۔ ‘‘

’’سارا کام ہی اقبال نے کرایا ہے۔ فون پر بات ہو جاتی تو اور بھی اچھا ہوتا لیکن ملا ہی نہیں ، ایک حاجی کہہ رہے تھے کچھ جھگڑا ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’یہ ٹیلی فون کو بھی ابھی خراب ہونا تھا۔ ۔ ۔ خدا کرے سب ٹھیک ٹھاک ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے تو جب معلوم ہے تو سب ائیر پورٹ پر آ ہی جائیں گے۔ ‘‘

انھیں چالیس دن پہلے کا ایئرپورٹ کا منظر یاد تھا۔ ایک ایک کا چہرہ ان کی نظروں میں گھوم گیا ایک بار پھر ان کے ہاتھوں میں ہار اور چہرے کی خوشیاں محسوس کر کے مشتاق بھائی اور فاطمہ خوش ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب احمد آباد کی ایئرپورٹ پر جہاز اترا تو انھوں نے خدا کا شکریہ ادا کیا، وہ سب باہر آئے۔ منظر بدلا ہوا تھا، تمام حاجیوں میں عجیب سی خاموشی تھی، سب ایک دورے کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، کوئی کسی کے استقبال کے لئے نہیں آیا تھا، کسی کے ہاتھوں میں ہار نہیں تھا، ایک سناٹا سا تھا، موت کا سا سناٹا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سب حیران و پریشان تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب کی نگاہیں اپنے عزیزوں کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔ ایئرپورٹ فوج سے گھرا ہوا تھا، انھیں پولیس کی گاڑیوں میں بٹھا دیا گیا، وہ سب بے زبان سے ہو گئے تھے، انھیں اس نئے انداز کے استقبال کی امید نہ تھی۔ مشتاق بھائی نے فاطمہ کو حسرت و بے بسی کے عالم میں دیکھا، اس کی آنکھوں میں آب تھا اور زم زم کہنے والا کوئی نہ تھا، تمام راستے جلے ہوئے مکان و دکان، خون آلودہ سڑکیں اور دیواریں دیکھ کر خوف اور دہشت ان کے دلوں میں اتر آئی تھی۔ بار بار اس کا دل چاہا کہ پولیس والوں سے معلوم کر ے کہ یہ سب کیا ہے؟ یہ کب ہوا؟ کس وجہ سے ہوا ؟ لیکن اس نے اپنے اندر ہمت نہیں پائی۔ میدان عرفات کا اجتماع اور یہاں کی لاچاری اور بے بسی کا موازنہ کر کے اس کی آنکھیں چھلک آئیں ۔ پولیس کی گاڑی مشتاق بھائی کے گھر کے پاس رکی لیکن گھر کہاں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جلے ہوئے ٹوٹے ہوئے ملبے کا ایک ڈھیر تھا، وہ تو سفیدی کرایا ہوا نیا مکان ڈھونڈ رہے تھے لیکن یہ منظر دیکھ کران دونوں کی چیخیں حلق کے اندر ہی پھنس گئیں ۔ انھیں اپنے بچوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں

’’ابا ! اماں کو کہیں بھی اکیلا نہیں چھوڑئیے گا۔ ‘‘

’’اگر خدانخواستہ بچھڑ گئیں تو ملنا مشکل ہو جائے گا۔ ‘‘

’’آپ لوگ بھیڑ میں نہیں جائیے گا۔ ‘‘

’’اماں ہمارے لئے دعا کیجئے گا کہ اللہ ہمیں بھی زیارت کی توفیق دے۔ ‘‘

’’اماں میرے لئے اچھا سا برقعہ لائیے گا۔ ‘‘

’’نانی میرا اسکارف نہیں بھولئے گا‘‘

وہ دونوں سکتے کے عالم میں تھے۔ بچوں کی آوازیں مسلسل گونج رہی تھیں ۔

’’میری گھڑی کہاں ہے؟‘‘

’’میرا برقعہ کہاں ہے؟‘‘

’’یہ اسکارف میں لوں گی‘‘

’’ یہ کار زید کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہوائی جہاز سعد کا ہے‘‘

’’پہلے سب کو کھجوریں کھلاؤ اور زم زم پلاؤ‘‘

انھیں لگا جیسے ان کے سامان کی اٹیچی کھل گئی۔ گھڑیاں اور کھلونے ٹرک کے نیچے کچل گئے۔ برقعے اور اسکارف ہوا میں اچھل گئے۔ جا نمازیں آگ میں گر پڑیں ۔ ۔ ۔ ۔ آب زم زم سڑک پر بہنے لگا۔ ۔ ۔ ۔ کھجور کچرے کے ڈبے میں ڈال دی گئیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ حیران و پریشان تھے کہ ایک سپاہی نے دوسرے سے کہا :

’’ان کا تو گھر جل گیا۔ چلو کیمپ میں چھوڑ دیتے ہیں ۔ کوئی گھر والا بچا ہو گا تو مل جائے گا‘‘

دوسرے نے کہا :

’’ہاں یہ ٹھیک ہے‘‘

تیسرے نے کہا :

’’اور حاجی جی کیا کیا مال لائے ہو۔ ۔ ۔ یہاں تو سب لٹ گیا۔ ۔ ۔ پھر جمع کرو۔ ۔ ۔ ‘‘

چوتھے نے کہا :

’’تم وہاں سے مال لاتے رہو۔ ۔ ۔ اور ہم۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

چاروں ہنس دیئے۔ مشتاق بھائی کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا، پولیس کی گاڑی نے انھیں ایک کیمپ میں اتار دیا۔ اسے منیٰ کے خیمے یاد آئے، عرفات اور مزدلفہ کے بے سایہ میدان اس کی نظروں میں گھوم گئے لیکن منظر بدلا ہوا تھا، چاروں طرف آہ و بکا، بے سروسامانی، برہنہ پا، برہنہ سرخواتین کا ہجوم، بے کفن لاشیں ، اس نے محسوس کیا کہ اب وہ ابرہہ کے نرغے میں ہے۔ اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی۔ ابابیلوں کا دور دور تک پتہ نہیں تھا، اس لئے کہ وہ اب تین سو تیرہ میں سے نہیں تھا۔

٭٭٭

2 thoughts on “خانہ بدوش ۔۔۔ ابن کنول

محمد حنیف خان کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے