جبران سے ملیے ۔۔۔ مبصر: غلام ابن سلطان

نام کتاب: جبران سے ملیے

مرتبین: شجاع الدین غوری، ڈاکٹر صابر علی ہاشمی، وضاحت نسیم

جبران اشاعت گھر، کراچی، اشاعت اول، ۲۰۱۸۔

 

اس عالمِ آب و گِل کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کی ہر شے مسافر ہے اور ہر چیز راہی ہے۔ جب زندگی کی مسافت کٹ جاتی ہے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ مسافر کا پیرہن سفر کی دھُول کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ عزیز جبران انصاری نے 3۔ ستمبر 1940کو اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا۔ اس سفر میں ان کے ساتھ جو احباب شریک سفر رہے ان کی زبانی عزیز جبران انصاری کی شخصیت کی لفظی مرقع نگاری پر مبنی یہ وقیع کتاب مطالعۂ احوال کا اہم بنیادی ماخذ ہے۔ عزیز جبران انصاری سے ملاقات کرانے کی خاطر وطن عزیز کے اسی (80) کے قریب ممتاز ادیبوں نے اس کتاب میں اپنی انجمن خیال سجائی ہے۔ اپنے عہد کے ان یگانۂ روزگار ادیبوں نے دل کش و حسین لفظوں کاسائبان بنا کر عزیز جبران انصاری سے وابستہ طاقِ دِل میں سجی یادوں کو جس منفرد انداز میں زیب قرطاس کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان میں سے کچھ ادیب ایسے بھی ہیں جو طویل عرصہ تک افق ادب پر مثل آفتاب و ماہتاب ضو فشاں رہنے کے بعد عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گئے۔ ان کی تحریریں اب ایام گزشتہ کی کتاب کی ایسی یادیں بن گئی ہیں جن کے نقوش تا ابد لوح دِل پر ثبت رہیں گے۔ اس کتاب کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس میں عزیز جبران انصاری کی مستحکم شخصیت اور منفرد اسلوب کے بارے میں قارئین کی دلچسپی کے لیے جو بے حد اہم مآخذ شامل ہیں ان میں اس رجحان ساز ادیب کا منتخب کلام، ملاقاتوں کا احوال اور خود نوشت کے اوراق بھی شامل ہیں۔ کتاب کے آغاز میں درج یہ شعر گہری معنویت کا حامل ہے:

خدا جانے اسے کس رنگ میں لکھے گی کل دنیا

رقم جبرانؔ ہم خود آج اپنی داستاں کر لیں

عزیز جبران انصاری ادبی تحقیق اور تنقید کے معائر سے آگاہ ہیں اس لیے انھوں نے اس کتاب میں اپنے بارے میں مستند معلومات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی مقدور بھر سعی کی ہے۔ آئیے دھنک کے اُس پار دیکھیں کہ چھے سو چالیس (640) صفحات کی اس کتاب میں کس جاں بخش اور طرب خیز انداز میں عزیز جبران انصاری سے قارئین کی ملاقات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اردو زبان کے ان ممتاز ادیبوں نے عزیز جبران انصاری کی باغ و بہار شخصیت اور منفرد اسلوب کے بارے میں جو بے لاگ رائے دی ہے وہ محققین اور ادب کے عام قارئین کے لیے افادیت سے لبریز ہے۔ بادی النظر میں یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ خضر کی رہنمائی کی باتیں، آب حیات کی سوغاتیں اور جاہ و حشمت کی سب باتیں محض داستانیں اور فنا کی گھاتیں ہیں۔ کوہِ ندا کی سناونی سے جب ساتواں در کھلتا ہے تو وقت کے ہر رستم کا زہرہ آب ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر گل و گلزار پر جان چھڑکنے والے باغبان گلشن کو خدا حافظ کہہ کر عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیتے ہیں، جہاں سے شاخ ٹُوٹتی ہے وہیں سے نئی کونپل نمو پاتی ہے اور نئے عنادل کی صدا زندگی کے پیہم رواں رہنے کی دلیل بن جاتی ہے۔ خورشید جہاں تاب کی ایک شعاع ہی شبنم کی فنا کا پیغام بن جاتی ہے مگر زندہ و تابندہ الفاظ فنا کی دستبرد سے محفوظ رہتے ہیں۔ بقا کا راز اسی میں پوشیدہ ہے کہ عظمت انسانیت کے لیے انسان جان کی بازی لگا دے۔ یہ وہ جری تخلیق کار ہیں جنھوں نے ہر عہد میں حرف صداقت لکھنا اپنا شعار بنایا اور حریت ضمیر سے جینے کی راہ اپناتے ہوئے حریتِ فکر و عمل کا علم بلند رکھا۔ ان کی حق گوئی و بے باکی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ کتاب ’جبران سے مِلیے‘ میں عزیز جبران انصاری کی شخصیت کی لفظی مرقع نگاری کرنے والوں کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے:

ہمیں کو جرأت اظہار کا سلیقہ ہے

صدا کا قحط پڑے گا تو ہم ہی بولیں گے

پاکستان کے کئی ممتاز ادیبوں، جیسے انور سدید، انعام الحق جاوید، حمیرا راحت، عاصی کرنالی، نسیم سحر وغیرہ وغیرہ، کے اشہب قلم کی جولانیوں کے اعجاز سے اس معرکہ آرا کتاب میں انسان شناسی کے متعدد نئے امکانات سامنے آئے ہیں۔

اس کتاب کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ عزیز جبران انصاری کی شخصیت بہ ظاہر ایک پُر سکون سمندر ہے مگر اس کی تہہ میں پنہاں دُرِ نایاب سطح کے نیچے سمٹے تلاطم کا احساس و ادراک مطالعہ احوال کا اہم ترین تقاضا ہے۔ یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ یہی وہ پہلو ہیں جو قاری کے فکر و خیال کو مہمیز کرتے ہیں۔ رخشِ حیات پیہم رو میں ہے گردش ایام کے نتیجے میں یہاں زندگی ایک جبر مسلسل کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ماہرین علم بشریات کی رائے ہے کہ معاشرتی زندگی میں افراد کے باہمی تعلقات، روّیے اور رُوپ مسکرانے، للکارنے، دھتکارنے، سسکنے، بسورنے، آہیں بھرنے، آنکھیں چار کرنے، زہر مار کرنے، کھانسنے اور چھینکنے کی صورت میں موسموں کے مانند رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ تزکیہ نفس کے سلسلے میں محض چھینکنا ہی غم سے نجات پانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ گویا چھینکنا بھی ایک ایسا فعل بن جاتا ہے جو سمے کے سم کے ثمر کے مسموم اثرات کو کافور کرنے کی مسحور کن صورت سامنے لاتا ہے۔ زندگی آموز ادب کی تخلیق کے لیے گردشِ حالات سے ناخوش و بیزار رہنے کے بجائے اپنے حصے کی مشعل کو فروزاں رکھنا از بس ضروری ہے۔ اس کتاب میں شامل مضامین کا بہ نظر غائر مطالعہ کرنے سے اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ تمام مضمون نگاروں نے اپنی رجائیت پسندی اور وسیع النظری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک عبقری دانش ور کے بارے میں حقائق کی گرہ کشائی کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا۔

عزیز جبران انصاری نے زندگی بھر حوصلے اور امید کا دامن تھام کر سفاک ظلمتوں میں بھی چراغِ تمنا فروزاں رکھنے کی راہ دکھائی ہے۔ عزیز جبران انصاری نے خود اعتمادی، عزتِ نفس، فن کار کی انا اور خود داری کا بھرم قائم رکھتے ہوئے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے جس بے باکی سے معاشرتی زندگی سے وابستہ تلخ حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائق صد رشک و تحسین ہے۔ ان کا اسلوب معاصرین کے لیے ایک مثال بن گیا ہے جسے لمحات کے بجائے ہر عہد کی علمی و ادبی تخلیقات، تخلیقِ ادب کے محرکات اور تاریخی واقعات میں پذیرائی ملے گی۔ اپنے خون جگر کی آمیزش سے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے اس بلند ہمت تخلیق کار نے عزم و یقین کے ساتھ افکارِ تازہ کی جستجو کی خاطر روشنی کے جس سفر کا آغاز کیا وہ آنے والی نسلوں کے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرتا رہے گا اور جہانِ تازہ کی نوید سناتا رہے گا۔ عزیز جبران انصاری کی طرز فغاں کے بارے میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ذوقِ سلیم سے متمتع تخلیق کاروں کے لیے مستقبل میں یہی طرزِ ادا ٹھہرے گی۔ مضمون نگاروں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ایک پُر عزم تخلیق کار کی حیثیت سے عزیز جبران انصاری نے قارئین کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی سعی کی ہے کہ حیاتِ جاوداں کا راز ستیز میں پنہاں ہے۔

ایک کثیر التصانیف ادیب کی حیثیت سے عزیز جبران انصاری کے ہر صنف ادب میں اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا ہے۔ زود نویس ادیبوں کے بارے میں اکثر ناقدین کی یہ رائے کہ ان کی زود نویسی بھی ادب کی ثروت میں غیر معمولی اضافہ کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے۔ اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حزم و حجاب، مصلحت اندیشی اور بلا جواز اعتدال تخلیقِ فن کی راہوں میں سدِ سکندری بن کر حائل ہو جاتا ہے۔ عزیز جبران انصاری کے خیال میں تخلیقِ ادب میں فراوانی جہاں تزکیہ نفس کے سلسلے میں تخلیق کار کے لیے شادمانیوں کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے وہاں اس کے معجز نما اثر سے عملی زندگی میں یہ فقید المثال کامرانیوں کی نقیب بھی ہے۔ عزیز جبران انصاری کی شخصیت اور اسلوب پر لکھے گئے ان مضامین کے مطالعہ سے قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ایک جری تخلیق کار تیشۂ حرف سے ہر فصیلِ جبر کو پاش پاش کرنے پر قادر ہے۔ اس کے باوجود ادیب کی زندگی میں کئی ایسے سخت مقامات بھی آ تے ہیں جہاں وہ محو حیرت رہ جاتا ہے اور اس کی کوئی امید بر نہیں آتی اور نہ ہی اصلاح احوال کی کوئی صورت دکھائی دیتی ہے۔ ایسے مقامات میں کورانہ تقلید، توہم پرستی اور جہالت کے سراب اور اِن کے پیدا کردہ فتنے ہیں جنھیں حساس تخلیق کار دِل پر ہاتھ رکھ کر پر نم آنکھوں سے دیکھنے کے بعد ان کے تباہ کن اثرات کے بارے میں سوچتا ہے اور اس طرح دُہرے عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایسے جان لیوا سانحات اور سخت واقعات کی تاب لانا بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ یہ وہ مصائب و آلام ہیں جو فکری بے اعتدالیوں کاسبب بن کر معاشرتی زندگی میں زہر گھول دیتے ہیں۔ انسان صبح خیزیوں، رہزنوں، قزاقوں اور اچکوں سے تو جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو سکتا ہے مگر رہبر جب پیرِ تسمہ پا بن جائیں تو اس الم ناک ستم کا ازالہ کیسے ممکن ہے۔ چربہ سازی، سرقہ، کور مغزی، بے بصری اور تقلید کی مہلک روش سے ایسی فکری کجی پیدا ہوتی ہے جو ذہنی افلاس کی راہ ہموار کر کے تخلیقی عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے