الطاف فاطمہ سے ماہ پارہ صفدر کی گفتگو

اگست 2017 میں ہوئی گفتگو

 

تاریخی شہر لاہور کے ایک قدیمی علاقے میں الطاف فاطمہ کی رہائش گاہ ’کنج گلی‘ میں بیٹھے ہوئے میں سوچ رہی تھی، کہ اس گلی کے مکینوں کو یہ علم ہی نہیں کہ ان کے درمیان دنیائے ادب کی وہ ہستی مقیم ہیں ساٹھ کے عشرے میں جن کے ناول ’’دستک نہ دو‘‘ نے پاکستان کے ادبی حلقوں میں بالکل ویسی ہی ہلچل مچا دی تھی جیسے بھارت میں قرۃ العین کے ناول ’آگ کے دریا‘ نے۔

یہ حقیقت ہے کہ اردو ادب کی دنیا میں ہاجرہ مسرور خدیجہ مستور اور حجاب امتیاز علی جیسی سنجیدہ ادب لکھنے والوں کی صف اول میں الطاف فاطمہ بڑے طمطراق سے کھڑی نظر آتی ہیں مگر نہ جانے کیوں اگر ادبی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو الطاف فاطمہ کو وہ شہرت اور پذیرائی نہیں ملی جس کی وہ مستحق تھیں، اسی ناول ’’دستک نہ دو‘‘ پر مبنی پاکستان ٹیلی ویژن کی ڈرامہ سیریل ان میں سے ایک تھی جسے دیکھنے کے لیئے لوگ انتظار کیا کرتے تھے اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اکثر کاروباری لوگ ڈرامہ ٹیلی کاسٹ ہوتے وقت اپنا کاروبار سمیٹ کر ٹی وی کے سامنے براجمان ہو جاتے تھے۔

دشت ادب کی سیاحی میں کئی عشرے گزارنے والی الطاف فاطمہ کا پہلا افسانہ انیس سو باسٹھ میں لاہور کے موقر ادبی جریدے ’ادب لطیف‘ میں شائع ہوا تھا۔ ان کے تین ناولوں ’دستک نہ دو‘، ’خواب گھر‘ اور ’چلتا مسافر‘ کے علاوہ افسانوں کے دو مجموعے ’’تار عنکبوت‘‘ اور ’’دیواریں گریہ کرتی ہیں‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔

الطاف فاطمہ ناول نگار اور افسانہ نگار تو ہیں ہی، مگر وہ اپنا سب سے بڑا اعزاز اپنے استاد ہونے کو سمجھتی ہیں۔

الطاف فاطمہ لاہور میں لڑکیوں کے ایک ڈگری کالج میں شعبہ اردو کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں، اسقدر گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہی ہیں کہ ادب سے وابستہ بہت سے بڑے ناموں کو بھی یہ تک علم نہیں کہ الطاف فاطمہ کہاں رہتی ہیں۔

گزشتہ برس 2016 میں شائع ہونے والا ان کا ناول ’چلتا مسافر‘ سقوط ڈھاکہ کے موضوع پر ہے، اس ناول کو پڑھتے ہوئے اپنی قومی تاریخ کے اس المیے پر قاری کی آنکھیں آنسوؤں کی تپش سے جلنے لگتی ہیں۔ یہ کیفیت صرف قاری ہی کی نہیں خود اس ناول کی خالق الطاف فاطمہ کی بھی تھی ان کا کہنا تھا کہ اسے لکھتے ہوئے میں اسقدر دل شکستہ تھی کہ بقول ان کے ’’قلم بار بار رکتا تھا اور کہیں دس برس میں یہ ناول مکمل ہوا‘‘

الطاف فاطمہ سے ملنے ان کے گھر تک پہنچنے کی کہانی خود میں ایک المیہ ہے۔ ان کے گھر ’کنج گلی‘ کی تلاش کے دوران انکشاف ہوا کہ خود ان کی گلی کے باسیوں کو یہ علم بھی نہیں تھا کہ کوئی الطاف فاطمہ بھی یہاں رہتی ہیں، ناول نگار تو دور کی بات، خیر میں کسی نہ کسی طرح ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے لیئے پہنچی تو وہ خود ذرا سی حیرت زدہ تھیں کہ میڈیا کے کسی فرد کو ان سے بات کرنے کا خیال کیوں کر آیا۔

آن کے انتہائی سادہ سے گھر کی چوکی پر گاؤ تکیے کے ساتھ رکھا ان کا پاندان ان کی تہذیب کا آئینہ دار تھا۔

مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا الطاف فاطمہ جیسی معتبر ادبی شخصیت سے بات کہاں سے شروع کروں۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہمارا معاشرہ آج بھی غالب طور ہر مردوں کا معاشرہ ہے لیکن جب الطاف فاطمہ نے لکھنا شروع کیا اس وقت کیا کیفیت اور صورت ہو گی۔ ذہن میں یہی خیال تانے بانے بن رہا تھا، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ شہرت اور پذیرائی کے حوالے سے اگر آپ مرد ہوتیں تو صورت حال مختلف ہوتی۔ الطاف فاطمہ نے جیسے پورے یقین سے کہا ’’اگر میں مرد ہوتی تب بھی ایسا ہی ہوتا۔ یہ تو اپنے اپنے مزاج پر منحصر ہے۔ ہم جیسے جو اب نظر انداز ہو رہے ہیں تب بھی ایسے ہی ہوتے۔ ہمیں نہ آگے آنے کا شوق ہے نہ تصویریں اتروانے کا اور نہ اپنے ساتھ سیشن کروانے کا۔ میرا خیال ہے کہ جنس بدل جانے سے رویے نہیں بدلتے‘‘۔

رویوں کی بات چلی تو میں نے الطاف فاطمہ سے پوچھا کیا مرد ادیب اور عورت ادیب کے رویے میں کوئی فرق ہوتا ہے۔ کہنے لگیں ’’کبھی نہیں۔ ہر گز نہیں۔ میں مرد عورت کا کوئی فرق محسوس نہیں کرتی اور میرے ساتھ اس لیئے کبھی زیادتی نہیں ہوئی کہ میں عورت ہوں البتہ عورتوں کے دل بعض اوقات چھوٹے ہوتے ہیں اور وہ بعض اوقات کسی کی زیادہ مقبولیت کو پسند نہیں کرتیں۔ جہاں تک میرا اپنا تعلق ہے تو میرے پورے گھرانے میں مرد اور عورت یا لڑکے اور لڑکی کا قطعی کوئی فرق نہیں تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے تو اپنے والدہ کی طرف سے بے انتہا حوصلہ افزائی ملی۔ میں جس وقت بی اے کر رہی تھی اور لکھنا شروع کیا تو میری سب سے پہلی تحریر کو میری والدہ نے بہت سراہا جس سے میرا حوصلہ بندھا‘‘۔ الطاف فاطمہ اپنی رواں تحریر کی طرح پوری روانی سے بول رہی تھیں۔ میں نے اس روانی کو لمحے بھر کے لیئے روکا اور پوچھا کہ آپ نے اب تک صرف تین ناول لکھے۔ میں شاید مزید کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن الطاف فاطمہ فوراً بولیں کہ ’بی بی اچھا لکھنے اور زیادہ لکھنے میں فرق ہے۔ اصل میں میں بہت آہستہ لکھتی ہوں۔ سقوط ڈھاکہ پر میں نے اپنا ناول چلتا مسافر دس برس میں مکمل کیا تھا۔ میں جب تک کسی کہانی کسی موضوع یا کسی دکھ میں ڈوب نہیں جاتی لکھ نہیں پاتی۔‘

کیا ناول کے مقابلے میں افسانہ لکھنا قدرے آسان ہے۔ اس سوال پر الطاف فاطمہ نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ’’ہر گز نہیں۔ چھوٹا افسانہ لکھنا بہت محنت اور مشقت کا کام ہے، چھوٹا افسانہ تو غزل کی طرح ہوتا ہے۔ کسی مختصر ہیئت میں اپنی تمام فکر کو سمونا بہت مشکل کام ہے‘‘۔

باتیں جاری تھیں کہ چائے آ گئی، چائے کے ساتھ الطاف فاطمہ کے ہاتھ کی بنی ہوئی امرودوں کی چاٹ بھی، اس دوران گفتگو بھی جاری رہی۔ میرے اس سوال پر کہ آپ اپنی پہچان کس طور پر پسند کریں گی ناول نگار یا پھر افسانہ نگار کے طور پر۔ الطاف فاطمہ کا فوری اور برجستہ اور بڑے ہی تیقن سے جواب دیا ’نہ ناول نہ افسانہ نگار میں تو ایک استاد ہوں۔ میرے شاگرد میرے افسانے ہیں۔ میں نے اپنے شاگردوں میں جو جذبہ اور ادب شناسی پیدا کی ہے وہی میری زندگی کا سرمایہ ہے‘۔

میں نے جب ان سے کچھ ان کے ہم عصروں کی تحریروں کے بارے میں جاننا چاہا تو کہنے لگیں ’’سب نے ہی وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر لکھا ہے البتہ مجھے انتظار حسین کا ناول ’’آگے سمندر ہے‘‘ بہت پسند ہے مگر نہ جانے کیوں میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ ہمارے ادب میں وہ شدت کبھی نہیں آئی جو دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپی اور روسی ادب میں نظر آئی اور پھر ہمارے بعض ادیبوں نے اشاریت اور تجریدیت سے اسقدر کام لیا کہ عام قاری تک ان کی بات پہنچ ہی نہیں سکی۔‘‘

بات سے بات نکلتی رہی موضوعات بدلتے رہے لیکن بدلتے ہوئے موضوع بھی ادب کے حصار میں ہی تھے۔ بات ادبی حلقوں تک پہنچی تو میں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ ادبی حلقوں میں بہت کم نظر آتی ہیں۔ الطاف فاطمہ ذرا سنبھل کر بیٹھیں اور گویا ہوئیں ’’ایک تو میری طبیعت ٹھیک نہیں رہتی مگر دوسری اہم ترین وجہ یہ ہے کہ میں یہ محسوس کرتی تھی کہ مجھے ادبی حلقوں میں کوئی پذیرائی نہیں مل رہی اس لیئے میں الگ تھلگ ہو گئی مگر اس سے میرا تخلیقی سفر رکا نہیں وہ جاری ہے۔ حال ہی میں میں نے جنوبی افریقہ کی تمام کہانیاں لکھنے والی خواتین کی مختصر کہانیوں کا ترجمہ کیا ہے جو ادب لطیف میں شائع ہوتا رہا ہے‘‘۔

خواتین کے ذکر پر میں نے پوچھا کہ آجکل خواتین کیسا لکھ رہی ہیں۔ الطاف فاطمہ نے قدرے غیر مطمئن سے انداز میں کہا ’’بس جیسے جیسے ان کے تجربات ہیں اس حساب سے تو ٹھیک ہی لکھا جا رہا ہے مگر کینیڈا امریکہ اور برطانیہ جیسے مغربی ممالک میں جو خواتین اردو افسانے لکھ رہی ہیں انہیں پڑھ کر بعض اوقات احساس ہوتا ہے کہ جیسے صرف ملک سے باہر ہونے کا اظہار کیا جا رہا ہو ویسے کچھ اچھا کام بھی ہو رہا ہے۔‘‘

ان دنوں اکثر ادیبوں کو قارئین کی تعداد میں کمی کا بے حد شکوہ ہے اور اکثر اس صورت حال سے بہت بد دل بھی کہ آخر کس کے لیے لکھا جائے۔ الطاف فاطمہ کا بھی یہ ہی خیال تھا، کہ ’ہاں قاری کی تعداد بہت ہی کم ہو گئی ہے، مگر قدرتی سی بات ہے کہ ٹی وی کے مختلف چینلز اور کیبل اور پھر ڈش، کمپیوٹر وغیرہ ان سب نے مل کر قاری کی تعداد کو متاثر کیا ہے مگر اس صورت حال کے باوجود اب بھی ادب شناس گھروں میں لوگ کتاب پڑھتے ہیں۔‘

اس سوال پر کہ نئ نسل تک آپ کی بات نہیں پہنچ رہی۔

مکمل اتفاق کے لہجے میں کہنے لگیں ’’میں اس بات سے بالکل متفق ہوں اور اکثر کہتی ہوں کہ ہمارے ادیب اپنی تشہیر پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ نئی نسل تک ادب کیسے پہنچایا جائے، آج کا ادیب کوئی خاطر خواہ تگ و دو نہیں کر رہا‘‘۔

تو ایسے منظر نامے میں کیا آج سے پچیس تیس برس بعد کوئی انتظار حسین یا احمد ندیم قاسمی یا الطاف فاطمہ کے نام سے واقف ہو گا، میں نے پوچھا۔

الطاف فاطمہ نے جواب میں خاصی ذمے داری میڈیا پر ڈالتے ہوئے کہا ’’ہاں اگر ہمارا میڈیا اپنی ذمے داری سمجھے تو کچھ ہو سکتا ہے مگر ہمارے ہاں بہت زیادہ زور تفریح پر ہے خاص طور پر ایسے سنجیدہ پروگرام جن سے ذہنی سطح بلند ہو، نہ ہونے کے برابر ہیں‘‘۔

گفتگو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’’میری کتابیں میری سب تخلیقات میرے شاگرد یہ سب میرا حاصل زندگی ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ میری کچھ تخلیقات اب بازار میں میسر نہیں گویا آؤٹ آف پرنٹ ہیں۔ کچھ عرصے قبل ایک صاحب مہربان دوست بن کے آئے اور میرے سارے افسانے شائع کرنے کے وعدے کے ساتھ لے گئے ایک دو شائع بھی کیئے لیکن پھر غائب۔ اب نہ جانے وہ سب کہاں ہیں اور میرے پاس ان کا کوئی ثبوت بھی نہیں‘‘۔

گو کہ گفتگو خاصی طویل ہو چکی تھی مگر میں اپنے ذہن میں اٹھنے والے ایک سوال کا جواب لیے بغیر اٹھ نہیں سکتی تھی۔ میں نے الطاف فاطمہ کا نام شاید کبھی بھی بیرون ملک جانے والے کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادبی وفد کی فہرست میں نہیں پڑھا۔ بہت سے ادیبوں سے لندن میں بھی ملاقات رہی، مگر الطاف فاطمہ کبھی ایسے کسی گروپ میں شامل نہیں رہیں۔ میں نے اپنے خیال کی تصدیق کے لیئے پوچھ ہی لیا کہ آپ کو کیا کسی ادبی قافلے کے ساتھ باہر جانے کا اتفاق بھی ہوا؟ جواب میں شکوے یا تاسف سے زیادہ ارباب بست و کشاد کی بے حسی اور بے اعتنائی کی طرف اشارہ تھا۔ کہنے لگیں ’’کبھی نہیں۔ ادیبوں کے بڑے بڑے وفد ملک سے باہر جاتے رہے انہیں سرکاری سرپرستی بھی حاصل رہی لیکن مجھے ہمیشہ ایسے نظر انداز کیا گیا جیسے میرا کوئی وجود ہی نہیں۔ میں دل میں بہت کڑھتی رہی خاص طور پر یہ سوچ کر مجھے بہت تکلیف ہوتی تھی کہ ہم جنہیں منصف سمجھتے ہیں اور وہ بھی جو اپنی تحریروں میں سماجی نا انصافیوں کی بات کرتے ہیں، بے انصافی کی حد تو خود انہیں کی دہلیز سے شروع ہوتی ہے۔‘‘

اس کے بعد مزید کسی سوال کی گنجائش بھی کہاں تھی۔

https://aalmiakhbar.com/archives/29185

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے