بشیر جعفر :ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے آنسو چھپانے والا شاعر ۔۔۔ غلام ابن سلطان

بشیر جعفر :ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے آنسو چھپانے والا شاعر

 

                   غلام ابن سلطان

 

بشیر جعفر نے اپنی گُل افشانیِ گفتار سے ایک عالم کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ اُس کی ظریفانہ شاعری زندگی کی بے اعتدالیوں ، نا ہمواریوں ، بے ہنگم تضادات اور ہیجان انگیز ارتعاشات کے بارے میں ہمدردانہ شعور کی آئینہ دار ہے۔ اسلوب اور زبان و بیان پر اس کی خلاقانہ دسترس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور اس کی شگفتہ شاعری پڑھ کر قاری مسرت کے پر کیف لمحات میں کھو جاتا ہے۔ ایک فعال، مستعد اور بے حد زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے اس نے کارِ جہاں اور بنی نوع انساں  کے مسائل و   معاملات کی تفہیم پر گہری توجہ دی ہے۔ بے لوث محبت، بے باک صداقت، خلوص، دردمندی، انسانیت نوازی اور انسانیت شناسی اس کے رگ  و پے میں سرایت کر گئی ہے۔ ایک سنجیدہ اور حساس تخلیق کار کی حیثیت سے بشیر جعفر نے معاشرتی زندگی کے مسائل کو اس مہارت  سے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ اس کی ظریفانہ شاعری اس کے خلوص، دردمندی سنجیدگی اور دلی کرب کا ثمر ہے۔ جس طرح ہر دیوانگی کے سوتے فرزانگی ہی سے پھوٹتے ہیں اسی طرح ظرافت کے پس پردہ بھی سنجیدگی اور متانت کار فرما ہوتی ہے۔ بشیر جعفر کی ظریفانہ شاعری  میں معاشرتی زندگی کی اجتماعی کیفیات اور سماجی میلانات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے اسلوب کی انفرادیت حسن و رومان، عشق و عاشقی ہجر و فراق، ازدواجی زندگی کے مسائل اور سماجی زندگی کے حسین موضوعات کو پُر لطف  استعاروں سے مزین کر دیتی ہے۔ وادیِ جنون کے پیچ در پیچ راستوں پر چلنے والوں کے لیے یہ شاعری خضرِ  راہ ثابت ہو سکتی ہے ان کی بو العجبی اور  دیوانگی کا مداوا کرنے کے لیے بشیر جعفر جیسا فرزانہ خون دل میں انگلیاں ڈبو کر قہقہوں کے مضامین نو کے انبار لگانے میں مصروف ہے۔ وطن، اہل وطن اور انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت بشیر جعفر کے خمیر میں شامل ہے۔ ہنسی مذاق، تبسم اور قہقہہ، طنز و مزاح اور چھیڑ چھاڑ بشیر جعفر کی جبلت قرار دی جا سکتی ہے۔ اس کے شگفتہ اسلوب میں ہنسنے کا یہ عمل ایک دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ کہیں تو وہ سماجی اور معاشرتی مسائل کی بوالعجبی پر ہنستا ہے تو کہیں وہ خود اپنی بے بسی پر کھلکھلا کر ہنسنے لگتا ہے۔ اپنے آپ پر ہنسنے کے لیے اسے قادر مطلق نے بڑے ظرف سے نوازا ہے۔ وہ اپنے غم کا بھید بالکل نہیں کھلنے دیتا بلکہ اپنی بات اس لطیف انداز میں کہہ جاتا ہے کہ محفل کشتِ  زعفران بن جاتی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس کی شگفتہ بیانی تزکیہ نفس کی ایک موثر صورت ہے۔  ہوائے جور  و ستم میں بھی وہ رخِ  وفا کو فروزاں رکھنے کا آرزومند ہے اور اس نے پیہم ہنسنا اور مسکرانا اس لیے معمول بنا رکھا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاشرتی زندگی کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں ۔ اس کی زندگی کی دھوپ چھاؤں ، نشیب و فراز  اور سارے موسم اس کی شگفتہ شاعری میں جلوہ گرہیں ۔ اس کے اسلوب کا مطالعہ کرتے وقت اس کی شخصیت جو بہ ظاہر  ایک وحدت کی صورت میں مو جود ہے در اصل کئی اجزا سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔ یہ اجزا زندگی کے مختلف مظاہر سے متشکل ہو تے ہیں ، ان میں سے شادی و غم توام ہیں ۔ یاس و ہراس کی فضا میں بھی وہ قنوطیت سے دامن بچا کر حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھتا ہے :

تیری میری ذات کا میل             کِیکر پر انگُور کی بیل

جاہل بن بیٹے سُلطان              عالم فاضل بیچیں تیل

دو ہی انت سیاست کے            کُرسی یا اڈیالہ جیل

جا لیتے ہم محمل کو                کاش نہ ہوتے کُتے فیل

لے آ اُس کو میکے سے            اپنی آفت آپ ہی جھیل       (1)

تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں جہالت عجب گُل کھِلا رہی ہے۔ حالات اس قدر لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہو تے جا رہے ہیں کہ حساس تخلیق کار خود کو جزیرۂ جہلا میں گھرا محسوس کرتے ہیں وہ بچ کے کہاں جائیں جب کہ چا ر سُو ٹھاٹیں مارتا ہوا  سمندر ہے جس کی ہر موج میں حلقۂ صد کام نہنگ ہے۔ کُو ڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نو چنے والے ان جہلا نے تو اپنی غاصبانہ  روش سے رُتیں بے ثمر، کلیاں شرر، زندگیاں پر خطر اور آہیں بے اثر کر دی ہیں ۔ شیخ چلی قماش کے مخبوط الحواس، فاتر العقل مسخرے شیخ الجامعہ بن جاتے ہیں اور عالم فاضل لوگوں پر عرصہ ء حیات  تنگ کر دیا جاتا ہے۔ بشیر جعفر نے نہایت دردمندی سے اس صورت حال کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس قسم کے حالات کسی بھی قوم کے لیے بہت بُرا شگون ہیں ۔ محسن بھوپالی نے کہا تھا:

جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے

اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے

مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے

کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت  میں فراخ دلی، خندہ پیشانی، صبر و تحمل، شگفتہ مزاجی اور طنزو مزاح کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ ماہرین عمرانیات کا خیال ہے کہ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور ہنستے  کھیلتے موجِ حوادث سے گزر جانے کا عمل  جہاں کسی قوم کو کندن بنا دیتا ہے وہیں یہ رویہ اس قوم کے مہذب اور متمدن بنانے کی دلیل بھی ہے۔ بشیر جعفر کی بذلہ سنجی، شگفتہ مزاجی، حاضر جوابی، بات سے بات نکالنے کی مہارت، اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کا انداز اور بے ہنگم کیفیات پر فقرے چست کرنا اور پھبتی کسنا اس کے اسلوب کا ایک نرالا روپ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ زبان و بیان میں اس کی استعداد قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ اس تخلیق کار کے حضور سر تسلیم خم کیے ہیں اور وہ ان الفاظ کو اپنے مزاح کے اہداف پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کے لیے بر محل اور بے دریغ استعما ل کیے جا رہا ہے۔ وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے بر ملا کہہ دیتا ہے، الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا اس کے ادبی مسلک کے خلاف ہے :

ماہ پارے دیکھتا رہتا ہوں میں           کیا نظارے دیکھتا رہتا ہوں میں

خانہ بربادی پہ اخراجات کے             گوشوارے دیکھتا رہتا ہوں میں

موند لیتی ہے وہ آنکھیں رات کو           دِن میں تارے دیکھتا رہتا ہوں میں

راہزن کو رہبر جمہُور کا                      رُوپ دھارے دیکھتا رہتا ہوں میں

اس گرانی میں بھی جعفر حُسن کے            وارے نیارے دیکھتا رہتا ہوں میں         (2)

بشیر جعفر کی شاعری میں طنز اور ظرافت میں پائی جانے والی حدِ  فاصل کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اصلاح اور مقصدیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس نے طنز کا بر محل استعمال کیا ہے۔ وطن اور اہل وطن کی محبت سے سر شار ہو کر اس نے معاشرتی زندگی کے تضادات کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ طنز کے وسیلے سے نہ صرف سماج اور معاشرے کو خود احتسابی پر مائل کیا جا سکتا ہے بل کہ اس کے معجز نما اثر سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام بھی ممکن ہے۔ ایک جری تخلیق  کار کی  حیثیت سے بشیر جعفر نے معاشرتی اور سماجی زندگی کے عیوب اور کجیوں کو طنز کا ہدف بنایا ہے۔

مُنتشر دستور کا شیرازہ کر لیتا ہوں میں

یاد پرویز و ضیا یوں تازہ کر لیتا ہوں میں

کوئی کافر ہو، بنا لیتا ہوں اس کو بیربل

کوئی ملا ہو اسے دو پیازہ کر لیتا ہوں میں

لوڈ شیڈنگ بن گئی ہے سُرمہ میری آنکھ کا

مچھروں کے خاک و خوں کو غازہ کر لیتا ہوں میں       (3)

اپنے اسلوب اور تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے بشیر جعفر نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اترنے  کی جو سعی کی ہے وہ سنگلاخ چٹانوں اور پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ اس نے زندگی کے جملہ اسرار و رموز کی گر ہ کشائی کرتے ہوئے عیوب کی جس طرح جراحت کی ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ اس کی شگفتہ بیانی کو محض ہنسی مذاق پر محمول نہیں کیا جا سکتا بل کہ اس کے پس پردہ قومی دردمندی اور معاشرتی اصلاح کے ارفع جذبات کار فرما ہیں ۔ بشیر جعفر کی ظریفانہ شاعری میں قومی دردمندی اور اصلاح و مقصدیت کو اسی قدر اہمیت دی گئی ہے جس طرح ایک سچا عاشق اپنے محبوب کی زلف گِرہ گیر  کا اسیر ہونے کے بعد حُسنِِ  بے پروا کے جلووں کے لیے بے تاب اور محبوب سے ہم کلام ہو کر اس کی گویائی کے دوران اس کے لبوں سے جھڑنے والے پھُولوں کی عطر بیزی سے قریۂ جاں کو معطر کرنے کا آرزو مند رہتا ہے۔ سید محمد جعفر زٹلی  سے لے کر بشیر جعفر تک اردو شاعری میں طنزو مزاح کی ایک مضبوط و مستحکم روایت پروان چڑھی ہے۔  بادی النظر میں اُردو شاعری میں طنزو مزاح کی اس درخشاں روایت کو اردو شاعری کی فکری منہاج اور ذہنی استعداد کے معائر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اردو کی ظریفانہ شاعری کی اس درخشاں  روایت کو ہر دور میں قارئین ادب کی جانب سے جو شر ف پذیرائی ملا ہے وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ بشیر جعفر کی ظریفانہ شاعری اس کے فکر و خیال کی دنیا کے بارے میں قاری کو ایک جہان تازہ کی نوید سناتی ہے۔ یہ ظریفانہ شاعری حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کے ایک جھونکے کے ما نند ہے۔ اس شگفتہ شاعری کے مطالعہ سے قاری پر افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے متعدد نئے امکانات واضح ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اس شاعری میں ایک پیغام عمل  بھی ہے اور ایک فغاں بھی، ایک درد بھی ہے اور ایک جراحت بھی۔ جامد و ساکت بتوں پر تیشۂ حرف سے کاری  ضرب لگائی گئی ہے اور در کسریٰ میں موجود حنوط شدہ لاشوں کی بے حسی اور مکر کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ خندۂ زیر لب کی ہر کیفیت تخلیق کار کی بصیرت کی مظہر ہے۔ یہ شاعری قاری کے فکر و خیال کو اس طرح مہمیز کرتی ہے کہ اس پر فکر و نظر اور خیال افروز بصیرتوں  کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ سفاک ظلمتوں اور ہجوم غم میں دل کو سنبھال کر آگے بڑھنے کا جو پیغام قاری کو اس شگفتہ شاعری سے ملتا ہے وہ اسے مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیتا ہے :

کب بہلتا ہے دِلِ آشفتہ موٹر کار سے

پار کر لاتے کوئی گوری سمندر پار سے

صرف میرا گھر ہے جس میں داشتہ آید بہ کار

پیاز کٹتے ہیں یہاں اجداد کی تلوار سے

کو ن بھولے گا ’’عنایت ‘‘اُس کے نازُک ہاتھ کی

پھُوٹتی رہتی ہے حدت سی مرے رُخسار سے

آپ کے دو چار جُملے اے  خطیبِ بے بدل

گالیوں کے درمیاں لگتے ہیں بے اطوار سے       (4)

ایک ظریف الطبع تخلیق کار کی حیثیت سے بشیر جعفر نے ظرافت اور طنز کے حسین امتزاج سے اپنی شاعری کو دو آتشہ بنا دیا ہے۔ اس نے بذلہ سنجی سے آگے بڑھ کر طنز کے ذریعے جراحتِ دِل کا جو اہتمام کیا ہے وہ اس کی شاعری کی تاثیر کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ انسانیت کے سا تھ بے لوث محبت کرنے والے اس تخلیق کار نے جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا مطمح نظر بنایا ہے وہ اسے شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام عطا کرتا ہے۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ اس نے جو پیمان وفا اُستوار کیا ہے، اسے وہ علاج گردش لیل و نہا ر سمجھتا ہے۔ اس کی ظریفانہ شاعری میں ایک تخلیقی شان اور علمی وقار موجود ہے۔ اس میں کہیں بھی پھکڑ پن اور ابتذال کا شائبہ تک نہیں گزرتا۔ تخلیق کار کی علمی اور تخلیقی سطحِ فائقہ قابل توجہ ہے :

دادِ جُرم و گناہ دی مجھ کو

مُنصفوں نے پناہ دی مجھ کو

اِک بلا تھی مِرے تعاقب میں

دُوسری نے نہ راہ دی مُجھ کو

ہٹتی مرتی نہیں ہے لنگر سے

اُس نے ا یسی سپاہ دی مُجھ کو

رُوپ تیرا بھی دَین ہے اُ س کی

جِس نے بھُوکی نگاہ دی مجھ کو

شُکر تیرا ادا کروں کیوں کر

عُمر دی ہے تو واہ دی مجھ کو             (5)

بشیر جعفر کی ظریفانہ شاعری میں اس کے تخلیقی اور لا شعوری محرکات کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔ اُ س نے اپنے عہد کے حالات اور واقعات کو اپنی ظریفانہ شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ وہ اپنی مثبت سوچ کے اعجاز سے خوش گوار نتائج کے حصول کا آرزو مند ہے۔ اگرچہ عملی زندگی میں اُس کے تجربات اور مشاہدات  اُمید افزا نہیں اس کے باوجود وہ حوصلے اور اُمید کی مشعل فروزاں رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔ اس نے ظالم  و سفاک مُوذی و مکار استحصالی عناصر اور جابر قوتوں کو بر ملا ہدف تنقید بنایا ہے۔ اُسے صرف تعمیری انداز فکر سے دلچسپی ہے کسی کی تخریب کے ساتھ اُس کا کوئی تعلق نہیں ۔ وہ نہایت اخلاق اور اخلاص سے کام لیتے ہوئے طنزو مزاح کی وادی میں قدم رکھتا ہے۔ جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو تخلیق ادب میں بھی متعدد نئی جہات  سامنے آئیں اُردو کی ظریفانہ شاعری پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ مجید لاہوری، سید محمد جعفری، سید ضمیر جعفری، دلاور فگار، سید مظفر علی ظفر  اور ن کے معاصرین نے اپنی شاعری میں آزادی کے بعد رُو نُما ہونے والے واقعات کے بارے میں اپنی  تشویش کو پیرایۂ اظہار عطا کیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اہلِ وفا کی صورت حال تو جو ں کی توں رہی مگر بے ضمیروں کے وارے نیارے ہو گئے۔ بشیر جعفر کی ظریفانہ شاعری میں طنز کی نشتریت قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس نے اپنی ظریفانہ شاعری میں اس جانب توجہ مبذول کرا ئی ہے کہ زندگی محض رونے اور بسورنے سے بسر نہیں ہو سکتی بل کہ حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنے ہی سے سمے کے سم کے ثمر کے بارے میں کوئی ٹھوس لائحۂ عمل مرتب کیا جا سکتا ہے اور اس مسموم ماحول سے بچنے کی کوئی صورت تلاش کی جا سکتی ہے۔ آج کا انسان مظلومیت کی تصویر بنا، محرومیوں کے چیتھڑے اوڑھے  نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھتے  زینۂ ہستی سے اُتر جاتا ہے  مگر کوئی اُس کا پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔ اردو شاعری میں کامیاب طنز و مزاح لکھنے والے صاحب اسلوب شاعر کی حیثیت سے بشیر جعفر نے ہر قسم کی نا انصافیوں کو خندۂ استہزا میں اُڑانے کی کوشش کی ہے۔ معاشرتی زندگی کا انتشار، تضادات، مناقشات اور بے اعتدالیاں اُسے مایوس نہیں کرتیں بل کہ وہ قارئین کے دلوں کو اپنی ظریفانہ شاعری کے ذریعے ایک ولولۂ تازہ عطا کرتا ہے۔ اس کی  شاعری میں زہر خند اور طنز کی نشتریت قاری کو ایک انوکھے تجربے سے آشنا کرتی ہے۔ کتنے ہی آنسو قاری کی پلکوں تک آتے ہیں مگر وہ زیر لب مسکراتے ہوئے اس شگفتہ شاعری کا استحسان کرتا ہے۔ اردو شاعری میں طنزو مزاح کے یہ انداز کئی اعتبار سے قومی کلچر کے بارے میں حقیقی شعور کو سامنے لاتے ہیں ۔ یاد رکھنا چاہیے ظرافت کا قصر عالی شان ہمدردانہ شعور کی اساس پر استوار ہوتا ہے۔ ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا بشیر جعفر کا ادبی مسلک ہے۔ ہر شعبۂ زندگی سے وابستہ قارئین ادب کے لیے اصلاح اور تفریح کے مواقع پیدا کرنے کی سعی کرنے والے اس تخلیق کار کی  شگفتہ شاعری ہر عہد میں مسکراہٹیں بکھیرتی رہے گی۔ ادبی حلقوں نے اب انجمن ستائش باہمی کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اب کسی با صلاحیت ادیب کے بارے میں کلمۂ خیر کہنے والا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ بشیر جعفر نے تنقید اور تحقیق کی اس محرومی پر گرفت کی ہے۔ اس کے موضوعات کا دائرہ وسیع اور مقبولیت لا محدود ہے :

غریب شہرِ  لیلیٰ ہوں مگر قارون لکھوں گا

میں اپنی ذات با برکت پہ اک مضمون لکھوں گا

کہاں فرصت ہے یارانِ قلم کو خود ستائی سے

میں اپنی شاعری پر آپ ہی مضمون لکھوں گا

شکایت دُور ہو جاتی ہے اِس سے بے دماغی کی

میں اپنے شعر تر کو روغنِ  زیتون لکھوں گا       (6)

طنز و مزاح لکھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ درد مندوں کے لیے دوا بن کر لکھے اس کے دل میں انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت کے فراواں جذبات موجزن ہوں ۔ وہ دکھی انسانیت کے ساتھ قلبی اور روحانی وابستگی رکھتا ہو۔ اس عالم آب و گِل میں زندگی بسر کرنے والی تمام انسانیت کے مسائل کے بارے میں ایک ہمدردانہ شعور رکھتا ہو۔ اس کے دل پر جو صدمے گزریں اور اس کا واسطہ جن متنوع  تجربات و مشاہدات سے پڑے انھیں شگفتہ پیرایہ ء اظہار عطا کر کے قارئینِ ادب کے ساتھ اپنا معتبر ربط برقرار رکھے۔ ایک زیرک مزاح نگار اپنے شگفتہ اسلوب میں جہاں اپنی شگفتہ بیانی کا رنگ جماتا ہے وہاں حالات کی سفاکی اور بے اعتدالی  کے بارے میں اپنی تشویش اور رنج و کرب کو بھی اس میں جگہ دے کر اپنی حساس طبع کے تزکیہ نفس کی ایک صورت  تلاش کر لیتا ہے۔ اگرچہ وہ اپنے غم کا بھید کھُلنے نہیں دیتا لیکن قارئین سے اُس کی دلی کیفیت مخفی نہیں رہتی۔ وہ در اصل ایک دیرپا اور ہمہ گیر نوعیت کی مسرت اور شادمانی کا متلاشی ہوتا ہے جو انسانیت کے دکھ کی دوا اور زخموں کے اندمال کی ایک صورت بن جائے۔ بشیر جعفر نے پنی شگفتہ شاعری میں کئی انداز اپنائے ہیں ۔ وہ قارئین پر واضح کر دیتا ہے کہ خزاں کے سیکڑوں مناظر ہیں اس لیے طلوع صبح بہاراں کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ گجر بجنے سے دھوکا کھانے والے پِر بھیانک تیرگی  میں پھنس جاتے ہیں اور ان جان لیوا اندھیروں میں ٹامک ٹوئیے مارتے مارتے عدم کے کُوچ کے لیے رختِ  سفر باندھ لیتے ہیں ۔ بشیر جعفر کی ظریفانہ شاعری پڑھنے کے بعد اُس کے جو رُوپ سامنے آتے ہیں اُن میں وہ ایک معلم، ناصح، مفکر، فلسفی، سماجی کارکن، شوہر، عاشق، تخلیق کار اور نقاد کی صورت میں خوب کھُل کر لکھتا ہے۔ اس کی باتیں ناگوار اس لیے نہیں گزرتیں کیوں کہ وہ پُر لطف انداز میں وہ سب کُچھ کہہ جاتا ہے جو  اقتضائے وقت کے عین مطابق ہے۔ وہ خوابوں کی خیاباں سازیوں اور بے سروپا ملمع نگاری کا قائل نہیں ۔ اس کا اسلوب قلب اور روح کی ا تھاہ گہرائیوں میں اتر کر قاری پر تمام حقائق واضح کر دیتا ہے۔ اس طرح قاری آثار مصیبت کے اس ہمہ گیر احساس سے متمتع ہوتا ہے جو امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا عطا کرتا ہے۔ صنائع بدائع اور مزاحیہ صورت واقعہ سے مزاح پیدا کرنے میں بشیر جعفر کو کمال حاصل ہے۔ شوہر اور بیوی کی گھریلو زندگی کے مسائل کا احوال ملاحظہ فرمائیں :

میرے ذوق و شوق کو اوقات میں رکھتی ہے وہ

ایک جوتا پاؤں میں ، اک ہات میں رکھتی ہے وہ

لاکھ سمجھایا کہ دِن کو ہاتھ  قابو میں رکھو

پر کہاں تفریق دن اور رات میں رکھتی ہے وہ

جب بھی پھیلاتا ہوں اُس کے سامنے دامانِ دِل

دَھول دَھپا ہی فقط خیرات میں رکھتی ہے وہ

سہم جاتا ہے، سمٹ جاتا ہے کچھوا جس طرح

یوں مجھے محبوس میری ذات میں رکھتی ہے وہ          (7)

بشیر جعفر نے اپنی شاعری میں ہمیشہ حق و صداقت کی بات کی ہے۔ وہ حریت فکر و عمل کا ایسا مجاہد ہے جس نے حرفِ صداقت لکھنا اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ اُ س کا خیال ہے کہ ظلم کو سہنا اور اُس کے خلاف صدائے احتجاج  بلند نہ کرنا  منافقت اور بے حسی کی علامت ہے۔ اس نوعیت کے اہانت آمیز رویے سے ظالم و سفاک درندوں کو کھُل کھیلنے کا موقع مِل جاتا ہے۔ اُس کا خیال ہے کہ فقط عدل و انصاف ہی کی اساس پر سیرت و کردار اور اخلاقیات کی تعمیر ممکن ہے۔ فن کا ر کی انا اور عزت نفس کو دل و جان سے عزیز رکھنے والے اس تخلیق کار نے ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ اپنی شگفتہ شاعری کے ذریعے معاشرتی زندگی یں رنگ، خوشبو اور حُسن و خوبی کے تمام استعارے یک جا کرنے والے اس تخلیق کار دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔ اُردو زبان و ادب اور مشرقی تہذیب و ثقافت ے فروغ کے لیے اُس کی مساعی کا ایک عالم معترف ہے۔ خالص مزاح، طنز اور رمز کے امتزاج سے مسکراہٹیں بکھیرنے والے اس سدا بہار شاعر کے اسلوب کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا :

غیر سے ہوتی ہو تکرار تیری بزم میں

تاؤ دیں گے مُو نچھ کو سو بار تیری بزم میں

یوں ہی منہ آتے رہے یہ لوگ تو اے جان جاں

ہم کہیں پھڑکا نہ دیں دو چار تیری بزم میں

رنج ہے، رسوائیاں ہیں ، طعن ہے تعریض ہے

باندھ  لائے ہیں یہ سب طُومار تیری بزم میں

سرد آہوں کی فراوانی سے قلفی جم گئی

آتش دل بھی ہے  ٹھنڈی ٹھار تیری بزم میں

چار سُو عاشق ہی عاشق، تھُوکنے کی جا نہیں

اور رکھ بیٹھے ہیں ہم نسوار تیری بزم میں         (8)

ایک صاحب  بصیرت مزاح نگار کی حیثیت سے بشیر جعفر نے اپنی ظریفانہ شاعری میں نئے آہنگ اور نرالے ڈھنگ سے محفل کو زعفران زار بنایا ہے۔ اس کے تخلیقی تجربے میں صداقت کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ تہذیبی، ثقافتی، سماجی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کے جملہ نشیب و فراز بشیر جعفر کی شاعری میں سمٹ آئے ہیں ۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ بڑے بڑ ے ناصح اور مصلح جو کہ اپنے دبنگ لہجے اور غیر معمولی سنجیدہ  اسلوب کے ذریعے جو مثبت نتائج حاصل نہ کر پائے، مزاح نگاروں نے ان اہداف تک رسائی حاصل کر کے قارئین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ سنجیدہ اور ظریفانہ شاعری میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سنجیدہ شاعری پر کئی معاشرتی اور تعزیری قدغنیں عائد ہیں جب کہ اپنی ظریفانہ شاعری ایک مزاح نگار  جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر اور حریت فکر کا علم بلند رکھتا ہے۔ اس کا شگفتہ اسلوب استحصالی عناصر کو اپنی اوقات میں رہنے کا مشورہ دے کر انھیں آئینہ دکھاتا ہے۔ اُ س کی یہ شگفتہ بیانی چربہ ساز، سارق، سفہا اور اجلا ف و ارذال کے لیے بلائے نا گہانی بن جاتی ہے اور وہ جگ ہنسائی سے عاجز آ کر منہ چھپاتے پھرتے ہیں ۔ بشیر جعفر کی ظریفانہ شاعری میں زبان و بیان کے معیار اور معاشرتی زندگی کے وقار کو ملحوظ رکھا گیا ہے اس میں عام لطائف کا سہار انہیں لیا گیا بل کہ حقائق کو پر لطف انداز میں زیب قرطاس کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس شگفتہ شاعری کو قبول عوام کی سند ملے گی۔

 

           مآخذ

 

(1)بشیر جعفر :ہنستے بسورتے لفظ، رُمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز، راول پنڈی، طبع اول، 2011، صفحہ 76۔

(2)                              ایضاً                                          صفحہ 34۔

(3)                              ایضاً                                          صفحہ 21۔

(4)                              ایضاً صفحہ 164۔

(5)                             ایضاً                                          صفحہ 158۔

(6)                             ایضاً                                           صفحہ 24۔

(7)                             ایضاً صفحہ 28۔

(8)                             ایضاً                                           صفحہ 36۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے