غزلیں ۔۔۔ مصحف اقبال توصیفی

 

سر تکیے میں لاکھ چھپایا، دیکھ لیا

میں نے اپنا اصلی چہرہ دیکھ لیا

 

دانت کہاں اک مصنوعی بتیسی ہے

آنکھ ہے کانی، کان ہے ٹیڑھا دیکھ لیا

 

اب اک کالی گہری کھائی آئے گی

سایہ اپنے قد سے لمبا دیکھ لیا

 

بند آنکھوں میں آ بیٹھے ہو، بے پردہ

ایسے کوئی کرتا ہے پردہ دیکھ لیا

 

قیس کا کوئی گھر ہی کہاں تھا- بے چارہ

میں نے کمرے کا اک کونا دیکھ لیا

 

پاگل ہو تم، ساحل پر بیٹھے بیٹھے

ریت پہ میرا نام لکھا تھا، دیکھ لیا

 

خوابو! ننگے پاؤں چلے؟ جوتی پہنو

وہ آیا ہے اچھا اچھا دیکھ لیا

٭٭٭

 

 

ہوں کہیں میں مجھے گمان تو ہو

وہ اگر آئے دیکھ لے مجھ کو

 

ان دُکھوں میں ہی کاٹ دو گے عمر

جن دُکھوں کا کوئی علاج نہ ہو

 

اس قدر سوچنے سے کیا حاصل

اتنا کیوں سوچتے ہو مت سوچو

 

سامنے کب سے چائے رکھی ہے

دھوپ کھڑکی تک آ گئی ہے اُٹھو

 

پوچھتی تھیں تمہیں کہیں دیکھا

ماں کو تم اب بھی یاد آتی ہو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے