ایک عمدہ کتاب ۔۔۔ محمد علی ردولوی

گاہے گاہے باز خواں

ایک عمدہ کتاب​

 

                   چودھری محمد علی ردولوی

 

سر رضا علی کی کتاب اعمال نامہ پڑھی جا رہی تھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ سرسری تنقید بھی ہوتی جاتی تھی۔

ایک دوست: ” بھئی مجھ کو جو بات اس دال روٹی پوس کاٹ میں سب سے زیادہ پسند آئی وہ سچائی کی کھنک ہے۔ بے چارے نے اپنے دل کے دونوں کنواڑ کھول کر رکھ دیے ہیں کہ جو کچھ ہے دیکھ لو۔ کوئی پردہ نہیں ہے۔ ”

دوسرے دوست: ” اب چاہے دال روٹی پوس کاٹ کہ کر ہنسیے چاہے اس کی صاف دلی کی داد دیجیے۔ ”

تیسرے دوست: ” دل کے دونوں کواڑ کھول کر لکھ دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اس کی کوشش کی ہے کامیاب بھی ہوئے یا نہیں یہ ذرا غور کے قابل ہے۔ اگر یہ فرمائیے کہ زبان خوب کمائی ہوئی ہے تو میں ماننے کو تیار ہوں اگر یہ کہیے کہ انھوں نے تہذیب کو کہیں ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے تو یہ بھی درست ہے لیکن پوری بات کہہ جانا کارے دارو۔ ”

دوسرے دوست: ” میں مطلب نہیں سمجھا۔ بےچارے نے اپنے خانگی معاملات ساس بہو کی ان بن تک کہہ گذاری ہے۔ پھر اور کیا کرتا۔ بڑے بڑے بزرگوں کی خامیاں ، کمزوریاں نہایت صفائی سے بیان کر دی ہیں اور کیا چاہیے۔

تیسرے دوست: ” ہاں ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے۔ انھوں نے بھرپور اس کی کوشش کی ہے مگر ہر شخص روسو نہیں ہو سکتا۔ آپ تہذیب کا بھی دامن نہ چھوڑیں گے، قانونی گرفت بھی نہ آنے دیں گے، بزرگوں کی وکالت بھی کرتے جائیں گے اور سچائی کو بھی لیے رہنے کی کوشش کریں گے تو اللہ ہی نے کہا ہے کہ کہیں نہ کہیں ٹھوکر دھری ہے۔ غریب نے کتاب کو دلچسپ بنانے کے لیے نہ معلوم کتنے قصے عشق عاشقی کے بیان کر ڈالے ہیں کہ انسان کے مبارک گناہ’ یعنی اس کی جنسی لغزشوں سے سب کو بچا لیا ہے۔ حضرت آدم و حوا کے پہلے گناہ سے ایسے ڈرے ہوئے ہیں کہ عملاً سب کچھ کریں گے مگر منھ سے نہ کہیں گے۔ اس طرح کی باتوں سے اور صداقت سے جس سے انسانیت پر روشنی پڑتی ہے کوسوں کی دوری ہے۔ اگر آپ کہیں کہ ہندو مسلمان اختلاف کی تاریخ اچھی بیان کی ہے، اردو ہندی کے جھگڑے کا بھانڈا خوب پھوڑا تو میں بھی تسلیم کرنے کو تیار ہوں ۔

لیکن یہ کیوں کر مان لوں کہ کسی کو خفا بھی نہ کیجیے گا، قدیم تہزیب کے خلاف باتیں بھی نہ کہیے گا اور سچائی کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیجیے گا۔ تو یہ کیسے بنے گی۔ آپ کی جتنی ہیروئنیں ہیں وہ سب کی سب کنواری بیٹھی رہیں گی، آپ کے جتنے ہیرو ہیں وہ سب بسم اللہ کے گنبد کے پلے ہوں گے اور پھر بھی زندگی ویسے ہی اصلی دکھائی دے گی جیسی کہ ہوتی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ”

دوسرے دوست: ” (ذرا گرمی کے ساتھ) کیا آپ کا مطلب ہے کہ سر رضا علی شر میں وہ کھلی ڈلی حماقتیں کرتے جن کی اجازت صرف نظم اور بندا دین کی ٹھمریوں میں ہے۔ ”

تیسرے دوست: ” (خفیف سی اونچی آواز میں ) نظم اور بندا دین کی ٹھمریاں تو میں جانتا نہیں لیکن حد سے زیادہ تہذیب برتنے میں کھیل بنتا ہی نہیں ۔ محسن الملک مرحوم کا حال لیجیے۔ مرحوم کا قصہ تو الگ رہا خود پڑھنے والے اس چکر میں پڑھاتے ہیں کہ جتنی نیک دلی اور در گزر سر رضا علی اپنے میں ظاہر کر رہے ہیں یہ فطرت میں بھی ہے یا نہیں ۔ جو پھس پھسی۔ ۔ ۔ ۔ عشق و محبت کی کہانیاں انھوں نے لکھی ہیں آیا دنیا میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے یا کہیں انسانیت جوش حیات سے دب بھی جاتی ہے۔

پہلے دوست: "جناب مرزا صاحب آپ کچھ نہیں بولتے۔ ”

مرزا صاحب: ” جی سن رہا ہوں : ہوتا ہے تماشا شب و روز میرے آگے۔ ”

تیسرے دوست: ” ہاں مرزا صاحب۔ آپ فرمائیں ۔ ہم لوگوں کو جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے۔ فیصلہ آپ ہی کے ہاتھ ہے۔

دوسرے دوست: ” مجھ کو کوئی عذر نہیں لیکن دونوں فریق کو جو کچھ کہنا ہے وہ پہلے سن لیں اس کے بعد حکم سنا دیں ۔ ”

مرزا صاحب: ” فیصلے دوسرے کرتے ہوں گے میں تو اقبال جرم کرتا ہوں ۔ سزا آپ حضرات خود تجویز کریں ۔ (پہلے دوست کی طرف مخاطب ہو کر) اس دنیا میں بے عیب کون ہے۔ جب ہمارے آپ کے ایسے لوگ اتفاق سے غلطی کر جاتے ہیں تو بے چارے سر رضا علی کی کتاب میں خامیاں ہوئیں تو کیا تعجب ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی کتاب خوب ہے۔ پالیٹیکس ان کا کام ہے وہ بہت اچھا کیا ہے۔ احباب کا ذکر اس انداز سے کیا ہے کہ جس میں احباب سے زیادہ خود ان کی نیک دلی اور اجلی روح کا پتہ چلتا ہے۔ آدمی یقیناً دل پھینک قسم کے واقع ہوئے ہیں اور ان لوگوں میں معلوم ہوتے ہیں جو کر گزریں گے مگر کہہ نہ سکیں گے۔ بقول سعدی کے۔ ” جوانی میں اے ہم نشیں جیسی پڑی ہے تو بھی جانتا ہے۔ ” معلوم ہوتا ہے کہ:

انھیں بھی آتشِ الفت جلا چکی اکبؔر

حرام ہو گئی دوزخ کی نار ان پر بھی​

مگر ساٹھ سے اوپر کے آدمی ہیں ۔ بےچارے صاف گوئی کی کوشش کرتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوتے۔

دوسرے دوست: ” بزرگوں میں تو آپ بھی ہیں ۔ ”

مرزا صاحب: "اجی ہم سینگ کٹا کر بچھڑوں میں داخل ہوئے ہیں ہمارا کیا کہنا۔ کتاب کی تنقید آپ حضرات کریں ۔ ہم تو صرف اپنی تنقید کرتے ہیں جس میں بحیثیت انسان کے ہمارا آپ کا سر رضا علی اور ازاڈوراڈنکس سب کا حال ہے۔ یہ نہیں کہ کوئی سن لے گا، کوئی سمجھ جائے گا، کوئی غیر مہذب ٹھہرا دے گا۔ اس لیے تصویر ادھوری چھوڑ دی۔ اجی حضرت ہومرسے لے کے سعدی گئے اور مرزا محمد بادی رسوا کی پیروی میں اگر ہم وکٹورین پنچایت سے ٹاٹ باہر کر دیے جائیں گے تو ٹھینگے سے۔ لیجیے آپ بیتی سنیے۔ مگر پہلے ذرا کچھ گزارش کر لوں ۔ ہم آپ کی نئی نئی باتوں پر نہیں ہنستے آپ ہماری پرانی باتوں پر کیوں ہنسے۔ آدمی کی فطرت نہ بدل گئی ہے اور نہ آئندہ ہی اس کے خدانخواستہ فرشتہ ہو جانے کا ڈر ہے۔ پھر یہ نوجوانوں کا برتری کا گھمنڈ کس برتے پر؟ زمانے کے ساتھ کچھ رد و بدل ہو جاتا ہے، کچھ انداز میں فرق آ جاتا ہے۔ بس لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم پہلے والوں سے اچھے ہو گئے، ہم نے ترقی کر لی۔ مجھ کو جو بات اب نوجوانوں میں بھاتی ہے وہ یہی بھولا پن ہے۔ جنسی ہی معاملات کو لے لیجیے، وہی عشق و محبت کی کہانیاں ہیں ۔ وہی دماغ کی بے بسی، وہی دل کی حکمرانیاں ہیں ۔ اگلے لوگ رنڈیاں نوکر رکھتے تھے اب گھر گرستوں کا راج ہے۔ پہلے پیشہ ور تھے اب دل بہلاؤ کے لیے انیلی خوش باش ہیں ۔ رنڈیوں کی لڑکیاں برابر اپنے پیشے کے لیے تیار کی جاتی تھیں ، جو اپنے کام کی اونچ نیچ سے واقف ہوتی تھیں ۔ ان کے سر پر ان کے بزرگ ہوتے تھے جو بے راہ چال سے انہیں روکتے رہتے تھے۔ اب ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی، اب جس چھوکری کو دیکھیے بن سانپ کا منتر جانے بل میں ہاتھ ڈالنے پر تلی ہے۔ کہیں خودکشیاں ہیں ، کہیں بدنامیاں ہیں ۔ کاتا اور لے دوڑی اور چیز ہے۔ کرنے کی ودیا اور ہے۔ اچھا تو اب قصہ سنیے۔

ہمارے مکتب میں ایک رئیس زادے تھے جو سن میں ہم سب سے بڑے تھے۔ قریب قریب باپ بیٹے کا فرق رہا ہو گا۔ ان کی تعلیم ہم سے دس بارہ برس پہلے ختم ہوئی تھی۔ مگر بےچارے ایسے اچھے آدمی تھے کہ بزرگی کا خیال نہیں کرتے تھے اور ہم کو باوجود عمر کے فرق کے اپنی بے تکلف صحبت میں داخل کیے ہوئے تھے۔ ان کے پاس ایک نئی رنڈی نوکر ہوئی۔ نہایت خوب صورت، بڑی خوش مزاج اور اس فلسفے کی قائل تھی جس کا پہلا کلیہ یہ ہے کہ جوانی پھر لوٹ کر نہیں آتی۔ ہمارے دوست کا جو سن رہا ہو، ہم کوئی اٹھارہ انیس کے تھے۔ رنڈی کا سن ہمارے اور ان کے درمیان توازن قائم ی تھا۔ جس پاس بہر حال جوانی اور تجربہ دونوں تھے۔ ہم لوگ گنجفہ کھیل رہے تھے۔ مگر عجیب اتفاق کہ سوائے ہمارے دوست کے اور کسی سے کھیل بن ہی نہیں رہا تھا اس رنڈی کے ایک سو سوخت ہو گئے۔ اور ہم کھیل اعلیٰ کا دوسرا سر دینا بھول گئے    اور پھر بجائے سوختی ہونے کے ہنسی برابر چلی آ رہی ہے جیسے زمیں و آسمان کے بیچ میں گدگدی ہی گدگدی بھری ہو۔ ہمارے دوست الجھ الجھ کر رہتے ہیں کئی مرتبہ پتے بھی پھینک دیے کہ اس کھیلنے سے کیا فائدہ مگر ہم نے سنجیدگی کا وعدہ کیا اور پھر وہی کیا۔ ہم نا کند بچھیرے ایک نیا لطف محسوس کرتے تھے۔ مگر یہ لطف کس وجہ سے تھا یہ نہ سمجھ میں آتا تھا نہ اس کے سمجھنے کا خیال ہی ہوتا تھا۔ معلوم نہیں ان دونوں کے دلوں میں کیا لہریں اٹھ رہی تھیں ۔ اس رنڈی کی دل آویزی ہمارے دل میں جگہ قرار کرتی چلی جاتی تھی۔ جنسی خیالات بھی ابلے پڑتے تھے مگر ان خیالات کو عملی جامہ بھی کس طرح پہنایا جا سکتا ہے اس کی بابت کوئی امید افزا یا مایوس کن منصوبے نا تجربہ کاری کی بنا پر دل میں آ ہی نہیں رہے تھے۔ جو کچھ تھا وہ ہی کیا کچھ کم مزے کا تھا جو اور زیادہ کی ہوس ہوتی۔ کیوں کہ غریب آدمی کی دولت نا واقف کاری ہی میں ہے۔ اب برسوں کے بعد سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے تجربہ کار دوست کیوں الجھ رہے تھے۔ اور آزمودہ کار سپاہی کی طرح وہ رنڈی کیوں اطمینان سے کھیل رہی تھی۔ اور ہنس بھی ہی تھی۔ عورت اس قسم کے ہر نئے موقع پر مرد سے کیوں کر اپنے کو زیادہ لیے دیئے رہتی ہے اور کیوں کر زیادہ نڈری سے کام کرتی ہے۔ اس کو عورت کے نفسیات جاننے والے سمجھیں یا وہ سپاہی جو میدان میں صرف مورچہ ہی نہیں سر کر چکا ہے بلکہ شکست اٹھانے پر بھی جی نہیں ہارا ہے۔ اس کے بعد کئی موقعوں پر ہم تینو کا ساتھ رہا ہے لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے کوئی بات یاد رکھنے کے قابل نہیں ہوئی اور نہ کوئی خاص یگانگی ہی بڑھی۔ اس واقعے کو دو تین ہفتے ہو گئے اور ہم اس مختصر سی کائنات عیش و رنگ ہی کو بہت سمجھا کیے کہ اتنے میں ایک تار ملا۔ آٹھ بجے شام کی گاڑی پر ہم سے ملو۔ بھئی واہ یہ تو خوب ہوا ! بھلے کو رات کے آٹھ بجے گاڑی آتی ہے اگر دن کے آٹھ بجے گاڑی آتی تو بڑی گڑبڑ ہوتی۔ دیکھیں یار ملاقات میں کوئی کھنڈت تو نہیں پڑتی اور اگر اسٹیشن پر کوئی بزرگوں میں سے مل گیا تو کیا کریں گے! اونھ ہو گا کوئی دیکھ ہی لے گا تو کیا کرے گا۔ اور ہم اس سے کچھ تعلق کرنے تھوڑی جا رہے ہیں ۔ خالی ملاقات میں کیا حرج ہے۔

ایک ساتھ کھیلے راز دار نوکر کو ساتھ لے کر اسٹیشن پہنچے۔ نوکر سے شرط کرنے لگے۔ سنو جی ! اسٹیشن پر آٹھ بجے آنے والی گاڑی کا میل ادھر سے آنے والی گاڑی سے اگلے اسٹیشن پر ہو گا اگر موقعہ ہوا تو ہم وہاں تک چلے جائیں گے اور زیادہ سے زیادہ ۳۵ منٹ میں واپسی آ جائیں گے۔ تم اسٹیشن ہی پر موجود رہنا۔ ہاں اور سن لو جب ہم اشارہ کریں گے تب تم ٹکٹ لینا۔ گاڑی آئی بہت سی خوشی تھوڑی سی وحشت سے ملاقات کی۔ بھلے کو درجہ بالکل خالی تھا اور سردی کی وجہ سے جھلملیاں چڑھی ہوئی تھیں یہ اچھا ہوا۔

” اگلے اسٹیشن تک چلیئےساتھ رہے گا۔ شروع کی کم ہمتی میدان خالی پا کر کھل کھیلی۔ انیلے پن کو فطرت نے راہ دکھائی۔ پھر بھی جو کمی رہ گئی وہ استاد نے بتا دی۔ دبکی ہوئی تھی گربہ صفت خواہش گناہ چمکارنے سے پھول گئی، شیر ہو گئی۔

بھئی اہاہا۔ زندگی میں کتنے بڑے بڑے راز پنہاں تھے۔ اور ہم آج تک بے خبر۔ خیر اب سے آئے گھر سے آئے۔ کیسا اگلا اسٹیشن اور کیسا پچھلا اسٹیشن۔ گاڑی پٹڑیوں پر چل رہی تھی اور ہم رنگ برنگ کے بادلوں میں سے ہوتے ہوئے چاند کے پاس پہنچ رہے تھے۔ پہلے دوسرے تیسرے نہ معلوم کس آسمان پر تھے کہ یک بارگی جو چیتے تو گھر سے تین سو میل دور ایک بڑے جنکشن کے اوپر کھڑے ہیں صرف چند ریزگاریاں اور چھ میل کا ٹکٹ جیب میں اور ٹکٹ چیکر کا سامنا ہے۔

ٹکٹ چیکر: یہ ٹکٹ تو صرف فلاں اسٹیشن سے فلاں اسٹیشن تک ہے۔

میں : ہاں آپ ہم کو ادھر کی گاڑی سے بھیج دیں ۔ جس قدر دام کہیے گا وہیں دیں گے۔

ٹکٹ چیکر: یہ کیسے ہو سکتا ہے۔

میں : تو آپ میری گھڑی اس وقت تک کے لیے رکھ سکتے ہیں جب تک میں روپے نہ دوں ۔ یا میں تار بھیج کر روپے منگوا سکتا ہوں ۔

ٹکٹ چیکر: اور وہ لیڈی کون تھیں جو آپ کو رخصت کر کے پھر گاڑی میں بیٹھ گئیں ۔

میں : یہ آپ کیوں پوچھتے ہیں ۔ یہ میں نہ بتاؤں گا۔ آپ کو روپے چاہیے وہ آپ میری گھڑی سے وصول کر سکتے ہیں ۔

ٹکٹ چیکر: چلیئے اسٹیشن ماسٹر کے پاس۔ یہ وہی طے کریں گے۔

اسٹیشن ماسٹر نے ٹکٹ چیکر سے حال سنا۔ پھر میری طرف مخاطب ہوئے اور تقریباً سب وہی باتیں پوچھیں جو اوپر آ چکی ہیں ۔

اسٹیشن ماسٹر: اگر تار دیا جائے تو کہاں ۔

میں : فلاں اسٹیشن کو۔

اسٹیشن ماسٹر: (دلچسپی سے) آپ کا نام کیا ہے۔

میں : (ایک ذرا رک کر) مُنے (جو میرا عرف ہے)

اسٹیشن ماسٹر: (اور زیادہ دلچسپی سے) آپ کے والد کا نام۔

میں : (باپ کا نام غلط بتانا حمیّت کے خلاف، شرافت کے خلاف یہ تو غلط نہیں بتا سکتا) میں نے صحیح نام لے لیا۔

اسٹیشن ماسٹر ہاتھ پھیلا کر دوڑے اور مجھ کو گلے سے لگا لیا۔

اس کو حسن اتفاق کہتے ہیں ۔ کہاں آپ اور کہاں یہ جگہ۔ آپ ہم کو کیا جانیں مگر ہم آپ کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ ہم نے آپ کو گودیوں میں کھلایا ہے۔ آپ کے والد سے اور ہم سے بڑے مراسم تھے۔ ہم وہاں سے برسوں ہوئے چلے آئے۔ ہمارے والد صاحب سید غلام حسین کو آپ جانتے ہوں گے۔

اسٹیشن ماسٹر: جب انھوں نے دوسری شادی کر لی تو ہم لوگ اپنے نانہال چلے آئے۔ وہاں کا سلسلہ ہی چھوٹ گیا۔

میں : بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔

اسٹیشن ماسٹر: اس وقت جو حالت میرے قلب کی ہے وہ میں ہی جانتا ہوں ۔ اس وقت وہ صحبتیں یاد آ گئیں ۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا۔ مجھ کو آپ کی صورت دیکھتے ہی کچھ یاد سا آ رہا تھا۔ ہنس کر۔ ہی ہی ہی اور یہ لیڈی کون تھیں ۔

میں : اب اس کو کیا کیجیے گا پوچھ کر۔

اسٹیشن ماسٹر: ہی ہی ہی اچھا جانے دیجیئے۔ مگر ہی ہی ہی۔ ہمارا زمانہ بھی خوب تھا۔

٭٭٭

ماخذ: سوغات، بنگلور، کمپوزنگ: اردو محفل کے اراکین

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A7%D8%A8-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D8%B1%D8%AF%D9%88%D9%84%D9%88%DB%8C.74580/page-3

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے