غزلیں ۔۔۔ کاشف حسین غائر

 

یہ کیسی راہ سے کل رات ناگہاں گزرا

کہ مجھ کو خود پہ کسی اور کا گماں گزرا

 

وہ چار روز کی بھی زندگی مزے میں کٹی

ذرا سا وقت تھا لیکن کہاں کہاں گزرا

 

مسافروں کو یہ رستے بھی یاد رکھتے ہیں

ابھی فلاں نہیں گزرا، ابھی فلاں گزرا

 

سفر میں شکر مرا ہم سفر نہ تھا کوئی

مجھے تو رختِ سفر بھی بہت گراں گزرا

 

میں اتنے دن میں نیا آسماں بنا لیتا

کہ جتنا وقت مرا زیرِ آسماں گزرا

 

عجیب شخص تھا صاحب وہ داستاں گو بھی

ہمیں سناتا ہماری ہی داستاں گزرا

 

ہزار سانحے گزرے ہیں اور گزریں گے

مگر جو سانحہ غائر ہمارے ہاں گزرا

٭٭٭

 

 

 

 

 

سخن بغیر کہاں دن گزار سکتا ہوں

میں اپنی زندگی ورنہ سنوار سکتا ہوں

 

خدا کا شکر کہ زنداں میں یہ سہولت ہے

میں جب بھی چاہوں خدا کو پکار سکتا ہوں

 

میں آدمی ہوں مجھے آئنہ سمجھتا ہے

کسی بھی وقت کوئی رُوپ دھار سکتا ہوں

 

جناب یونہی تکلف میں پڑ رہے ہیں آپ

میں اِتنا بوجھ تو خود بھی سہار سکتا ہوں

 

یہ میں نہیں ہوں خداوند، میرے بچے ہیں!

میں ان کی خواہشیں کس طرح مار سکتا ہوں

 

یہ جنگ اصل میں اپنے خلاف ہے میری

نہ جیت سکتا ہوں اِس کو نہ ہار سکتا ہوں

 

میں اِس درخت کو کچھ اور دیکھ لوں غائر

تھکن کا کیا ہے کہیں بھی اُتار سکتا ہوں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے