غزل اعجاز عبید

غزل

اعجاز عبید

وہ جسے سن سکے وہ صدا مانگ لوں
جاگنے کی ہے شب کچھ دعا مانگ لوں

اس مرض کی تو شاید دوا ہی نہیں
دے رہا ہے وہ، دل کی شفا مانگ لوں

عفو ہوتے ہوں آزار سے گر گناہ
میں بھی رسوائی کی کچھ جزا مانگ لوں

شاید اس بار اس سے ملاقات ہو
بارے اب سچے ّ دل سے دعا مانگ لوں

یہ خزانہ لٹانے کو آیا ہوں میں
اس کو ڈر ہے کہ اب جانے کیا مانگ لوں

اب کوئی تیر تر کش میں باقی نہیں
اپنے رب سے صداۓ رسا مانگ لوں

جمع کرتا ہوں میں ظلم کی آیتیں
کس کے سر سے گری ہے ردا، مانگ لوں

؂

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے