قاضی عبد الستار اور افسانے کی تنقید ۔۔۔ نوشاد منظر

پدم شری قاضی عبد الستار کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اردو اور ہندی دونوں ہی زبانوں میں یکساں مقبولیت حاصل کی، ان کی بعض کہانیاں مثلاً بادل، رضو باجی، روپا، پیتل کا گھنٹہ، دیوالی اور میراث وغیرہ ایسی کہانیاں ہیں جو ہندی میں بار بار شائع ہوئیں، ان کے کئی ناول بھی شائع ہوئے۔ ان کا مشہور ناول دارا شکوہ کو بھی قارئین نے پسند کیا۔ قاضی عبد الستار نے دو درجن سے زائد تنقیدی مضامین لکھے۔ ان کی ایک اہم کتاب اردو شاعری میں قنوطیت ہے، جس پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی تفویض ہوئی۔ میں نے قاضی عبد الستار کے ان مضامین کو اپنے مطالعہ کے لیے منتخب کیا ہے جن کا تعلق افسانے کی تنقید سے ہے۔

قاضی عبد الستار کا ایک مضمون فن افسانہ نگاری ہے۔ افسانہ نگاری کے متعلق ان کا یہ بیان افسانہ کی تکنیک ’چاول پر قل ھو اللہ لکھنے کی تکنیک ہے‘ کافی مشہور ہوا۔ افسانہ نگاری کے تعلق سے وہ لکھتے ہیں

’افسانہ اگر بہترین افسانہ ہے تو ادب کی تمام اصناف میں سب سے مشکل صنف سخن ہے۔ اس کی ابتدا محدود ہے۔ کرداروں میں زندگی پیدا کرنا بنیادی قدر ہے۔ کہانی کھولنا نقطۂ عروج کا پیدا کرنا اور پھر افسانے کو اس طرح سمیٹ لینا کہ سارا عمل دس ہزار الفاظ کے آنگن ہی میں رہے، عام طور پر اس کی ایک مشکل شرط ہے۔‘

(فن افسانہ نگاری، قاضی عبد الستار، صفحہ: 507، نذر قاضی عبد الستار، مرتب محمد غیاث الدین (

قاضی عبد الستار کا مذکورہ اقتباس ان کے بیان ’افسانہ چاول پر قل ھو اللہ لکھنے کی تکنیک ہے‘ کی وضاحت کرتا ہے۔ بعض ناقدین نے افسانے کو ناول کی چھوٹی شکل کے طور پر بھی دیکھنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ فنی اعتبار سے یہ درست نہیں، قاضی عبد الستار نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ افسانہ بالکل الگ آرٹ ہے۔ قاضی عبد الستار کا خیال ہے کہ افسانہ نگار افسانہ لکھتے وقت محدود، حدود کا پابند ہوتا ہے۔ پلاٹ، کردار، بیان اور دوسرے افسانوی عناصر کو ایک چھوٹے کینوس میں پیش کش کو قاضی عبد الستار افسانہ نگار کا فرض العین تصور کرتے ہیں۔ افسانہ نگاری کے عناصر پر گفتگو کرتے ہوئے قاضی عبد الستار لکھتے ہیں

’’اچھے افسانہ کے ان تمام عناصر (پلاٹ، کردار، مکالمہ وغیرہ) کا افسانے میں اظہار کرنا ہوتا ہے اور ان عناصر کو زیادہ سے زیادہ حسن کاری، تاثر کے ساتھ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ دو ہزار سے دس ہزار الفاظ تک کے خرچ میں سارے مصارف کا گزاراں کرنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں افسانہ کا ہر لفظ ایک قیمت رکھتا ہے۔ ‘‘ (فن افسانہ نگاری، قاضی عبد الستار، نذر قاضی عبد الستار، مرتب محمد غیاث الدین، ص: 508 (

قاضی عبد الستار کے مذکورہ نظریے کو ایک خاص دائرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے جن عناصر کو افسانے کے لیے اہم اور ضروری بتایا ہے، اسے جدیدیت نے یکسر نظر انداز کیا۔ اختصار گرچہ افسانے کا جزو ہے، لیکن اسے الفاظ کی تعداد کا پابند بنانا مناسب نہیں۔ افسانے کے اختصار کے تعلق سے بعض ناقدین نے یہ خیال بھی پیش کیا ہے کہ افسانہ اتنا بڑا ہو کہ ایک ہی نشست میں ختم کر لیا جائے۔ افسانہ کی ضخامت سے متعلق قاضی عبد الستار لکھتے ہیں

’’افسانہ اپنی ضخامت کی بنا پر ایک سے زیادہ تاثرات کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔ افسانہ کو ایک ہی خیال یا واقعہ یا کردار کا آئینہ ہونا چاہئے۔ تعمیر، مشاہدہ، عمل سب کچھ ایک ہونا چاہئے۔ پلاٹ کا پیچیدہ بنانا اور تاثر میں شاخیں نکالنا افسانے کو تباہ کرتا ہے۔‘‘ (فن افسانہ نگاری، قاضی عبد الستار، نذر قاضی عبد الستار، مرتب محمد غیاث الدین۔ ص: 508-509 (

قاضی عبد الستار کا خیال ہے کہ بڑا فن کار مروجہ اصول و اقدار پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ نئی قدریں بھی وضع کرتا ہے، اس لیے افسانے کی ضخامت کا پیمانہ بدل سکتا ہے۔

قاضی عبد الستار افسانے کی طوالت کو افسانے کے فن کے منافی سمجھتے ہیں۔ وہ خود ایک تخلیق کار ہیں۔ وہ خود ایک تخلیق کار ہیں لہذا ان کا یہ پورا بیان محض تنقیدی بیان ہی نہیں بلکہ ایک تخلیقی حسیت کا بھی نمونہ ہے۔ ان کے خیال سے اختلاف کیا جا سکتا، مگر اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ اگر افسانہ طویل ہو گا تو واقعہ یا خیال کی مرکزیت باقی نہیں رہے گی۔ اگر واقعہ سے مختلف شاخیں نکلتی ہیں تو اسے وپ اپنی نظر سے دیکھتے ہیں۔

قاضی عبد الستار پلاٹ سے نکلنے والی پیچیدگی اور تاثر سے نکلنے والی شاخوں کو افسانے کی تباہ کاری کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ نیا افسانہ تو پلاٹ کی پیچیدگی اور تاثر کی ان ہی شاخوں سے پہچانا گیا۔ قاضی عبد الستار نے افسانے کی پیچیدگی اور تاثر کی شاخوں سے بے وجہ اختلاف نہیں کیا ہے۔ جدیدیت کے افسانوی اسلوب کی انہوں نے گرفت کی تھی۔ پلاٹ کی پیچیدگی اور افسانے کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا عمل ترقی پسند افسانوی اسلوب کے خلاف ایک ردّ عمل تھا۔ قاضی عبد الستار کے یہ خیالات ایک خاص ادبی صورت حال کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں۔ اختصار کے باوجود افسانے کا پلاٹ پیچیدہ بن سکتا ہے، اور اس سے تاثر کی مختلف شاخیں نکل سکتی ہیں۔

عموماً وحدت تاثر کو افسانے کے لیے ضروری اور اہم قرار دیا گیا ہے، غالباً اس کی ایک بڑی وجہ ادیب کا مقصدی ادب تخلیق کرنا تھا مگر بعد میں جدیدیت نے انفرادی اور وجودی مسائل کو فوقیت دی، اس کا اثر یہ ہوا کہ افسانے کی صنفی شناخت اور اس کی تعریف ہی بدل گئی۔ افسانے کا فن چونکہ اختصار کا فن ہے لہٰذا اس کا گٹھا ہوا ہونا ضروری ہے۔ قاضی عبد الستار افسانے کے لیے گٹھاؤ اور تناسب کو بے حد اہم قرار دیتے ہیں اور ان دونوں عناصر کے لیے پلاٹ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ قاضی عبد الستار افسانے کے پلاٹ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’افسانہ نگار کا پہلا فرض پلاٹ کی جستجو ہے۔ کہانی بیان کرنا اس کا اولین فریضہ ہے اور دوسری تمام چیزیں اس فریضے کے تابع ہیں۔‘‘ (فن افسانہ نگاری، قاضی عبد الستار: نذر قاضی عبد الستار، مرتب محمد غیاث الدین: ص: -509(

افسانے میں کہانی پن کو قاضی عبد الستار اہم مانتے ہیں، جہاں تک پلاٹ کا تعلق ہے تو اس بابت ان کا خیال ہے کہ پلاٹ کسی کردار یا واقعہ کی بنیاد پر بھی بنایا جا سکتا ہے۔ قاضی عبد الستار نے افسانے کے اجزائے ترکیبی پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، ان کا خیال ہے کہ افسانہ نگار کو چاہئے کہ کردار کا مختصر تعارف ضرور پیش کر دے مگر تفصیل سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ وہ مکالمے یا ڈائیلاگ کو افسانے کا اہم مسئلہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ڈائیلاگ پلاٹ کو کھولنے کا فرض انجام دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ افسانہ، ناول کے مقابلے ڈرامہ سے زیادہ نزدیک ہے۔ انھوں نے ایجاز و اختصار کو ڈرامہ اور افسانہ دونوں کے لیے ضروری بتایا ہے۔

قاضی عبد الستار کا ایک مضمون رسالہ کتاب لکھنؤ، جولائی 1972 میں شائع ہوا تھا، اس مضمون کا عنوان ’جدید افسانہ: ایک مسئلہ‘ تھا۔ یہ مضمون میری ترتیب کردہ کتاب ’افسانہ اور افسانہ نگار‘ میں شامل ہے۔ اس مضمون میں قاضی عبد الستار نے جدید افسانے اوراس کی ادبی شناخت پر گفتگو کی ہے۔ قاضی عبد الستار لکھتے ہیں

’’جدید افسانہ ایک ایسی اکائی ہے جس میں کلاسیکی، سماجی، نفسیاتی، علاقائی علامتی اور تجریدی ہر رنگ اور روپ کی کہانی کی سمائی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس جدید افسانے کے آئینے میں جدید ہندوستان کی کوئی کروٹ کوئی ادا کوئی چہرہ یا کوئی تل دیکھا جا سکے۔ اس لئے کہ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جدید افسانہ کیوں ترقی پسند افسانہ کیوں نہیں ہے۔ افسانہ کیوں ہے۔ ترقی پسند تحریک سے پہلے بھی افسانہ لکھا جا رہا تھا اور اردو افسانے کا سب سے بڑا نام پریم چند پیدا ہو چکا تھا اس کے باوجود ہم تحریک کے فنکاروں کے افسانوں کا ترقی پسند افسانہ کہنے میں حق بجانب رہے ہیں۔ اس لئے کہ ترقی پسند افسانہ موضوع کے لحاظ سے رومانی، نصب العینی اور کسی حد تک خیالی زندگی سے نکل کر بے رحم حقیقت نگاری کی دنیا میں آ گیا۔ انقلاب کے نعرے لگانے لگا سرمایہ داری کے خلاف مزدور کا چیلنج بن گیا۔ عورت کی ایک آزاد تصویر بنانے پر اصرار کرنے لگا۔ غربت اور غلامی کے خلاف نہ صرف جہاد بلکہ ان کی جڑیں طبقاتی تقسیم میں تلاش کرنے لگا۔‘‘ (جدید افسانہ: ایک مسئلہ۔ قاضی عبد الستار۔ افسانہ اور افسانہ نگار: مرتب نوشاد منظر۔ ص ۴۸۱)

۱۹۶۰ کے بعد جو افسانے لکھے گئے اس کی اپنی ایک حیثیت تو ہے، اس دور کے بیشتر افسانہ نگار اپنے لئے ایک نئی راہ کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف ترقی پسند تحریک کو از سر نو شکل دینے کی کوشش کی جا رہی تھی تو دوسری طرف ایسے بھی افسانہ نگار تھے جو پریم چند کے نقش قدم پر چلنا تو دور ان کو رد کرنے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔ ادیبوں کا ایک گروہ ایسا بھی تھا جو ادیب کی آزادی کا نہ صرف قائل تھا بلکہ انسان کی داخلیت اور وجودی مسئلے کو اہمیت بھی دیتا تھا، یہی وجہ ہے کہ جب جدیدیت کا آغازہوا تو افسانہ نگاروں نے مختلف عناصر کی مدد سے اپنی داخلی کیفیت کو پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس میں کسی حد تک ان کو کامیابی بھی ملی۔ قاضی عبد الستار کا خیال ہے کہ جدید افسانہ نگاروں کو وہ عوامی شہرت اور مقبولیت نہیں ملی جو تحریک سے وابستہ افسانہ نگاروں کے حصے میں آئی۔ انہوں نے اس کے کئی اسباب پیش کئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جدیدیت کے پاس ایسا کوئی بھی بڑا افسانہ نگار نہیں جو منٹو، کرشن، بیدی اور عصمت کا ہم پلہ ہو۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ جب افسانے نے عوامی مسائل سے دوری قائم کی تو افسانہ اور قاری کا رشتہ کمزور ہو گیا۔ علامتی افسانوں کو بھی شہرت ملی مگر عوامی سطح پر جو مقبولیت ترقی پسند افسانوں کو ملی وہ جدیدیت کے حصے میں نہیں آئی۔ قاضی عبد الستار نے چند افسانوں کا حوالہ پیش کیا ہے مگر ان افسانوں کے متعلق لکھا ہے کچھ معرکے کی کہانیاں لکھی گئیں جو خراب کہانیوں کے ریگستان میں کھو گئیں ان گنت رسالوں کے جنگل میں بھٹک گئیں۔ قاضی عبد الستار نے جدید افسانے کی عدم مقبولیت کے اسباب پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں

’’دنیا کے سب سے بڑے ایگویسٹ جانور کا نام فنکار ہے۔ جب فنکار کو ایسی داد نہیں ملتی جیسی اس کے خیال میں اس کو ملنا ہی چاہئے تھی تو وہ زخمی چیتے کی طرح اندھا دھند حملے کرتا ہے یعنی وہ کہتا ہے کہ ہمارے راستے میں پرانی نسل کے افسانہ نگار کھڑے ہیں ان کو ہٹا دو۔ قطب مینار کی بلندی ہی اس کی بدصورتی ہے اسے ڈھا دو، ہم فنکار ہیں ڈاکٹر نہیں کہ سماج کا علاج ڈھونڈھتے پھریں۔ ہم ہرن پر گھاس لادنے کے خلاف ہیں۔ ہم خود اپنے قاری ہیں۔ ایسے نعرے لگانے والوں کی فہرست رام لال غیاث احمد گدی، اقبال متین، واجدہ تبسم، جیلانی بانو، شرون کمار ورما جیسے ناموں سے خالی تھی۔ اس لئے کہ یہ نام اپنی شہرت سے آسودہ تھے۔ دوسرے فنکار قطرہ قطرہ ٹپکتی ہوئی شہرت سے بیزار تھے اس لئے انہوں نے شہرت پر شب خون مارا۔ علامتی اور تجریدی افسانے کو اپنا میدان کہا اور اپنے آپ کو جدید افسانہ نگار کا لقب دیا۔ اس طرح جدیدیت کو محدود کرنے کی کوشش کی اور یہ بھول گئے کہ علامتی افسانہ ہو یا تجریدی افسانہ صنف افسانہ سے الگ کوئی صنف نہیں ہے۔ اور افسانہ تکنیک کی بھول بھلیوں کا نام نہیں ہوتا لفظوں کا معمہ نہیں ہوتا، فرد کے ذہن کا گورکھ دھندا نہیں ہوتا، افسانہ ایک ایسا آرٹ ہے جس میں دنیا کے کسی پہلو، انسانیت کے کسی رخ کو کسی علم کے سہارے اس طرح بُن دیا جائے کہ پڑھنے والوں کی کم از کم ایک اہم اقلیت لطف اندوزی اور بصیرت حاصل کر سکے۔‘‘ (جدید افسانہ: ایک مسئلہ۔ قاضی عبد الستار۔ افسانہ اور افسانہ نگار: مرتب نوشاد منظر۔ ۴۸۳۔ ۴۸۴)

قاری اور تخلیق کا ایک رشتہ ہے، جب جب اس رشتے میں کمزوری واقع ہو گی تو فن پارے کو عدم مقبولیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انسان کی داخلی کیفیات کا ذکر ایک حد تک تو درست ہے مگر فن پارے کا کوئی نہ کوئی رشتہ سماج سے ہونا ہی چاہیے۔ قاضی عبد الستار کے یہ خیالات جدیدیت کے افسانوی اسلوب کے خلاف معلوم ہوتے ہیں مگر ایک قاری قاری کے طور پر میں نے محسوس کیا ہے ان خیالات کا تعلق ایک افسانے کے اس قاری سے ہے جس کی ذہنی تربیت کلاسیکی فکشن نے کی ہے اور اس کی نگاہ میں قرأت کا مطلب متن سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا ہے۔ فنّی ہنر مندی کے نام پر افسانے کو معمہ نہیں بنایا جا سکتا۔ قاضی عبد الستار نے لکھا ہے کہ علامتی اور تجریدی افسانہ یا شعور کی رو جدیدیت کی پیداوار نہیں بلکہ انگارے سے ۱۹۶۰ تک کئی ایسے افسانے لکھے گئے جن میں علامت، تجریدیت، شعور کی رو اور اساطیری عناصر کا استعمال ہوا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ علامتی افسانہ زیادہ محنت اور بصیرت کا متقاضی ہے۔ علامتوں کے استعمال کے لیے وہ قاری کی آزادی کے قائل ہیں، مگر انہیں اس بات سے شکایت بھی ہے کہ علامتی کہانیوں کو لکھنے میں افسانہ نگار نے افسانے کے فن کا خیال نہیں کیا۔ وہ لکھتے ہیں

’’علامتی کہانی اس قلم نے لکھنے کی جسارت کی جو کلاسیکی کہانی لکھنے سے عاجز تھا۔ اردو افسانے کی فنی ذمہ داری قبول کرنے سے قاصر تھا۔ اس نے اپنی کمزوری چھپانے اور دوسروں کا منہ بند کرنے کے لئے علامتی کہانی کی ریت میں پناہ لی۔‘‘ (جدید افسانہ: ایک مسئلہ۔ قاضی عبد الستار۔ افسانہ اور افسانہ نگار: مرتب نوشاد منظر۔ ص: ۴۸۴(

قاضی عبد الستار کا خیال ہے کہ احمد علی، کرشن چندر اور ممتاز شیریں وغیرہ کی بعض کہانیوں میں علامت اور تجریدی عناصر موجود ہیں، قاضی عبد الستار کو اس بات سے شکایت ہے کہ بعض افسانہ نگاروں نے لاعلمی میں علامت اور تجریدیت کو خلط ملط کر دیا ہے، حالانکہ انہوں نے کسی افسانہ نگار کا ذکر نہیں کیا مگر ان کا اشارہ جدید افسانہ نگاروں کی طرف ہے۔ انہوں نے بلراج مین را، سریندر پرکاش، شفیع جاوید اور انور سجاد وغیرہ جیسے افسانہ نگاروں کے متعلق لکھا ہے کہ اگر یہ لوگ ذرا صبر سے کام لیں تو تجریدی افسانہ نگاری میں اپنی شناخت قائم کر سکتے ہیں۔

قاضی عبد الستار کے یہاں عوام کی اہمیت کا احساس بار بار ملتا ہے، وہ علامتوں کے استعمال کے خلاف نہیں اور نہ ہی تجریدیت کو افسانے کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں بلکہ ان کا خیال ہے کہ افسانہ نگاروں کو ان عناصر کے برتنے کا ہنر آنا چاہیے۔

 

http: //www.urdufiction.com/mazamin_details.php?id=51

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے