بڑی سہانی سی رات تھی وہ
ہوا میں انجانی کھوئی کھوئی مہک رچی تھی
بہار کی خوشگوار حدت سے رات گلنار ہو رہی تھی
رو پہلے سپنے سے، آسمان پر سحاب بنکر بکھر گئے تھے
اور ایسی اک رات
ایک آنگن میں کوئی لڑکی کھڑی ہوئی تھی
خموش۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ تنہا
وہ اپنی نازک، حسین سوچوں کے شہر میں کھو کے رہ گئی تھی
دھنک کے سب رنگ اس کی آنکھوں میں بھر گئے تھے
وہ ایسی ہی رات تھی کہ راہوں میں اس کی، موتی بکھر گئے تھے
ہزار چھوتے، کنوارے سپنے
نظر میں اس کی، چمک رہے تھے
شریر سی رات کو چپکے سے وہ کہانی سنا رہی تھی
کہ آج
وہ اپنی چوڑیوں کی کھنک سے شرمائی جا رہی تھی
آخر کار یہ ساعت بھی قریب آ پہنچی
آخر کار یہ ساعت بھی قریب آ پہنچی
تو مری جان کسی اور کی ہو جائے گی
کل تلک میرا مقدر تھی تری زلف کی شام
کیا تغیر ہے اب غیر کی کہلائے گی
میرے غم خانے میں تو اب نہ کبھی آئے گی
تیری سہمی ہوئی معصوم نگاہوں کی زباں
میری محبوب کوئی اجنبی کیا سمجھے گا
کچھ جو سمجھا بھی تو اس عین خوشی کے ہنگام
تیری خاموش نگاہی کو حیا سمجھے گا
میری دم ساز زمانے سے چلی آتی ہیں
رہن غم وقف الم سادہ لوں کی آنکھیں
اور رولیں کوئی دم سادہ لوں کی آنکھیں
٭٭٭