جوئنده
میری گاڑی جہنم کی طرف منہ کئے ہوئے ہے۔
پٹرول پھنک رہا ہے اور انجن چل رہا ہے مگر گاڑی گئیر میں نہیں آ پا رہی اور جوں کی توں راستے میں کھڑی ہے۔ اور میرا دم اس خوف سے خشک ہو رہا ہے کہ میرا سارا تیل اسی طرح کھڑے کھڑے پھنک گیا تو میں اپنی منزل پر کیسے پہنچوں گا اور میری نجات کیونکر ہو گی۔
٭٭٭
نا زائیده
میں دور دراز مستقبل کی خاک چھانتا رہتا ہوں لیکن جو کچھ ابھی آگے جا کے پیش آنا ہو وہ اسی دم کیونکر پیش آئے؟۔۔۔۔ہاں، اور کیا؟ وہاں سے کورے کا کورا لوٹ آتا ہوں۔۔۔۔نہیں، مستقبل کی بود و باش کے باعث حال بھی مجھے اپنا ماضی معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔۔مجھے لگتا ہے میرے یہ ماں باپ، بہن بھائی اور بیوی بچے جو اس وقت میرے سامنے ہیں کبھی ہو بہو اسی مانند ہوا کرتے تھے اور جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے وہ دراصل ہو چکا ہے۔ میرا کچھ بھی باقی نہیں رہا، میں بھی نہیں رہا۔۔۔۔۔۔نہیں، اب مجھ میں اور انتظار کی تاب نہیں ـ میں چاہتا ہوں کہ آگے پیچھے کی بے کراں ویرانیوں سے لڑھک آؤں اور اپنے ننھے منے ہاتھ پیر مارتے ہوئے حال کی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں میری پیدائش ہو جائے اور میں وہاں دم بدم جیوں۔
٭٭٭
چھوٹے لوگ
آؤ اپنے گھروندوں کے گاؤں لوٹ جائیں ساجن۔ اس شہر کے اونچے محل اندیشے بن بن کر مجھے گھیرے رکھتے ہیں۔
٭٭٭
زمین کے وارث
موت کے فرشتے خدا سے اور بہتر مراعات طلب کرنے لگے اور ان کی مانگیں پوری نہ ہوئیں تو انھوں نے احتجاجاً ہڑتال کر دی۔
خدا نے غصے میں آ کر سبھوں کو زمین پر پھنکوا دیا۔
زمین پر انسان احتجاج کرنے لگے کہ پہلے ہی ہم پر جینا اتنا تنگ ہے، یہ فرشتے بھی یہیں بس گئے تو ہم کہاں جائیں گے؟
” عالم بالا میں! ” فرشتوں نے انھیں دھمکانے کے انداز میں بتایا۔
فرشتوں اور انسانوں میں گھمسان کی جنگ ہوئی۔ فرشتے تو غیر فانی تھے، مرے سارے کے سارے انسان ہی، اور جو مرنے سے بچ گئے انہیں فرشتوں نے اس لئے زندہ رہنے دیا کہ یہ بھی نہ رہے تو نوکر چاکر کہاں سے مہیا ہوں گے۔
راوی کا بیان ہے انسان بے چارے اب صرف اس امید پر زندہ رہنے لگے کہ آخر کب تک دم نہ نکلے گا، دم نکلتے ہی مزے سے اوپر جا بسیں گے۔
٭٭٭