سہیلؔ غازی پوری: وسیع الموضوعات شاعر ۔۔۔ شبیر ناقدؔ

اقلیمِ شعر و سخن فاخر و نازاں ہے کہ اسے اعلیٰ پائے کے شعرا میسر آئے جن کے تخلیقی جواہر پاروں کی بدولت آج شہری تاریخ مالا مال ہے فکر و فن کے مشاہیر نئی نسلوں کے لیے مینارِ نور کی طرح ہوتے ہیں چند ایک موضوعات و اصناف پر تو ہر شاعر طبع آزمائی کر لیتا ہے بہت سے مضامین اور بہت سی ہیئتوں میں شعر گوئی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہوا کرتی انہیں وسیع الموضوعات احباب میں سہیلؔ غازی پوری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے جو چھ دہائیوں سے مشق شعر و سخن میں مصروف و منہمک ہیں ہمارے پاس ان کے مکمل شعری مجموعوں کا ریکارڈ تو نہیں ہے کہ ہم انھیں سلسلہ وار زیر بحث لائیں ہاں البتہ ان کے حوالے سے جمال ضیا اور احمد کمال کی تالیفی دستاویز مطبوعہ ۲۰۱۱ء ’’ سہیلؔ غازی پوری سے ملیے ‘‘ کے نام سے موجود ہے جس میں بر صغیر پاک و ہند کے سوا سو کے قریب ادباء جن میں کچھ شعرا بھی شامل ہیں کے غیر منظوم و منظوم تنقیدی معروضات شامل ہیں ان کے مختلف مجموعہ ہائے کلام کے منتخب اشعار کے تناظر میں ہم سہیلؔ غازی پوری کے فکر و فن کے حوالے سے اپنے تنقیدی تجزیات پیش کرتے ہیں۔

جب سخن گستر فکر و فن کے عمیق تجربوں سے گزرتا ہے تو اس قسم کے خیالات کا صدور ہوتا ہے اس حوالے سے سہیلؔ غازی پوری کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

 

میرے لیے یہ بات بڑی ہے کہ اب مجھے

پہچانتے ہیں لوگ مری داستان سے

 

مجھے بھی اپنی طرف دیکھنے نہیں دیتی

یہ کیسی ہجر کی دیوار ہے میرے اندر

 

یہ کیا کہ صرف ہدف دوسرے ہی بنتے رہیں

خود اپنے آپ کو بھی آئینہ دکھایا کر

 

سہیلؔ غازی پوری کی شعری ریاضت میں وہ خلوص اور چاہت ہے جو قاری کا دل موہ لیتی ہے یہ امر ان کے تجربے کا غماز ہے اور وہ بذاتِ خود اس امر سے آگاہ ہیں اور وہ اپنے آس پاس کے ماحول پر گہری نگاہ رکھتے ہیں پہلے شعر میں بھی اس حوالے سے بات کی گئی ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ بات میرے لیئے باعثِ افتخار ہے کہ لوگ مجھے میرے فن کی بدولت جانتے ہیں جو ایک داستان کی سی حیثیت اختیار کر چکا ہے دوسرا شعر ایک رودادِ ہجر بھی ہے اور محرومیوں کا قصہ بھی اصل میں لفظ ہجر ایک کثیر المعانی مفہوم کا حامل ہے کسی بھی چیز کا معدوم ہونا یا کسی بھی چیز کی عدم دستیابی اس کی جدائی سے تعبیر کی جاتی ہے جب ہجر بھیانک اور وحشیانہ صورت اختیار کرتا ہے تو انسان فطری طور پر خود اعراضی پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ وحشت دیوار کا روپ دھار لیتی ہے دیوار کے پار اپنے وجود کا نظر آنا محال ہو جاتا ہے تیسرے شعر میں ایک سماجی عمومی روئیے کی عکاسی کی گئی ہے فطری طور پر انسان دوسروں کو ہدف تنقید بناتا ہے جبکہ سہیلؔ غازی پوری خود احتسابی اور اپنی ذات پر تنقید کرنے کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہر بار دوسرے ہی تنقید کا نشانہ بنتے رہیں بلکہ انسان کو اپنے آپ کو بھی آئینہ دکھانا چاہیے کہ اس کی تصویر آئینے میں کیسی ہے یعنی اپنی ذات پر بھی تنقید روا ہے ایسی بات تب کی جاتی ہے جب اپنا من ہر قسم کی کثافت اور آلائش سے محفوظ ہواس شعر میں موصوف نے اپنی ذات کے سچ کو بیان کیا ہے اور حقیقت کی ترجمانی کی ہے۔

ان پر قدرت کی لطف و عنایت کیا ہے دیکھیے اس شعر میں۔

 

دعائیں مانگی تھیں دو چار پھول پتوں کی

چمن میں شاخ ثمر بار گر پڑی مجھ پر

 

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ شعراء اپنی قسمت سے شا کی ہوتے ہیں کبھی مقدر کا گلہ کرتے ہیں اور کبھی گردوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور یہ موضوع شعری روایات کا حصہ بن چکا ہے لیکن یہاں شاعرِ مذکور نے ایک غیر روایتی انداز میں بات کی ہے اور کہا ہے کہ میں نے تو استدعا کی تھی کہ مجھے دو چار پھول اور پتے میسر آئیں لیکن مشیت نے ایسی یاوری کی کہ گلستاں میں شاخِ ثمر جو ثمر سے معمور تھی میرے اوپر آ کر گر پڑی یعنی مجھے میرے تقاضے سے بھی فزوں تر نواز دیا گیا۔ اب ذرا بیدادِ زمانہ کی شکایت ان کی زبانی سنتے ہیں۔

 

پچھلی قطار میں ہیں کھڑے ساٹھ سال سے

شہرِ ہنر میں کون سے فنکار ہم ہوئے

 

دنیا میں نا انصافی کا راج ہے اور شعر و سخن جیسا مقدس شعبہ بھی اس کی چیرہ دستی سے محفوظ نہیں رہ سکا، وہ لوگ جنہوں نے اپنی عرق ریزیوں سے دنیائے شعر کو مہکا دیا ہے وہی ناقدری کا شکار ہیں اور بونوں کی علم داری ہے جنھیں انعامات و اعزازات سے نوازا جاتا ہے وہ لوگ جنھوں نے گیسوئے شعر سنوارنے میں شب و روز صرف کیے ان کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہے سہیلؔ غازی پوری کا یہ شعر اصل میں ناقدریِ جہاں کا ایک نوحہ ہے جو اپنے اندر بھرپور تاثر رکھتا ہے۔ سہیلؔ صاحب کی ندرت نگاری ملاحظہ ہو۔

 

وہ ایک شخص غموں کا اسیر تھا کب سے

خبر نہیں کہ پرستارِ میرؔ تھا کب سے

 

کچھ ایسے حرف لکھوں شاعری کے ماتھے پر

کہ تیرگی نہ رکے روشنی کے ماتھے پر

 

آنکھوں میں کوئی رنگ نہ دل میں کوئی امنگ

جیسے کہ بند تالے پہ قبضہ جمائے زنگ

 

فکر کے چراغوں کو کوئی تو جلائے گا

اے سہیلؔ ڈرنا کیا تند خو ہواؤں سے

 

پہلا شعر حزنیہ طرزِ فکر کا حامل ہے جس میں سہیلؔ غازی پوری صاحب بھی معتقدِ میرؔ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ایک شخص کا حوالہ دے کر اس کے مصائب و آلام کے ڈانڈے حزنِ میرؔ سے جا ملائے ہیں یہ شعر عظمتِ میرؔ کا عکاس بھی ہے اور حزن و ملال کا شاہکار بھی جس میں وقت کا کوئی تعین نہیں ہے دوسرے شعر میں شعر گوئی کا حسیں ضابطہ رقم کیا گیا ہے جس میں لکھنے والوں کو روشنی کا ایک ہالہ متعارف کرایا گیا ہے کہ میں ایک ایسی شعری روایت رقم کر جاؤں جس میں روشنی کے عکسِ جمیل پر تیرگی کا احتمال نہ رہے یہ شعر دنیائے شعر کے لیے ایک قند یل کی حیثیت رکھتا ہے جس سے شعور و آگہی کی لویں پھوٹ رہی ہیں اور شاعرِ موصوف کا فیض جاری ہے تیسرے شعر میں کئی شعری تلازمے کارگر نظر آتے ہیں جن میں آنکھیں رنگ، امنگ، بند تالے، قبضہ جمائے اور زنگ جیسی خوبصورت تمثیلات ہیں جہاں منظر نگاری کا دلکش رنگ آشکار ہو رہا ہے وہاں ان کی کہنہ مشقی بھی عیاں ہو رہی ہے اس شعر میں دل کی ویرانی کا دلکش اسلوب ہے جو اس امر کی غمازی کر رہا ہے کہ فکری تنوع کے ساتھ ساتھ قاری کے لیے ان کا اسلوبیاتی انداز بھی دلچسپ اور قابلِ غور ہے آخری شعر میں رجائیت کی جڑیں پھوٹ رہی ہیں اور اس امید کا بیانِ ذیشان ہے کہ فکر کے چراغوں سے روشنی کے سلسلے جاری وساری رہیں گے اور خود آموزی کے انداز میں کہا گیا ہے کہ تندو تیز او سرکش ہواؤں سے ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں جیسے کسی شاعر نے خوب کہا ہے۔

روشنی گر خدا کو ہو منظور

آندھیوں میں چراغ جلتے ہیں

ان اشعارسے شاعرِ بزرگوار کی فکر و فن سے دلی وابستگی کی عکاسی جلوہ ریز ہو رہی ہے میرے فاضل دوست اختر شاہ جہاں پوری نے اپنے تنقیدی شذرے میں سہیلؔ غازی پوری صاحب کو پاکستان کے صفِ اوّل کے شعرا میں شمار کیا ہے ہم سمجھتے ہیں یہ ان کے ساتھ زیادتی ہے ہمارے خیال میں وہ عصر حاضر کی دنیائے شعر کے صفِ اوّل کے شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔

شعور آگہی کی سطحوں کو اجاگر کرنے والا ان کا ایک اور شعر نذرِ قارئین ہے

فصیلِ جاں پہ اندھیرا ہے اے شبِ ہجراں

چراغ رکھنے کا کچھ اہتمام کرتے ہیں

موصوف زندگی کی آشوب زدگیوں کا گہرا ادراک رکھتے ہیں اور ان کا مداوا چاہتے ہیں وہ جہاں دوسروں کو ظلمتوں اور وحشتوں کے خلاف عملی تلقین کرتے ہیں وہاں خود بھی عملی طور پر فعال نظر آتے ہیں اور یہ امر ان کے خلوص کا مظہر ہے اس شعر میں بھی کچھ ایسا ہی سماں نظر آتا ہے اور فصیل جاں کی تیرگی سے رستگاری پانے کے لئے چراغ کا اہتمام کر رہے ہیں۔

آمدہ شعر میں شاعر کا تنقیدی شعور دیدنی ہے۔

 

نہیں ضوابطِ شعر و سخن مقرر کیا؟

جو حرف حرف نہ پرکھے وہ سخن ور کیا؟

 

اساتذۂ سخن کو بہت قلق ہوتا کہ جب کوئی شعری ضابطوں کی پاس داری نہیں کرتا یا ان کی حدود و قیود کو پھلانگتا ہے یہاں بھی وہ یہ فرما رہے ہیں کہ ضوابط شعر و سخن مقرر ہیں اور جو حرف حرف کو پر کھنا نہیں جانتا شاعر کہلانے کا استحقاق نہیں رکھتا یہاں ایک گہری شعری رمز کی بات کی گئی ہے۔

ان کا ایک سماجی خدمت کے حوالے کا حامل شعر دعوتِ التفات دے رہا ہے ؎

کسی کو ہنس کر کسی کو روکر دلاسے دینا

یہ در حقیقت عبادتیں ہیں خیال رکھیئے

شاعر یا تخلیق کار کے اندر جب تک خلوص کی جڑیں گہری نہیں ہوتیں اس وقت تک وہ معتبر نہیں ہو پاتا لیکن بفضلِ تعالیٰ جنابِ سہیلؔ خلوص کی دولت بے پایاں سے مالا مال ہیں ان کے اسی خلوص کا فیض ان کے کلام میں ایک موجزن سمندر کی مانند ہے شعر ہٰذا میں بھی یہی بات ہے جو قابل غور ہے جس میں یہ آدرش دیا جا رہا ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت عین عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور انسانیت کے زخموں پر مرہم کے لئے انہوں نے طریقہ ہائے کار بھی وضع کر دیئے ہیں کہ کسی کوہنس کردلاسہ دیں یا روکر یہ خیال رہے کہ یہ کارِ عبادت ہے۔

دو اور اشعار مجبورِ تبصرہ کر رہے ہیں ؎

 

اپنے حروفِ عصر کی تحقیر کیوں کریں؟

جو بات سچ نہ ہو اسے تحریر کیوں کریں؟

ہم نے بدل دیں سینکڑوں قوموں کی قسمتیں

اہلِ قلم ہیں خواہشِ شمشیر کیوں کریں

 

شعرِ اوّل میں موصوف نے عصری ادب کو حروف عصر سے موسوم کر کے حسن ایمائیت پیدا کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے ادب کی تحقیر کس لیے کریں اور جو بات صداقت کا درجہ نہیں رکھتی اسے ہم تحریر کیوں کریں صداقت پرستی ہر کھرے قلم کار کا شیوہ اور وطیرہ ہوا کرتی ہے اور موصوف بھی اس صفتِ عالیہ سے متصف ہیں شعرِ دوم میں بھی حزب القلم کی عظمت کا اعتراف ہے اور قلم کی حرمت کا بیانِ دل نشیں ہے اور یہ شعر بھی ایک تاریخی دستاویز کی سی حیثیت رکھتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اہلِ قلم نے سینکڑوں قوموں کی قسمت بدل دی اور ہم قلم کے وارث ہیں اور ہمیں شمشیر کی چنداں ضرورت نہیں ہے ہم اپنے قلم کے توسط سے اپنا لوہا منوا سکتے ہیں۔

گہری حساسیت کا آئینہ دار شعر دعوتِ غور دے رہا ہے ؎

 

ذرا سی بات سے دل ٹوٹ بھی تو سکتے ہیں

اس بات کا اکثر خیال رکھنا ہے

 

اس شعر میں روز مرہ زندگی کا ایک ضابطۂ اخلاق بتایا گیا ہے اگر ہر فرد اس کا عملی اطلاق اپنی ذات پر کرے تو یہ دینا بہشت بن سکتی ہے اصل میں بہشت کی تعریف بھی یہی ہے کہ ایک ایسا مقام جہاں آزار کو عمل دخل نہ ہو اس شعر میں ایک بسیط احساس پایا جاتا ہے کہ چھوٹی سی بات سے کسی کا دل ٹوٹ سکتا ہے اور زندگی میں اس بات کو خصوصی طور پر خاطر میں لانا ہے اصل میں حدیث مبارکہ کی روشنی میں مسلمان کی تعریف بھی یہی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں مومن ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

یہ چند جھلکیاں تھیں جو ہم نے سہیلؔ غازی پوری کے فکر و فن کے حوالے سے ہدیہ قارئین کی ہیں ان کے تمام تر اشعار سراپا انتخاب ہیں اور حوالے کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے حوالے سے خامہ فرسائی کے لئے دفتروں کے دفتر درکار ہیں ان کے فن کی کئی حیثیتیں ہیں اور ہر حیثیت معتبر سے انہوں نے کامیابی سے نعت گوئی بھی کی اور حمد نگاری بھی۔ اس نسبت سے ان کے مجموعے بھی آ چکے ہیں غزل تو ویسے بھی ان کی فنی پہچان ہے اس کے علاوہ انہوں نے ہائیکو پر بھی کامیابی سے مشاطگیِ فن کی ہے منظوم تبصروں کی کتاب کے بھی دو ایڈیشن آ چکے ہیں حال ہی میں انہوں نے تضمین نگاری کی نئی طرح ڈالی ہے اور تضمین کے کلاسیکی انداز سے تغیر کی راہ نکالی ہے جو ان کا جدا گانہ انداز ہے اور روایت کا روپ دھار نے کی بساط رکھتا ہے سہیلؔ غازی پوری کا غزل نگاری سے ایک دم آزاد نظم کی طرف راغب ہونا مذکورہ ہیئت کی پذیرائی پر دال ہے جس سے یہ قیاس بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ آزاد نظم اپنے وجود کو تسلیم کرانے میں مصروف و منہمک ہے اور اس سلسلے میں اسے اطمینان بخش کامیابی بھی میسر آئی ہے یہی وجہ سے کہ بیشتر سخنوران کے ہاں اس کا طوطی بولتا نظر آتا ہے۔

٭٭٭

(شبیر ناقد کی کتاب ’نقدِ فن‘ سے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے