شکیل الرحمن نے جمالیاتی آگہی کے مصنف کی حیثیت سے ادب میں اپنی شناخت قائم کی ہے۔ جمالیات اور ادب کے رشتے کی تفہیم کا تعلق دانشوری سے بھی ہے اور تنقیدی شعور سے بھی اس کا ربط مستحکم ہے۔ بام گارٹن وہ پہلا مفکر ہے جس نے فنون لطیفہ میں جمالیات کے تفاعل، اس کے اثر و نفوذ اور اس کے دائرہ کار کی وسعتوں اور پنہائیوں سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی۔ ہیگل نے حسن اور حسن کاری کے وسیلے سے اس کا باقاعدہ مطالعہ کیا۔ جمالیات فلسفے کا ایک شعبہ ہے۔ اہل علم و بصیرت نے اسے مستقل حیثیت سے پیش کر کے اس کے امتیازات کا تشخص قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ حسن، فطرت اور کائنات کا ایک جوہر ہے اور جب یہ اپنا اظہار محسوسات کی سطح پر کرتا ہے تو ان میں رعنائی اور نظر فریبی و جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے اور نشاط و انبساط کی کیفیت اس سے وابستہ ہو جاتی ہے۔ جمالیاتی حس تمام انسانوں میں یکساں نہیں ہوتی بلکہ مختلف محرکات، ماحول اور ذہنی تربیت اور افتاد طبع کے زیر اثر نئے زاویے سے اثر آفرینی کے درجات متعین ہوتے ہیں۔ جمالیات کی تفہیم و تحسین کے سلسلے میں ڈیکارٹ، ہیوم، کانٹ ( Kant) گوئٹے اور ہیگل سے لے کر ہرڈر اور کروچے تک تصورات کے تنوع اور کہیں کہیں تضاد سے بھی ہم آشنا ہوتے ہیں۔ کروچے نے حسن کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا اس نے معاصر ادیبوں اور شعرا کے ذہنوں کو متاثر کیا اور ’’نظریہ اظہاریت‘‘ نے فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں پر اپنا نقش ثبت کر دیا۔ انسان کی تخلیقی حسیت کا اس کے جمالیاتی شعور سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جمالیات کا ایک نظریہ یہ ہے کہ حسن دیکھنے والے کی نظر میں ہوتا ہے۔ اردو کے شعرا نے بار بار اس خیال کی تائید کی ہے :
سودا جو تیرا حال ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانئے تو نے اسے کس رنگ میں دیکھا
اس طرف بھی نظر آئے دیدہ صاحب نگراں
میں نے ذروں سے تراشے ہیں ستاروں کے جہاں
ہاں دعا دے میری اس خوش نظری کو اے دوست
اس سے پہلے تیرے جلوؤں کا یہ عالم تھا کہاں
ہے وہی عارض لیلیٰ وہی شیریں کا دہن
نگہ شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھیری ہے
حسن ہے میری نظر کی ایجاد
لوگ سمجھے کہ بڑی شے ہو گی
مختلف قوموں میں حسن کا تصور جو جمالیات کی بنیاد ہے اپنے ماحول سے پیدا ہوتا ہے۔ ارد گرد کی فضا، روایات، کلچر کے خدوخال، تصور حسن اور تخلیقی حسیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جنوبی ہند ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ جنوبی ہند کے مختلف مندروں میں بت تراشی کے جو انمول نمونے موجود ہیں وہ یہاں کے مذاق حسن کے غماز ہیں۔ ایلورہ اور دوسرے مقامات کی بت تراشی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں اعضاء بدن کے گداز اور ان کی گولائی اساسی طور پر اپنا جلوہ دکھاتی رہتی ہے۔ ایران میں حسن کا تصور بلندی اور نفاست سے وابستہ ہے اور محبوب کو سرو رواں اور صنوبر سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ بعض بلند اور فنی نزاکت سے آراستہ تعمیریں اس کی ترجمانی کرتی ہیں۔ ان علاقوں میں جہاں اپنی بقا کے لیے جد و جہد کرنی پڑتی ہے، محبوبہ کا تصور قتالہ کے روپ میں اپنا حسن دکھاتا ہے۔ افریقی ممالک میں سیاہ رنگ، موٹے ہونٹ اور چپٹی ناک محبوبہ کے حسن دل آرا کی نشانیاں ہیں۔ افریقی لوگوں کی جمالیاتی حسیت ایک خاص ماحول کی پروردہ اور تربیت یافتہ ہوتی ہے۔
اردو میں جمالیاتی تنقید کے منظر نامے میں شکیل الرحمن اس لیے منفرد نظر آتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیش روؤں کی تقلید پر اکتفا نہیں کی بلکہ مشرقی وسطی اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے پس منظر میں روایات، دیو مالائی تصورات اور اصول کی کارفرمائی کا تجزیہ کر کے بھی فنکار کی تخلیقی حسیت کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے فنون لطیفہ، شعر و ادب، سنگ تراشی، مصوری، رقص اور موسیقی کی بنیادوں میں کار فرما جمالیاتی رجحانات کے اشتراک اور داخلی ربط کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے۔ تصور جمالیات کی بازیافت شکیل الرحمن کا پسندیدہ انداز تنقید ہے۔ کلاسیکی ادب کے توسط سے شاعری کی جمالیات پر تبصرہ کرنے والوں میں محمد حسین آزاد، مہدی افادی، عبدالرحمن بجنوری، فراق، مجنوں گورکھپوری، نیاز فتح پوری، محمد حسن عسکری اور خورشید الاسلام کے ناموں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
شکیل الرحمن کی تصنیف ’’محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات‘‘ کے مطالعے سے ایک ایسے تخلیق کار کی تصویر سامنے آتی ہے جو پریم رس میں ڈوبا ہوا ہے۔ ڈاکٹر زور نے پہلی بار محمد قلی قطب شاہ کا ضخیم دیوان مرتب کیا تھا۔ ان کی توجہ کا مرکز زیادہ تر تحقیقی حقائق کی بازیافت اور پیشکش تھا۔ اس لیے ’’قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی‘‘ سے جب میرا مرتبہ کلیات شائع ہوا تو میں نے تحقیقی مسائل کے علاوہ محمد قلی کے کلام کے تنقیدی پہلو کو اپنا ماسکہ بنایا اور شاعر کے ہندوستانی افکار اور تہذیبی تصورات کی عکاسی اور شاعری کے تجزیے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں محمد قلی کی شعری کاوشوں میں جو راگ راگنیوں، ہندوستانی دیومالا سے واقفیت، کلام کلا، نائیکہ بھید، رسوں اور مناظر فطرت کی مصوری کے ذیل میں ’’رت ورنن‘‘ کی ہندوستانی روایت سے اثر پذیری اور دوسری جہتیں موجود ہیں ان پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ وہ اولین تخلیق کار ہے جس کے فن پاروں نے ہندوستانی تہذیب، ہندوستانی فکر، جمالیاتی تصورات، فنون لطیفہ اور ہندوستان کی سرزمین پر صدیوں سے جلا پانے والے گوناگوں مظاہر کے نقوش کو گویائی عطا کی۔ شکیل الرحمن کی تصنیف ’’محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات‘‘ مطالعے کا نیا زاویہ پیش کرتی ہے۔ انھوں نے شاعر کے جمالیاتی شعور کا بڑی دیدہ وری اور باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ شکیل الرحمن نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ محمد قلی کی جمالیاتی حس بہت بیدار اور متحرک ہے۔ مصنف نے شاعر کی جنسی حسیت پر روشنی ڈالی ہے اور لکھتے ہیں کہ بھرت نے جن اکتالیس ’’بھووں ‘‘ (Bhavas) کا ذکر کیا ہے ان میں ’’رتی بھو‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ شکیل الرحمن یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’شاعر کے کلام میں جو شرینگار رس ہے وہ اسی جذبے کی دین ہے۔ ‘‘
تنقید میں کلام غالب شکیل الرحمن کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ شکیل الرحمن نے اپنے منفرد انداز میں غالب کی شاعری کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے اور ان نفسیاتی اور جمالیاتی محرکات کا جائزہ لیا ہے، جن سے اثر پذیری اشعار غالب کی تہہ میں کار فرما ہے۔ کلام غالب میں آتش، شعلہ، برق، رقص، آئینہ، چراغ، محفل، کوہ، دشت، صحرا، سیلاب، بیاباں، جلوہ، تماشہ، جنوں، شراب، بہار، لہو، آرزو، شر ر، موت، جادہ اور نفس جیسے الفاظ بار بار ہماری نظر سے گزرتے ہیں۔ ان الفاظ نے کلام غالب میں علامتوں کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔
شکیل الرحمن نے کلام غالب میں ’’رقص‘‘ کو زندگی، حرکت اور فعالیت کی علامت قرار دیا ہے۔ شکیل الرحمن نے اس سلسلے میں ہندوستانی کے اساطیری تصورات، تاریخ اور قدیم ادب اور تہذیب میں رقص کی اہمیت واضح کی ہے۔ ہندو مت کی قدیم کتابوں میں ہندو صنمیات کی رو سے بھگوان شیو، نٹ راجہ ہیں اور ان کا رقص زندگی کا مظہر اور کائنات میں انسانی وجود کی بقا کی علامت ہے جو ساکت و جامد میں نہیں حرکت اور جنبش میں ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ غالب کی شخصیت، جس ماحول میں پروان چڑھی تھی، اس میں رقص و موسیقی تہذیبی زندگی میں گھل مل گئے تھے اس لیے غالب شعور اور غیر شعوری طور پر رقص کی جمالیات سے متاثر ہوئے تھے۔ رقص میں وجدان، جذب اور تحرک کے جو عناصر موجود ہیں وہ غالب کی شاعری اور ان کی شعری حسیت میں در آئے ہیں۔ غالب سے متعلق شکیل الرحمن کے محاکمات، تفہیم و تحسین غالب کا نیا زاویہ فراہم کرتے ہیں۔ کلام غالب میں متصوفانہ تصورات کے بارے میں میں لکھتے ہیں کہ غالب کی زندگی متصوفانہ سرگرمیوں سے عبارت نہیں تھی۔ ان کے تخلیقی ذہن کی نشو و نما ہند آریائی کلچر کے زیر اثر ہوئی۔ یہ پیکر غالب کو اردو زبان کے وسیلے سے ملا تھا۔
شکیل الرحمن کا خیال یہ ہے کہ ’’لہو‘‘ اور ’’سرخ‘‘ رنگ سے غالب کو جذباتی وابستگی تھی اور انھوں نے ان دونوں ’’استعاروں ‘‘ کو بڑی بلاغت کے ساتھ شعر کا جزو بنا کر اپنے دائرہ تفہیم کو وسعت عطا کی ہے۔ رنگ، رقص اور تحرک کی علامتی حیثیت کے شعری اظہار اور فکری اسرار کی پرتیں کھولتی ہے۔ غالب کو مختلف رنگوں کی معنویت کا احساس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاہ، سبز اور سرخ رنگ حسن سے متعلق علامتوں کے اسرار کا امین ہے۔ زلف سیاہ، زمرد، داغ لالہ، پر طوطی، سبزہ رنگ حسن، سبز غبار، سرمہ، تیرگی اختر، داغ مہ، سایہ اور دیدہ آہو کا ذکر غالب کے اشعار میں محض لفظوں کی خانہ پری نہیں، ان کے وسیع معنوی جہات کا احاطہ کرنے کا رجحان ہے۔ شکیل الرحمن تصویر اور شعری پیکروں میں رنگون کے امتزاج اور ان کی کیفیات کی اثر آفرینی سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے وسیلے سے وہ تخلیق کے سر چشموں اور تخلیق کار کی ذات تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مصوری اور شاعری میں رنگوں کو گویائی عطا کی جاتی ہے۔ شکیل الرحمن پر فنون لطیفہ کا یہ رمز آشکار ہو چکا ہے۔ مثنوی ’’چراغ دیر‘‘ مثال میں پیش کی جا سکتی ہیں جس میں تین رنگوں کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے، سرخ، آسمانی اور سبز۔
اپنی کتاب ’’میر شناسی‘‘ میں شکیل الرحمن نے اس تخلیق کار کو ایک نئے زاویے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہندوستانی جمالیات میں ’’شرینگار رس‘‘ کو مرکزی اہمیت حاصل ہے اور وہ تمام رسوں کا سرچشمہ تصور کیا جاتا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں کہ ’’یہ رس محبت اور غم کے جذبوں سے پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘غم کا جذبہ باطن میں کتھارسس کی کیفیت بھی پیدا کرتا ہے جس سے شعور، احساس اور تخیل متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ معروف عالم جمالیات ابھی نوگپت کا حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ شرینگار رس ’’سرنگ‘‘ (Sringa) سے نکلا ہے جس کے مفہوم میں سیکس کی جبلت بھی شامل ہے اور شرینگار رس اس تجربے کی ترجمانی کرتا ہے جو عشق سے حاصل ہو اور سیکس کی جبلت کو متاثر کرے۔ شکیل الرحمن نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ جنس میر کے کلام میں اس طرح موجود نہیں جیسے اردو کے بعض اور شعرا کے اشعار میں نظر آتی ہے۔ شکیل الرحمن ایک جمالیاتی نقاد ہیں اس لیے وہ میر کی شاعری میں جمالیات کی کارفرمائی اور جلوہ گری کو اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہیں۔ اس کا خلاصہ نقاد کے الفاظ میں یہ ہے کہ ’’فنکار کی سائیکی کو جو روحانی، جمالیاتی انبساط اور درد کی رومانی اور جمالیاتی لذت حاصل ہوتی ہے انھوں نے بڑی سادگی سے قاری کی سائیکی کو عطا کر دیا ہے۔ شکیل الرحمن نے اس تصنیف میں میر کے بعض اشعار کا تجزیہ کرتے ہوئے فکر و فلسفہ اور جمالیاتی شعور کے آئینے میں میر کے تجربے اور احساس کا عکس دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ شکیل الرحمن نے میر پر یہ تنقید کی ہے کہ ان کے یہاں خیال اور جذبے کا تنوع موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میر کی شاعری میں ایک رنگ ہے لیکن بہت گہرا اور پر اثر۔ میر شناسی کے سلسلے میں شکیل الرحمن نے ارسطو اور کروچے کے حوالے نہیں دیے ہیں بلکہ ابھی نوگپت کے تصورات سے استفادہ کیا ہے۔ اس میں نقاد کو اگر کوئی کمی نظر آتی ہے تو وہ یہ کہ یہ شاعری ’’جہت دار‘‘ اور ’’پہلو دار‘‘ نہیں ہے (صفحہ83)، لیکن جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ میر کے کلام کا مرکزی جذبہ عشق ہے، جس کی مختلف کیفیات اور جاں گداز تجربات کو انھوں نے اپنی شخصیت کے سارے سوز و ساز اور التہاب کے ساتھ لفظوں میں ڈھال دیا ہے۔ ایسی شاعری اس شاعری سے بہتر ہوتی ہے جو رنگا رنگ مناظر کو سرسری طور پر دیکھتی ہوئی گزر جاتی ہے اور دلوں کو متاثر نہیں کرتی۔ اپنے عہد کے ایک قوی ادبی رجحان ایہام گوئی کو بھی میر نے درخور اعتنا نہیں سمجھا ؎
کیا جانے دل کو کھینچے ہیں کیوں شعر میر کے
کچھ ایسا طرز بھی نہیں ایہام بھی نہیں
ظاہری طمطراق یا شعری صناعی نہیں بلکہ جذبے کی آنچ اور اس کی صداقت دلوں کو کھنچتی ہے۔
ابوالکلام آزاد کی تحریروں میں شکیل الرحمن کو ان کے جمالیاتی شعور کی جھلک جا بجا نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے ’’غبار خاطر‘‘ پر تنقید کی تھی کہ اس میں آزاد کی ’’اصل نثر‘‘ کا سراغ نہیں ملتا اور ان کے مخصوص اسلوب سے یہ تصنیف بہت دور ہے۔ اس کتاب میں ابوالکلام آزاد کا قلم ’’بیمار اور ضعیف‘‘ نظر آتا ہے۔ شکیل الرحمن نے اس خیال کی تردید کی ہے۔ وہ ’’غبار خاطر‘‘ کی نثر کو اردو ادب کے لیے سرمایہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ لکھا ہے: ’’اردو کی ادبی تنقید، آرٹ اور اس کے جو ہر کے تئیں زیادہ بیدار نہیں ہوئی ہے۔ آرٹ کے شعور کی کمی یقیناً محسوس … ’’ترجمان القرآن‘‘ کے اسلوب کی جمالیات اور غبار خاطر کی رومانیت سے اردو نثر میں ’’سبلائم‘‘ اور ’’جمال‘‘ کا ایک عمدہ معیار قائم ہوتا ہے۔ ‘‘
شکیل الرحمن نے ’’غبار خاطر‘‘ میں رومانیت کے مختلف پیکر تلاش کیے اور ان کی نشاندہی کی ہے۔ ’’غبار خاطر‘‘ کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے : ’’غبار خاطر‘‘ پڑھتے ہوئے مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوا جیسے مولانا ابوالکلام آزاد کی رومانیت نے جنگل کے مور کی طرح اپنے پر کھول دیے ہیں اور ایک ایسے چمن کی تخلیق ہو گئی ہے جس میں طرح طرح کے پھول کھلے ہوئے ہیں۔ ’’نقاد نے ابوالکلام آزاد کی جمالیاتی حسیت کے علاوہ ان کی علمیت کو بھی سراہا ہے اور لکھتے ہیں کہ ’’ترجمان القرآن میں ابوالکلام آزاد نے اصحاب کہف، ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج کے بارے میں اپنے تحقیق شعور کا ثبوت دیا ہے۔ ‘‘
(اقتباس)
٭٭٭