سفرِ عشق ۔۔۔ طارق محمود مرزا (قسط۔۱)

 

رودادِ سفرِ حج

__________________________________

 

اپنی شریکِ حیات کے نام

جو شریکِ سفر بھی تھی

 

غمِ حیات نہ خوفِ قضا مدینے میں

نمازِ عشق کریں گے ادا مدینے میں

 

اپنی بات

__________________________________

 

میں جب حج ادا کرنے گیا تھا تو اس بارے میں لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ نہ دورانِ حج اور نہ واپس آنے کے فوراً بعد میں نے ایسا سوچا تھا۔ دورانِ حج میں نے کوئی تصویر بنائی، نہ ڈائری لکھی اور نہ نوٹ تحریر کیے تھے۔ میں تو صرف فرض ادا کرنے گیا تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس عقیدت بھرے سفر کی یادیں میرے ذہن و دل کو اس درجہ گرمانے لگیں کہ میں نے بے اختیار قلم اٹھا کر ان یادوں اور ان جذبوں کو قلم بند کرنا شروع کر دیا۔ یہ یادیں اور یہ سوچیں مجھے بے چین کیے ہوئے تھیں۔

لکھتے وقت میں نے یہ طے نہیں کیا تھا کہ اِسے کتابی شکل دینا ہے۔ مجھے اس تحریر کے مواد اور معیار کا بھی اندازہ نہیں تھا۔ میرے پاس اس موضوع پر لکھی ہوئی کوئی کتاب بھی نہیں تھی جس سے کچھ راہنمائی ملے۔ تاہم اتنا علم ضرور تھا کہ مجھ سے پہلے بہت اچھے مصنفین نے اس موضوع پر بہت اچھی کتابیں لکھ رکھی ہیں۔ میں جانتا تھا کہ میں اپنے خام علم اور فہم زبان و ادب سے نیم آشنائی کے ساتھ ان بڑے اور مشہور مصنفین کے لکھے ہوئے موضوع پر مزید اضافہ نہیں کر سکتا۔ لیکن میرا مسئلہ نہ تو کتاب لکھنا تھا نہ ہی اپنی تحریر کی دھاک بٹھانا تھی۔ مجھے تو صرف اپنے اندر کی آگ کم کرنی تھی۔ اپنے اندر کی تپش، بے قراری اور سلگتے جذبوں کو اظہار کے ذریعے ٹھنڈا کرنا مقصود تھا۔

یوں میں نے بے ارادہ اور بغیر تیاری کے لکھنا شروع کر دیا۔ نہ تو میرے پاس یادداشتیں محفوظ تھیں۔ نہ نوٹ لکھے ہوئے تھے۔ نہ تحریری حوالے تھے اور نہ کسی رفیقِ حج سے تبادلہ خیال ہوا تھا۔ صرف احساسات، جذبات اور مشاہدات تھے جنہیں احاطہ تحریر میں لانا تھا۔ ان جذبوں کو لفظوں میں پرونا آسان نہیں تھا۔ یہ عام کہانی یا ناول نہیں تھا جس میں قلم کار کو کھلی چھوٹ ہوتی ہے کہ وہ جہاں تک چاہے اشہبِ قلم دوڑا سکتا ہے۔ اس پر کوئی قدغن نہیں ہوتی۔ یہ عام افسانہ نہیں تھا جس میں مبالغہ آرائی کی جا سکتی ہے۔ نہ یہ کسی انوکھے مقام کی سیاحت تھی جس سے عام قاری واقف نہ ہوں۔ حجازِ مقدس اور مقاماتِ مقدسہ سے بچہ بچہ واقف ہے۔ اس لیے یہ میرا موضوع نہیں تھا۔ نہ ہی ایسی تقریب کی روداد تھی جس کو زورِ قلم سے رنگین بنایا جا سکے۔ نہ ہی دنیاوی نقطہ نظر سے خوبصورت اور دلکش مقامات کا ذکر تھا جس سے قاری کا دل بہلایا جا سکے۔ نہ ہی تاریخ میرا موضوع تھا جس سے اپنی علمیت کا رُعب ڈال سکوں اور کاغذ کا پیٹ بھر سکوں۔

یہ صرف اور صرف جذبوں کے رنگ ہیں جو پوری کتاب میں بکھرے ہوئے ہیں۔ میرے مشاہدات، تجربات اور خیالات اور واقعات ہیں۔ اس میں خواہ مخواہ کا اضافی رنگ اور زبردستی کی ظرافت شامل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اس میں عبادات کے علاوہ کچھ اور شامل نہیں ہے۔ اس میں حرمین شریفین کا ذکر ہے۔ سفر کے واقعات ہیں۔ دلچسپ لوگوں سے ملاقات کا تذکرہ ہے۔ اس میں دینی اور دنیاوی دونوں معاملات موضوعِ سخن ہیں۔ آسٹریلیا سے لے کر دبئی، دبئی سے لے کر سعودی عرب اور سعودی عرب سے لے کر پاکستان تک کے سفر کا دلچسپ حال بھی اس کا حصہ ہے۔

لیکن اصل موضوع حرمین شریفین روضہ رسولﷺ، بیت اللہ، عرفات، منیٰ، مزدلفہ اور سعی، مروہ بھی ہیں۔ کیونکہ یہی وہ مقامات ہیں جو میں بھول نہیں سکتا۔ انہی مقامات نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے اور انہی کے گرد یہ سارا مضمون گھومتا ہے۔

اس کتاب کو لکھنے میں بہت سی کوتاہیاں اور غلطیاں سرزد ہوئی ہوں گی۔ سب سے پہلے تومیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا مانگتا ہوں کہ وہ میری ان غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کر دے۔ اگر میری اس ٹوٹی پھوٹی کاوش سے خیر اور بھلائی کا کوئی پہلو نکلتا ہے تو وہ میری خوش قسمتی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ میری اس ادنیٰ سے کاوش کو اپنے دربار میں شرف قبولیت عطا فرمائے اور اِسے میری نجات کا ذریعہ بنا دے۔ آمین

 

سفرِ عشق

__________________________________

 

صبح تین بجے کا وقت تھا جب ہم سرور کائنات، اِمام الانبیاء، حبیب خدا محمد حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے دربار میں حاضری دینے کے لیے اپنے ہوٹل سے نکلے۔ میرے ہمراہ میری اہلیہ بھی تھیں۔ ہم اسی رات دس بجے مدینہ منورہ کے ہوائی اڈے پر اُترے تھے اور بارہ بجے کے قریب اپنے ہوٹل پہنچے تھے۔ سڈنی سے حجازِ مقدس تک تقریباً چوبیس گھنٹے کی مسافت سے ہمارے جسم بہت تھک چکے تھے مگر ذہن و دِل بدستور تر و تازہ تھے۔

یہ کوئی عام سفر نہیں تھا۔ یہ عقیدتوں کا سفر تھا۔ ہم نے مدتوں اس سفر کا انتظار کیا تھا۔ سڈنی سے روانہ ہوتے ہی میرے دل کی ہر دھڑکن سے صلّ علیٰ کی صدا بلند ہونے لگی۔ جیسے جیسے امارات ائیر لائنز کا طیارہ ارضِ مقدس کی طرف اڑتا جاتا تھا ویسے ویسے یہ صدائیں بلند ہوتی جاتی تھیں۔ اس منفرد سفر کا ہر لمحہ تاجدار حرمﷺ کے خیالوں سے مزّین تھا۔

آج ہماری منزل وہ شہر تھا جس کا تصور ہر مومن کی آنکھوں کا نور اور دل کا قرار ہے۔ اس شہر کے تصور سے ہی دِل میں رنگ و نور کی بارش برسنے لگتی ہے۔ اِس شہر میں ہمارے پیارے نبیﷺ کا روضہ اقدس واقع ہے۔ اِس کی گلیوں سے اُن کی یادیں وابستہ ہیں۔ اس شہر کی فضائیں دل کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتی ہیں۔ آج قسمت ہمیں اس شہر میں لے آئی تھی۔

جونہی نبی پاکﷺ کے شہر کی خاک پر قدم رکھا دل میں جلنے والی شمعِ وصل جیسے بھڑک اُٹھی تھی۔ لیکن ابھی عشق کے کئی اور امتحان باقی تھے۔

ہوٹل میں پہنچتے ہی اہلیہ نے کہا ’’روضہ رسولﷺ پر حاضری کے لیے چلتے ہیں‘‘

میں نے کہا ’’صبر کریں۔ اس دربار میں حاضری کے کچھ آداب ہیں۔ ہر وقت اور ہر حال میں حاضری کی اجازت نہیں ہے‘‘

’’کیا مطلب؟ ہم یہاں آئے کس لیے ہیں۔ حضور کا روضہ سامنے ہے ہم ابھی وہاں کیوں نہیں جا سکتے؟‘‘

میں نے کہا ’’شاید آپ کو یاد نہیں۔ سڈنی میں ہم نے جو تربیتی لیکچر سنے تھے اس میں معلم نے بتایا تھا کہ حرم شریف اور مسجد نبویﷺ میں جانے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ میلے بدن اور میلے لباس کے ساتھ حاضری سے گریز کریں۔ نہا دھو کر صاف ستھرا لباس زیب تن کر کے اور خوشبو لگا کر جانے کی تلقین کی گئی ہے۔ حضور نبی پاکﷺ کو یہ آداب پسند تھے۔ تھوڑی دیر آرام کر لیں۔ انشاء اللہ تہجد کے وقت حاضری دیں گے‘‘

ہمیں مدینہ النبیﷺ کے اوقاتِ صلوٰۃ کا علم نہیں تھا۔ صرف دو گھنٹے بعد یعنی صبح دو بجے ہی ہم اٹھ کر بیٹھ گئے۔ اگلے ایک گھنٹے میں تیار ہو کر ہم تیرھویں منزل پر واقع اپنے کمرے سے نکل آئے۔ لفٹ کے ذریعے گراؤنڈ فلور پر پہنچے تو استقبالیہ ڈیسک سامنے ہی موجود تھا۔ وہاں موجود باریش نوجوان سے علیک سلیک کے بعد میں نے پوچھا ’’کیا آپ بتا سکتے ہیں مسجد نبویﷺ میں نماز فجر کس وقت ادا ہوتی ہے اور مسجد کس طرف واقع ہے؟‘‘

نوجوان نے مسکراتے ہوئے کہا ’’آپ ہوٹل سے باہر نکلیں گے تو بے شمار لوگوں کو ایک طرف جاتا دیکھیں گے۔ وہ سب مسجدِ نبویؐ میں جا رہے ہیں۔ مسجد یہاں سے مغرب کی سمت اور چھ سات منٹ کی دوری پر واقع ہے۔ اور یہ رہا نماز کے اوقات کا ٹائم ٹیبل۔ کچھ اور خدمت میرے لائق؟‘‘

ہم اس کا شکریہ ادا کر کے ہوٹل سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ہوٹل کے سامنے والی سڑک اور دونوں طرف کے فٹ پاتھ لوگوں سے بھرے ہوئے تھے۔ بے شمار مرد اور عورتیں ایک ایک، دو دو اور اور اس سے بڑی ٹولیوں کی شکل میں خاموشی کے ساتھ ایک ہی طرف چلے جا رہے تھے۔ نماز کے اوقات میں یہ سڑک ٹریفک کے لیے بند کر دی جاتی تھی اس لیے لوگ بے فکر ہو کر سڑک کے بیچ میں چل رہے تھے۔ نمازی اپنے علاقائی اور آبائی لباسوں میں ملبوس تھے۔ پاکستانی خواتین و حضرات شلوار قمیض میں ملبوس تھے تو بنگالی کرتا اور دھوتی پہنے ہوئے تھے۔ جبکہ افریقن اور وسط ایشیائی ریاستوں کے شہری اپنے اپنے ملک کے لباس میں تھے۔ پتلون اور انگریزی قمیض کا استعمال بہت کم نظر آتا تھا۔ ہم آسٹریلیا میں رہنے والوں کے لیے یہ انوکھا منظر تھا۔

اس سفر حج میں، میں نے یہ بھی جانا کہ اردو صرف ہندوستان اور پاکستان میں ہی نہیں بولی جاتی بلکہ دنیا کے اور بہت سے ملکوں کے لوگ بھی اُردو جانتے ہیں۔

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

اسی طرح شلوار قمیص بھی پاکستان ہندوستان اور افغانستان میں ہی نہیں پہنی جاتی بلکہ دنیا کے کئی اور ملکوں کے شہری بھی یہی لباس پہنتے ہیں۔ جیسے وسط ایشیائی ریاستیں، نیپال، بنگلہ دیش، ایران حتیٰ کہ بعض عربی اور افریقن بھی یہی لباس پہنے ہوئے تھے۔ تاہم مختلف علاقوں میں اس کے انداز الگ ہو جاتے ہیں۔ مثلاً تاجکستان کے لوگ کھلے گھیرے کی شلوار کے اوپر انگریزی طرز کی قمیص پہنتے ہیں۔ قمیص کو شلوار کے اندر اُڑستے ہیں اور کمر پر بیلٹ باندھتے ہیں۔ بر صغیر پاک و ہند کے کرتے کا استعمال تو آج کل آسٹریلیا، یورپ اور امریکہ میں بھی عام ہے۔ چند سال پہلے لاہور میں امریکن قونصلیٹ ہر تقریب میں شلوار قمیص میں نظر آتا تھا۔ پچھلے دنوں میں نے کینیڈا کے وزیر اعظم کو شلوار قمیض پہن کر کسی مسجد میں افطار کرتے دیکھا۔ یہ نوجوان وزیر اعظم مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر رمضان کے روزے بھی رکھتا ہے۔

علیٰ الصبح برقی قمقموں کی روشنی میں اوس سے بھیگی سڑکوں پر چلتے نمازی عقیدت، شوق اور جذبہ عبودیت سے سرشار تھے۔ دل ہی دل میں شاید وہ دعائیں مانگ رہے ہوں لیکن زبانیں خاموش تھیں۔ پورا ماحول عقیدت اور عبارت کے جذبے سے معمور تھا۔ ہم بھی اس خاموش قافلے کا حصہ بن کر اسی طرف چل پڑے جدھر سب لوگ جا رہے تھے۔ سڑک کے دونوں اطراف بڑے بڑے ہوٹل واقع تھے۔ اِن ہوٹلوں سے لوگ نکل نکل کر باہر آ رہے تھے اور خاموش قافلے کا حصہ بنتے جا رہے تھے۔

ان بڑے ہوٹلوں کے رہائشی اور فٹ پاتھ پر رات بسر کرنے والے اس وقت ایک حلیے میں، ایک جذبے اور ایک مشن کے ساتھ ایک دربار میں حاضری ہونے جار ہے تھے۔ اس وقت ان میں کوئی شاہ تھا نہ گدا۔ کوئی امیر تھا نہ غریب۔ کوئی مالک تھا نہ نوکر۔ کوئی افسر تھا نہ ملازم۔ کوئی آقا تھا نہ غلام۔ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ یہ اتنا بڑا دربار تھا کہ دنیا کے سارے جاہ و جلال اس کے سامنے ہیچ تھے۔

میری حالت اس وقت غیر معمولی تھی۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ قدم من من ہو رہے تھے۔ آنکھوں کے آگے جیسے اندھیرا سا چھا رہا تھا۔ ایک ایک قدم اٹھانا دُوبھر ہو رہا تھا۔ کئی دفعہ رکا۔ پھر چلا۔ پھر رُکا۔ ہمت جیسے ساتھ چھوڑ رہی تھی۔ یہ عجیب ہی کیفیت تھی۔ متضاد سوچوں نے جیسے میرے اندر ایک کشمکش سی پیدا کر دی تھی۔ ایک طرف عقیدت اور شوق کا عالم تھا۔ روضہ رسولﷺ کے دیدار کے لیے دل وفورِ شوق سے سرشار تھا۔ میں کب سے اللہ کے نبیﷺ کے اس شہر میں سانس لینے کی امید لگائے بیٹھا تھا۔ اس مقدس خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کے لیے کب سے بے تاب تھا۔ اس مقدس سرزمین کو دیکھنے، اس سبز گنبد کی زیارت اور اس دربار میں حاضری کا مجھے مدتوں سے انتظار تھا۔ آج یہ انتظار ختم ہو رہا تھا۔ دُوریاں مٹنے والی تھیں۔ اس سے زیادہ خوشی، اطمینان اور کامیابی کیا ہو سکتی تھی۔

دوسری جانب میرے اندر ایک اور سوچ پر پھیلا رہی تھی۔ کوئی نادیدہ طاقت جیسے میرا راستہ روک رہی تھی۔ اتنے طویل انتظار کے بعد جب تمنا پوری ہوا ہی چاہتی تھی تو میں خوف کا شکار ہو گیا۔ اتنا بے ہمت اور بے بس تو میں کبھی بھی نہ تھا۔ میں سفیروں، وزیروں، گورنر اور وزیر اعظم سے بھی مل چکا تھا۔ میں چکا چوند روشنیوں میں ٹی وی شو میں شامل ہو کر انٹرویو دے چکا تھا۔ ان کیمروں سے مجھے کوئی خوف اور ڈر محسوس نہیں ہوا۔ میں نے بھرے مجمع کے سامنے تقریریں کیں۔ پروگراموں کی میزبانی کی اور بڑی بڑی بزنس میٹنگ میں اپنی رائے کا برملا اظہار کیا تھا۔ اس سے پہلے نہ کبھی میرے قدم ڈگمگائے تھے نہ میرے ماتھے پر اس طرح پسینہ آیا تھا نہ میرا دل اس طرح دھڑکا تھا اور نہ میری ٹانگیں اس طرح کانپی تھیں۔ پھر آج کیا ہو گیا تھا۔

اس خوف، رُکاوٹ، ہچکچاہٹ اور ڈگمگاہٹ کی وجہ میں خود تھا۔ میرے اعمال تھے۔ جو میرے راستے کی دیوار بن کر میرے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے۔ میں اس دربار میں حاضری کا اہل نہیں تھا۔

دنیاوی محفلوں کی بات الگ ہے۔ ان محفلوں میں لوگ آپ کا ظاہر دیکھتے ہیں۔ آپ کا لباس دیکھتے ہیں۔ آپ کا چہرہ دیکھتے ہیں۔ آپ کا انداز دیکھتے ہیں۔ آپ کا اعتماد دیکھتے ہیں۔ آپ کے الفاظ دیکھتے ہیں جو اکثر رسمی ہوتے ہیں۔ آپ کا انداز گفتگو دیکھتے ہیں جو بناوٹی ہو سکتا ہے۔ آپ کی سج دھج دیکھتے ہیں جو آپ کا ظاہر ہے۔ کوئی آپ کے اندر نہیں جھانک سکتا۔ آپ کے اعمال نہیں جان سکتا۔ آپ کا باطن نہیں دیکھ سکتا۔

لیکن جس دربار میں میری حاضری تھی یہ منفرد دربار تھا۔ اس میں ظاہری سج دھج کی نہیں صاف باطن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں ایسا نامہ اعمال چاہیے جس میں نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو۔ ایسے کردار کی ضرورت ہوتی ہے جو گناہوں سے پاک ہو۔ جس زندگی میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت شامل ہو۔

اس دربار میں وہی جا سکتا ہے جس نے اللہ اور رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقے سے زندگی بسر کی ہو۔ جس نے تقویٰ کا راستہ اپنایا ہو۔ جس نے ساری زندگی گناہوں سے بچنے کی کوشش کی ہو۔ جس کی زندگی میں قناعت، تقویٰ، پرہیز گاری، دین داری اور خوفِ خدا شامل ہو۔ جو دنیا کی لالچ اور طمع سے پاک ہو۔ جس نے دنیا میں آخرت کمائی ہو۔ جس نے اس دربار میں آنے کی تیاری کی ہو۔ جو اس دربار کے آداب جانتا ہو اور جس کا من صاف ہو۔

میں ان میں سے کسی شرط پر پورا نہ اُترتا تھا۔ میرا دامن گناہوں سے آلودہ تھا۔ اور میرے من میں طمع و حرص کے ہزاروں بت گڑے تھے۔ میں نے ساری زندگی دنیا سمیٹنے میں گزار دی تھی۔ میں نے اس دربار میں آنے کی کوئی تیاری کی تھی اور نہ ہی کبھی آخرت کی فکر کی تھی۔ میں ساری زندگی حرص و ہوس کے بت جمع کرتا رہا۔ اپنے دل کو ان بتوں سے پاک کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ بلکہ ہر بت کے حصول کے بعد اِتراتا رہا اور خوش ہوتا رہا کہ لو میں نے ایک اور جھنڈا گاڑ لیا ہے۔ جس من میں دنیا داری کے اتنے بت جمع ہو چکے ہوں وہاں ایمان کی روشنی کہاں باقی رہتی ہے۔ اگر ہوتی بھی ہے تو ماند پڑ چکی ہوتی ہے اس روشنی کو فروزاں رکھنے کے لیے عبودیت اور تقویٰ کے جس ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے میں نے اس کا بھی کبھی اہتمام نہیں کیا تھا۔ لہٰذا میرا من اندھیروں میں گم ہوتا چلا گیا اور یہ سیاہی میرے دل و دماغ پر چھاتی چلی گئی۔

اب اسی سیاہ اور داغ دار دامن کے ساتھ میں دُنیا کے سب سے اُجلے دربار میں حاضری دینے چلا آیا تھا۔ کہاں میرا سیاہ دامن اور کہاں یہ پاکیزہ دربار۔ کوئی جوڑ نہیں بنتا تھا۔ حاضری کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی تھی اور نہ حاضری قبول ہونے کی کوئی امید تھی۔ قبولیت تو بعد کی بات ہے گناہوں کی پوٹلی لے کر اس دربار میں حاضر ہونے کی میرے اندر جرأت اور ہمت بھی نہیں تھی۔ میرے اعصاب جواب دینے لگے۔ ٹانگیں جیسے بے جان ہوتی جا رہی تھیں۔ میں انہیں گھسیٹ گھسیٹ کر قدم اٹھا رہا تھا۔ اس کے لیے جسم و جان کی پوری توانائی صرف کر رہا تھا۔ یہ توانائی بھی کمزور پڑتی جا رہی تھی۔

اس کشمکش میں صرف ایک شے میرے حق میں تھی۔ جس سے مجھے کچھ اُمید دکھائی دیتی تھی۔

میری زندگی اگرچہ نیکیوں کی خوشبو سے عاری اور گناہوں سے آلودہ تھی۔ میرے گناہوں کا پلڑا میری نیکیوں پر بھاری تھا۔ میری زندگی عمل اور اطاعتِ اِلٰہی سے خالی تھی۔ اتنا عرصہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے دور رہا تھا۔

لیکن!

میرا دل عشق رسولﷺ سے ہمیشہ مزین رہا۔ میں نے اپنے دل کی گہرائیوں سے ایک ہی ہستی کو اپنا آئیڈیل مانا۔ اس عظیم ہستی کی محبت سے میرے دل کا کوئی ایک حصہ ہمیشہ روشن رہا۔ تمام بے عملیوں، گناہوں اور کوتاہیوں کے باوجود بچپن سے لے کر اب تک ایک لمحے کے لیے بھی میرا دل عشق رسولﷺ سے خالی نہیں رہا۔ میرے لیے وہ دنیا کے بہترین انسان، محسنِ انسانیت، رحمتُ اللعالمین اور ہادی و راہنما تھے۔ ان کی سیرت، ان کا کردار، بلند اور روشن مینار کی طرح ہمیشہ میری آنکھوں میں رہا۔ ایک لمحے کے لیے بھی ان کی ذاتِ گرامی کی عظمت، ان کی سچائی، ان کی محبت اور ان سے عقیدت میرے دل سے کم نہیں ہوئی۔ یہ محبت ہمیشہ میرے دل پر نقش رہی۔

اس عشق اور اس محبت کا آغاز تو ایک دین دار گھرانے کا چشم و چراغ ہونے کی وجہ سے آغوشِ مادر سے ہی ہو گیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ عشق پروان چڑھتا رہا۔ اس میں کبھی کمی نہیں آئی۔ میرے علم اور میرے مطالعے نے اس یقین میں مزید پختگی پیدا کی۔ اس عشق اور اس وارفتگی کے پیچھے صرف جذبہ ہی کارفرما نہیں تھا بلکہ اس میں علم، جواز اور منطق بھی شامل ہوتا چلا گیا۔ میرا علم اور مطالعہ جو صرف اسلامی لٹریچر تک محدود نہیں ہے مجھے بتاتا ہے کہ میرے نبیﷺ انسانیت کا عروج، اس کا کمال اور اس کی انتہا بن کر دنیا میں آئے ہیں۔ ان کے آنے سے انسانیت کی تکمیل ہوئی ہے۔ ان کی سیرت، ان کا کردار اور ان کی زندگی پوری دنیا کے لیے مشعلِ راہ اور درخشندہ مثال ہے۔ وہ دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں اور انسانیت کے نجات دہندہ۔

 

جانِ مشتاقم بہ آں جا

__________________________________

حضورﷺ کی عظمت و حرمت میرے دل میں مسلّم ہے۔ ان کے نام نامی کی حرمت کے لیے جان حاضر ہے۔ ان کی حرمت پر حرف آئے یہ میں نے کبھی برداشت نہیں کیا۔ تیرہ چودہ برس پہلے سڈنی کی ایک رات کا واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولے گا۔ ویک اینڈ کی رات تھی۔ رات ایک بجے اپنی شفٹ ختم کر کے میں گھر واپس جا رہا تھا۔ یہ دس پندرہ منٹ کی پیدل مسافت تھی۔ عام طور پر مجھے پیدل چلنا اچھا لگتا ہے لیکن اُس رات تھکاوٹ اور سردی کی وجہ سے دوبھر ہو رہا تھا۔

میں اپنی دھُن میں مگن چلا جا رہا تھا کہ ایک قدرے تاریک گلی میں چار شرابیوں سے پالا پڑ گیا۔ چاروں نوجوان تھے اور کسی پارٹی سے آ رہے تھے۔ وہ اتنی بلند آواز میں گفتگو کر رہے تھے جیسے لڑ رہے ہوں۔ ان کی گفتگو میں گالیوں کا کھلا استعمال ہو رہا تھا۔ اس وقت گلی میں دور نزدیک تک کوئی اور شخص نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے کترا کر ان کے پاس سے نکلنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے چاروں طرف سے مجھے گھیر لیا اور الٹی سیدھی بکواس کرنے لگے۔ اس طرح کے شرابیوں سے لڑائی جھگڑے سے ہر ممکن بچنا چاہیے۔ کیونکہ انہیں اچھا یابرا کسی چیز کا ہوش نہیں ہوتا ہے۔ میں نے ہیلو ہائے کرتے ہوئے ان سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ لیکن میرے رنگ اور میرے تلفظ سے انہیں اندازہ ہو گیا کہ میرا تعلق ہندوستان یا پاکستان سے ہے۔ ان دنوں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کی لہر چلی ہوئی تھی۔ ہوش مند پھر بھی اپنا تعصب ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے جبکہ ان شرابیوں کا تعصب کھل کر سامنے آ گیا۔ وہ میرا نام جاننا چاہتے تھے جبکہ میں انہیں ٹال رہا تھا۔ اچانک ان میں سے ایک بولا تمہارا نام ضرور محمد ہو گا۔ نشے میں ہونے کے باوجود انہیں اندازہ ہو گیا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے۔

دوسرابولا ’’محمد او محمد‘‘

تیسرے نے بھی محمد محمد الاپنا شروع کر دیا۔ چوتھا کیسے پیچھے رہتا وہ بھی اس مبارک نام کا مذاق اُڑانے لگا۔ آغاز میں ان شرابیوں کی بد تمیزیوں کو میں برداشت کر رہا تھا۔ لیکن اس مقدس نام کو اس انداز میں ان کی زبان سے سن کر میں خود پر کنٹرول نہ کر سکا اور اپنے سامنے والے کے منہ پر مکا دے مارا۔ وہ چاروں نوجوان اور بھاری بھر کم جسموں کے مالک تھے۔ میں ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو وہ میرا کچومر نکال دیتے۔ میں یہ نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ اس لیے ان سے قدرے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ تاہم بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ مجھے علم تھا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں وہ مجھے آ لیں گے۔ وہ چاروں اکٹھے آگے بڑھے۔ جس کو مکا لگا تھا وہ سب سے آگے تھا اور مغلظات بک رہا تھا۔ میں بھی تیار تھا جوں ہی وہ میری دسترس میں آیا میری لات اس کے پیٹ پر پڑی اور وہ لڑکھڑا کر پیچھے والوں کے اُوپر جا گرا۔ ان کا غیظ و غضب مزید بڑھ گیا۔ وہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ میں ان کی ہرزہ سرائیوں کا جواب دوں گا۔

وہ چاروں سمتوں سے گھیرا ڈال کر مجھ پر حملہ اور ہوئے۔ جب میرے بہت قریب آئے تو میں دوڑ کر ایک طرف ہو گیا۔ میں نے محسوس کر لیا کہ نشے میں ہونے کی وجہ سے ان کے قدم مضبوطی سے ایک جگہ پر قائم نہیں ہیں۔ اس لیے میں بھاگ کر ادھر ادھر ہو رہا تھا اور ان کو لاتیں مارنے میں بھی کامیاب ہو رہا تھا۔ اب وہ قدرے سنبھل کر آگے بڑھے اور چاروں طرف سے مجھے گھیر لیا۔ لگتا تھا کہ ان کا نشہ کم ہو گیا ہے یا پھر انہوں نے خود پر قابو پا لیا ہے۔ کیونکہ اب وہ زبان درازی کے بجائے سنجیدگی سے مجھے سبق سکھانا چاہتے تھے۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی میرے لیے کوئی جائے فرار نہیں تھی اور نہ ہی کسی مدد کی امید نظر آ رہی تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ مجھے ان سے خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ وہ میری جان بھی لے سکتے ہیں۔

انہوں نے چاروں طرف سے بیک وقت لاتوں اور مکوں سے حملہ کیا۔ جہاں تک ممکن تھا میں نے خوب ہاتھ پیر چلائے لیکن میری کوشش دفاعی نوعیت کی تھی۔ میں چاروں کا بیک وقت مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ خود کو جس حد تک بچا سکتا تھا وہ کوشش کر رہا تھا۔ میری زیادہ سے زیادہ کوشش تھی کہ نہ صرف ان کے حملے کو روکوں بلکہ اپنے پاؤں پر کھڑا رہوں۔ میں جانتا تھا اگر میں گر گیا تو پھر میرا بچنا نا ممکن ہے۔ اپنے سخت بوٹوں سے ٹھوکریں مار مار کر انہوں نے میرا حلیہ خراب کر دیتے۔ کئی منٹ تک یہ کشمکش جاری رہی۔ مجھے سخت چوٹیں بھی لگیں لیکن میرے ہوش وحواس قائم رہے اور آخر تک اپنا دفاع کرتا رہا۔

اچانک سائرن کی آواز سنائی دی اور گلی کے دونوں جانب سے پولیس کی گاڑیاں روشنیاں چمکاتی آتی دکھائی دیں۔ اگلے ہی لمحے پولیس نے ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ شایدکسی راہ گیر یا پڑوسی نے پولیس طلب کی تھی۔ میری قسمت اچھی تھی کہ بروقت پولیس آ گئی ورنہ چھٹی کی راتوں میں وہ بہت مصروف ہوتے ہیں اور بعض اوقات بہت تاخیر سے آتے ہیں۔

پولیس نے آتے ہی صورت حال بھانپ لی اور ان چاروں کو ہتھکڑی لگا لی۔ دو پولیس افسر مجھے ایک طرف لے گئے اور دریافت کیا کہ کیا ہوا تھا۔ میں نے پورا واقعہ سنا دیا۔ پولیس نے ان چاروں نوجوانوں کا الکوحل لیول چیک کیا جو ہتھکڑی لگتے ہی اس شرافت سے کھڑے تھے جیسے انہوں نے کچھ کیا ہی نہ ہو۔

اس کے بعد پولیس نے اپنی وین میں بٹھا کر مجھے میرے گھر چھوڑا اور ان شرابیوں کو گرفتار کر کے لے گئی۔ پولیس نے مجھے ہسپتال لے جانے کی بھی پیش کش کی لیکن میں نے انکار کر دیا۔ مجھے چوٹیں کافی آئی تھیں لیکن شکر اَلحمدُ لِلہ ان میں سے کوئی بھی خطرناک نہیں تھی۔ میرے ہاتھ پاؤں اور ہڈیاں سلامت تھیں۔ ان چوٹوں کا درد کافی دن تک رہا لیکن مجھے اطمینان تھا کہ میں نے اپنے پیارے نبی کی حرمت پہ آنچ نہیں آنے دی۔

میں سمجھتا ہوں کہ میں نے کوئی نیا یا انوکھا کام نہیں کیا تھا۔ میری جگہ کوئی دوسرا مسلمان ہوتا تو اس کا رد عمل بھی مختلف نہیں ہوتا۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کی حرمت پر اپنی جانیں قربان کرنے کا سلسلہ آغازِ اسلام سے جاری ہے اور آئندہ بھی کملی والے کے دیوانے یہ کام انجام دیتے رہیں گے۔ ہمارے پیغمبر کی حرمت اور ناموس پر آنچ آئے تو یہ ہماری برداشت سے باہر ہے۔ کوئی غیرت مند مسلمان، کوئی نبیﷺ کا پروانہ نبی پاکﷺ کی توہین برداشت نہیں کرے گا۔ اُن کے لیے ہماری جانیں بھی حاضر ہیں اور مال اسباب اور اولاد بھی آپؐ پر قربان ہے۔

ببریں جانِ مشتاقم بہ آں جا

فدائے روضہ خیرالبشر کن                       (جامی)

(میری بے تاب جاں کو اس جگہ لے جا کہ یہ حضور کے روضہ اقدس پر نثار ہو جائے)

ہمارے ہوٹل سے مسجد نبویﷺ اگرچہ چند منٹوں کی مسافت پر واقع تھی لیکن بلند و بالا عمارات کی وجہ سے ہوٹل سے نظر نہیں آتی تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مسجد ہمارے ہوٹل والی سڑک کی سیدھ میں نہیں تھی بلکہ آگے جا کر بائیں طرف مڑ نا پڑتا تھا۔ ہم جونہی اس مقام پر پہنچے جہاں بائیں مڑنا تھا تو ہمارے سامنے ایک چونکا دینے والا منظر تھا۔ پہلی نظر میں یہ روشنیاں ہی روشنیاں تھیں جو زمیں سے آسمان تک پھیلی نظر آتی تھیں۔ یہ روشنیاں ایک وسیع و عریض علاقے پر محیط تھیں۔ یہ مسجدِ نبویؐ تھی۔ مسلمانانِ عالم کی دوسری مقدس ترین عبادت گاہ۔

مسجد کے طول و عرض میں پھیلی روشنیاں رنگ و نور برسا رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ مسجد کے صحن میں ایستادہ بڑے بڑے کھمبوں کے اُوپر، مسجد کے میناروں سے بھی اُوپر اور سبز گنبد کے اوپر روشنیاں آسمانوں کو چھوتی محسوس ہو رہی تھیں۔

سبز گنبد پر نظر پڑتے ہی میرے قدم جیسے زمین میں گڑ گئے۔ آنکھوں میں نمی اتر آئی۔ زباں سے درود شریف کا ورد جاری ہو گیا۔ اس سبز گنبد کے بارے میں کتنا پڑھا اور سنا تھا۔ آج خدا نے اسے قریب سے دیکھنے کا موقع دیا تھا۔ یہ بھی کیسا نظارہ تھا جس کے آگے دنیا کے سب نظارے ہیچ ہیں۔

سبز گنبد کی جھلک دیدہ تر سے آگے

دیکھ سکتی ہے نظر حدّ نظر سے آگے              (عباس تابش)

پورا ماحول روشنیوں سے نہایا ہوا تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ یہ روشنیاں آسمانوں سے اتر کر اللہ کے اس خاص گھر کو منور کر رہی ہیں۔ یہ آسمانی روشنیاں اسے چھو کر اسے اور بھی پاکیزہ اور مقدس بنا رہی ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اس مسجد اور اس کے مکین کا نور آسمان کو چھو رہا ہو۔ یہ طے کرنا مشکل تھا کہ کہاں کی روشنی کسے روشن کر رہی ہے۔ کیونکہ یہاں آسمان اور زمین ایک ہی رنگ میں رنگے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ عام روشنیاں نہیں تھیں۔ یہ نور تھا۔ یہ رنگ تھے۔ یہ حسن تھا۔ رنگ و بو کی یہ بہار آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس نور بھرے منظر کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں۔ اس وقت جیسے میرا پورا جسم آنکھ بن چکا تھا۔ میرے حواسِ خمسہ میں سے صرف ایک حس یعنی بصارت کام رہی تھی۔ باقی سارے حواس معطل ہو چکے تھے۔ اس منظر پر میری آنکھیں ایسی جمی تھیں کہ قدم اُٹھانا تو درکنار آنکھیں جھپکانا بھی بھول گیا تھا۔

شکستہ دل، تنِ مردہ اور آنکھیں میری نم دیدہ

میں سوچ رہا تھا کہ کس منہ سے اس دربار میں حاضری دُوں۔ کیسے ان کا سامنا کروں۔ میرے دامن میں تو گناہوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔

پھر خیال آتا کہ لاکھ گناہگار سہی، اُنہی کا اُمتی ہوں۔

میرے نبیﷺ تو رحمۃ اللعالمین ہیں۔ انہوں نے تو اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف کر دیا تھا۔ انہوں نے منکروں اور کافروں کو بھی بخش دیا تھا۔ میں تو پھر بھی ان کا کلمہ گو ہوں۔ ان کا والہ و شیدا ہوں۔ وہ مجھے بھی اپنے دامن عفو میں جگہ عنایت کریں گے۔ مجھے ضرور معاف کریں گے۔ کیوں نہیں کریں گے۔ وہ اپنی اُمّت کے رکھوالے، ان کے محافظ، ان کے شفیع اور ان کے مددگار جو ٹھہرے۔ ان کی شفاعت کی امید لیے ہم ان کے دربار میں حاضر ہونے آئے ہیں۔ وہ اپنے اس حقیر سے اُمتی کو ٹھکرائیں گے نہیں۔ بلکہ اپنی نظر کرم سے نوازیں گے۔ مجھے امید کی کرن دکھائی دی اور میں اس کِرن کے تعاقب میں چل پڑا۔

 

سفرِ عقیدت کا اِرادہ

__________________________________

 

کئی برسوں سے میرا اور میری اہلیہ کا حج ادا کرنے کا پروگرام بن رہا تھا۔ پروگرام بنتا اور پھر اگلے سال تک کے لئے ملتوی ہو جاتا۔ اہلیہ کو جلدی تھی اور میں تاخیر کر رہا تھا۔ کچھ کاروباری مصروفیات تھیں اور کچھ میرے من کا کھوٹ تھا جو اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ میں بھی حج کرنا چاہتا تھا لیکن چند برسوں بعد۔ میں سوچتا تھا کہ جلدی کیا ہے۔ ایک حج فرض ہے وہ کبھی بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہماری کئی دفعہ بحث ہوئی۔ میں تاخیر کے لیے بہانے ڈھونڈتا رہا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ میں ابھی دنیا ترک نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ابھی اپنی مرضی کی زندگی جینا چاہتا تھا۔ من مانی والی زندگی۔ میں اپنی باگیں کسی کے ہاتھ میں نہیں تھمانا چاہتا تھا۔ سوچتا تھا کہ اس سے تو زندگی میں کوئی رنگ نہیں بچے گا۔ زندگی بالکل روکھی پھیکی اور بے رنگ ہو جائے گی۔ میں ذہنی طور پر اس کے لیے تیار نہیں ہو پا رہا تھا۔

ایسا بھی نہیں تھا کہ میں بالکل ہی بے مہار زندگی گزار رہا تھا۔ اس میں کافی حد تک نظم و ضبط، اخلاقی ضابطے اور ذمہ داری کا عنصر شامل تھا۔ میں اپنے کاروبار، خاندان حتیٰ کہ سماجی ذمہ داریوں سے کبھی غافل نہیں رہا۔ پھر بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر اس طرح نہیں چل رہا تھا جس طرح چلنا چاہیے۔ اس سلسلے میں بہت سی کوتاہیاں اور غیر ذمہ داریاں برت رہا تھا۔ میں اپنے فرض کو کبھی نہیں بھولا تھا۔ لیکن سست روی کا شکار ضرور تھا۔ اس لاپرواہی، غیر ذمہ داری، غفلت کو میں زندگی سمجھ بیٹھا تھا۔ ایمان بُلاتا تھا اور شیطان روکتا تھا۔ میرے دل و دماغ میں اسی طرح کشمکش جاری رہتی تھی۔

یہ کشمکش اُس دن ختم ہو گئی جب میں نے حج کا حتمی ارادہ کر لیا۔ میرے اندر کا مسلمان، والدین کی تربیت کا اثر اور سب سے بڑھ کر اللہ کا فضل شامل حال ہوا تو گماں باطل ہوا، یقیں غالب آ گیا اور منزل صاف دکھائی دینے لگی۔ ایک دفعہ ارادہ کیا تو پھر صورت حال بدل گئی۔ اب مجھے کوئے یار پہنچنے کی اتنی جلدی تھی کہ وقت کاٹنا دوبھر ہو گیا۔ روضہ رسولﷺ پر حاضری کی دیرینہ خواہش اُبھر کر سامنے آ گئی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ وقت پر لگا کر اڑ جائے اور ہم رخت سفر باندھ کر سوئے حرم چل دیں۔

آسٹریلیا میں بہت سے ٹریول گروپ حج پر لے کر جاتے ہیں۔ ہر گروپ کے پاس حج اور عمرے کے مختلف پیکج ہوتے ہیں۔ اس میں مختلف دورانیے، مختلف سہولتوں پر مبنی اور مختلف بجٹ پر مشتمل پیکج ہیں۔ انٹرنیٹ پر ان تمام کی تفصیل دستیاب ہوتی ہے۔ ہم نے بھی مختلف ٹریول ایجنسیوں کے پیکجز کا جائزہ لیا۔ ایک دو دوستوں سے مشورہ بھی کیا اور بالآخر لبیک نامی ٹریول ایجنسی کا انتخاب کیا۔ اس کمپنی کا دفتر ہمارے شہر سڈنی میں نہیں بلکہ ملبورن میں ہے۔ اس کی انتظامیہ لبنان اور مصر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سڈنی میں بہت سے گروپ دستیاب تھے ان میں کچھ کے منتظم پاکستانی ہیں۔ لبیک کے انتخاب کی وجہ اس کی اچھی شہرت تھی۔ اس گروپ کے ساتھ حج پر جانے والوں نے اس کی تعریف کی تھی۔ ان گروپوں سے سب سے بڑی شکایت یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے نہیں کرتے۔ جن سہولیات کا وعدہ کر کے وہ حاجیوں کو لے کر جاتے ہیں حرمین شریفین میں پہنچ کر وہ سہولیات اس طرح فراہم نہیں کر پاتے۔

لبیک کے بارے میں اس طرح کی کوئی شکایت نہیں ملی تھی۔ اچانک پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے جس تجربے کی ضرورت ہوتی ہے وہ لبیک کو حاصل تھا۔ اس تجربے کی بنا پر وہ حاجیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کی بہتر پوزیشن میں تھے۔

ہمارا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ تھوڑی بہت شکایت کے باوجود اس گروپ نے اپنے وعدے پورے کیے۔ حج کی تکالیف اور بھاگ دوڑ اپنی جگہ لیکن لبیک نے عمومی طور پر کوئی وعدہ خلافی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر حاجی ان سے مطمئن لوٹے۔ مکمل اور بے عیب انتظامات ممکن بھی نہیں ہیں۔ دورانِ حج ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ انتظامیہ آپ کی مدد کرنے سے قاصر ہو جاتی ہے۔ بہتری کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔ تاہم تمام صورت حال سامنے رکھتے ہوئے ان کی کاوشوں کو سراہنا چاہیے۔

اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ دوسرے گروپ اور ان کا انتظام کم تر تھا۔ ہر گروپ اپنی اپنی جگہ بہتر سے بہتر خدمات فراہم کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کے کسٹمر مطمئن ہو سکیں اور ان کو کسی قسم کی شکایت نہ ہو۔ یہ ان کے کاروبار کے لیے ضروری ہے۔ شکایات عام ہونے کی صورت میں کسٹمر اس گروپ سے منہ موڑ سکتے ہیں اور ان کا کاروبار متاثر ہو سکتا ہے۔

میرے خیال میں حج اور عمرے پر لے جانے والے گروپوں کو عازمین کی ناراضی اور خوشنودی سے زیادہ اللہ کی ناراضی یا خوشنودی کا خیال رکھنا چاہیے۔ انسانوں سے زیادہ خدا کا خوف ہونا چاہیے۔ گاہکوں کو مطمئن کرنے سے زیادہ ضمیر کا اطمینان ہے۔ اگر دل میں خدا کا خوف ہو گا، آخرت کی فکر ہو گی اور ضمیر جاگ رہا ہو گا تو حج اور عمرے جیسی اہم عبادت میں کسی سے زیادتی کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے۔

لبیک والوں کے تین پیکج تھے۔ پہلے پیکیج کے مطابق عازمینِ جدہ میں لینڈ کر کے سیدھا مکہ مکرمہ میں جاتے اور وہاں تین دن قیام کے بعد حج کے مناسک شروع ہو جاتے۔ حج کے فوراً بعد یہ گروپ مدینہ کے لیے روانہ ہو جاتا۔ ایک ہفتہ وہاں قیام کے بعد ان کی وطن واپسی ہوتی۔

دوسرے پیکج کے مطابق حج سے صرف تین دن پہلے عازمین کی براہ راست مدینہ منورہ میں آمد طے تھی۔ تین دن بعد مکہ مکرمہ کے لیے روانگی تھی۔ جہاں پہنچتے ہی مناسک حج شروع ہو جاتے۔ حج کے بعد چند دن مکہ میں قیام اور پھر وطن واپسی۔

تیسرے پیکج کے مطابق بھی براہ راست مدینہ آمد تھی۔ لیکن یہ حج سے آٹھ دن پہلے تھی۔ اس طرح مدینہ میں چالیس سے زائد نمازیں پڑھنے کا موقع ملتا تھا۔ مدینہ میں آٹھ دن قیام کے بعد براہ راست عزیزیہ پہنچنا تھا۔ جہاں دوسرے دن حج شروع ہو جاتا۔ حج کے بعد چند دن مکہ میں قیام اور پھر براستہ جدہ وطن واپسی طے تھی۔

ہم نے دوسرے پیکج کا انتخاب کیا اور پیشگی رقم بھی ادا کر دی۔ اس پیکج کے مطابق حرمین شریفین کا کل قیام سترہ دن بنتا تھا۔ اس میں تین چار دن مدینہ منورہ میں گزارنے تھے۔ وہاں سے براہِ راست عزیزیہ (مکہ) میں منتقلی اور مناسکِ حج کی ادائیگی اور اس کے بعد تین چار دن مکہ میں قیام کے بعد وطن واپسی تھی۔

فیصلہ کرنے اور کچھ رقم کی ادائیگی کے باوجود ہمارا دل مطمئن نہیں ہو رہا تھا۔ دل چاہتا تھا حرمین شریفین میں ہمارا قیام اور بڑھ جائے۔ تینوں پیکیج میں مکہ میں مزید رہنے کی گنجائش نہیں تھی۔ لیکن تیسرے پیکیج کے مطابق مدینہ منورہ میں ہمارا قیام بڑھ سکتا تھا۔ کئی دن کی سوچ بچار کے بعد ہم نے پیکیج تبدیل کر کے مدینہ میں قیام بڑھانے کا فیصلہ کر لیا۔

حالانکہ حج کی شرائط میں مدینہ منورہ کی زیارت شامل نہیں ہے نہ ہی مسجد نبویﷺ میں چالیس نمازوں کی پابندی ہے۔ لیکن دوسرے ملکوں سے جانے والے حجاج فریضہ حج ادا کرنے کے ساتھ پیغمبر اسلام کے روضے پر حاضری ضرور دیتے ہیں۔ جہاں وہ اللہ کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں وہاں اللہ کے بنیﷺ کے دربار میں بھی حاضری کا شرف حاصل کرتے ہیں۔

پھر وہاں مسجد نبویؐ بھی ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پسندیدہ مسجد ہے۔ جہاں پڑھی جانے والی ایک ایک نماز کا اجر عام نماز سے ہزار گنا زیادہ ہے۔ حجاز مقدس کی سرزمین پر بیت اللہ کے بعد سب سے مقدس عبادت گاہ مسجد نبویؐ ہے۔ اور اس زمین پر خانہ کعبہ کے بعد سب سے بڑی اور سب سے بابرکت زیارت گاہ روضہ رسولﷺ ہے۔ کوئی صاحب ایمان نبیﷺ کے روضے، نبیﷺ کی مسجد اور ان کے محبوب شہر سے بیگانہ نہیں رہ سکتا۔ اس شہر کی ایک ایک گلی، ایک ایک چپہ زمین اور اس کی ہوائیں اور فضائیں نبیﷺ کے عاشقوں کی روح کی غذا ہیں۔ ان فضاؤں سے نبیﷺ کی خوشبو آتی ہے۔ یہاں چپے چپے پر نبیﷺ کی یادیں بکھری ہیں۔ نبیﷺ کے دیوانے اس کو دیکھے بغیر کیسے واپس لوٹ سکتے ہیں۔

ہمارے ابتدائی پیکج کے مطابق ہمارا تین دن مدینہ منورہ میں قیام متوقع تھا۔ ہمارا دل پہلے ہی چاہنے لگا کہ یہ قیام بڑھ جائے۔ نبی پاکﷺ کا قرب اور ان کی خوشبوئیں چند دن مزید سمیٹ لیں۔ اس سبز گنبد کے مکین کے پاس اس کے منبر کے ارد گرد اور ریاض الجنہ میں کچھ اور لمحے مزید گزار لیں۔ پھر کبھی یہاں آنا نصیب ہو یا نہ ہو۔ مجھ سے زیادہ میری اہلیہ کی یہ خواہش تھی۔ لہٰذا میں نے لبیک والوں سے رابطہ کر کے پیکج بدلنے کی درخواست کی۔ اس میں کوئی دقت نہ ہوئی انہوں نے اضافی رقم لے کر ہمارا پیکج تبدیل کر دیا۔ اس نئے پیکج کے مطابق مدینہ منورہ میں ہمارا قیام تقریباً آٹھ دن پر محیط تھا۔ حج سے پہلے مدینہ منورہ سے براہ راست عزیزیہ (جو مکہ کا نواحی علاقہ ہے) جانا تھا جہاں سے منیٰ، مزدلفہ اور عرفات زیادہ دور نہیں ہیں۔ حج کے بعد خانہ کعبہ کے قریب الشہداء میں چند روز قیام تھا۔ اس کے بعد جدہ ایئرپورٹ سے دوبئی اور اسلام آباد جانا تھا۔

میں نے زندگی میں بہت سفر کیا ہے۔ اجنبی ملکوں کے بڑے بڑے شہروں اور نت نئے ہوٹلوں میں قیام کا موقع ملا۔ ہر نئے سفر سے پہلے اور نئی جگہ جانے سے پہلے ایک جوش، خوشی، تجسس اور خوف محسوس ہوتا ہے۔ خوشی نئی سرزمین دیکھنے اور اس کے باشندوں سے ملنے کی ہوتی ہے، خوف اس بات کا ہوتا ہے کہ سفر میں کوئی انہونی بات، کوئی مسئلہ یا کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے۔ کسی لٹیرے یا ٹھگ سے نہ پالا پڑ جائے۔ کسی وعدہ خلاف ٹریول ایجنٹ یا وعدہ خلاف ہوٹل کا سامنا نہ ہو جائے۔ کوئی اہم چیز کہیں بھول نہ جاؤں۔ کچھ کھو نہ جائے۔

جوش و مسرّت کے رنگ میں بھنگ ڈالنے والے اس خوف کی ابتدا ادھیڑ عمری سے ہوتی ہے۔ ورنہ نوجوانی تو بے فکری کا نام ہے۔ اس عُمر میں فکروں اور پریشانیوں کو انسان جھٹک دیتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔

میرے معاملے میں اچھی بات یہ ہے کہ اس خوف اور خدشے پر جوش اور تجسس غالب رہتا ہے۔ میری حالت اس بچے جیسی ہو جاتی ہے جسے عید سے ایک دن پہلے نئے کپڑے اور جوتے ملتے ہیں تو وہ انہیں سنبھالتا پھرتا ہے۔ ڈرتا ہے انہیں کوئی چوری نہ کر لے۔ اس ڈر سے یہ جوتے اور کپڑے وہ سرھانے کے نیچے رکھ کر سوتا ہے۔ وہ جتنا خوش ہوتا ہے اتنا ڈرتا بھی ہے۔

اس سفر میں میرے جذبات بالکل الگ تھے۔ اس میں جوش، خوشی اور خوف کے ساتھ ساتھ عقیدت اور محبت بھی شامل تھی۔ سڈنی سے روانہ ہوتے ہی میرا دھیان مدینہ منورہ پر مرکوز تھا۔ ذہن میں نبی پاکﷺ کا خیال آتا تو شوقِ محبت سے میرے دل کی کلی کھل اٹھتی۔ مجھے رنگ و نور کی بارش برستی محسوس ہوتی۔ میں سر تا پا اس بارش میں بھیگ جاتا۔ نبیﷺ کی محبت کا رنگ میرے اندر اور میرے باہر پھیل جاتا۔ میرا دل چاہتا کہ اگلے لمحے میں وہاں پہنچ جاؤں۔ روضے کی سنہری جالی کو تھام کر حضورﷺ سے اپنے دل کا حال بیان کر دوں۔

از جامی بے چارا رسانید سلامے

ہر در گہہ دربار رسوِل مدنی را                       (جامی)

(بے چارہ جامی رسول مدنیﷺ کے دربار پُر انوار پر سلام پیش کرنے کے لیے حاضر ہے۔)

ایک طرف تو نبی پاکﷺ کی محبت کے جذبات تھے اور دیدار کی جلدی بھی اور دوسری طرف خوف بھی تھا۔ یہ قدرتی بات بھی ہے انسان جسے بہت چاہتا ہے اس سے ڈرتا بھی ہے۔ میں ڈرتا تھا کہ نہ جانے کیا ہو۔

میری محبت اپنی جگہ پر، وہاں سے قبولیت ملے گی یا نہیں؟

ان کے در پر حاضری کی اِذن ملے گی یا نہیں؟

یہ حاضری قبول ہو گی یا نہیں؟

میرے دل کا چور کبھی ڈراتا، کبھی تسلی دیتا اور کبھی خوف میں مبتلا کر دیتا تھا۔ سارے سفر میں دل و دماغ میں یہ کشمکش جاری رہی۔ خوشی اور خوف ساتھ ساتھ چلتے رہے۔

 

پریشاں فکری

__________________________________

 

سفرِ حج پر روانگی کے وقت کچھ اور بھی عجیب و غریب سوچیں ہمراہ تھیں۔ ایک بات تو طے تھی کہ اللہ کے گھر اور اس کے پیارے نبیﷺ کے روزے کی زیارت کے لیے تو میں بے چین تھا۔ ساری زندگی اس کے شوقِ دیدار میں گزاری تھی۔ لیکن حج کی ادائیگی کے لیے میرا جذبہ اتنا توانا نہیں تھا۔ محض ایک فرض تھا جسے ادا کرنا تھا۔ لیکن اس میں شوق کی وہ انتہا شامل نہیں تھی جو حرم پاک اور روضہ رسولﷺ پر حاضری کے بارے میں تھی۔

حج اور حاجیوں کے بارے میں وقت کے ساتھ ساتھ میرے خیالات بھی بدلتے رہے۔ اپنے بچپن کے دنوں میں مجھے حاجیوں سے بے انتہا عقیدت محسوس ہوتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ قدرے ماند پڑ گئی۔ اس کے باوجود جب کوئی حاجی حرم پاک یا مسجد نبویؐ کا ذکر کرتا تو میرا دل وفورِ شوق سے بھر جاتا اور میں مجسم سماعت بن جاتا تھا۔ لیکن جب وہ حج کے ارکان کا ذکر کرتے تو مجھے اتنا جوش اور ولولہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ اس میں کچھ قصور میرے دل و دماغ کا تھا اور کچھ معاشرتی رویے کا بھی عمل دخل تھا۔

یہ خیالات اور جذبات ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ پچھلے چند سالوں سے میرے اندر کئی تبدیلیاں آئی تھیں۔ آسٹریلیا میں میرے کافی دوست حج کی سعادت حاصل کر چکے تھے۔ میں ان سے ملتا تھا تو مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ کوئی الگ ہی مخلوق ہیں۔ بہت اعلیٰ، ارفع اور پاکیزہ۔ میں خود کو اُن سے کم مایہ محسوس کرتا۔ میں انہیں حیرت سے دیکھتا اور ان کی باتیں سنتا۔

کبھی کبھی کوفت بھی ہوتی کیونکہ! نہ حرم کی باتیں۔ نہ اس کے مکین کی باتیں۔ نہ اس کے حبیب کی باتیں۔ نہ مقام ابراہیم کی باتیں۔ نہ حطیم کی باتیں۔ یہ تو تجارتی، تنقیدی اور سیاسی باتیں ہیں۔ میں یہ سننے تو نہیں آیا تھا۔ اس کے لیے اخبارات اور ٹی وی موجود ہیں۔ میں تو اس گھر کے مکین کی باتیں سننے آیا تھا جس گھر کے وہ پھیرے لینے گئے تھے۔ لیکن وہاں انتظامات کی شکایات، سیاسی اور معاشی تجزیے، مختلف قومیت کے لوگوں پر تبصرے شروع ہو جاتے۔ اس وجہ سے کبھی کبھی حج اور حاجیوں سے دل اُچاٹ سا ہو جاتا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ سارا قصور بتانے والے کا نہیں ہے۔ یہ سامعین پر بھی منحصر ہے کہ وہ کیا سننا چاہتے ہیں۔

ایک دفعہ میں چھٹیوں پر پاکستان گیا ہوا تھا۔ میں دوستوں کی ایک محفل میں آسٹریلیا میں حلال کھانوں اور وہاں موجود اسلامی مراکز کے موضوع پر بات کر رہا تھا کہ ایک دوست بول اٹھا ’’تم آسٹریلیا میں رہتے ہو یا سعودی عرب میں۔ ہم آسٹریلیا کے قصے سننے آئے تھے تم تبلیغ کرنے بیٹھ گئے‘‘

اسی طرح ہم حج کے بعد پاکستان گئے تو ایک دوست بار بار ایک ہی سوال کر رہا تھا ’’وہاں سونے کا بھاؤ کیا تھا‘‘

میرے بچپن کے دنوں میں بہت کم لوگ حج کی سعادت حاصل کرتے تھے۔ ان دنوں جو بھی حاجی ملتا تھا ہمارے لیے وہ آسمان سے اتری ہوئی انوکھی اور منفرد مخلوق کی طرح ہوتا تھا۔ میں حاجیوں سے قریب ہونے ان کی باتیں سننے کی کوشش کرتا تھا۔ مجھے ان حاجیوں سے مکہ مدینہ کی خوشبو آتی تھی۔ میرا ایمان تھا کہ یہ یقینی طور پر جنت کے حقدار اور گناہوں سے پاک معصوم فرشتوں کی طرح ہیں۔ میں ان کی قسمت پر رشک کرتا تھا۔

میں نے جب مطالعہ کیا تو یہ سیکھا کہ حج صرف عبادت ہی نہیں بلکہ بہت بڑی سعادت ہے۔ اللہ کی طرف سے ایک خصوصی پروانہ ہے جو صرف خاص لوگوں کو ملتا ہے۔ حج کے لیے صرف مال و دولت ضروری نہیں اللہ کی رضا، اس کی اجازت اور اس کی خوشنودی بھی لازم ہے۔ ہم اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ایسے کئی لوگوں کو جانتے ہوں گے جو وسائل رکھنے کے باوجود اس سعادت سے محروم رہے۔ اس کے کرم، اس کے حکم اور اس کے فیصلہ کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اللہ کے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہونے والے حج کے بعد حاجی گناہوں سے اس طرح پاک اور صاف ہو جاتا ہے جس طرح نو مولود بچہ گناہوں سے پاک اور معصوم ہوتا ہے۔ حاجی پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رحمت کا سایہ رہتا ہے۔

ایک خاص عمر تک میرے خیالات و جذبات یہی رہے۔ بچپن اور لڑکپن میں جذبات میں جو شدت تھی رفتہ رفتہ اس میں کمی آتی گئی۔ حالات، واقعات، مشاہدات اور غور و فکر سے سوچوں کی نئی نئی راہیں کھلنے لگیں۔ اس سے میرے اندر کئی مثبت اور کئی منفی تبدیلیاں آئیں۔ عقل و شعور جذبات پر حاوی ہوتے چلے گئے۔ اور دنیاوی حرص وہوس عقل و شعور کا مرکز و محور بن گئی۔ میرے قوّتِ فیصلہ اور قوّتِ ارادی میں واضح اضافہ ہوا۔

والد صاحب کا سایہ بچپن میں ہی سر سے اٹھ گیا تھا۔ لہٰذا شروع سے ہی احساسِ ذمہ داری کا بوجھ کندھوں پر رہا۔ حالات کی چکی میں پس کر اپنے حالات کو بہتر کرنے کی دھُن سوار تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے۔ لیکن میری جد و جہد کا سلسلہ جاری رہا۔ ان حالات میں نوجوانی کے جذبات دبتے چلے گئے۔ ان کی جگہ حالات و واقعات اور مشاہدات پر غور و فکر کا عنصر غالب آتا گیا۔ اس غور و فکر نے میرے اندر کئی تبدیلیاں پیدا کیں۔ ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانے لگا۔ اس دوران ہی اپنے اور اپنے خاندان کے لئے کئی مشکل فیصلے کرنے پڑے۔ ان فیصلوں کو گھر کے اندر اور گھر کے باہر توصیف و تنقید دونوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن میں ہمیشہ ان پر قائم رہا۔ ان مشکل فیصلوں کے نتیجے میں میری اور میرے خاندان کی زندگیوں میں بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں۔ مجھے اس پر اطمینان اور مسرت ہے کہ اس میں سے پیشتر فیصلے درست ثابت ہوئے۔ کچھ میں ناکامی کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن آگے چل کر علم ہوا کہ اس ناکامی کے پردے میں در اصل کامیابی تھی۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ انسان صرف کوشش کر سکتا ہے۔ کامیابی یا ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بہرحال اللہ نے انسان کو جو عقل سلیم دی ہے اور ہاتھ پاؤں دیے ہیں ان کا استعمال ضروری ہے۔ کیونکہ کامیابی پلیٹ میں رکھ کر کوئی نہیں دیتا۔ دوسرے یہ کہ ارادوں یا فیصلوں کی ناکامی میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہوتی ہے جو اس وقت سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ اس لیے ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

غور و فکر کی عادت اور شعور کی پختگی کا نقصان بھی ہوا۔ سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ میرے ایمان میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں۔ میں ہر چیز کا جواز اور منطق تلاش کرنے لگا۔ اگر کسی خیال، جذبے یا کام میں منطق یا عقلی دلائل نہ ملتے تو میرا یقین شک و شبہ کی نذر ہونے لگتا۔ ادھر سے بے عملی بھی جواز ڈھونڈنے لگتی۔ ایک دفعہ دِین سے دُوری ہوئی تو پھر فاصلے بڑھتے ہی چلے گئے۔ میری دنیا داری کی ہوس اور میری بے عملی کو سو بہانے مل گئے۔ حالانکہ یہ بہانے خود مجھے بھی ڈھکوسلے اور جھوٹے محسوس ہوتے تھے۔ کبھی کبھی جب میں تنہا ہوتا تو ساری تگ و دو اور کامیابیاں ہیچ لگنے لگتیں اور اپنے اندر ایک خلا سا محسوس ہونے لگتا۔ بچپن کی یادیں اور والدین کی تربیت یاد آتی تو پھر سجدوں میں ہی پناہ ملتی۔ میں پھر اپنے مدار میں لوٹ آتا۔ خالق سے رجوع کرتا تو ساری بے چینیاں ختم ہو جاتیں۔ میرا بچپن اور لڑکپن پلٹ آتا جو معصومیت سے عبارت تھا۔ جس میں دین کی پاسداری تھی۔ ایمان کی پختگی تھی اور توکل اِلی اللہ تھا۔ جس ماحول میں میں نے زندگی کا ابتدائی حصہ گزارا تھا وہ کبھی مجھ سے مکمل طور پر جدا نہیں ہوا۔ حالانکہ میں اس ماحول سے بہت دور چلا آیا تھا۔

اپنے خالق سے تعلق کی سفید چادر پر جب دھبے پڑ جاتے تو کہیں نہ کہیں کوئی گھنٹی ضرور بج اٹھتی تھی۔ پھر کبھی بادِ صبا کے ایک جھونکے سے، قرآن کی کسی آیت سے، ایک بھولے بسرے سجدے سے، کسی صاحبِ نظر کی ایک نظر سے، گھر کے ماحول سے، بچوں کی پیار بھری شرارتوں سے، قدرت کے کسی خوبصورت نظارے سے، رمضان کی آمد سے، اذان کی سریلی آواز سے یا کسی خوبصورت جملے سے یہ چادر دھُل جاتی اور میرے اندر قائم دِین کی خوبصورت عمارت دھُل کر چمکنے لگتی۔

باہر کے شیطان کو شکست دی جا سکتی ہے۔ لیکن اندر کے شیطان سے لڑنا اور مسلسل لڑنا بہت مشکل ہے۔ انسان کی زندگی اللہ اور شیطان کے درمیان کشمکش میں امتحان بن کر گزر جاتی ہے۔

جوانی کے ایّام میں جب میں دنیاوی معاملات میں کھو کر مذہب سے قدرے دور ہو گیا تو حج اور حاجیوں کے بارے میں وہ جذبات نہ رہے جو بچپن یا لڑکپن میں ہوتے تھے۔ تجربے نے یہ بھی بتا یا کہ ہر وہ آدمی جس کے نام کے ساتھ حاجی کا لاحقہ لگا ہوا ہے یکساں طور پر اتنا پاک باز اور راست باز بھی نہیں ہے جتنا میں سوچتا تھا۔ حج جیسی عظیم سعادت حاصل کرنے اور حرمین شریفین جیسی مقدس جگہوں کی زیارت کے اثرات بھی ہر زائر اور ہر حاجی پر ایک جیسے مرتب نہیں ہوتے۔ کسی کی نیتوں سے تو اللہ ہی واقف ہوتا ہے لیکن بعض لوگوں کا حال ظاہر ہو جاتا ہے۔

حاجیوں کے بارے میں جہاں اچھی اور روحانی باتیں مشہور ہوتی ہیں وہاں کچھ لوگ از راہِ تفنن بھی بات کرتے ہیں۔ مثلاً ہمارے محلے کے ایک صاحب حج کر کے واپس آئے تو ان کا بہت شاندار استقبال کیا گیا۔ چند دن بعد وہ گلی میں سے گزر رہے تھے کہ ایک آدمی نے پوچھا ’’عبد الغنی کیا حال چال ہے؟‘‘

حاجی صاحب نے گھور کر اس آدمی کو دیکھا اور بولے ’’میں نے پورا ایک لاکھ روپیہ خرچ کیا ہے۔ آئندہ مجھے عبد الغنی نہیں حاجی عبد الغنی کہنا۔ سمجھے؟

’’حاجی‘ ‘عبد الغنی کی یہ بات کافی مشہور ہوئی۔

ایک پروفیسر صاحب سناتے ہیں۔ میں ٹرین میں سفر کر رہا تھا میرے ساتھ والی سیٹ پر جو صاحب براجمان تھے ان سے علیک سلیک شروع ہوئی۔ جب تعارف ہونے لگا تو ان صاحب نے بتایا ’’میرا نام حاجی محمدالیاس ہے‘‘

پروفیسر صاحب کی رگِ ظرافت پھڑک اٹھی بولے ’’میرا نام نمازی اعجاز حسین ہے‘‘

وہ صاحب حیران ہو کر بولے ’’نمازی اعجاز حسین؟‘‘

پروفیسر صاحب نے کہا ’’جی آپ نے درست سنا ہے‘‘

ان صاحب کی حیرانی ختم نہیں ہوئی کہنے لگے ’’بڑا عجیب نام ہے! نمازی اعجاز حسین!‘‘

پروفیسر صاحب نے کہا ’’آپ نے کتنے حج کیے ہیں؟‘‘

’’جی ایک‘‘ انہوں نے جواب دیا۔

پروفیسر صاحب نے کہا ’’آپ ایک حج کر کے حاجی صاحب کہلوا سکتے ہیں تو میں دن میں پانچ وقت نماز پڑھ کر نمازی کیوں نہیں کہلوا سکتا؟‘‘

حاجی صاحب کو کوئی جواب نہیں سوجھا۔ وہ پروفیسر صاحب کی شرارت کو بھانپ گئے تھے۔

مولویوں کے بارے میں بہت سے لطیفے مشہور ہیں۔ حاجیوں کے متعلق بھی یار لوگوں نے کئی لطیفے گھڑ رکھے ہیں۔ ایک محفل میں ایک صاحب سنا رہے تھے کہ ایک سڑک کے کنارے ایک نابینا بھکاری کشکول اٹھائے بھیک مانگ رہا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ کوئی آدمی کشکول میں پیسے ڈالنے کے بجائے نکال رہا ہے۔ اس نے فوراً کہا ’’یہ ظلم نہ کریں حاجی صاحب‘‘

اس آدمی نے کہا ’’تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں حاجی ہوں‘‘

بھکاری بولا ’’اتنا ظلم کوئی حاجی ہی کر سکتا ہے‘‘

خیر ایسے لطیفے لوگوں نے گھڑ رکھے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ لوگ غلط کام کرتے ہیں اور ساتھ میں فخر سے یہ بھی بتاتے ہیں کہ انہوں نے حج بھی کر رکھا ہے۔ یہ اللہ کے گھر سے توبہ کر کے لوٹنے والوں کی شان نہیں ہے۔ حالانکہ اس گھر میں جانے والوں پر اللہ کی اتنی رحمت ہو جاتی ہے کہ ان کا قلب موم ہو جاتا ہے اور گناہوں سے نفرت ہو جاتی ہے۔ ان کے دل و دماغ میں اللہ اور اس کے نبیﷺ کی محبت اور اطاعت کا جذبہ زندہ و جاوید ہو جاتا ہے۔ اللہ سے ہمیشہ دعا کرنی چاہیے کہ یہ جذبہ ہمیشہ سلامت رہے اور مرتے دم تک دل سے اللہ کے گھر کی خیر و برکت کم نہ ہو۔ جب دم نکلے تو نظروں میں کعبہ اور اس کا مکین ہو۔

میرے خیال میں حج کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بہت بڑا کرم کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سفرِ حج پر روانگی کے وقت انسان دنیاوی دھندوں، کاروباری معاملات، خاندانی مسائل، قانونی پیچیدگیوں، خاندانی دشمنیوں اور دیگر دنیاوی مسائل کو الگ کر کے صرف ایک جانب اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی، اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار، اللہ اور اس کے نبیﷺ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش اور زیادہ سے زیادہ عبادت کے ذریعے اپنے اندر کے میل کو صاف کرنا۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر سچے دل سے توبہ کرو گے تو وہ اپنے گھر سے کسی سائل کو مایوس نہیں لوٹاتا ہے۔ اس کے تمام گناہوں کو معاف کر کے اپنی رحمت اور شفقت کے سائے میں رخصت کرتا ہے۔ چند دن کی عبادت کے صلے میں یہ اللہ کا اتنا بڑا کرم اور انعام ہے کہ ساری زندگی اس کا شکر ادا کرنے میں گزار دینی چاہیے۔

 

حج کی تیاریاں

__________________________________

 

رجسٹریشن کرانے کے کچھ عرصہ بعد ہماری تربیت اور کاغذی کار روائی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ لبیک والوں نے سڈنی کے ایک ہوٹل میں تین تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا تھا۔ ایک پیکج کے انتخاب سے پہلے اور دو رجسٹریشن کرانے کے بعد۔ علاوہ ازیں پاسپورٹ، تصاویر، حفاظتی ٹیکے لگوانے کا میڈیکل سرٹیفیکیٹ، نکاح نامے کی تصدیق اور کسی امام مسجد سے مسلمان ہونے کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ضروری تھا۔

اس سلسلے میں ایک ہندو لیڈی ڈاکٹر، ایک عیسائی پولیس آفیسر اور ایک پاکستانی امام مسجد کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔

ڈاکٹر شیلا برسوں سے ہماری فیملی ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹر شیلا اور اس کے خاوند ڈاکٹر ستیش بھٹ کی سرجری ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ڈاکٹر شیلا نے سعودی سفارت خانے کی ہدایت کے مطابق حفاظتی ٹیکے لگائے اور سرٹیفیکیٹ دے دیا۔ اس کے ساتھ اس نے احتیاطاً سعودی عرب میں قیام کے دوران مختلف ممکنہ بیماریوں کے نسخے بھی لکھ دیے۔ پھر اس نے کافی وقت صرف کر کے ہم دونوں کے میڈیکل سرٹیفیکیٹ بنائے جس میں درج تھا کہ ہمیں ان دواؤں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ایئر پورٹ پر ان دواؤں کے بارے میں کوئی سوال پوچھے تو اس کا جواب ہمارے پاس اس سرٹیفیکیٹ کی صورت میں موجود ہو۔ اس طرح اس نے ہمیں کسی ممکنہ پریشانی سے بچانے کا پورا انتظام کیا۔

ان دواؤں میں عام استعمال کی ادویات جیسے قے روکنے کی دوا، الرجی کی دوا، ایڑھیاں پھٹنے کی دوا، نزلہ زکام اور گلہ خراب ہونے کی دوا شامل تھیں۔

آسٹریلیا میں ڈاکٹر کسی بھی دوا کا نسخہ لکھ کر دینے میں بہت محتاط رہتے ہیں کیونکہ ان کی فیس حکومت ادا کرتی ہے۔ دواؤں کی قیمت میں بھی حکومت کا حصہ ہوتا ہے۔ یعنی مریض کو عموماً دوائی کی پوری قیمت نہیں دینی پڑتی ہے۔ اس میں سے کچھ حصہ حکومت ادا کرتی ہے۔ اس لیے ڈاکٹر بغیر ضرورت اور بغیر بیماری کے کبھی دوا لکھ کر نہیں دیتے۔ عام حالات میں ڈاکٹر شیلا بھی یہی کرتی تھی۔ ہمیں اتنی ساری دوائیں لکھ کر دینے کی وجہ اس نے یہ بتائی ’’دورانِ حج وہاں بہت خلقت جمع ہوتی ہے۔ مختلف بیماریوں کے جراثیم عام ہوتے ہیں۔ اس سے بہت سے لوگ متاثر ہو جاتے ہیں۔ تقریباً ہر آدمی پر یہ بیماریاں حملہ اور ہوتی ہیں۔ اگر آپ کے پاس یہ دوائیں ہوں گی اور وقت پر استعمال کریں گے تو ان امراض سے بچاؤ ممکن ہو سکے گا‘‘

ڈاکٹر شیلا نے درست کہا تھا سفرِ حج میں اور قیام حرمین شریفین کے دوران میں ہمیں ان دواؤں کی بار بار ضرورت پڑی اور یہ دوائیں ہمارے بہت کام آئیں۔ اگر یہ دوائیں ہمارے پاس نہ ہوتیں تو یقیناً ہمیں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔

ہم اپنی اس ڈاکٹر کے ہمیشہ ممنون رہیں گے۔ خدا اس کو سکون اور شانتی دے۔ کیونکہ سب کا ایک ہی مالک ہے۔

نکاح نامے کی تصدیق کی باری آئی تو اس کی شرط یہ تھی کہ کوئی پولیس آفیسر ہی اس کی تصدیق کر سکتا ہے عام طور پر آسٹریلیا میں دستاویزات کی تصدیق Justice of Peace جسے عرف عام میں جے پی کہا جاتا ہے، کرتے ہیں۔ یہ عام شہریوں میں سے نامزد کیے جاتے ہیں۔ میرے دوستوں میں سے بھی چند ایک جے پی ہیں۔ ہمیں پاکستانی جے پی کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب کسی اُردو دستاویز کی تصدیق کرانی پڑ جائے۔ یہ جے پی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہوتے ہیں۔ مثلاً کیمسٹ، پوسٹ آفس کا کلرک، بنک اسٹاف، ٹریول ایجنٹ یا دُکاندار یہ ذمہ داری لیتے ہیں۔ تاکہ لوگ آسانی سے ان تک پہنچ کر کاغذات کی تصدیق کروا سکیں۔

میرا نکاح نامہ اُردو میں ہے۔ ماہ وسال کی گردش کے ساتھ دولہا اور دلہن کی طرح نکاح نامہ بھی عمر رسیدہ اور خستہ حال ہو چکا ہے۔ وہ اپنی ابتدائی رنگت اور شکل و شباہت کھو کر زردی مائل اور گھسے پٹے کاغذ میں بدل چکا ہے۔ اگرچہ میں نے اس پر میک اپ کی تہیں (پلاسٹک کوٹنگ) چڑھا کر اور زمانے کے گرم و سرد سے محفوظ رکھنے کی اپنی سی کوشش کر کے اس کی چمک دمک برقرار رکھنا چاہی لیکن عمر رسیدہ مرد اور بوسیدہ کاغذ کی کڑک کب قائم رہتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنی اُڑی اُڑی رنگت، پیلاہٹ اور مدھم الفاظ کی وجہ سے تقریباً ناقابل فہم ہو چکا ہے۔ برسوں پہلے جب میں آسٹریلیا آ رہا تھا تو اسلام آباد سے میں نے اس کا انگریزی ترجمہ کروایا تھا وہ اب کام آیا۔ لیکن تصدیق بہرحال اصلی نکاح نامے کی ہونا تھی۔ یہ اصل نکاح نامہ اور اس کا انگریزی ترجمہ لے کر میں مقامی پولیس اسٹیشن گیا۔ کاؤنٹر پر موجود پولیس آفیسر کو میں نے نکاح نامہ، اس کا انگریزی ترجمہ اور سعودی سفارت خانے کا ویزہ فارم دکھایا تو وہ تینوں کاغذات لے کر دفتر کے اندر چلا گیا۔ تقریباً پانچ چھے منٹ کے بعد وہ واپس آیا تو اس کا منہ ایسے لٹکا ہوا تھا جیسے رس بھرا آم درخت سے گرنے والا ہو۔ اس نے جب بات کی تو لگا کہ بس رو ہی دے گا ’’مجھے افسوس ہے میں اس دستاویز کی تصدیق نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے اس کا ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آیا ہے۔ میں نے انگریزی ترجمہ دیکھا ہے لیکن اس سے اس لیے مدد نہیں ملتی کہ میں نے اردو نکاح نامے کی تصدیق کرنا ہے جسے میں پڑھ نہیں سکتا۔ اس لیے میں معذرت خواہ ہوں‘‘

اس پولیس آفیسر کے انکار پر اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر مجھے غصے سے زیادہ اس پر ترس آیا۔ اس کے پریشان حال چہرے کو دیکھ کر میں نے تسلی آمیز لہجے میں کہا ’’کوئی بات نہیں آپ کاغذات واپس کر دیں میں معلوم کروں گا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے‘‘

اس نے حیران ہو کر کہا ’’آپ یہ کاغذات واپس کیوں لے جانا چاہتے ہیں؟‘‘

میں نے کہا ’’آپ نے تصدیق کرنے سے انکار کر دیا ہے تو میں انہیں یہاں چھوڑ کر تو نہیں جا سکتا‘‘

وہ بولا ’’لیکن ویزے کی شرائط کے مطابق اس ڈاکومنٹ کی تصدیق صرف پولیس کر سکتی ہے۔ ورنہ آپ کو ویزا نہیں ملے گا‘‘

’’میں جانتا ہوں آفیسر لیکن آپ تصدیق کرنے سے انکار کر چکے ہیں‘‘ میں نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔

مجھے سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔

پولیس آفیسر جس کا نام رابرٹ تھا اسی معذرت خواہانہ لہجے میں بولا ’’میں نے تصدیق سے انکار اس لیے کیا ہے کہ مجھے اُردو نہیں آتی ہے۔ لیکن اس مسئلے کا حل پولیس کی ذمہ داری ہے۔ آپ کو اگر بہت زیادہ جلدی نہیں ہے تو یہ کاغذات ہمیں دے جائیں۔ ہم کسی مستند اُردو مترجم کو بلوائیں گے۔ اس سے پڑھوانے کے بعد اس کی تصدیق کر دیں گے‘‘

’’اس میں کتنے دن لگیں گے؟‘‘میں نے دریافت کیا۔

’’زیادہ سے زیادہ دو دن! اگر آج مترجم نہ مل سکا تو کل تک ضرور بندوبست ہو جائے گا۔ اس کی تصدیق کے بعد میں اپنے دستخط کر کے اور مہر لگا کر یہ کاغذات آپ کے گھر پہنچادوں گا‘‘

’’اس کی ضرورت نہیں میں آپ کو فون نمبر دے دیتا ہوں۔ میرا دفتر یہاں قریب ہی ہے۔ کاغذات کی تصدیق ہو جائے تو مجھے فون کر لیں میں آ کر لے جاؤں گا‘‘ میں نے کہا

رابرٹ نے کہا ’’بالکل ٹھیک ہے۔ کل تک آپ کو کاغذات مل جائیں گے۔ آپ کو جو دشواری ہوئی ہے اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں لیکن یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ پڑھے بغیر ہم کسی دستاویز کی تصدیق نہیں کر سکتے‘‘

دوسرے دن صبح دس بجے کے لگ بھگ رابرٹ کا فون آ گیا۔ اس نے بتایا کہ میرے کاغذات کی تصدیق ہو چکی ہے میں جب چاہوں آ کر انہیں لے جا سکتا ہوں۔ ایک گھنٹے بعد میں کاغذات اٹھانے پولیس اسٹیشن گیا تو ڈیوٹی پر موجود آفیسرنے اپنے انچارج کو بلا لیا۔ انچارج نے بھی مجھ سے معذرت کی کہ ہم کل کاغذات کی تصدیق نہ کر سکے۔ اس نے بھی وضاحت کی اس کی وجہ کیا تھی۔ مجھے علم تھا کہ مترجم ہر کام کی فیس لیتے ہیں۔ میں نے جب فیس کی بابت پوچھا تو انچارج نے کہا ’’ہاں مترجم کی فیس ہوتی ہے جو پولیس اپنے فنڈ سے ادا کرے گی۔ کیونکہ اس کی ضرورت ہمیں تھی۔ اُسے ہم نے اسے بلایا تھا لہٰذا اس کی فیس بھی ہم ہی ادا کریں گے‘‘

میں شکریہ ادا کر کے جانے لگا تو انچارج نے ہولے سے کہا

’’Good Luck and have a safe trip of Mecca‘‘

میں نے اس کا دوبارہ شکریہ ادا کیا اور اس نظام کا مزید معترف ہو گیا جس میں سرکاری ملازم عوام کے آقا نہیں بلکہ ان کے خادم ہوتے ہیں۔ وہ عوام کو سہولیات فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہ لوگوں کے مسائل کواس طرح حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہو۔ اسی وجہ سے عوام امن اور چین کی زندگی بسر کرتی ہے۔

ویزے کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ کسی امام مسجد سے سرٹیفیکیٹ لیا جائے کہ درخواست دہندہ مسلمان ہے۔ سڈنی کے تقریباً سبھی پاکستانی آئمہ مساجد سے میری جان پہچان ہے۔ چند ایک سے دوستی بھی ہے۔ ان میں سے ایک مولانا سے خاصی بے تکلفی ہے۔ حالانکہ مجھے ان سے اختلاف رائے بھی رہتا ہے لیکن ہمارے باہمی تعلقات کبھی متاثر نہیں ہوئے۔ اختلاف کی وجہ کوئی ذاتی عناد نہیں ہے۔ در اصل مولانا صاحب کا ایک خاص مدرسے اور خاص سوچ سے تعلق ہے۔ وہ اپنی تقریروں اور پروگراموں میں اس خاص مدرسے کی سوچ کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے پروگراموں میں اگر کوئی مختلف سوچ کا آدمی شرکت کرے تو اسے کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ مولانا کا سارا زور اپنے فرقے پر ہوتا ہے۔ میں نے انہیں کئی دفعہ سمجھانے کی کوشش کی کہ فرقہ بندی کے بجائے دین کی بنیادی تعلیمات اور حقوق و فرائض کو زیر بحث رکھنا چاہیے۔ فرقہ وارانہ مسائل چھیڑ کر خواہ مخواہ نوجوانوں کا ذہن پراگندہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال مولانا صاحب اسی ڈگر پر قائم ہیں۔ میں دوستی اور محبت کے مارے گاہے گاہے ان کے پروگراموں میں شرکت کر لیتا ہوں لیکن پابندی سے نہیں جاتا۔ ہم نے انہی مولانا صاحب سے رابطہ کیا اور سعودی سفارت خانے کے مطلوبہ سرٹیفیکیٹ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا ’’یہ سرٹیفیکیٹ کوئی بھی امام مسجد دے سکتا ہے جو آپ کو جانتا ہو‘‘

’’کیا آپ بھی یہ سرٹیفیکیٹ دینے کے مجاز ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا

کہنے لگے ’’جی ہاں میں بھی یہ سرٹیفیکیٹ دے سکتا ہوں لیکن آپ اپنے علاقے کے مولانا سے ہی لے لیں تو بہتر ہے‘‘

’’اس کی کوئی وجہ ہے؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔ در اصل ہمارے علاقے کی مسجد زیرِ مرمت اور بند تھی۔

مولانا صاحب فرمانے لگے ’’اس کی وجہ یہ ہے میں اپنے گروپ کے لوگوں کو یہ سرٹیفیکیٹ دیتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو میرے پروگراموں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں اور مالی معاونت بھی کرتے ہیں۔ پھر بھی آپ کو اگر کوئی مسئلہ در پیش۔۔۔۔ ۔۔۔؟‘‘

’’میں سمجھ گیا ہوں اور انشاء اللہ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا‘‘ میں نے مولانا کو جواب دیا اور فون بند کر دیا۔

اب میں نے فون اٹھایا اور سعودی سفارت خانے سے ملایا۔ سلام دعا کے بعد میں نے ان سے دریافت کیا کہ یہ مطلوبہ سرٹیفیکیٹ دینے کا مجاز کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کسی بھی اسلامک سینٹر، مسجد یا مصلیٰ کے امام سے یہ سرٹیفیکیٹ لے سکتے ہیں یا پھر آپ یہاں قونصلیٹ آفس آ جائیں۔ پاسپورٹ ساتھ لے آئیں۔ ہماری ٹیم یہ سرٹیفیکیٹ دے دے گی۔ آپ کے علاقے میں اگر مسجد نہیں ہے تو لکھ کر بھیج دیں ہم اس کے بغیر بھی ویزا جاری کر دیں گے۔ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔

سعودی سفارت خانے نے جن لوگوں کی فہرست بھیجی اس میں ہمارے علاقے کی زیرِ تعمیر مسجد کی انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے میرے دوست ضیاء الحق کا نام بھی شامل تھا۔ میں نے اُن سے رابطہ کیا تو انہوں نے بلا تاخیر سرٹیفیکیٹ لکھ کر اور مہر لگا کر میرے حوالے کر دیا۔

میں آج بھی پہلے والے مولانا کے رویے پر غور کرتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آسانیاں بہم پہچانے والا بنائے۔ جس طرح ڈاکٹر شیلا اور سینئر کانسٹیبل رابرٹ نے ہمارے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ ان تین مثالوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی پوری کمیونٹی بری یا اچھی نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ ہر کمیونٹی میں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ افراد ہیں جن سے قوم اچھی یا بری بنتی ہے۔ جہاں بہت سی کمیونٹیز پر مشتمل مخلوط معاشرہ ہوتا ہے وہاں افراد کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ وہ پوری کمیونٹی کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک فرد کے طرز عمل سے بعض اوقات پوری کمیونٹی کو اچھے یا برے لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے۔ دیار غیر میں ہر فرد اپنے اپنے ملک کا سفیر ہوتا ہے۔ اس کے ایک ایک قدم سے اس کے ملک کا امیج متاثر ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے اور ایسی ہر چیز اور ہر عمل سے بچنا چاہیے جو ہماری، ہمارے خاندان یا ہمارے ملک کی بدنامی کا باعث بنے۔

میں نے چھوٹے بھائی خالد محمود مرزا کے توسط سے پاکستان سے کچھ کتابیں منگوا لیں جو مناسک حج اور دعاؤں پر مشتمل تھیں۔ یہ کتابیں میں نے کئی بار پڑھیں اور تربیتی کلاسز میں بھی حصہ لیا۔ حج نہایت اہم فرض اور عبادت ہے جو عموماً زندگی میں ایک بار کی جاتی ہے۔ اس لیے ہر حاجی کی کوشش ہوتی ہے اس میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ کوئی غلطی اور کوتاہی نہ ہو جائے۔ مکروہات اور ممنوعات کا بخوبی علم ہوتا کہ ان سے بچا جا سکے۔ حج کو اس کی روح کے مطابق مکمل شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اور اس طریقے سے ادا ہو جس طرح پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ نے ادا کیا تھا۔ یعنی سنت رسولﷺ پر ہو بہو عمل کیا جائے۔ اللہ اور اس کے نبیﷺ نے جو طریقہ بتایا ہے اس طریقے سے ذرا سا بھی انحراف نہ ہو۔ دوران حج زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹی جائیں اور گناہوں کی کالک دھوئی جائے تاکہ پاکیزہ ہو کر واپس لوٹیں۔ قبولیت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے لیکن عازمین اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کی طرف سے کوئی کسر باقی نہ رہے۔

حج کے جو کتابچے مجھے ملے ان میں حج کے ہر رکن کا اجمالی تذکرہ تھا۔ مختلف علماء کے درمیان کچھ اختلاف بھی پایا جاتا تھا۔ زیادہ فرق حج کی سنتوں اور ارکان کی تفصیلات میں تھا۔ ان باتوں سے میری الجھن میں مزید اضافہ ہو گیا۔ بہرحال بنیادی ارکان اور شرائط پر سبھی متفق تھے اس لیے میں نے فی الحال تفصیلات میں الجھنے سے گریز کیا اور بنیادی امور کی طرف زیادہ توجہ مرکوز رکھی۔ ویسے بھی دوران حج معلم آپ کے ساتھ ہوتا ہے اور مختلف مراحل میں آپ کی رہنمائی کرتا رہتا ہے۔ دوران حج بھی تربیتی سیشن جاری رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ سیشن زیادہ تر اگلے دن کے پروگرام کے بارے میں ہوتے ہیں۔ حج کے تمام مناسک کو بمع تفصیل قبل از وقت سمجھنا بہت دشوار ہے۔ ویسے بھی جب مسائل درپیش ہوں تو ان کا حل بھی اسی وقت سمجھ آتا ہے۔

 

اللہ کی طرف سے معجزہ

__________________________________

 

جتنا ہمیں علم تھا اس کے مطابق ہم نے تیاری شروع کر دی۔ ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ حج ادا کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ انتہائی محنت اور جانفشانی کا کام ہے۔ یہ اس طرح بھی نہیں ہے جیسے اذان سنتے ہی ہم مسجد کا رخ کرتے ہیں، جماعت کے ساتھ نمازادا کرتے ہیں اور دعا مانگ کر گھر واپس آ جاتے ہیں۔ حج دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔ اس اجتماع کے دوران آپ کو مناسک حج بھی ادا کرنے ہوتے ہیں۔ یہ لاکھوں کا مجمع ہوتا ہے۔ سخت دھکم پیل ہوتی ہے۔ گرمی اور ہجوم ہوتا ہے۔ نیند پوری نہیں ہوتی۔ بے انتہا تھکاوٹ، جسمانی اور ذہنی مشقت اور بھوک پیاس برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ریاض الجنۃ میں نفل ادا کرنے کے دوران نمازی فٹ بال کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ اُچھالے جاتے ہیں۔ رکوع و سجود کی جگہ ہی نہیں ملتی ہے۔ جس جگہ کھڑے ہو کر نیت باندھتے ہیں دوران نماز اس جگہ پر کھڑے رہنا مشکل ہوتا ہے۔ دھکم پیل سے کہیں کا کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ اس دھکم پیل کے باوجود توجہ نماز کی طرف ہی رکھنا پڑتی ہے۔ ورنہ نماز پڑھ ہی نہیں سکتے۔ گویا حج کی ادائیگی کے لیے جسمانی چُستی اور تندرستی بہت ضروری ہے۔

اُدھر ہم میاں بیوی کئی برسوں سے گھٹنوں اور ٹخنوں کی سُوجن (knee Arthritis) کا شکار تھے۔ ہم نماز بھی کرسی پر بیٹھ کرا دا کرتے تھے۔ چھے سات برس قبل میرے دائیں گھٹنے کا آپریشن ہوا تھا۔ اس کے بعد سے میں نے کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنا شروع کی تھی۔ اس سے میرے گھٹنے، ٹانگیں اور ٹخنے مزید کمزور ہو گئے اور زمین پر بیٹھنے کی طاقت ہی نہیں رہی۔ مجھے علم تھا کہ مسجد نبویﷺ اور خانہ کعبہ میں بہت سے لوگ اپنے ساتھ چھوٹی چھوٹی کرسیاں لے کر جاتے ہیں اور انہی پر بیٹھ کر نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ ہر روز چھ مرتبہ کرسی اٹھا کر مسجد میں لے جانا اور پھر واپس لے کر آنا آسان نہیں ہے۔ حرمین شریفین میں رش کی وجہ سے کرسی ایک جگہ رکھ کر آسانی سے نماز ادا نہیں ہوتی کیونکہ صفیں گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہیں۔ کرسی کی وجہ سے خود کو یا کسی نمازی کو چوٹ بھی لگ سکتی ہے۔ حرمین شریفین میں نمازوں کے وقفے کے دوران نمازی اکثر وہیں رُکے رہتے ہیں۔ وہ عبادت کرتے ہیں۔ مسجد نبوی، خانہ کعبہ یا روضہ رسولﷺ کی زیارت کرتے رہتے ہیں۔ مسجد کے اندر یا بیرونی صحن میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ باتھ روم میں جاتے ہیں یا چائے وغیرہ پینے مسجد سے باہر بھی چلے جاتے ہیں۔ ایسے میں کرسی کمر پر باندھ کر پھرنا دقت کا باعث ہے۔ لہٰذا ہم نے کرسی سے نجات پانے کا تہیہ کر لیا۔

کرسی سے جان چھڑانے کی میرے نزدیک ایک اور وجہ بھی تھی۔ وہ یہ کہ مسجد نبویﷺ ہو، نبی پاکﷺ کا منبر سامنے ہو، ریاض الجنہ میں موجود ہوں اور روضہ رسولﷺ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو تو سجدہ اس خاک پر کرنے میں مزا آتا ہے جس خاک پر اللہ کے پیارے نبی نے سجدے کیے ہیں۔ اسی طرح اگر خانہ کعبہ میں موجود ہوں، اللہ کا گھر سامنے موجود ہو، رب کائنات آپ کے سامنے جلوہ گر ہو۔ ایک ایک نماز اور ایک ایک سجدہ ہزار نمازوں سے بھی افضل ہو تو یہ سجدہ اسی خاک پر ادا کرنے میں مزا آتا ہے جہاں ہمارے پیارے نبیﷺ سمیت نہ جانے کتنے پیغمبروں، صحابیوں اور ولیوں نے سجدے کیے ہیں۔ اس خاک کے ایک ایک ذرے پر اس دنیا کی برگزیدہ ترین ہستیوں کے نشان باقی ہیں۔ اس خاک کو تو چاند اور سورج بھی سلام پیش کرتے ہوں گے۔ اس خاک پر جبین ٹیکنے کا جو سرور ہے وہ دنیا کی کسی چیز میں نہیں ہے۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو ہم کرسی پر بیٹھ کر اشاروں سے نہیں بلکہ اللہ کے ان مقدس ترین گھروں کی خاک پر سجدہ ریز ہوں گے۔

جب سے میرے گھٹنے کا آپریشن ہوا تھا میں پاؤں کے بل نہیں بیٹھ سکتا تھا نہ دوڑ سکتا تھا۔ ڈاکٹر نے مجھے بتا دیا تھا کہ اب میں کبھی دوڑ نہیں سکوں گا۔ اس نے مجھے احتیاط سے چلنے کا مشورہ دیا تھا۔ خصوصاً سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے وقت بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی۔

اب کئی سالوں کے بعد میں نے پاؤں پر بیٹھنے کی کوشش کی تو ٹانگوں سے درد کا طوفان اٹھا اور پورا جسم جھنجھنا اٹھا۔ لیکن میں نے آہستہ آہستہ یہ مشق جاری رکھی اور درد کو برداشت کرتا رہا۔ چند دن بعد کرسی کے بغیر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی کوشش کی تو سجدوں اور التحیات کے لیے بیٹھنا دوبھر ہو گیا۔ گھٹنے، ٹانگیں، ٹخنے اور پاؤں درد سے بلبلا اٹھے۔ نیچے بیٹھنے کے لیے مجھے اتنا ہی تردد کرنا پڑتا تھا جتنا وزن سے لدے ہوئے اونٹ کو نیچے بیٹھنے کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ جب زور لگا کر بیٹھ جاتا تو گھٹنوں سے نیچے تمام اعضاء سراپا احتجاج بن جاتے اور ہلنے سے انکار کر دیتے۔ پاؤں اور ٹخنے جیسے لکڑی کی طرح اکڑ جاتے۔ میں اٹھنے کی کوشش کرتا تو ٹخنوں میں کڑکڑاہٹ سی ہوتی اور ایسے محسوس ہوتا کہ میرے اندر ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔ درد سے جسم سن ہو جاتا اور انگ انگ سے صدائے احتجاج بلند ہونے لگتی۔ نماز میں دھیان جو پہلے ہی کم تھا اور بھی کم ہو جاتا۔

اس تمام تکلیف کے باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری اور مشق جاری رکھی۔ نماز کے اندر خشوع و خضوع لانے کی شعوری کوشش سے بھی مدد ملی۔ دن بدن درد کم ہوتا گیا اور اٹھنے بیٹھنے میں قدرے آسانی ہونے لگی۔ حتیٰ کہ ڈیڑھ دو ہفتوں میں آسانی سے نماز پڑھنے لگا۔ یہ تکلیف اب برائے نام رہ گئی ہے جسے میں برداشت کر سکتا ہوں۔

اس مشق سے نہ صرف دوران حج بلکہ اس کے بعد بھی نماز کے لیے کرسی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور اس سے جان چھوٹ گئی۔ اس مشق سے ایک اور فائدہ بھی ہوا۔ وہ یہ کہ مدتوں سے سیٹ والی کموڈ استعمال کرنے کی عادت کے باوجود دوران حج منیٰ اور عرفات میں عام کموڈ کے استعمال میں بھی زیادہ دقت نہیں ہوئی۔ ورنہ یہ بھی بہت بڑا مسئلہ بن سکتا تھا۔ دوران حج یورپ اور امریکہ سے آنے والے حجاج کو جہاں دیگر کئی مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے وہاں یہ دیسی کموڈ کا استعمال بھی کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا ہے۔ جس نے ساری زندگی یا مسلسل چند سال سیٹ والی کموڈ استعمال کی ہو وہ پیروں پر بیٹھنے کے قابل نہیں رہتا ہے۔ ہم جن ہوٹلوں میں مقیم رہے وہاں تو سیٹ والی کموڈ کی سہولت موجود تھی۔ لیکن منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں دیسی کموڈ استعمال کرنا پڑتی ہیں جو یورپ امریکہ یا آسٹریلیا جیسے ملکوں سے جانے والے حاجیوں کے لیے سخت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔

بس ایک جذبہ ایمانی ہوتا ہے جو حاجیوں کو ان تمام مشکلوں سے گزرنے میں مدد دیتا ہے۔ جب میں پاؤں، ٹانگوں اور گھٹنوں کی مشقیں کر رہا تھا تو یہ ڈاکٹر کے مشورے کے برعکس تھا۔ اس سے نقصان پہنچنے کا احتمال تھا۔ لیکن میں جس مقصد کے لیے اور جس کی رضا کے لیے یہ سب کچھ کر رہا تھا اس پر مجھے پورا یقین بلکہ ایمان تھا کہ وہ ضرور میری مدد کرے گا۔ یہ اس کی مدد ہی تھی کہ نا ممکن کام ممکن ہو گیا تھا۔

اس سے پہلے جب میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جاتا تھا تو وہاں معذور اور ضعیف افراد کے لیے رکھی ہوئی کرسیوں سے استفادہ کرتا تھا۔ جب اچانک میں نے کرسی چھوڑ دی اور عام نمازیوں کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز ادا کرنے لگا تو میرے احباب کو حیرت ہوئی۔ انہوں نے دریافت کیا تو میں نے جواب دیا ’’اللہ نے مدد کی ہے اور اس نے میری ٹانگوں اور پاؤں کی طاقت لوٹا دی ہے‘‘

احباب اور خاندان والوں کو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔

مجھے دیکھ کر اور میری تحریک پر میری اہلیہ نے بھی یہی مشقیں شروع کر دیں۔ انہیں بھی آرتھرائٹس کی وجہ سے گھٹنوں، ٹخنوں اور پاؤں میں درد رہتا تھا۔ وہ مدتوں سے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتی تھیں۔ مسلسل مشق اور قوتِ ارادی سے انہوں نے بھی اپنے آپ کو اس قابل بنا لیا کہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگیں۔ انہوں نے حج پرلے جانے کے لیے دو کرسیاں بھی خرید لی تھیں۔ ان کی کبھی ضرورت نہیں پڑی اور آج تک ہمارے گھر میں موجود ہیں۔

ہم نے روزانہ پیدل چلنے کا دورانیہ بڑھا کر آدھ گھنٹہ سے ایک گھنٹہ کر دیا۔ پیدل چلنے کی ہمیں پہلے سے بھی عادت تھی۔ آخری چند ہفتوں میں روزانہ ایک گھنٹہ پیدل چلنے سے ہمیں ذہنی اور جسمانی طور پر چُست ہونے میں مزید مدد ملی۔ اس طرح دوران حج پیدل چلنے اور دیگر جسمانی مشقتوں کے لیے ہم کافی حد تک تیار ہو گئے۔

دوران تربیت ہمیں بتایا تھا کہ حج چھٹیوں پر جانے کا نام نہیں ہے۔ نہ ہی یہ اتنی آسان عبادت ہے کہ جب اور جس کا جی چاہے کر سکتا ہے۔ اس میں جسمانی مشقت، بھوک پیاس، نیند اور ہجوم میں رہنے کی عادت، ہمت اور صبر کی ضرورت ہے۔ اس لیے ایک خاص عمر تک ہی حج کرنا مناسب ہے۔ بہت زیادہ ضعیف اور بیمار لوگوں کے لیے حج پر جانا مناسب نہیں ہے۔ جسمانی چُستی کے علاوہ صبر اور برداشت کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔ صبر اور برداشت ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کی مدد سے عازمینِ حج مشکل ترین منزلوں کو آسانی سے سر کر لیتے ہیں۔

 

ذہنی تیاریاں

__________________________________

 

آسٹریلیا، یورپ یا امریکہ وغیرہ جیسے ممالک سے جانے والے عازمین حج کا پیکج خاصا مہنگا ہوتا ہے۔ ان کے لیے جو ہوٹل بک ہوتے ہیں وہ بھی کافی بلند معیار کے یعنی فائیو سٹار ہوتے ہیں۔ ہوٹل میں کھائیں تو کھانا بھی معیاری بلکہ بہت اچھا ہوتا ہے (اگر حاجی نے رہائش کے ساتھ ساتھ کھانے کی بھی بکنگ کرا دی ہو تو یہ سہولت ملتی ہے)۔ لیکن جتنا بھی مہنگا پیکج لیا گیا ہو حاجی ہر وقت ہوٹل میں تو نہیں رہتا۔ اسے باہر نکل کر حرم شریف، مسجد نبویﷺ، منیٰ، عرفات، مزدلفہ، اور خاص طور پر رمی کرتے وقت دنیا بھر سے آئے ہوئے عازمین حج کے ساتھ ہی یہ مناسک ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ان جگہوں پر سستے اور مہنگے پیکج کا فرق مٹ جاتا ہے۔ وہاں صرف شوق، محبت، ہمت، حوصلہ اور برداشت کام آتی ہے۔ پُر ہجوم مقامات پر یہ مناسک ادا کرتے ہوئے یورپ اور امریکہ کے عازمین حج کو زیادہ برداشت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ یورپ اور آسٹریلیا کے لوگوں نے اس طرح کے سخت موسم کا کبھی سامنا ہی نہیں کیا ہوتا ہے۔ یہ لوگ اس سخت گرمی اور ہجوم کے عادی نہیں ہوتے۔ جبکہ ہم پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش میں اس طرح کے موسم کو بھگتتے رہتے ہیں۔۔ لہٰذا یہ موسم، ایساجم غفیر اور اتنا گرد و غبار یورپی حاجیوں کے لیے کڑا امتحان ہوتا ہے۔ خاص طور پر ان نوجوانوں کے لیے جو پہلی دفعہ یورپ سے باہر کسی گرم ملک میں گئے ہوں۔ وہ یورپ کے یخ بستہ اور کم آبادی والے ملکوں سے آتے ہیں اور براہ راست دنیا کے گرم ترین مقام میں دنیا کے سب سے بڑے اجتماع کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بالکل نیا اور انوکھا تجربہ ہوتا ہے۔ دوران حج ایسے بے شمار لڑکوں اور لڑکیوں سے ہماری ملاقات رہی جو گرمی اور ہجوم کے ستائے ہوئے ہوتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جذبہ ایمانی سے بھی سرشارر ہوتے تھے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو بغیر دباؤ اور بغیر کسی دکھاوے کے خالصتاً اللہ کی خوشنودی کے لیے دانستہ اس آزمائش میں اُترے ہیں۔ ان کا جذبۂ ایمانی قابلِ ستائش ہے۔

میرے جیسے سرد و گرم چشیدہ شخص کے لیے یہ موسم نیا نہیں تھا۔ پاکستان کے علاوہ عمان میں بھی چند سال گزار کر میں ایسے موسم سے بخوبی آشنا تھا۔ وہ الگ بات ہے پچھلے بیس پچیس سال آسٹریلیا میں گزار کر میرے جسم میں بھی گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہو چکی تھی۔ مجھے یاد ہے 2008 میں جب چھٹیوں پر پاکستان گیا تو اپریل اور شروع مئی کی گرمی بھی میرے لیے ناقابل برداشت ہو گئی تھی۔ اس گرمی سے میرے جسم کی حدت اتنی بڑھ گئی کہ دن میں پانچ چھ بار نہانے سے بھی کم نہیں ہوتی تھی۔ یہ تپش دن رات ستاتی تھی۔ گھر کے اندر اور پنکھے کے نیچے بھی سکون نہیں تھا۔ آخر اس گرمی کا اثر اتنا بڑھا کہ نیم بے ہوشی کی کیفیت ہو گئی اور مجھے ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ ہسپتال میں مجھے انتہائی ٹھنڈے کمرے میں رکھا گیا اور گلوکوز کی ڈرپ لگائی گئی۔ اس سے قدرے افاقہ تو ہوا لیکن جسم کے اندر کی گرمی بدستور تنگ کرتی رہی۔ اگلے چند دن بڑے بھائی کے ہاں ان کے ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بند رہا جس کا درجہ حرارت 20C سے بھی کم تھا۔ کمرے سے نکل کر سیدھا ایئر پورٹ اور وہاں سے آسٹریلیا واپس آ گیا۔ آسٹریلیا آنے کے دو ہفتے کے بعد میرے جسم کا درجہ حرارت معمول پر آیا۔

پاکستان کی جس گرمی میں میری یہ حالت ہوئی تھی وہ سعودی عرب کی گرمی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی۔ سعودی عرب میں صبح سویرے ہی لو چلنے لگتی تھی۔ ظہر کے وقت تو جیسے سورج آگ برسا رہا ہوتا تھا۔ پسینہ سر سے پیر تک جسم کو بھگو دیتا اور پھر اسی گرمی سے خشک بھی ہو جاتا۔ اس حالت میں گرمی اور پسینے کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی ہو جاتی ہے۔ اس لیے ایک گھنٹے میں پانچ چھ دفعہ پانی پینا پڑتا ہے۔ حرمین شریفین میں پانی کی کمی نہیں ہے۔ بلکہ ٹھنڈا میٹھا اور صحت مند آب زم زم فراوانی کے ساتھ دستیاب ہے۔ لیکن ان دو مساجد کے باہر جیسے جمرات میں رمی کے لیے آتے جاتے ہوئے، مسجد آتے اور جاتے ہوئے، بازار یا گاڑی میں، مزدلفہ اور منیٰ وغیرہ میں پانی کی ضرورت بار بار پڑتی ہے۔ آپ کتنی ہی بوتلیں لے کر ساتھ رکھیں ختم ہو جائیں گی یا پھر اتنی گرم ہو جائیں گی کہ پینے کے قابل ہی نہیں رہتیں۔ یہی وہ مقامات ہیں جہاں سعودیہ کی گرمی اور پیاس کا اندازہ ہوتا ہے۔

حج صرف جسمانی اور مالی عبادت ہی نہیں بلکہ شاندار تربیت بھی ہے۔ حج کے ان چند ایام میں ایسی تربیت، ایسی صفائی اور ایسی کایا پلٹ ہوتی ہے کہ کسی اور جگہ ایسا ممکن نہیں۔ حرمین شریفین میں گزرنے والا ہر لمحہ جسمانی، ذہنی اور روحانی تربیت اور مشق فراہم کرتا ہے۔ حج کے دوران میں انسان اخلاق، برداشت، تحمل، روا داری، بھائی چارہ، اخوت، احترام انسانیت، احترام خواتین، پابندی وقت، خشوع و خضوع، concentration، خوف خدا، اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارنے کے آداب اور بے شمار مثبت تعمیری سبق سیکھتا اور ان پر عمل کرتا ہے۔ آنے والے سالوں میں اس کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں آتی ہیں اور بحیثیت مجموعی پورا اسلامی معاشرہ اس سے فیضیاب ہوتا ہے۔ یہاں رات دن آدمی ان تربیتی مراحل سے گزرتا ہے۔ یہاں آ کراس کا غرور، اس کی نخوت، اس کا اکڑ پن، اس کا گھمنڈ، اس کی لاپرواہی، اس کی سستی، اس کی بے عملی، اس کی بد اخلاقی، اس کی بد زبانی ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے اندر سے ایک نیا انسان جنم لیتا ہے جو ان برائیوں سے کم از کم دوران حج بچا رہتا ہے۔ غالب امکان یہ ہوتا ہے کہ یہ اچھائیاں اور مثبت تبدیلیاں وہ حج کے بعد بھی اپنائے رکھے گا۔ اللہ اور اس کا رسولﷺ بھی اس کی مدد کرتا ہے اور وہ بہتر انسان اور بہتر مسلمان بن کر وہاں سے لوٹتا ہے۔ اگر یہی تربیت اور یہی پیغام لے کر ہر حاجی اپنے ملک اور اپنے گھر واپس جائے اور اپنی بقیہ زندگی اس تربیت اور اس پیغام کے ساتھ بسر کرنے کی کوشش کرے تو اس سے پورے سماج میں خوشگوار تبدیلی آ سکتی ہے۔

یہ حج کے مقاصد میں ایک مقصد ہے۔ پوری دنیا سے فرزندانِ توحید کو اکٹھا کر کے اخوت و محبت کا وہ سبق سکھایا جاتا ہے۔ جو دنیا میں روشنی کا پیغام لے کر آگے بڑھتا ہے۔ ورنہ اللہ خواہ مخواہ کسی کو تکلیف میں نہیں ڈالتا۔ وہ انسان کی بہتری چاہتا ہے۔ اسے پیغمبروں، ولیوں بزرگوں اور الہامی کتابوں کے ذریعے اپنا پیغام دیتا رہتا ہے۔ یہ پیغام دے کر پھر وہ انسان کو آزاد کر دیتا ہے۔ اس کی رسی دراز کر دیتا ہے۔ اب انسان پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے۔ نیکی اور فلاح کا یا بدی اور برائی کا۔

 

سڈنی سے مدینہ منورہ

__________________________________

2 اکتوبر 2013 کی صبح چھ بجے سڈنی سے ہماری پرواز کی روانگی تھی۔ امارات ایئر لائن کی یہ سولہ گھنٹے کی فلائٹ اس وقت تک میری زندگی کی طویل ترین فلائٹ تھی۔ دبئی میں چند گھنٹے رک کر دبئی ایئر لائن کی فلائٹ سے ہم مدینہ منورہ جا رہے تھے۔ صبح تین بجے میرے ایک دوست محمد جاوید نے ہمیں ائر پورٹ ڈراپ کیا۔ اتنی صبح سڈنی ائیر پورٹ آنے کا بھی میرا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس وقت بین الاقوامی ایئرپورٹ کا وسیع و عریض لاؤنج دور دور تک خالی ہی نظر آ رہا تھا۔ کیونکہ صبح کی سب سے پہلی فلائٹ ہماری ہی تھی۔ سڈنی ائرپورٹ رات کے وقت بند کر دیا جاتا ہے۔ اتنا بڑا اور مصروف ائر پورٹ ہونے کے باوجود رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک کوئی پرواز نہ یہاں سے روانہ ہوتی ہے اور نہ یہاں اُترتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ائیر پورٹ کے گرد و نواح میں رہنے والے لوگوں کے آرام میں خلل نہ آئے۔

پروازوں کی اس بندش سے ایئر لائنوں، ایوی ایشن اور ملک کو کتنا نقصان ہوتا ہو گا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں عوام کی سہولت اور آرام کو پہلی ترجیح حاصل ہے۔ کوئی مالی فائدہ اور نقصان عوام سے بڑھ کر نہیں ہے۔ آسٹریلیا کی تمام حکومتوں کا یہی طریقہ کار رہا ہے۔ وہ عوام کی بات سنتے ہیں اور انہیں کی فلاح و بہبود کا کام کرتے ہیں۔ اس لیے عوام خوشحال اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت دن رات ان کی فلاح و بہبود کے لیے تگ ودو کرتی رہتی ہے۔ لوگ اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ٹیکس کی شکل میں حکومت کو دیتے ہیں اور حکومت اس ٹیکس کا ایک ایک پیسہ عوام پر ہی خرچ کرتی ہے۔ اس طرح عوام اور حکومت اعتماد اور خدمت کی خوبصورت زنجیر میں بندھے رہتے ہیں اور ملک ترقی کی منزلیں طے کرتا رہتا ہے۔ آسٹریلیا میں پارلیمنٹ کے ممبر حقیقی معنوں میں عوام کے نمائندے ہوتے ہیں اور سرکاری ملازم عوام کے خادم ہوتے ہیں اس کی مثال آپ پولیس آفیسر رابرٹ کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔

امارات ایئر لائن کا یہ جہاز آدھے سے زائد خالی تھا۔ اس سفر میں کئی انوکھی چیزیں دیکھیں۔ اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ سڈنی سے روانہ ہونے والی کسی بین الاقوامی پرواز میں اتنی سیٹیں خالی تھیں۔ ورنہ یہاں سے روانہ ہونے والے تمام جہاز اس طرح بھرے ہوتے ہیں جیسے کراچی کی ویگنیں۔ سیٹوں کا خالی ہونا بھی ہمارے لیے نعمت تھا۔ ایک ہی سیٹ پر بیٹھ کر سولہ گھنٹے گزارنا بہت مشکل ہے۔ مجھے تین گھنٹے مسلسل بیٹھنے کے بعد گھٹنوں میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہر دو تین گھنٹے کے بعد میں سیٹ چھوڑ دیتا ہوں اور ISLE میں چہل قدمی کرتا ہوں۔ اس سے یہ درد ختم ہوتا ہے۔

آج کل اکانومی کلاس میں سیٹوں کے آگے درمیانی جگہ بہت کم کر دی گئی ہے۔ پر پُرانے جہازوں میں یہ جگہ اتنی کم نہیں ہوتی تھی۔ بہرحال لمبی پرواز میرے لیے ہمیشہ آزمائش بن جاتی ہے۔ جگہ کم ہونے کی وجہ سے ٹانگیں جوڑ کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اکڑ جاتی ہیں۔ اوپر سے ہوائی سفر بور بھی ہوتا ہے۔ باہر دیکھنے کے لیے کچھ ہوتا نہیں اور اندر وہی فضائی میزبان اور ساتھی مسافر۔ ان کو کتنی بار دیکھیں گے۔ اس لیے میں ہمیشہ سو کر سفر گزارتا ہوں۔ وہ الگ بات ہے کہ اتنی تنگ جگہ میں سمٹ سمٹا کر فٹ بال بن کر سونا آسان نہیں ہوتا۔ پی آئی اے کو چھوڑ کر دوسری ایئر لائنوں کے کھانے ایسے ہوتے ہیں جیسے ہسپتال میں دل کے مریضوں کو دئیے جاتے ہیں۔ چائے طلب کریں تو نیم گرم پانی میں ٹی بیگ ڈال کر تھما دیا جاتا ہے۔ میرے جیسے کڑک چائے پینے والوں کے لیے یہ سرے سے چائے نہیں ہے۔ ایئر ہوسٹس کی بناؤٹی مسکراہٹ، ہمسفروں کے نخرے اور جہاز کی مسلسل گھوں گھوں سے انسان اُکتا جاتا ہے۔ ایک جگہ بیٹھے بیٹھے جسم اکڑ جاتا ہے۔ اگر درمیانی یا کھڑکی والی سیٹ ہو تو دوسرے مسافروں کو اٹھانا پڑتا ہے یا ان کے اوپر سے چھلانگ لگا کر ISLE میں جانا پڑتا ہے۔ اگر ہم سفر ذرا نخریلے ہوں تو یہ مشکل مزید بڑھ جاتی ہے۔

میں سوچتا ہوں اس سے تو پاکستان کی ٹرینیں اچھی ہیں۔ جہاں مسافروں، خوانچہ فروشوں، دوا فروشوں، بھکاریوں اور بھانت بھانت کے مسافروں کی وجہ سے کتنی رونق ہوتی ہے اور وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا ہے۔ تا ہم یہ ساری رونق نچلی کلاس تک محدود ہوتی ہے۔ اپرکلاس وہاں بھی دڑبوں میں بند ہو کر دنیا سے الگ تھلگ ہو جاتی ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں میں نے کراچی سے پنجاب کے درمیان ٹرین میں بہت سفر کیا ہے۔ اس سفر سے میں کبھی بور نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی تھکتا تھا۔ کیا بات ہے اپنے وطن کی اور کیا بات ہے پاکستان ریلوے کی۔

ریلوے کا ذکر چل نکلا ہے تو آسٹریلیا کی ریل کا بھی مختصر سا ذکر کر دوں۔ سڈنی میں سالہا سال تک میں نے ریل میں سفر کیا ہے۔ بہت صاف ستھری اور ایئر کنڈیشنڈ ٹرینیں اپنے نظام الاوقات کے مطابق چلتی ہیں۔ لیکن ان میں ذرا بھی رونق نہیں ہوتی ہے۔ صبح ٹرین میں سوار ہوں تو ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسافروں سے بھری ہوتی ہیں۔ کوئی اکا دکا سیٹ خالی ملتی ہے۔ لیکن اس بھری ہوئی ٹرین میں ایسے سناٹا ہوتا ہے جیسے یہ سب کسی کو دفنانے جا رہے ہوں۔ مجال ہے جو کسی کی زبان سے لفظ بھی پھوٹے۔ کوئی کسی کی طرف دیکھ کر مسکرا دے۔ کوئی حال چال ہی پوچھ لے۔

سب سر جھکا کر کتاب پڑھنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ آنکھیں بند کر کے سستا رہے ہوتے ہیں۔ یا لیپ ٹاپ میں اُلجھ کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی کو چھینک آ جائے یا کسی کو کھانسی آئے تو وہ اسے بھی روکنے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں یہ بظاہر مردے زندہ نہ ہو جائیں۔ اگر یہ کھانسی دوبارہ آئے تو کئی مسافر سر اٹھا کر اسے ایسے دیکھتے ہیں کہ کھانسنے والا بے چارہ شرمندہ ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اس سے کتنا بڑا گناہ سر زد ہو گیا ہے اور اس نے کیسے معصوم لوگوں کی نیند خراب کر دی ہے۔ لہٰذا اپنی منزل پر پہنچتے ہی وہ ڈاکٹر یا کیمسٹ شاپ کا رخ کرتا ہے تا کہ کوئی دوا وغیرہ لے کر اس مرض سے جلد چھٹکارا حاصل کر لے اور آئندہ ٹرین میں یہ شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔

دوسری طرف اپنے وطن کی ٹرینوں کی رونق سے ہم سب واقف ہیں۔ اس لیے وطن کی ٹرینوں کی ہمیشہ یاد آتی رہتی ہے۔ خاص طور پر مختلف اسٹیشنوں پر ہاکروں کی صدا ہمیشہ کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ چائے لے لو چائے۔ ملتان دا سوہن حلوہ۔ مرغ چھولے۔ ٹھنڈی ٹھار بوتلیں۔ آنکھوں کے ہر مرض کا علاج مصطفائی سرمہ، پیٹ کے ہر درد کا علاج لاہوری چورن، حیدر آباد کی چوڑیاں، کرارے پکوڑے، چٹپٹی دال جو دیکھنے میں دال اور کھانے میں مرغ ہے۔ ان کے علاوہ بھانت بھانت کے بھکاری، گا کر مانگنے والے، مساجد کے لیے چندہ جمع والے اور جنت کے گھر بانٹنے والے، اخبار اور رسالے والے۔ ان سب کے ہوتے ہوئے انسان کبھی بور ہو سکتا ہے بھلا۔ یوں سفر جتنا لمبا ہو آسانی سے گزر جاتا ہے۔ اس کا علم پاکستان ریلوے کو بھی ہے۔ میراچوبیس گھنٹے کا سفر اکثر تیس گھنٹے یا اس سے بھی بڑھ جاتا تھا۔ وقت پر پہنچنے کی نہ مجھے توقع ہوتی تھی اور نہ فکر۔ بھلا اتنی رونق چھوڑ کر جانے کو کس کا دل چاہے گا۔

سڈنی کی ٹرینیں اس کے مقابلے میں بالکل رُوکھی پھیکی محسوس ہوتی ہیں۔ ان کو چاہیے کہ پاکستان ریلوے سے سبق سیکھیں اور مسافروں کی سہولت کے لیے ٹرینوں میں کچھ تو رونق پیدا کریں۔ اور نہیں تو ہاکروں کو ویزے دے کر یہاں لے آئیں۔ انہیں ٹرینوں میں چٹپٹی اور کارآمد چیزیں بیچنے کا موقع دے کر نہ صرف ٹرینوں کی رونق بڑھائیں بلکہ مسافروں کی صحت بھی بہتر کریں۔ اس سے آسٹریلیا کی ریل کی آمدن بڑھے گی اور اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو گا۔

میں ہوائی جہاز کے سفر کا ذکر کر رہا تھا اس سفر میں مجھے سب سے زیادہ دقت یہ ہوتی ہے کہ دوران پرواز سگریٹ نوشی نہیں کر سکتا۔ اس تکلیف کا اندازہ سگریٹ نوش ہی کر سکتے ہیں کیونکہ دوسرے لوگ تو ہم سگریٹ نوشوں سے ویسے ہی تنگ رہتے ہیں۔ صاحبو! سگریٹ نوشی کے خلاف اتنا لکھا اور بولا جاتا کہ جو لوگ سگریٹ نوشی نہیں کرتے وہ سگریٹ نوشوں سے ہی نفرت کرنے لگتے ہیں۔ مانا کہ سگریٹ نوشی بری عادت ہے۔ لیکن سگریٹ نوشوں سے نفرت تو کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ سگریٹ نوشی کو میں خود بھی اچھا نہیں سمجھتا ہوں۔ لیکن کیا کروں چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ ویسے یہ مصرعہ شاعر نے کسی اور بلا کے بارے میں کہا تھا جو سگریٹ کی نسبت پھر بھی آسانی سے چھوڑی جا سکتی ہے۔ سگریٹ نوشی ترک کرنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ آخر اس بات کو میرے احباب کیوں نہیں سمجھتے کہ سگریٹ نوشی بری سہی لیکن کھانے اور چائے کے بعد ظالم مزا بہت دیتی ہے۔ اور اگر نہ پو تو کھانے کا مزہ بھی کرکرا ہو کر رہ جاتا ہے۔ زندگی میں کوئی ذائقہ تو باقی رہنا چاہیے۔ ورنہ کیا فائدہ سیدھی، سپاٹ اور رُوکھی پھیکی بے کیف زندگی کا۔ یہ بات میں اپنے ان دوستوں کے لیے کہہ رہا ہوں جو میری سگریٹ نوشی چھڑوا کر دنیا سدھارنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر میں سگریٹ نوشی چھوڑ دوں تو امریکہ مزید کوئی جنگ نہیں چھیڑے گا اور دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔ گویا میری سگریٹ نوشی سے دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ گلوبل وارمنگ بھی میری وجہ سے ہی ہے۔

خیر میرے یہ دوست اپنی دھن کے پکے ہیں تو ہماری مسقل مزاجی بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ تو صاحبو میری یہ مستقل مزاجی پچھلے تیس سال سے برقرار ہے۔ یہ مستقل مزاجی اُس وقت ختم ہو گی جب سگریٹ نہیں ہوں گے یا پھر سگریٹ نوش نہیں ہو گا۔ لہٰذا میرے ناصح دوست اپنے پند و نصائح اور طنز کے تیر خواہ مخواہ ضائع نہ کریں۔

سگریٹ نوشی کچھ عرصہ پہلے تک اتنی بری نہیں سمجھی جاتی تھی جتنی فی زمانہ ہو گئی ہے۔ آج سے بیس پچیس برس قبل سگریٹ اور حقہ ہر گھر میں موجود ہوتا تھا چاہے گھر میں کوئی پینے والا ہو یا نہیں۔ دیہاتوں میں کسی کے گھر میں مہمان آتے تھے تو کھانے یا چائے کے ساتھ حقّہ ضرور پیش کیا جاتا تھا۔ سردیوں میں درجنوں خواتین و حضرات اور بچے بڑے کمرے میں بیٹھے ہوتے تھے۔ چائے کے دور چلتے تھے۔ مونگ پھلی اور کِینو کھا کر چھلکے فرش پر ڈھیر کیے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ مردانہ اور زنانہ حقہ بھی گردش میں رہتا تھا۔ کبھی ایک کے ہاتھ میں اور کبھی دوسرے کی دسترس میں۔ کمرے کے دروازے اور کھڑکیاں سردی کی وجہ سے بند رہتی تھیں اور اندر دھُواں بھرا رہتا تھا۔ سردی کی شدت بڑھ جائے تو اُپلوں والی انگیٹھی بھی جلا کر کمرے کے درمیان رکھ دی جاتی تھی اور دھُوئیں میں مزید اضافہ ہو جاتا تھا۔ کسان جہاں بھی جمع ہوتے تھے حقہ ان کے درمیان گرم رہتا تھا۔ نہ کسی کو دھُوئیں سے بیر تھا اور نہ حقہ پینے والے سے۔

شہروں میں بھی اس وقت سگریٹوں کی ممانعت نہ تھی۔ دفاتر، بنک، ٹرینوں اور ہوائی جہاز، دکانیں حتیٰ کہ ہسپتال میں بھی لوگ سگریٹ نوشی کرتے نظر آتے تھے۔ آج سے پندرہ بیس سال قبل تک ہوائی جہازوں میں سگریٹ نوشی کی اجازت ہوتی تھی۔ جہاز اُڑتے ہی سگریٹ نوشی والی بتی بجھ جاتی تھی اور سگریٹ جل اٹھتے تھے۔ پرانی فلموں اور ڈراموں میں پروفیسر کلاس میں سگریٹ یا سگار پیتے دکھائی دیتے تھے۔ سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی میں آسٹریلیا دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔ آسٹریلوی حکومت کو مجھ سے تو خصوصی پرخاش ہے۔ وہ اس طرح کہ سگریٹ نوشی پر پابندیوں کا سلسلہ 1994 میں میری آسٹریلیا آمد کے فوراً بعد شروع ہوا۔ شروع میں دفاتر، بنک اور ہسپتالوں میں سگریٹ نوشی پر پابندی لگی۔ پھر شاپنگ سنٹرز اور ریستوران اس کی زد میں آ گئے۔ پھر عوامی ٹرانسپورٹ اور ہوائی جہازوں میں بھی ممانعت ہو گئی۔ دس بارہ برس قبل سگریٹ فروشوں کو حکم ہوا کہ سگریٹ نظر نہیں آنے چاہیے اور انہیں ڈھک کر رکھیں۔ پھر ان کے نام تبدیل کرنے کا حکم ملا۔ اس میں شامل نیکوٹین کی مقدار لکھنے پر پابندی لگی۔ آخر میں اس کی پیکنگ بدل کر انہیں سادہ کر دیا گیا۔ ان پر ڈراؤنی تصاویر اور سگریٹ نوشی سے انتباہ پر مشتمل جملے تحریر کیے گئے۔ اس دوران سگریٹ پر ٹیکس اس قدر بڑھا دیا گیا کہ 1996 میں جو پیکٹ تین چار ڈالر میں ملتا تھا اب وہ تیس ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ حالانکہ باقی اشیائے ضرورت کے نرخ اس تناسب سے کبھی نہیں بڑھے۔ غرض یہ کہ آسٹریلین گورنمنٹ نے میری سگریٹ نوشی پر قدغن لگانے کے لیے ہر جتن آزمایا۔ لیکن انہیں کامیابی پھر بھی نہیں ملی۔ ان کی ادائیں قاتلانہ ہیں تو ہم بھی تیر ستم کھانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ دیکھتے ہیں ان کی ادائے جورو ستم کی حد کہاں تک ہے۔

ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں

تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں

امارات ایئر لائن کی سولہ گھنٹے کی طویل فلائٹ میں نے زیادہ تر سوتے ہوئے گزاری۔ سیٹیں خالی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے چار سیٹوں کو اپنا بستر بنایا ہوا تھا۔ دوسرے مسافر بھی یہی کچھ کر رہے تھے۔ میرے سامنے والی سیٹ پر دو لڑکیاں سفر کر رہی تھیں۔ اپنے حلیے سے وہ یورپی سیاح لگ رہی تھیں۔ ڈھیلا ڈھالا لباس، لا پرواہ انداز، موسیقی سننے اور ہنسنے میں مگن۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کھلنڈری لڑکیوں کو دنیا کے مسائل سے پالا ہی نہیں پڑا۔ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ میرے ہاتھ میں کتاب دیکھی تو ان میں سے ایک نے پوچھا ’’یہ کس زبان میں ہے‘‘

اس کے لہجے سے میں نے اندازہ لگایا کہ انگریزی اس کی مادری زبان نہیں ہے۔ وہ یورپ کے کسی ایسے ملک سے تعلق رکھتی ہے جس کی زبان انگریزی نہیں ہے۔ بعد میں علم ہوا کہ وہ جرمن لڑکیاں تھیں اور آسٹریلیا کی سیاحت کے بعد واپس جا رہی تھیں۔ میں نے اسے بتایا ’’یہ اُردو کی کتاب ہے‘‘

کہنے لگی ’’یہ کس ملک میں بولی جاتی ہے۔؟‘‘

’’ویسے تو اردو کئی ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے لیکن پاکستان کی قومی زبان ہے اور میرا تعلق بھی بنیادی طور پر وہاں سے ہے‘‘

اس کا اگلا سوال تھا ’’آپ کی قومی زبان اُردو ہے تو آپ انگریزی کیسے بول سکتے ہیں۔ کیا یہ بھی پاکستان میں پڑھائی جاتی ہے‘‘

میں نے کہا ’’جی ہاں نہ صرف پڑھائی جاتی ہے بلکہ وہاں کی دفتری یا سرکاری زبان انگریزی ہی ہے‘‘

وہ بہت حیران ہوئی اور کہنے لگی ’’پاکستان جیسا ملک جس کا انگریزی سے کوئی تعلق ہی نہیں وہاں کی سرکاری زبان انگریزی کیوں ہے‘‘

’’حکومت کی ہے۔ انہی کی وجہ سے انگریزی وہاں آئی ہے‘‘

’’اب جب کہ آپ لوگ آزاد ہیں تو آپ انگریزی زبان سیکھنے اور دفاتر میں استعمال کرنے پر کیوں مجبور ہیں۔ کیا آپ کی قومی زبان اردو میں یہ کام نہیں ہو سکتا‘‘

اس نوجوان اور خوبصورت لڑکی نے جو تھوڑی دیر پہلے مجھے کھلنڈری اور لا پرواہ محسوس ہو رہی تھی ایسا سوال پوچھ لیا تھا جس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ لہذا بہانہ تراشنا پڑا ’’بالکل ہو سکتا ہے اُردو ایک مکمل اور بڑی زبان ہے۔ لیکن ہمیں انگریزی بھا گئی ہے۔ اس سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان نہیں ہے‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

اس لڑکی کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں آئی۔ بہت سنجیدہ لہجے میں بولی ’’قوموں پر اچھا اور برا وقت آتا رہتا ہے۔ لیکن زندہ قومیں ہمیشہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں۔ وہ کبھی بھی ہار نہیں مانتیں اور کبھی بھی مکمل آزادی کی جد و جہد ترک نہیں کرتیں۔ پاکستان اور ہندوستان بڑے ملک ہیں۔ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں تو دنیا میں اپنا الگ مقام بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ لوگوں کو اپنی الگ شناخت قائم کرنے اور اپنا الگ راستہ متعین کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دوسروں کی چیزوں پر فخر کرنے والے اور اپنی زبان کو کم تر سمجھنے والے کبھی بھی سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ پاکستان کے جو لوگ جرمنی میں موجود ہیں ان میں بہت صلاحیت ہے۔ وہ بہت اچھے ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ اور معاشیات کے ماہر ہیں۔ اتنی صلاحیتیں رکھنے والی قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے مشکل نہیں ہونی چاہیے بشرطیکہ راستہ متعین ہو، منزل واضح ہو اور کوئی راستہ دکھانے والا ہو۔ تب ہی ایسا ممکن ہے‘‘

اس لڑکی نے اپنے سنجیدہ رویے اور انتہائی سنجیدہ گفتگو سے مجھے سخت متاثر کیا میں نے اس سے دریافت کیا ’’کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمہارا پیشہ کیا ہے؟‘‘

’’میں تاریخ کی لیکچرر ہوں اور بر صغیر پاک ہند کی تاریخ سے بخوبی آگاہ ہوں‘‘

میں نے کہا ’’بہت اچھا لگا تمہاری باتیں سن کر اور یہ جان کر تمہیں پاک و ہند کی تاریخ سے دلچسپی ہے۔ میں بھی وہی بات دہراؤں گا کہ قوموں کی تاریخ میں عروج و زوال آتے رہتے ہیں۔ یورپ کی نسبت پاک و  ہند پیچھے رہ گیا ہے اور اپنی شناخت و ثقافت پر پوری طرح سے کاربند نہیں رہ سکا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ چند صدیاں پہلے ہندوستان یورپ سے ٹیکنالوجی میں پیچھے تھا لیکن اس کی ثقافت اور کلچر پوری طرح محفوظ تھا۔ وہ ٹیکنالوجی میں شاید یورپ سے قدرے پیچھے ہوں لیکن ان کی تہذیب کا دیا پوری طرح روشن تھا۔ یہ یورپ ہی تھا جو کبھی ولندیزیوں کی شکل میں، کبھی فرانسیسیوں اور  کبھی انگریزوں کی شکل میں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور اس کی معیشت پر حملہ اور ہوتا رہا۔ ہمارے لوگ بھولپن میں اور جدید جنگ و جدل سے لا علمی کی بنا پر ان کے زیر نگین آئے اور پھر سالوں بلکہ صدیوں تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہے۔ جب یورپ یونیورسٹیاں، مدرسے اور ریل کی پٹریاں بچھا رہا تھا اور ہندوستان سے لوٹی ہوئی دولت لندن، ایمسٹرڈم اور پیرس میں کام آ رہی تھی، اس وقت ہندوستانی جہالت میں بھٹک رہے تھے۔

آزادی کے بعد صرف چند دہائیوں میں ہم نے صدیوں کا فرق مٹانا تھا جو مٹا رہے ہیں۔ جلد ہی یہ فاصلے بھی مٹ جائیں گے۔ جرمنی یا یورپ کو طویل غلامی کی اس لعنت سے دوچار نہیں ہونا پڑا جس میں ہندوستان کے لوگ جکڑے رہے۔ اب بھی یورپ اور امریکہ اپنے اپنے مفاد کے لیے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں کمزور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی یہ کوششیں بھی ضائع جائیں گی۔ کیونکہ آزادی جیسی نعمت حاصل کرنے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے لوگ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا بھی سیکھ چکے ہیں۔ ان کادوسروں پر انحصار آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب یہ انحصار مکمل طور پر ختم ہو جائے گا‘‘

’’آپ سے بات کر کے اچھا لگا۔ لگتا ہے آپ کو بھی تاریخ سے دلچسپی ہے‘‘ شیرل نے نرم لہجے میں کہا۔

’’مجھے لوگوں سے دلچسپی ہے چاہے وہ کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں۔‘‘ میں نے کہا ’’میں نے بھی تاریخ پڑھی ہے۔ تاریخ ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے لیکن اس سے تکلیف بھی بہت ہوتی ہے۔ میری گفتگو میں شاید آپ کو یہی تلخی محسوس ہوئی ہو گی۔‘‘

شرل نے کہا ’’میں آپ کے جذبات سمجھ سکتی ہوں‘‘

اس کے بعد ہمارے درمیان مختلف موضوعات پر ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہی تاوقتیکہ مجھے نیند آ گئی۔

آج صبح جب ہم گھر سے نکلے تھے تو ہمارا دھیان منزل پر لگا ہوا تھا اس دفعہ ہم سب فکریں، سب پریشانیاں اور سب سوچیں وہیں چھوڑ کر نکلے تھے۔ اس سے پہلے جب بھی سفر پر نکلتے تھے تو دھیان پیچھے کی طرف لگا رہتا تھا۔ کاروبار کی فکر رہتی تھی۔ بچوں اور گھر کی فکر دامن گیر رہتی تھی۔ موبائل فون پر مسلسل رابطہ رہتا تھا۔ روزانہ کی رپورٹ لیتا اور ہدایات دیتا رہتا تھا۔ لیکن اس بار کاروبار مینیجر کے ذمے لگاتے ہوئے میں نے کہا ’’آپ یوں سمجھیں کہ ایک ماہ کے لیے آپ اکیلے ہی تمام امور کے ذمہ دار ہیں۔ ہر سوال کا جواب اور ہر مسئلے کا حل خود تلاش کرنا ہو گا۔ مجھے فون کر کے کوئی سوال نہ کرنا اور نہ میں جواب دوں گا‘‘

میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر اس وجہ سے کاروبار میں نقصان بھی ہوتا ہے تو ہونے دو۔ میں اپنی توجہ اس نفع پر مرکوز رکھوں گا جو ہمیشہ کام آنے والا ہے۔ ایسا ہی ہوا۔ اگلے تین چار ہفتے کے لیے دنیا کے مسائل جیسے میرے ذہن کی سلیٹ سے صاف ہو گئے۔ میرا دھیان بھی اس طرف نہیں جاتا تھا۔ کوئی فکر اور پریشانی ستاتی یا بھٹکاتی نہیں تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی اللہ پاک کا میرے اوپر خصوصی کرم تھا ورنہ اتنے دنیاوی مسائل کو یکسر نظر انداز کر کے یہ ذہنی یکسوئی حاصل کرنا میرے بس سے باہر تھا۔

اس سفر کے بعد جب غور کرتا ہوں تو یہ بات صاف سمجھ آتی ہے کہ اللہ جب اپنے گھر میں بلانے کی توفیق عطا کرتا ہے تو اس کے بعد جیسے آپ کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔ قدم قدم پر آپ کی راہنمائی اور مدد کرتا رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے نا ممکن کام بھی ممکن ہو جاتے ہیں۔

حجازِمقدس میں جا کر انسان اتنا مصروف ہو جاتا ہے کہ اس کے پاس بے کار سوچوں، غیر ضروری فکروں اور دنیاوی غم کے لیے وقت نہیں بچتا۔ اس دوران نماز، عبادات اور مناسک حج میں اتنا مصروف ہوتا ہے کہ سونے اور کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں وہاں وہ نظارے اور وہ رنگ و بو دیکھنے کو ملتا ہے کہ دل چاہتا ہے بس انہیں دیکھتے ہی جائیں دیکھتے ہی جائیں۔ ان میں روضہ رسولﷺ، مسجدنبویﷺ، منبر رسول، جنت البقیع، خانہ کعبہ، حطیم، مقام ابراہیم، صفا اور م روہ، منیٰ، مزدلفہ اور عرفات شامل ہیں۔ ایسے مقامات آپ کی نظروں کے سامنے ہوں تو کس کا دل چاہے گا کہ ہزاروں میل دور اپنے کاروبار کے بارے میں سوچیں۔ ان نظاروں کے سامنے تو انسان سب کچھ قربان کر سکتا ہے۔ وہاں کیسی فکر اور کیسی پریشانی۔ کس کی مجال ہے کہ ان نظاروں سے صرف نظر کر سکے۔ جب کالی کملی والے کا روضہ آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہا ہو تو آنکھیں جھپکنے کو دل نہیں چاہتا ہے۔ وہاں کسی اور خیال کا گزر کیسے ممکن ہے۔

سفر میں جب بھی وقت ملتا میں حج کے بارے میں کتاب کا مطالعہ کرتا رہتا۔ کئی دفعہ پڑھنے کے بعد بھی تمام مناسک اور ان کی ترکیب و ترتیب ازبر نہیں ہوئی۔ کئی سوال ذہن میں ابھرتے رہتے۔ ترتیب بار بار محو ہو جاتی اور حج کا پورا نقشہ ذہن میں نہیں سماتا تھا۔ یہی کیفیت دوران حج بھی رہی۔ کیونکہ قبل از وقت ہمیں پورا حج سمجھایا بھی نہیں جاتا تھا۔ بلکہ اگلے دن کا پلان بتایا جاتا تھا۔ سارا حج مکمل جزئیات سمیت قبل از وقت سمجھنا اور سمجھانا مشکل ہے۔ یہ مرحلہ وار ہی سمجھ میں آتا ہے۔ جب تمام مراحل مکمل ہو جاتے ہیں تو پھر مکمل حج کی سمجھ آتی ہے۔

طویل اُڑان کے بعد بالآخر ہمارا طیارہ دبئی ائیر پورٹ پر اتر گیا۔ زمین سے رابطہ ہوا تو جیسے جان میں جان آئی۔ دبئی ایئرپورٹ بھی شہر کی مانند ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اسّی کی دہائی کے بعد میں پہلی دفعہ دبئی ایئر پورٹ پر اُترا تھا۔ بیس پچیس سال کے بعد نہ وہ پرانا والا ائیر پورٹ تھا اور نہ وہ پرانا امارات۔ ائیر پورٹ بتاتا تھا کہ متحدہ عرب امارات بیس پچیس سال قبل والا نہیں ہے۔ بلکہ اب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ بین الاقوامی ہوائی اڈے کسی بھی ملک کا آئینہ ہوتے ہیں۔ جس ملک کا ایئر پورٹ جدید، ترقی یافتہ، صاف ستھرا اور منظم ہوتا ہے وہ ملک بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ورنہ ایئر پورٹ سے ملک کی اصلی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ نہایت خوش آئند بات تھی کہ برادر اسلامی ملک متحدہ عرب امارات اب دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہو چکا ہے۔

امارات ایئر لائن کی پرواز سے پہنچنے کے بعد دوبئی ایئر لائن کے ٹرمینل تک رسائی کے لیے ہمیں ایئرپورٹ کے اندر ہی لمبا سفر کرنا پڑا۔ اس کے لیے دو بسیں بدلیں، بہت سا پیدل چلے اور دو دفعہ چیک اِن کرانا پڑا۔ ایک دفعہ دوسرے ٹرمینل پر جانے کے لیے بس میں سوار ہونے سے پہلے اور دوسری دفعہ اس ٹرمینل میں پہنچنے کے بعد۔ شکر ہے ہمارا سامان ایئر لائنوں کے پاس جمع رہا ورنہ سارے سامان سمیت اتنی لمبی بھاگ دوڑ ممکن نہیں تھی۔

کافی انتظار کے بعد بورڈنگ شروع ہوئی تو پہلی دفعہ اپنے ارد گرد حج کا ماحول نظر آیا۔ اس پرواز میں سوار ہونے والے تمام مسافر عازمین حج تھے جو دنیا کے مختلف ممالک سے آئے تھے۔ امارات ایئر لائن کی نسبت اس چھوٹے جہاز کی تمام نشستیں بھر گئیں۔ بھانت بھانت کی بولیاں کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ مسافروں میں عمر رسیدہ اور ضعیف العمر افراد کی کثرت تھی۔ وہ اپنے اپنے ملکوں کے لباس میں ملبوس تھے۔ امارات ایئر لائن کی نسبت اس جہاز کی سیٹیں تنگ، ایئر کنڈیشنز تھکن کا شکار اور عملہ سست تھا۔ دبئی اترنے کے بعد جس گرمی نے استقبال کیا تھا وہ اس جہاز میں زوروں پر تھی۔ تمام مسافر بے چینی سے انتظار کر رہے تھے کہ جہاز چلے تو کچھ سکون کا سانس لے سکیں۔ شور، گرمی اور تنگی کی وجہ سے جیسے سانس بند ہو رہا تھا۔ خدا خدا کر کے ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد انجن گڑگڑائے، پہیے چرچرائے اور رن وے پر تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے بعد جہاز نے پر پھیلائے اور زمین سے دامن چھڑا کر آسمان کی وسعتوں میں محو پرواز ہو گیا۔

یہ میری غالباً پہلی پرواز تھی جس کا تمام عملہ اور مسافر مسلمان تھے۔ کیونکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اس پرواز کے زیادہ تر مسافروں کا تعلق وسط ایشیائی ریاستوں سے تھا۔ اس کے علاوہ ایران اور دوسرے برادر ملکوں کے عازمین حج بھی اس میں شامل تھے۔

جہاز فضا میں بلند ہوا تو قدرے سکون ہوا۔ ورنہ حاجیوں کا دستی سامان ہی سنبھل نہیں آ رہا تھا۔ رش اور گرمی کی وجہ سے پیاس ستا رہی تھی۔ میں نے جب عملے سے پانی طلب کیا تو معلوم ہوا کہ اس فلائٹ میں کھانا اور پانی مفت نہیں ملتا۔ ادھر میرے پاس امارات کی کرنسی نہیں تھی۔ پانی کی ایک بوتل کے لیے کریڈٹ کارڈ کا استعمال مجھے مناسب نہیں لگا۔ اس لئے ہم نے مدینہ منورہ پہنچنے تک پیاس برداشت کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسرے مسافروں کے پاس پانی کی بوتلیں موجود تھیں۔ جبکہ ہم نے ایئر پورٹ سے خریدی ہوئی بوتلیں بورڈنگ سے پہلے ہی پھینک دی تھیں۔ کیونکہ سڈنی ایئرپورٹ پر بورڈنگ کے وقت پانی لے کر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

یکایک اگلی سیٹ سے ایک ہاتھ نمودار ہوا جس کے ہاتھ میں پانی سے بھری ہوئی بوتل تھی۔ اس کے پیچھے ایک باریش ایرانی نوجوان کا خوبصورت چہرہ تھا۔ اس نے رواں انگریزی میں ہمیں پانی پیش کیا۔ ہم نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو نوجوان نے کہا ’’آپ یہ بوتل لے لیں، ہمارے پاس مزید بوتلیں ہیں‘‘

ہم اس نوجوان کے جذبے سے بہت متاثر ہوئے اور شکریہ کے ساتھ بوتل لے کی۔ مدینہ منورہ پہنچنے تک اس بوتل نے خوب ساتھ دیا کیونکہ طیارے میں گرمی کافی تھی۔

اس ایرانی نوجوان نے جس جذبۂ خیر سگالی کا مظاہرہ کیا تھا یہ ہمارے سفرِ حج کا پہلا تجربہ تھا لیکن آخری نہیں۔ آگے چل کر اخوت اسلامی، جذبۂ قربانی اور جذبۂ خیر سگالی کی اتنی مثالیں دیکھیں کہ انہیں یاد کر کے آج بھی اپنی قوم پر فخر ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی اپنی کمیونٹی میں واپس جانے کے بعد یہ جذبہ برقرار رکھیں تو ہمارے ملک جنت نظیر بن جائیں گے۔ اس سفر میں میں نے یہ بھی جانا کہ ملکوں کی حیثیت سے ہمارے درمیان جتنے بھی فاصلے ہوں، تمام کلمہ گو محبت و اخوت کی ایک خوبصورت لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ یہ لڑی اللہ اور اس کے پیارے نبیﷺ سے محبت کی ہے جو مسلمانانِ عالم کے دلوں میں آباد ہے۔ کلمہ گو دنیا کے جس خطے میں ہوں لا الہ الا اللہ کے مضبوط رشتے سے باہم جڑے ہوتے ہیں۔ مختلف رنگ ونسل کے اجنبیوں کے دل السلام علیکم کی مختصر مگر جامع دعا کے ساتھ ہی مل جاتے ہیں اور ان کے درمیان باہمی محبت کی شمع روشن ہو جاتی ہے۔ ان دو لفظوں سے ساری دوریاں مٹ جاتی ہیں۔ اجنبیت ختم ہو جاتی ہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نام لیوا یک جان دو قالب ہو جاتے ہیں۔ یہ الگ ہی رنگ ہے۔ یہ محبت و اخوت کا رنگ ہے۔ یہ بھائی چارے اور احترام کا رنگ ہے۔ یہ نبی پاکﷺ کے عشق کا رنگ ہے۔ یہ قرآن پاک کی برکتوں کا رنگ ہے۔ یہ تمام جہانوں کے خالق کا رنگ ہے۔ جو انسان سمیت اس کی ہر تخلیق میں موجود ہے۔

دبئی ایئر لائن کی ہماری پرواز مدینہ منورہ پہنچی تو اندھیرا پھیل چکا تھا۔ برقی روشنیاں شہر نبیﷺ میں ضو فشانی کر رہی تھیں۔ شہر کے طول و عرض میں روشنیوں کا جال بچھا نظر آتا تھا۔ ان میں اللہ کے حبیبﷺ کا روضہ اور مسجدِ نبوی کی روشنیاں بھی شامل ہوں گی۔ اسی لئے ہم اشتیاق سے نیچے دیکھ رہے تھے۔ لیکن اس کا موقع نہیں ملا کیونکہ جہاز نیچے سے نیچے ہوتا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ ایئر پورٹ صاف دکھائی دینے لگا۔ تھوڑی دیر بعد جہاز نے زمین کو چھوا اور پھر رن وے پر دوڑنے لگا۔ آہستہ آہستہ اس کی رفتار دھیمی ہوتی جا رہی تھی۔ حتیٰ کہ ٹرمینل کے گیٹ کے سامنے جا کر ساکت ہو گیا۔

 

آسٹریلیا میں کسٹمر سروس کا معیار

_______________________________________________________

 

جہاز رُکتے ہی مسافروں میں وہی ہل چل مچ گئی جو دبئی ایئر پورٹ پر بورڈنگ کے وقت نظر آئی تھی۔ لوگ جلدی جلدی سامان اُتار رہے تھے۔ چند ہی لمحوں میں وہ بیگ اٹھائے قطار میں کھڑے تھے۔ حالانکہ گیٹ ابھی تک بند تھے۔ لوگوں کی بے چینی دیکھ کر ایسا لگتا تھا چند منٹ مزید انہیں جہاز کے اندر رکنا پڑ گیا تو طوفان آ جائے گا۔

ہر پرواز میں یہی ہوتا ہے۔ لوگ گھنٹوں جہاز کے اندر گزار لیتے ہیں۔ لیکن جہاز رکنے کے بعد کے چند منٹ گزارنا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اس وقت وہ اس قدر جلدی میں نظر آتے ہیں کہ اپنے ساتھیوں، ہمسفروں اور سفر میں بننے والے دوستوں کو بھول جاتے ہیں۔ ان پر بس ایک ہی دھن سوار ہوتی ہے کہ گیٹ کھلتے ہی تیر کی طرح باہر نکلیں۔ ان میں ایک پرواز سے دوسری پرواز پر بیٹھنے والے مسافر بھی ہوتے ہیں اور یہ دوسری پرواز گھنٹوں بعد ہوتی ہے۔ وہ بھی آندھی اور طوفان کی طرح جہاز سے نکلتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دوسرا جہاز سامنے کھڑا ان کا انتظار کر رہا ہے۔ حالانکہ انہوں نے بیزاری کی حالت میں ایئر پورٹ پر ہی بہت سارا وقت گزارنا ہونا ہوتا ہے۔

مسافروں کو اس طرح بھاگتے دیکھ کر مجھے سکول کی چھٹی کی گھنٹی اور اس وقت کی بھاگ دوڑ یاد آ جاتی ہے۔ بہرحال تمام مسافر اس بھاگ دوڑ میں شامل نہیں ہوتے۔ جب جہاز رکتا ہے اور لوگ اٹھ اٹھ کر سامان اکھٹا کرنا شروع کرتے ہیں کچھ لوگ سکون سے بیٹھے کتاب پڑھتے رہتے ہیں یا فلم دیکھتے رہتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ انہیں علم ہی نہیں ہے کہ جہاز رک چکا ہے۔ جب تمام مسافر جہاز سے نکل جاتے ہیں تو وہ پھر آرام آرام سے خراماں خراماں دروازے کا رخ کرتے ہیں۔ میرا شمار ان دوسری قسم کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ میں ہمیشہ سب سے آخر میں اترنے والے مسافروں میں شامل ہوتا ہوں۔

ہجوم اور دھکم پیل سے جیسے میری جان جاتی ہے۔ لڑکپن اور نوجوانی کے دور میں فلم کے پہلے شو کے ٹکٹ خریدنا میرے لیے نا ممکن ہوتا تھا۔ اس عادت کی وجہ سے اکثر سینما سے بے نیل و مرام لوٹتا تھا۔ تاہم میرے کچھ دوست اس کام کے ماہر تھے۔

اسی طرح قطار میں کھڑے ہو کر بل جمع کرانا ہویا ٹرین کا ٹکٹ خریدنا بھی میرے لئے کڑا امتحان ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ قطار میں کھڑا ہونا میرے لیے کسرِ شان تھا۔ اصل وجہ یہ تھی کچھ لوگ تو قطار میں کھڑے انتظار کر رہے ہوتے اور کچھ سیدھے اندر گھس جاتے ہیں۔ وہ اپنا کام کرا کر مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دندناتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ آپ قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ قطار آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔ اچانک آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی سفارشی ٹٹو، کوئی سیاسی چمچہ، کوئی غنڈہ یا کوئی سرکاری کارندہ قطار کو نظر انداز کر کے براہ راست اندر جاتا ہے اسے چائے بھی پیش کی جاتی ہے اور دوسروں کا کام روک کر پہلے اسے فارغ کیا جاتا ہے۔ یہ سرا سر زیادتی اور حق تلفی ہے۔ اس روش کو میں نے کبھی قبول نہیں کیا اور اس سے ہمیشہ نفرت کی ہے۔

شکر ہے کہ آسٹریلیا میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ یہاں کسی بھی دفتر میں رنگ ونسل، زبان یا کسی اور وجہ سے کوئی آپ کی حق تلفی نہیں کر سکتا۔ بنکوں اور سرکاری اداروں میں مشینیں لگی ہوتی ہیں۔ اندر داخل ہوتے ہی اس مشین سے ٹکٹ حاصل کریں اور پھر ٹکٹ پر لکھے ہوئے نمبر کے حساب سے اپنی باری کا انتظار کریں۔ جونہی آپ کا نمبر آتا ہے آپ کا ٹکٹ نمبر کاؤنٹر کی ٹی وی سکرین پر روشن ہو جاتا ہے اور اس کا اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ آپ متعلقہ کاؤنٹر پر جائیں تو پوری عزت اور توجہ سے آپ کی بات سنی جاتی ہے۔ جب تک آپ کا کام نہیں ہو جاتا اگلے کسٹمر کو نہیں بلایا جاتا چاہے گھنٹوں لگ جائیں۔ بنک اگر چار بجے بند ہوتا ہے اور آپ تین بج کر انسٹھ منٹ پر بنک کے اندر داخل ہو گئے ہیں تو آپ کا جو بھی کام ہے وہ ضرور نمٹایا جائے گا، چاہے چھ بج جائیں۔ بنک کے اندر موجود کسٹمرز کا کام نمٹائے بغیر عملہ کام ختم نہیں کر سکتا۔

سرکاری ادارہ ہو یا پرائیویٹ بنک اہلکارسب سے پہلے مسکرا کر آپ کی خیریت دریافت کرے گا پھر آپ کا کام کرتے ہوئے دوستانہ گفتگو جاری رکھے گا۔ آپ کو ایسا لگے گا کہ آپ کسی دوست سے گپ شپ کر رہے ہیں۔ کسٹمر سروس والے عملے کے چہرے پر کبھی جھنجھلاہٹ نہیں نظر آئے گی۔ حالانکہ بعض کسٹمر بہت ترش رُو ہوتے ہیں۔ لیکن کاؤنٹر کے پیچھے کھڑا شخص چاہے وہ مرد ہو یا عورت اپنی مسکراہٹ برقرار رکھے گا۔ وہ ہر صورت میں کسٹمر کو مطمئن کر کے ہی فارغ کرے گا۔ بنک ہو یا دُکان، وکیل ہو یا ڈاکٹر، ٹریول ایجنٹ ہو یا پراپرٹی ایجنٹ یاکسی اور کمپنی کا نمائندہ، فوقیت ہمیشہ کسٹمر کو ہی ملتی ہے۔ اس کی غلط بات بھی صحیح سمجھی جاتی ہے۔ کسٹمرکی معمولی سے معمولی شکایت کو بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور اس کی ہر ممکن طریقے سے تلافی کی جاتی ہے۔ کسٹمر کی شکایت سننے اور ان کے تدارک کے لیے ہر محکمے میں باقاعدہ ایک سیکشن قائم ہوتا ہے۔ یہ شرطیہ امر ہے آسٹریلیا میں کوئی بزنس، کوئی سروس، کوئی محکمہ بہترین کسٹمر سروس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی ڈگری لیں یا کوئی اور کام سیکھیں کسٹمر سروس نصاب کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ چاہے یہ کام نائی، موچی یا درزی کا ہی کیوں نہ ہو۔ کسٹمر سروس کا امتحان پاس کیے بغیر آپ کو سرٹیفیکیٹ نہیں ملے گا۔

سفرِ حج کی روداد کے درمیان میں آسٹریلیا کی کسٹمر سروس کا ذکر بظاہر بے جا اور بے محل نظر آتا ہے لیکن آگے چل کر اس کی وجہ بھی سمجھ آ جائے گی۔ کیونکہ اس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اپنے پیارے وطن کی کسٹمر سروس کا بھی ذکر آئے گا۔ اگر میرے وطن کے کسی ایک شخص پر بھی اس تحریر کے مثبت اثرات مرتب ہو گئے تو میں سمجھوں گا کہ میرا مقصد پورا ہو گیا ہے۔

ویسے بھی لکھنے والا صرف آنکھوں دیکھی ہی نہیں دِل پر گزری بھی لکھتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں جتنی دیر قلم رہتا ہے وہ اپنے جذبات و احساسات کو بھی احاطۂ تحریر میں لاتا رہتا ہے۔ سفر نامے کا یہ مقصد بھی نہیں کہ متعلقہ سفر سے ہٹ کرکسی موضوع پر بات ہی نہیں کی جائے۔ نہ یہ سرکاری خط ہوتا ہے جو جچے تلے اور مختصر ترین الفاظ میں مدعا بیان کرتا ہے۔ سفر نامہ ایک مضمون یا ایک کہانی بھی نہیں ہے جس میں موضوع سے رو گردانی جائز نہیں ہوتی ہے۔ سفر نامے میں راہ کے بلکہ کائنات کا ہر رنگ شامل کیا جا سکتا ہے۔ یہ رنگ مصنف کے مشاہدے اور تجربے کا رنگ بھی ہو سکتا ہے اور اس کے اندر کا رنگ بھی۔ اس لیے ارد گرد کی دنیا کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں میرے جذبات، خیالات اور تجربات آپ کو جا بجا بکھرے نظر آئیں گے۔ اصل میں جذبوں کا اظہار ہی اس کاوش کا مطلوب و مقصود ہے۔ چاہے وہ میرے دینی جذبات ہوں یا دنیاوی خیالات ہوں۔ ورنہ اس موضوع پر کتابوں کی کوئی کمی تو نہیں ہے۔ مجھ سے بہت بہتر لکھنے والوں نے بہت اچھی اچھی کتابیں لکھ رکھی ہیں۔ میں توبس اپنے جذبوں، اپنی سوچوں، اپنی تمناؤں اور التجاؤں کو صفحہ قرطاس پر بکھیر کر اپنے اندر کی تپش کم کرنا چاہتا ہوں۔ شاید کوئی لفظ، کوئی جملہ، کوئی اِلتجا اس کے در پر دستک بھی دے دے۔

٭٭٭

باقی آئندہ

One thought on “سفرِ عشق ۔۔۔ طارق محمود مرزا (قسط۔۱)

  • بہت خوبصورت سفر نامہ ہے ۔ احساسات ، خیالات ، جذبات ، مشاہدات اور تجربات کا بہتا دریا ۔
    قاری اس کی روانی میں ڈوب جاتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے