اشکِ گُل ۔۔۔ محمدفیاض عادل فاروقی / تبصرہ نگار :غلام شبیر رانا

 

اشکِ گُل

(دیوانِ عادل)،دار الکتاب برطانیہ،سال اشاعت 2014

                   محمدفیاض عادل فاروقی / تبصرہ نگار :غلام  شبیر رانا

 

 

لندن میں مقیم پاکستان کے ممتاز شاعرمحمد فیاض علوی فاروقی کادیوان ’’اشکِ گُل ‘‘حال ہی میں شائع ہواہے۔ جھنگ(پاکستان )سے تعلق رکھنے والے اس یگانہء روگار ادیب کی فکر پرور شاعری اسی روایت کا تسلسل ہے جو حریتِ فکر کی امین ہے۔ وطن ،اہلِ وطن اور انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت رکھنے والے اس تخلیق کار نے اس دیوان کا انتساب دنیا کے تمام مظلوم انسانوں کے نام کیا ہے۔ چار سو صفحات پر مشتمل اس دیوان میں ہر صنفِ شعر میں شاعر کی گُل افشانی گفتار کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔ حمد ،نعت ، مدحت ،منقبت، غزل ،ظریفانہ شاعری ،نظم ،قطعات اور دیگر اصناف شعر میں اس زیرک تخلیق کار نے زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کا لوہا منوایا ہے۔  ایک با کمال تخلیق کار کی حیثیت سے شاعر نے صنائع ،بدائع اور رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے حسین استعاروں سے اپنے کلام کو اس طرح نکھارا ہے کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے ۔ اس دیوان میں شامل قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی دو سو سولہ افکارِ تازہ سے معطر غزلیات قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا کر مسحور کر دیتی ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ اور صنائع بدائع اس مشاق صناع کے حضور دست بستہ موجود ہیں اور ایک مرصع ساز کی حیثیت سے وہ انھیں بڑئی مہارت سے اپنی شاعری میں استعمال کرکے قارئین کو حیرت زدہ کرنے پر قادر ہے۔ شاعر کو علمِ عروض پر کامل دسترس حاصل ہے ۔ اس کا واضح اظہار اشکِ گُل کی شاعری میں ہوتا ہے جہاں کئی اشعا ر کی تقطیع کی مثالیں قاری کے لیے مشعلِ راہ ہیں ۔ اس دیوان میں شاعر نے جو طرزِ فغاں ایجاد کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اوروں سے یہ تقلیداً بھی ممکن نہیں ۔ دیوان کے آغاز میں دنیا کے تیرہ نامور ادیبوں اور دانش وروں نے شاعر کے تخلیقی عمل کے بارے میں جو وقیع رائے دی ہے ،وہ بھی شاملِ اشاعت ہے۔ ان عالمانہ تجزیاتی آرا کے مطالعہ سے قاری اس شاعری کا استحسان کر کے دلی مسرت حاصل کرتا ہے۔

عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی ادیب ،دانش ور ،نقاد ،محقق ،ماہر لسانیات اور ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی رائے تھی کہ جھنگ نے فروغ علم و ادب کے لیے جو عظیم خدمات انجام دی ہیں ان کا عدم اعتراف نا شکری کے مترادف ہے۔ یہاں کے تخلیق کاروں نے پرورشِ لوح  وقلم کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ جب بھی یہاں کے ادیبوں کو کٹھن زندگی کے مسائل سے کچھ فراغت ملتی ہے یہ اپنی مختصرترین تحریروں سے بھی ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ہیں ۔ جھنگ کی درخشاں علمی و ادبی روایت کو پروان چڑھانے میں حضرت سلطان باہوؒ،صدیق لالی،کبیر انور جعفری،رفعت سلطان،  اللہ بخش ماثوم،جعفر طاہر ،مجید امجد ،محمد شیر افضل جعفری، راناسلطان محمود ،شیر محمد ،محمد منیر ، ظہور احمد شائق ،فضل الٰہی خان ،یوسف شاہ،دیوان احمد الیاس نصیب،مہر بشارت خان، سید مظفر علی ظفر ،آ غا نو بہار ،رانا ارشد علی،رانا عزیز احمد ،نور احمد ثاقب،شریف خان ،گد ا حسین افضل ،سمیع اللہ قریشی،محمد بخش گھمنانہ،محمد خان نول،غلام مرتضیٰ شاکر ترک،سردار باقر علی خان،غلام محمد رنگین، ظفر سعید ،خیر الدین انصاری ،خادم مگھیانوی،امیر اختر بھٹی، حکمت ادیب ،غلام علی خان چین،ڈاکٹر محمد کبیر خان،خادم مگھیانوی،حکیم احمد بخش نذیر ،عاشق حسین فائق،محمد بخش کوکب ،عباس ہادی چغتائی،محمد حیات خان سیال،فضل بانو ،رام ریاض ،معین تابش ،احمد تنویر ،بیدل پانی پتی،غلام رسول شوق ،رانا عبدالحمید خان اور عبد ا لغنی نے اس روایت کو اپنے خون جگرسے پروان چڑھایا ۔ یہ عظیم ادبی روایت محمد فیاض عادل فاروقی تک پہنچتے پہنچتے ایک دبستانِ ادب کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ ان نابغہء روزگار ادیبوں کی خدمات تاریخ ادب میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ تاریخ ہر دور میں ان کے عظیم نام اور فقید المثال علمی و ادبی خدمات کی تعظیم کرے گی۔

شاعری کا یہ دیوان’’اشکِ گُل ‘‘زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرتا ہے۔ اپنی شاعری کو جذبوں کی صداقت سے مزین کر کے شاعر نے حُسن ،خوبی،تاثیر اور وجدان کے امتزاج سے جو سماں باندھا ہے اس کے اعجاز سے اس شاعری کو ایک انفرادی لہجہ اور دل کش انداز نصیب ہوا ہے۔ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے فرد کی عملی زندگی کے تمام موسموں کی منظر نگاری بڑی صداقت اور خوش اسلوبی سے کی ہے۔ تخلیقی سر گرمی کا یہ منفر د  روپ خوف و دہشت کی فضا اور جامد و ساکت ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کے ما نند ہے۔ اشکِ گُل کی شاعری کے مطالعہ سے اذہان کی تطہیر و تنویر کااہتمام ہوا ہے اور قاری مسرت و شا دمانی کے جذبات سے سر شار ہو کر زندگی کی تاب و تواں کا احساس و ادراک کرسکتا ہے۔ ایک انسان دوست، محبِ وطن اور وفا شعار تخلیق کار کی حیثیت سے شاعر نے قاری کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کاروانِ ہستی بہت تیز گام ہے۔ تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں ۔ ہر انسان کو یہ حقیقت یا د رکھنی چاہیے کہ رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے،انسان کا نہ تو ہاتھ باگ پر ہے اور نہ ہی اس کا پائوں رکاب میں ہے۔ ہوائے جور و ستم میں بھی شمعِ وفا کو فروزاں رکھنا ضروری ہے۔ ثمے کے سم کے ثمر کے نتیجے میں زندگی کی محرومیاں ،تلخیاں اور ناکامیاں انسان کو اُس بے یقینی کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں جو غلامی سے بھی تباہ کُن ہوتی ہے۔ اس لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور جان لیوا مسموم ماحول سے گُلو خلاصی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ یہ شاعری جبرکا ہر انداز مسترد کر کے حریتِ ضمیر سے جینے کا ولولہ عطا کرتی ہے:

زمانہ کہہ رہا ہے کیا سُنو گے؟

اگر طاقت نہیں ،مرتے رہو گے

ستم سہنا ستم گر کی مدد ہے

ستم ہوتا رہے گا گر سہو گے

یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہر اسلوب خواہ اُس کا تعلق شاعری سے ہو یا نثر سے اپنے دامن میں تخلیق کار کی شخصیت اور انفرادیت کے گلُ ہائے رنگ رنگ سموئے ہوتا ہے۔ تخلیق کار کی گُل افشانیء گفتار سے اظہار و ابلاغ کے متعدد نئے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اشکِ گُل کی شاعری میں تخلیق کار نے جن چشم کُشا حقائق ،بصیرت افروزواقعات اور صداقتوں کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے وہ پتھروں کو بھی موم کر دیتی ہیں ۔ اپنے منفرد اسلوب سے شاعر نے قاری کو جامد و ساکت ماحول سے نکل کر سعیء پیہم کو شعار بنانے کی راہ دکھائی ہے۔ باطنِ ایام پر گہری نظر ر کھنے والوں سے یہ حقیقت مخفی نہیں کہ نظامِ کہنہ تو محض گِرتی ہوئی ایک عمارت ہے۔ زندہ قومیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے جہد و عمل کو شعار بناتی ہیں اور کٹھن حالات میں بھی یاس و ہراس کا شکار نہیں ہوتیں ۔ شاعری کے اس دیوان میں افراد کو معاشرے ،قوم اور ملک کی ترقی میں اہم سمجھتے ہوئے اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ افراد کوملت کے ساتھ ہمیشہ مضبوط اور مستحکم ربط استوار رکھنا چاہیے۔ طلوع صبحِ بہاراں کے بارے میں ہمیشہ پُر اُمید رہنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ذہنی بیداری بہت ضروری ہے۔ جو لوگ بے عملی اور بے یقینی کا شکار ہو تے ہیں وہ جاگتی آنکھوں سے حقائق کو دیکھ کر بھی یقین نہیں کرتے۔ اس کے بر عکس پُر عزم اور ستاروں پر کمند ڈالنے والے با ہمت لوگ اپنے خوابوں کی عملی تعبیر تلاش کر کے لوحِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیتے ہیں ۔

اشکِ گُل کی شاعری جذبوں کی صداقت کی آئینہ دار ہے۔ اس شاعری کے سوتے بے لوث محبت ، خلوص،بے باک صداقت ،ایثار ، دردمندی اور یقینِ محکم کے خاموش ،کیف آور اور پُر سکون لمحات سے پُھوٹتے ہیں ۔ شاعر نے قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ صرف وہی مردانِ حق پرست جو ایام کا مرکب بننے کے بجائے ایام کا راکب بننے کی استعدا رکھتے ہوں زندگی میں سیرت ِ فولاد پید ا کر سکتے ہیں ۔ وہ نہ صرف احتساب ِ ذات کو یقینی بناتے ہیں بل کہ وہ مہر و مہ و انجم کے محاسب کا کردار بھی ادا کرتے ہیں ۔ اصلاح اور مقصدیت کا علم بلند رکھتے ہوئے شاعر نے جذبات کے سیلِ رواں سے بچ کر ساحلِ عافیت تک پہنچنے کی جو راہ دکھائی ہے وہ لائقِ صد رشک و تحسین ہے۔ شاعر نے واضح کر دیا ہے کہ سعیء پیہم کے اعجاز سے افراد اپنی قسمت بدل سکتے ہیں اور حیاتِ جاوداں کا راز ستیز میں پو شیدہ ہے۔ ایک زیرک ،فعال ،جری اور مستعد شاعر کی حیثیت سے شاعر نے اپنے تخلیقی عمل میں اپنی ذات کو پسِ منظر میں رکھتے ہوئے انسانیت اور حیات و کائنات کو درپیش مسائل پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے۔ شاعر کے اسلوب میں جو توازن اور فکری پختگی ہے اسے انکسار ،خلوص ،دردمندی اور احتسابِ ذات کی مثال سمجھنا چاہیے۔ سنجیدہ شاعری ہو یا ظریفانہ اندازِ بیاں ہر صورت میں شاعر نے اپنے تخلیقی عمل کو اپنے اندر کے محتسب کے تابع کر رکھا ہے جو کہ اپنے من کی غواصی کر کے گوہرِ مراد کی جستجو پر آمادہ کرتا ہے۔ اشکِ گُل کی شاعری زندگی کی درخشاں روایات اور اقدار عالیہ کی ترجمان ہے۔ یہاں ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کی ضیا پاشی نگاہوں کو خیرہ کر رہی ہے اور قاری پرایسی وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ اُس کا مر حلہء شوق کبھی طے ہی نہیں ہوتا۔ اشکِ گُل کی اشاعت سے اُردو شاعری کی ثروت میں قابلِ قدر اضافہ ہوا ہے۔ زندگی کی بے ثباتی اور کارِ جہاں کی حقیقت کے بارے میں شاعر نے کُھل کر لکھا ہے ۔ اس سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ موت تو ایک ماندگی کا وقفہ ہے اور ذرا سا دم لے کر آگے چلنا پڑتا ہے۔

زندگی اِک کرائے کا گھر ہے

پِھر بھی نکلنے کا ڈر ہے

جو بھی آیا ہے،جائے گا اِک دِن

یہ جہاں اِک پرایا نگر ہے

کتاب کے حصول کے لیے اس ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے:darul_adab@hotmail.com

بِنائے دوستی کو مستحکم کرنے والی ’’اشکِ گُل ‘‘کی شاعری ایک نئے تخلیقی تجربے کی امین ہے جس میں غمِ ہجراں اور روادِ غمِ فرقت کے بجائے انسانیت کے مسائل پر توجہ دی گئی ہے۔ ہر قسم کی مصلحت سے بالا تر رہتے ہوئے اورعزمِ راسخ ا ور استقامت کا سفینہ لیے یہ با ہمت تخلیق کار جس حوصلے کے ساتھ تلاطم و دریا کا امتحان لینے پر کمر بستہ ہے وہ اس کی عظمتِ فکر اور انفرادی شان کی علامت ہے۔ اسی جذبے نے اس شاعری کو ساحری میں بدل دیا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے