جنگ جاری ہے ۔۔۔ دیوی ناگرانی

قیدی کے لئے آزادی کا حکم جاری کیا گیا۔ قید خانے کے اس پار کی سلاخوں کے اندر وہ اپنی ہی سوچ کے جنگل میں گھوم رہا تھا۔ پچھلے نو سالوں سے یہاں رہتے رہتے وہ اس کوٹھری کو اپنا گھر سمجھنے لگا، وہی مقام جتنا مستقل تھا اتنا ہی غیر محکم۔

‘قیدی تمہارے لئے حکم نامہ آ گیا ہے!‘

‘کیسا حکم؟’ قید خانے کی سلاخوں کے اس پار کھڑے بنا کوتوال کی طرف دیکھے اس نے جاننا چاہا۔

‘تمہاری رہائی کا!’

’کیوں کیا میری سزا کی مدت پوری ہو گئی ہے؟ ‘ قیدی کی پھٹی ہوئی آنکھیں اب کوتوال کے چہرے کا معائنہ لیتے ہوئے اس کے چہرے پر گڑ گئیں۔

‘نہیں اب ملک آزاد ہو گیا ہے!’ اور وہ لگ بھگ چیختی ہوئی آواز میں دہرانے لگا۔۔۔ ’ملک آزاد ہو گیا، آخر ملک آزاد ہو ہی گیا۔‘

اور سلاخوں کے اندر کھڑے کھڑے جوش میں چکر لگاتے ہوئے خوشی سے تالی بجا کر نعرے لگاتا رہا۔ آزادی تو اسے ملنی ہی تھی،ملک کی آزادی کے ساتھ۔ اسی لڑائی کے لئے تو وہ لڑے تھے، ایک نہیں، دو نہیں، ہزاروں، لاکھوں، سیکڑوں دیش پریمی۔ یہ ان کی ہی قربانیوں کا نتیجہ تھا، ان جاں باز سپاہیوں کی ان تھک کوششوں کا حاصل تھا۔ جو آج یہ خوشخبری اسے ملی ہے، اور تحفے کے روپ میں ملی ہے اسے اپنی آزادی!

‘تمہیں اپنی چیزوں کی شناخت کے لئے دو گھنٹے بعد آفس میں حاضر ہونا ہے اور پھر تم جہاں چاہو جا سکتے ہو۔ ‘

وہ اپنے ماضی کی تنگ گلیوں سے ہوتا ہوا، مین روڈ کی دائیں طرف والی قطار میں بنے گھروں میں، گھر نمبر 11 کی طرف  ٹکٹکی باندھے کھڑا ہو گیا۔ گھر بڑا نہیں، چھوٹا سا ہی تھا۔ ایک کمرہ، چھوٹا سا چبوترہ کھانا بنانے کے لئے، غسل خانہ اور چھوٹا سا کھلا آنگن، جس میں ایک موری تھی۔ وہیں برتن اور کپڑے دھلتے تھے۔ گھر کی طرح خاندان بھی چھوٹا سا ہی تھا۔ بیوی سرسوتی، تین سال کا بیٹا راہل. انقلابیوں کی عادت کے مطابق آسانی کے ساتھ،  ساتھ بیوی سرسوتی ’پتنی دھرم‘ کی راہ پر ہم سفر بن کر اپنا فرض بخوبی ادا کرتی رہی۔ ملک کے دشمنوں و ملک سے باہر نکالنا اور دیش میں رہنے والوں  کو ان کی آزادی ملے، یہی تو مقصد تھا کمل کانت سہائے کے گروہ کا، جس میں وہ ایک جٹ ہو کر کے اپنی خدمات انہیں کاموں کے لیے پیش کرتے تھے۔ اس کی ہر کارگذاری میں شریک ہونے کے ناطے سرسوتی کبھی چار پانچ ممبروں کا کھانا بنا دیتی، کبھی ان کے کپڑے دھوکر، سکھا کر انہیں پہنچاتی، جب بھی ان کا پڑاؤ اس علاقے میں ہوتا۔ زندگی کا نصب العین سبھی کا ایک ہی تھا دیش کو آزاد کروانا!

آج اسے رہا کیا جائے گا! آزاد دیش کا آزاد شہری، جہاں چاہے جا سکتا ہے۔ پر وہ کہاں جا سکتا ہے؟  نو سال کا عرصہ لمبا ہوتا ہے، زندگی کا ایک بڑا حصہ۔ جب اور انقلابیوں کے ساتھ اسے گرفتار کیا گیا تھا تب وہ گھر پر ہی تھا۔ دستک دے کر، دونوں ہاتھ ہتھکڑیوں میں جکڑ کر جب کوتوال اسے لے جانے لگے، تب تین سال کا راہل دونوں ہاتھ پھیلا کر اس کی طرف اپنے ننھے پاؤں بڑھانے لگا۔ پر زنجیریں کہاں ڈھیلی ہوتی ہیں، کہاں فاصلوں کو طے کر پاتی ہیں؟  وہ بھی ایک قیدی کی؟  وہ نہ اپنے بچے کو سہلا سکا، نہ چوم سکا، نہ اسے اپنی آغوش میں لے پایا۔ سرسوتی کی آنسؤوں سے تر آنکھوں میں وہ صرف امید اور نا امیدی کے بیچ میں لٹکی ہوئی تصویر بن گیا، اپنے ہی کہے ان کہے لفظوں کا قیدی۔ ایک دن پہلے ہی تو بیوی نے پوچھا تھا ’تو کیا جب ہم آزاد ہوں گے، تب ہمیں کوئی تکلیف، کوئی پریشانی نہیں ہو گی؟ کیا ہمارے نئے نیتا ہمارے مائی باپ بن کر ہماری ضرورتیں پوری کریں گے؟  ہمیں کپڑا، اناج اور بچوں کو تعلیم  کی سہولت دے پائیں گے؟‘

’ہاں، ہاں۔۔۔۔ تب وہ سب کچھ ملے گا جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ سبھی بیروزگاروں کو کام، غریبوں کو ان کے حالات کے مطابق سہولیات اور ضرورتمندوں کو ان کی ضروریات کے لحاظ سے مفت دوا دارو، مفت تعلیم، اور مفت میں ان کے جھگڑے فسادوں کو بھی نپٹایا جائے گا۔ آزاد ملک کا ہر آزاد آدمی خوشحال ہو گا۔‘

’مجھے یقین نہیں ہو رہا ہے ایسا کچھ ہو گا۔ ایک سپنا سا لگ رہا ہے۔ “بیوی کے کہے الفاظ اسے یاد ہو آئے۔۔۔۔ ۔ “سپنوں کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش میں ہی تو ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے جب تک مقام نہیں ملے گا۔ “ کمل کانت نے پُر جوش الفاظ میں کہا تھا۔ اور اسی لمحے دستک ہوئی، ہتھیلیاں ہتھکڑیوں میں جکڑی گئیں اور جیسے کوئی بے رحم شکاری اپنے شکار کو لے جاتا ہے کچھ ایسی ہی حالت میں کمل کانت کو لے جایا گیا۔

سرسوتی سپنے اور حقیقت کے فاصلے کا حساب جوڑ رہی تھی۔ امیدوں کی نازک ٹہنیاں طوفانی ہواؤں سے تباہ و برباد ہوتی ہوئی دکھائی دیں۔ کچھ کہنے، کرنے کی دو سری راہ نہ سوجھی، تو وہ کوتوال کے سامنے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑاتے ہوئے کہنے لگی ’مجھے بھی ان کے ساتھ قیدی بنا کر لے چلو، میں وہیں اپنا جیون بتا لوں گی۔ یہاں اکیلی رہ گئی تو جی نہیں پاؤں گی‘

’تمہیں اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں اکیلے کیسے کوئی رہنے دے گا؟ آس پاس میں ہی ہماری کوتوالی ہے۔ اتنے سارے کوتوال ہیں، ایک نہ ایک تمہاری مدد کو آئے گا، اس بات کا وعدہ رہا۔ یہ ملک کا باغی ہے، اسے تو سلاخوں کے پیچھے رہنا ہو گا۔۔۔‘

’تھو۔۔۔ کرتی ہوں تمہارے منھ پر، لعنت ہے تمہاری سوچ پر جو دیش کے رکھوالے ہو کر بھکاریوں جیسی باتیں کر رہے ہو۔ میرا وجود میری طاقت ہے، میرا پتی میرا مالک۔۔۔۔ تم سرکار کے پالتو کتے۔۔۔!” سرسوتی کی آنکھوں سے لگاتار آنسو بہے جا رہے تھے۔ وہ جاتے ہوئے کمل کانت کو دیکھتی رہی جب تک وہ اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں جیسے خون اتر آیا تھا۔ جو سپنا آنکھوں نے سجایا وہ ٹوٹ گیا، سبھی کلپنائیں حقیقتوں سے ٹکرا کر چور چور ہو گئیں۔ یہ کیسا ملک ہے جہاں ہندوستان کے مکار لوگ انگریزوں کے تلوے چاٹتے پھرتے ہیں، اپنی دھرتی کو دھتکارتے ہیں، دھرتی کی عزت کے بھکاری بن کر اس کے آنچل کو داغدار کرنے پر تلے رہتے ہیں؟  ایسے کئی سوال اس کی سوچ کے خالی دامن کو بھرتے گئے۔ وہ سناٹوں کو چیرنے کی کوشش میں بڑبڑاتی رہی۔ جیسے کسی صدمے کے تحت اظہار ہوا جا رہا ہو۔۔۔۔ ۔! آزاد ہندوستان۔۔۔۔ نہ کوئی امیر، نہ غریب۔ ہر ایک کی ضرورت پوری ہو گی، مفت دوا دارو، مفت تعلیم، اور مفت میں انصاف ۔۔۔۔! بس وقت نے کروٹ بدلی، جو کچھ اس کے پاس تھا، سب کچھ لٹ گیا۔ اسے لگا جیسے وہ ایک نہیں کئی زنجیروں سے جکڑی گئی تھی۔ مفلسی کی زنجیر، بھوک کی زنجیر، ہوس کی زنجیر، سانسوں کی زنجیر۔۔۔۔ ۔۔! زنجیروں کی قبا میں وہ گھٹن بھرے ماحول میں جینے کے لئے مجبور ہو گئی تھی۔

اپنے دونوں خالی ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچ کر اس نے دیکھا، دونوں ہاتھوں میں دلہن کی چوڑیوں کی بجائے لوہے سے بھی کڑی ان دیکھی زنجیریں تھیں۔ اس نے اپنے نیچے کے ہونٹ کو دانتوں کے بیچ اتنا زور سے دبایا کہ ہونٹ خون کی لالی سے رنگ گئے۔ اور وقت، اپنے دائرے میں گھومتا رہا۔۔۔ سال دو سال بھی نہیں گزرے کہ وہ سرسوتی نہ رہ کر، ایک بدنام، بد چلن، پاگل آوارہ عورت کے نام سے جانی جانے لگی۔ بچہ پولیس نے حراست میں لے لیا گیا۔ پاگل عورت پرورش کے قابل نہیں ہوتی نا! یہی سبب بن گیا۔

کمل کانت کو اپنا نام تک یاد نہ رہا، بس قیدی نمبر 9 اس کی پہچان بن گئی۔ جیل کی کوٹھری نمبر 9 اس کا گھر بن گئی۔ وہیں اسے سکون ملتا اور اسی گم صم ماحول میں وہ پڑا پڑا سوچتا تھا کہ سرسوتی پر کیا گزری ہو گی؟ کیسے اکیلی جان ان بھوکھے بھیڑیوں اور دلالوں کی دنیا میں جیتی ہو گی؟ ہو گی بھی یا نہیں؟  نہ اسے باہر کی دنیا کی کوئی خبر دیتا، نہ وہ اپنی طرف سے کوئی خبر گھر بھیج پاتا۔ ہر حال سے بے خبر وہ جی رہا تھا۔ اور آج نو سال بعد اسے آزادی بخشی گئی ہے، ہاتھ پیر کھلے کر دئیے گئے ہیں، کوئی زنجیر جکڑنے کے لئے اب نہیں رہی۔ فقط سوچ کی انگنت زنجیریں اسے یاد کے کھنڈروں کی طرف دھکیل کر لے جا رہی تھیں۔۔۔ اس کے گھر کے طرف، اپنے خاندان کی طرف۔۔۔۔! گھر تو گھر والوں سے ہوتا ہے، اب تو راہل بارہ سال کا ہو گیا ہو گا اور سرسوتی ۔۔۔۔؟  سرسوتی کی یاد آتے ہی اس کی سانسیں مہکنے لگتی۔ وہ آنکھیں موند کر جیسے اس مہک کو اپنے بھیتر بھر لیتا۔ دوڑتے ہوئے بچے کے ننھے پاؤوں کی آہٹ اس کے ذہن میں بچی ہوئی یاد کی پرچھائیوں کو اور زیادہ سایہ دار بنانے لگیں۔ ماضی اس کے آج سے جڑنے لگا۔

’مجھے یقین نہیں آ رہا ہے ایسا کچھ ہو گا۔ ایک سپنا سا لگ رہا ہے۔‘ بیوی کے کہے الفاظ اسے یاد ہو اٹھے۔۔۔۔

’ہاں، ہاں وہ سب کچھ ملے گا جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ سبھی بیروزگاروں کو کام، غریبوں کو ان کی حالات کے مطابق سہولیات اور ضرورتمندوں کو ان کی ضروریات کے لحاظ سے مفت دوا دارو، مفت تعلیم، اور مفت میں ان کے جھگڑے فسادوں کو بھی نپٹایا جائے گا۔ آزاد ملک کا ہر آزاد آدمی خوشحال ہو گا۔‘

یہی تو اس نے بھی اسے تسلّی دیتے ہوئے کہا تھا۔ اسی خیال میں ڈوبا، جیل کی چار دیواری سے باہر آتے ہی جو راستہ سامنے ملا وہ اسی پر قدم بڑھاتا رہا۔ سب کچھ بیگانہ سا، انجانا سا لگا۔ نہ سَمت کا دھیان رہا، نہ اپنی حالت کا! بس کڑی دھوپ کے سائے میں بے مقصد ہی چلتا رہا۔ اچانک ٹھوکر کھا کر گرنے کو تھا کہ ایک راہگیر نے اسے تھاما اور سہارا دیتے ہوئے پاس ہی ایک درخت کی چھانو تلے لے گیا۔

’بھیا لگتا ہے لمبا سفر کرتے آئے ہو، تھکے ہوئے ہو، پانی پی کر تھوڑا آرام کر لو، پھر آگے بڑھنا۔‘ اور وہ اپنی راہ چل دیا۔ درخت کی چھانو تلے کب کمل کانت کی آنکھ لگ گئی پتہ نہیں، پر اچانک ایک چیختی ہوئی آواز نے اسے جاگا دیا۔ ’لڑائی ہو رہی ہے، آزادی کے لئے لڑائی لڑی جا رہی ہے۔ بارودی بم برس رہے ہیں، گھر جل کر راکھ ہو رہے ہیں، فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ لوگوں میں تہلکہ مچا ہوا ہے، لاشیں بچھ رہی ہیں، بھوک پیاس سے آدمی مر رہے ہیں۔ اٹھو….۔کوئی تو انہیں بچاؤ۔۔۔ جینے کا حق دلاؤ۔ ان کی ضرورتیں پوری کرو۔۔۔۔ ۔۔! مفت دوا دارو، مفت تعلیم، مفت انصاف دلا کر برائیوں سے نجات دلاؤ۔۔۔ اٹھو۔۔۔۔!‘

اور چونک کر اٹھا بیٹھا کمل کانت۔ نیند آنکھوں سے رفو چکر ہو گئی۔ ایک راہگیر کا دامن تھام کر اس نے شرافت سے پوچھا ’بھائی یہ عورت کون ہے؟‘

’ارے کیا بتائیں بھائی، ایک پاگل عورت ہے۔ کہتے ہیں اس کے آدمی کو انقلابی مان کر کوتوالی والے بیڑیاں پہنا کر لے گئے! بس، تب سے پاگل پن کے دوروں نے اسے اس حال میں پہنچایا ہے، جہاں وہ نہ کچھ سمجھتی ہے، نہ جانتی ہے، نہ کسی کو پہچانتی ہے۔ اگر بھولے سے کوئی اس کی مدد کو پہنچے تو وہ اسے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے، اسے اپنے لمبے ناخونوں سے لہولہان کر دیتی ہے۔‘

وہ عورت اپنے نعرے ختم کر کے شاید تھکان مٹانے کے لئے ہی اسی پیڑ تلے ٹھہر گئی۔ پھر جانے کمل کانت کو کیا سوجھا ، اٹھ کر اس کے پاس آیا اور نرم لہجے میں کہا۔ ’اب جنگ ختم ہو گئی ہے!‘

یہ کہتے کہتے اس کی آنکھوں سے آنسؤوں کی لڑی بہنے لگی اور آنکھوں کے کونے سکڑنے لگے۔ عورت نے سر اوپر اٹھایا اور ایک لمبی چین کی سانس لی، شاید راحت محسوس کی۔ جیسے سچ مچ ہی جنگ ختم ہو گئی تھی۔۔۔۔ ۔۔۔۔

’اب زنجیروں سے آزادی ملے گی، مفلسی کی زنجیر، بھوک کی زنجیر، ہوس کی زنجیر، سانسوں کی زنجیر، مطلب ہر گھٹن بھری زنجیر سے رہائی….۔۔۔۔ ۔!‘ وہ بڑبڑائی۔ اس نے کمل کانت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’کیا آزاد دیش میں بھی یہ زنجیریں باقی رہیں گی؟‘ جیسے اسے کچھ یاد ہو آیا۔۔ دونوں ہاتھوں کی چوڑیاں توڑ دی گئی تھیں، اس کی مانگ سے سندور پونچھا گیا تھا۔۔۔۔ اسےبیوہ قرار دیا گیا۔۔۔ اس کے بعد یہی زنجیریں اسے جکڑتی رہیں۔۔۔ مفلسی کی زنجیریں، بھوک کی زنجیریں، سانسوں کی زنجیریں۔۔! اور وہ بدنام، بد چلن، آوارہ عورت بن گئی۔ اسنے اپنے دونوں سونے خالی ہاتھوں کو مٹھیوں میں بھینچ کر کمل کانت کے سامنے پھیلایا….۔۔۔! کمل کانت نے نہ جانے کیا سوچ کر، اس عورت کے سر پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ دئیے، اپنی آنسؤوں کی دھار سے اس کی مانگ کے ہر داغ کو دھو دیا۔ دھیرے سے سہارا دے کر اسے اٹھایا، بازوؤں کا سہارا دیتے ہوئے اسے اپنے ساتھ کھڑا کیا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں یوں دیکھا جیسے وہ اس کی آنکھوں سے گلے مل رہا ہو۔ ملک کی آزادی کی خوشی میں۔ پھر جانے کیا ہوا، جیسے موسم بدلا۔ پاگل عورت اپنے ہی ارد گرد گھومتے ہوئے خوشی سے تالیاں بجانے لگی۔ جیسے ہوائیں جھوم اٹھی ہوں، پھول کھلکھلانے لگے، تتلیاں اڑان بھرنے لگی ہوں۔ اور وہ فضاؤں کے ساتھ سر تال ملاتے ہوئے بول اٹھی ’اب جنگ ختم ہو گئی ہے، دیش آزاد ہو گیا ہے۔ اب کوئی زنجیر باقی نہیں! آزاد دیش میں سبھی بیروزگاروں کو کام، غریبوں کو ان کے حالات کے مطابق سہولیات اور ضرورتمندوں کو ان کی ضروریات کے لحاظ سے مفت دوا دارو، مفت تعلیم، اور مفت میں ان کے جھگڑے فسادوں کو بھی نپٹایا جائے گا۔ آزاد ملک کا ہر آزاد آدمی خوشحال ہو گا۔‘

آزاد ہواؤں میں جیسے دو ساتھی، آزادی کی صلیب کو ڈھو کر، قدم در قدم انجانی سمت لگاتار بڑھتے رہے۔ آگے۔۔۔ آگے۔۔۔۔!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے