آنند لہر کی افسانہ نگاری ۔۔۔ ریاض احمد میر

اردو افسانہ نگاری پر آج تک اتنا لکھا جا چکا ہے کہ مزید لکھنے کی گنجائش بہت کم ہے اس لئے میں صرف یہاں پر ذکی انور کی افسانہ نگاری سے متعلق اس تعریف کو دہراؤں گا جس میں انھوں نے کہا ہے کہ’ ’ایک عمدہ مختصر افسانہ وہ ہے جس میں ایجاز و اختصار کے علاوہ اتحادِ اثر اور اتحادِ زماں بدرجۂ اتم موجود ہوں ‘‘۔ اس کے علاوہ اگر افسانے میں گہرا سماجی شعور موجزن ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ ہو گا کیوں کہ تمام تر حوادثات و واقعات سماج ہی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور افسانہ نگار کو ان کا مشاہدہ کر کے کہانی لکھنے کا سلیقہ دیتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سماج میں رہنے والے ہر کسی انسان میں سماجی شعور موجود نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو فقط کسی فنکار میں جو سماج کی نبض کو اپنے فن میں دھڑکا تا ہے۔ افسانہ نگار بھی چونکہ ایک فنکار ہوتا ہے اس لئے اس کے ہاں ان دھڑکنوں کا زیر و بم بڑا ہی درد انگیز اور اثر انگیز ہوتا ہے۔ اور جہاں تک آنند لہر کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے، ان کے اندر یہ خوبی، ادراک اور سلیقہ بدرجۂ اتم مو جود تھا۔

آنند لہر کا اصل نام شام سندر ہے۔ آنند ان کی ذات ہے اور لہرؔ تخلص کرتے ہیں۔ لہرؔ کا خاندان ضلع پونچھ کے ایک گاؤں میں رہائش پذیر تھا، جو آج کل پاکستان کے قبضے میں ہے۔ آپ کے آباء و اجداد نے ۱۹۴۷ء کے ناموافق حالات کی وجہ سے گاؤں سے ہجرت کی اور پونچھ کے ایک محلے سرائے میں سکونت اختیار کیا۔ لہرؔ کی پیدائش جولائی۱۹۵۱ء کو ضلع پونچھ کے مردم خیز خطہ محلہ سرائے میں ہوئی۔ آپ کے والد بزرگوار کا نام شری بلراج آنند تھا اور والدہ محترمہ کا نام سمتری دیوی۔ آپ کے والد محکمۂ مال میں ایک گردوار کے عہدے پر فائز تھے۔ آپ کا خاندان ضلع پونچھ میں تقریباً ۳۵ سال تک قیام پذیر رہا۔

آنند لہرؔ کی ابتدائی تعلیم پونچھ میں ہوئی چونکہ آپ کو تعلیم سے خاص دلچسپی تھی اس لیے مزید تعلیم کے لیے کشمیر یونیورسٹی میں داخلہ لیا، اور یہاں سے بی اے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ وہ جموں ہائی کورٹ میں سینئر وکیل کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں۔

آنند لہرؔ پیشے کے لحاظ سے بے شک ایک نامور وکیل رہے ہیں ہیں اور اس شعبے میں وہ بے حد مصروف بھی رہے ہیں لیکن وہ اپنی بے حد مصروف زندگی سے وقت نکال کر کچھ نہ کچھ لکھتے رہے تاکہ انھیں روحانی سکون مل سکے۔ آنند لہر کا شمار ان تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جو شہرت کے لیے نہیں لکھتے، بلکہ اپنے دل کی تسکین کے لیے لکھتے ہیں۔ ان کی متعدد تخلیقات منظر عام پر آ چکی ہیں۔

انند لہرؔ کی افسانہ نگاری کا آغاز ۱۹۷۲ء میں ہوا۔ ان کا پہلا افسانہ ’پتھر کے آنسو‘ ہے، جو انھوں نے طالب علمی کے زمانے میں لکھا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’انحراف‘ ہے جو ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا۔ ’انحراف‘ کے افسانے اپنے دور میں مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ اس افسانوی مجموعے کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنند لہرؔ نے اپنے دور کے انسانی مسائل پر گہری نظر رکھی ہے اور ان کے مسائل کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔ افسانے کے ساتھ ساتھ انھوں نے ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ ان کا پہلا ڈراموں کا مجموعہ ۱۹۸۸ء میں ’نروان‘ کے نام شائع ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے ایک طویل ڈرامہ ’’تپسوی کون‘‘ لکھا، جو ۱۹۹۴ء میں شائع ہوا۔

ڈرامے اور افسانے کے ساتھ ساتھ انھوں نے ناول بھی لکھے۔ ان کا پہلا ناول ’’اگلی عید سے پہلے‘‘ ہے جو کہ ۱۹۹۷ء میں منظر عام پر آیا۔ ۲۰۰۱ء میں آپ نے ’’سرحد کے اس پار‘‘ کے نام سے ایک اور افسانوی مجموعہ شائع کیا اس میں شامل زیادہ تر افسانے روایتی طرز پر لکھے گئے ہیں، جب کہ اپنے پہلے افسانوی مجموعے ’انحراف‘ میں انھوں نے علامتی اور تجریدی افسانے لکھے ہیں۔ ’انحراف‘ ۲۰۰۲ء میں دوسری بار شائع ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے علامتی افسانے ادبی حلقوں میں زیادہ پسند کیے گئے۔ اسی دوران انھوں نے ۲۰۰۲ء میں ایک ناول ’سرحدوں کے بیچ‘ لکھا، اور ۲۰۰۴ء میں تیسراناول ’مجھ سے کہا ہوتا‘ شائع ہوا۔ حال ہی میں ان کا ایک اور افسانوی مجموعہ ’سریشٹا نے بھی یہی لکھا تھا‘ شائع ہوا ہے۔ آپ کا ادبی سفر جاری ہے، اور وقتاً فوقتاً دوسرے مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں، جو ملک کے متعدد رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

آنند لہرؔ اردو ادب میں ایک جانی پہچانی ہستی ہیں۔ ان کی شخصیت پر کئی مضامین بھی لکھے جا چکے ہیں۔ ان پر مضامین لکھنے والے شخصیات میں ’مہدی ٹونکی(راجستھان)، پروفیسر سید معصوم رضا، وید بھیسن، شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر نصرت چودھری، پروفیسر ظہور الدین، شرون کمار ویدیا، افتخار احمد صدیقی، ابراہیم یوسف، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، شمس فیروز زیدی، پرتپال سنگھ بیتاب، کمار پاشی، عشاق کشتواڑی، آسیر کشتواڑی اور عبدالرشید قابل ذکر ہیں۔ ان کے اعزازات میں رسا جاودانی میموریل لٹریری سوسائٹی اور ایم اے اردو پروفیشنل کورس نے کئی پروگرام کروائے جن میں آپ کی شخصیت پر اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔

آنند لہرؔ کو مختلف مواقع پر انعامات سے نوازا گیا۔ ۱۹۷۵ء میں آل انڈیا کہانیوں کا مقابل ہواجس میں ان کی کہانی کو اول مقام ملا۔ اس میں ان کو انعام سے سرفراز کیا گیا، جس کا ذکر انھوں نے کچھ اس انداز میں کیا ہے:

’’آل انڈیا کہانی مقابلہ ۱۹۷۵ء میں منعقد ہوا، اس میں ملک بھرسے دس کہانیاں منتخب کی گئیں۔ اس میں میری کہانی ’’سپیرن‘‘ کے نام سے بھی شامل تھی، اس کہانی کو درجہ اول ملا اور مجھے مناسب انعام سے سرفراز کیا گیا۔ ‘‘۱؂

میرؔ اکادمی لکھنؤ نے آنند لہرؔ کو ان کے مجموعے ’’نروان‘‘ پر انعام سے نوازا۔ سارک رائٹر (SAARC) کانفرنس، جموں یونیورسٹی اردو فورم، امریکن بایوگرافیکل لٹریچر، راجستھان اردو اکادمی، میر اکادمی لکھنؤ، نمی ڈوگری سنستھا سے مختلف انعامات سے انھیں نوازا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں جموں یونیورسٹی میں منعقد ڈی بیٹ(Debate) میں انھیں گولڈ میڈل سے سرفراز کیا گیا۔ اس مقابلے میں انھیں Best Debater کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل چیف جسٹس کی طرف سے بھی انھیں انعام ملا۔ آنند لہرؔ کی مقبولیت ریاستی سطح پر مسلم ہے۔

آنند لہر ؔ صوبہ جموں کے ایک مشہور افسانہ نگار ہیں۔ آنند لہرؔ نہ صرف ریاستی سطح پر اپنی ادبی حیثیت منوا چکے ہیں، بلکہ وہ ملکی سطح پر بھی ایک اہم افسانہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے افسانے ملک کے اہم رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ جب آنند لہرؔ نے افسانہ نگاری کی ابتدا کی تو اس وقت تک اردو افسانہ نگاری ترقی پسند افسانہ نگاروں کے ہاتھوں نکھر اور سنور چکی تھی اور حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ فنی اور تکنیکی سطح پر کافی تنوع آ چکا تھا۔ حیات اللہ انصاری، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، اختر اورینوی، عصمت چغتائی، اوپندر ناتھ اشک اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ نے انسانی زندگی کا باریک بینی کے ساتھ مشاہدہ کر کے، اس کی نفسیاتی اور داخلی زندگی کے مسائل، الجھنوں اور کشمکش کو بھی افسانوں میں پیش کیا۔ چنانچہ اردو افسانہ قلیل عرصے میں ایک شاندار روایت قائم کر چکا تھا، اور ریاستی سطح پر افسانے لکھے جا رہے تھے، اور اس دور کے افسانہ نگار ملکی روایت سے استفادہ کرتے ہوئے ترقی پسند تحریک کے اثرات کے تحت اس ریاست کے مسائل کو اپنے افسانوں میں پیش کر رہے تھے۔ ان افسانہ نگاروں میں پشکر ناتھ، ملک رام آنند، وید راہی، نور شاہ، خالد حسین، موہن یاور، کشوری چند، وریندر پٹواری کشمیری لال ذاکر، عبد المغنی شیخ اور پروفیسر ظہور الدین وغیرہ نے ریاست جموں و کشمیر میں پیدا شدہ مسائل اور یہاں کے لوگوں کی سیاسی، سماجی اور معاشرتی زندگی کو اپنے افسانوں میں پیش کیا۔ اسی طرح افسانے کی روایت کو ریاستی سطح پر فروغ ملنے لگا، اور ان افسانہ نگاروں نے اپنی ریاست کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کو اپنی کہانی کا موضوع بنایا۔

آنند لہرؔ کی افسانہ نگاری کا آغاز ۱۹۷۲ء میں ہوا۔ ان کا پہلا افسانہ ’پتھر کے آنسو‘ ہے، جو انھوں نے طالب علمی کے زمانے میں لکھا۔ ابتدا ہی سے انھوں نے تجریدیت کی طرف رجوع کیا۔ اس دور میں اردو افسانہ روایتی ارتقا کے دور سے آگے بڑھ کر علامتی اور تجریدی تجربات اپنے اندرسمیٹ رہا تھا۔ آنند لہرؔ نے بھی اپنے دور کے غالب رجحان کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ ایک جانب ان کے سامنے ملکی مسائل تھے، اور دوسری جانب ریاست کی عوام اور ان کے مسائل۔ چنانچہ انھوں نے نئی تکنیک کے تحت مختصر علامتی اور تجریدی افسانے لکھے۔ تجریدی تجربے بھی کیے۔

ریاست جموں و کشمیر میں تجریدی افسانے لکھنے والوں میں آنند لہرؔ کا نام قابل ذکر ہے، انھوں نے ایک افسانوی مجموعہ ’’انحراف‘‘ تخلیق کیا، جو تجریدی افسانوں کے زمرے میں آتا ہے۔ آنند لہرؔ ریاست میں تجریدی افسانہ نگاری کے موجد ہیں۔ ان سے پہلے علامتی افسانے تو لکھے جا رہے تھے، لیکن کسی نے تجریدیت پر قلم نہیں اٹھایا تھا۔ آنند لہرؔ نے ریاست میں تجریدی افسانے لکھ کراس تجربے کا آغاز کیا۔ ان کے افسانے سڑک، عدالت، رفتار، راستے کا پہاڑ وغیرہ اسی نوعیت کے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں ایک خواب آور کیفیت کو ابھارتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر نصرت چودھری:

’’لہرؔ کے یہاں زیادہ تر اینٹی اور تجریدی کہانی ملتی ہے، انھوں نے اپنے افسانوں میں بغیر پلاٹ اور کردار کے ایک خواب آور کیفیت کو ابھارا ہے۔ نئے افسانوں میں جہاں موضوعاتی سطح پر زندگی کی بے معنویت، معاشی، ناہمواری طبقاتی تضادات، بے چینی اور میکانکی عمل کا احساس ملتا ہے، وہیں افسانے کے فن میں تجربے بھی ہوئے ہیں۔ افسانے میں کہانی پن، پلاٹ اور کرداروں سے قطع نظر اینٹی پلاٹ اور اینٹی کہانی کی جھلک ملتی ہے۔ نئے تجریدی افسانوں کی تکنیک اور ہیئت روایتی افسانوں سے قدرے مختلف ہے۔ آنند لہرؔ کے ہاں زیادہ تر یہی نیا انداز کار فرما ہے۔ ان کے افسانوں میں واقعات کی ترتیب، پلاٹ کی تعمیر اور کرداروں کے روایتی ارتقاء کے بجائے منتشر خیالات واقعات کو یکجا کر کے پیش کیا گیا ہے۔ جس طرح خواب میں ہم زماں و مکاں کی حدود سے ماورا ہو جاتے، اسی طرح ’’انحراف‘‘ جیسے افسانے کو پڑھتے ہوئے خواب کے عمل کے تحت زمانی و مکانی حدود کے بجائے واقعات کا ایک منتشر عمل سامنے آتا ہے۔‘‘۲؂

آنند لہرؔ نے جب افسانہ نگاری کا آغاز کیا تو سب سے پہلے اپنے گرد و نواح کے ماحول سے متاثر ہوئے۔ انھوں نے روزمرہ کی زندگی کے مسائل کو اپنے افسانوں میں پیش کیا۔ انھوں نے اپنی کہانیوں میں نہ صرف شہری بلکہ دیہاتی زندگی کے رسم و رواج، رہن سہن اور دیگر مسائل کو اپنے افسانوں میں پیش کیا۔ لہرؔ کے افسانوں میں محسوسات، تجربات، مشاہدات، نفسیات اوراحساسات کے ساتھ ساتھ گہرے معاشرتی شعور کا احساس ہوتا ہے۔ قاری ان کی کہانی پڑھتے ہوئے اس چیز کو محسوس کرتا ہے کہ انھیں گرد و پیش کی ہر چیز پر نظرہے، اور ان سب کی عکاسی لہرؔ نے ایسی خوبصورتی سے کی ہے کہ ہر طبقے کی جیتی جاگتی تصویریں ہماری نظروں کے سامنے گھوم جاتی ہیں۔

آنند لہرؔ کی افسانہ نگاری کا اسلوب یہ ہے کہ وہ زیادہ تر آج کے معاشرے میں گرے ہوئے انسان کی کھوکھلی اور بے کیف زندگی کو موضوع بناتے ہیں۔ لہرؔ کے یہاں یک رنگی ہے، بلکہ ان کے موضوعات میں وسعت اور تنوع بھی پایا جاتا ہے۔ موضوع کے بارے میں آنند لہرؔ کا کہنا ہے کہ:

’’میرے افسانوں کے موضوع عام طور سے سماجی اور سیاسی ہوتے ہیں۔ جو دیکھتا ہوں وہی لکھتا ہوں۔ سماج میں ہو رہی برائیوں پر سے غفلت کا سیاہ پردہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ اور سماج میں شریف الاشکال صفت بھیڑیا انسانوں کے منہ پرسے کالا پردہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘۳؂

شمس الرحمن فاروقی ان کی افسانہ نگاری کے متعلق لکھتے ہیں:

’’لہرؔ کی افسانہ نگاری پر اب کسی شک کی گنجائش نہیں۔ انھوں نے تین دہائیوں کی مدت افسانہ نگاری کے میدان میں صرف کی ہے۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ وہ فیشن کی ہوا میں بے راہ رو نہیں ہوتے۔ شروع ہی سے انھوں نے استعاراتی اور علامتی، لیکن سہل اور آسانی سے دل میں بیٹھ جانے والا اسلوب اختیار کیا تھا، اس پر وہ ہمیشہ قائم رہے۔ معاصر دنیا کا عکس اس کے افسانوں میں نہ اس طرح جھلکتا ہے کہ اخباری رپورٹ معلوم ہو اور نہ وہ اس قدر دھندلایا گنجلک ہے کہ اس کے خد و خال کو پہچاننے کے لیے دیر تک الجھنا پڑے۔۔‘‘۴؂

آنند لہرؔ اپنے افسانوں میں سیاسی اور سماجی نظام کی کمزوریوں اور عصری صداقتوں کو تخلیقی فن کاری کا جامہ پہنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا بنیادی مقصد انسانوں کی تقسیم اور آپسی بھائی چارے کی محبت کا دردناک حال بیان کرنا ہے۔ ان کے افسانوں میں انسانوں کی شکست خوردہ زندگی کی تصویریں صاف دیکھی جا سکتی ہیں۔ جب ہم ان کے افسانوی مجموعوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں مختلف موضوعات ملتے ہیں۔ لہرؔ کا بنیادی مقصد حقیقت نگاری، ذات کی گہرائی، جنگ بندی، امن شانتی اور سرحدیں، دیواریں ختم ہونی چاہیے، وغیرہ جیسے موضوعات ملتے ہیں۔ وہ روزمرہ کے واقعات سے خاکہ تیار کرتے ہیں، اور پھر دردمندی سے انھیں افسانوں میں پیش کر دیتے ہیں۔ بقول آنند لہرؔ :

’’۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ میں امن اور شانتی چاہتا ہوں، تمام سرحدیں ختم ہونی چاہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ انسانوں کی تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ آپسی بھائی چارہ ہونی چاہیے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اسی نکتہ کو میں نے ’’سرحد کے اس پار‘‘ افسانے اور ’’سرحدوں کے بیچ‘‘ ناول میں پیش کیا ہے۔‘‘۵؂

آنند لہرؔ کے افسانوں میں ہمیں مختلف قسم کے کردار ملتے ہیں، اور ہر ایک کردار کی انفرادیت اور نفسیاتی کیفیت ہے، ہر کردار جیتا جاگتا اور حقیقی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ لہرؔ کے افسانوی مجموعہ ’’انحراف‘‘ میں تمام افسانوں کے کردار علامتی ہیں۔ اس سلسلے میں وہ کہیں ’سورج‘ اور کہیں ’الف‘ اور ’ب‘ وغیرہ ان کے کردار ہیں۔ اس مجموعے میں جتنے بھی کردار ہیں، ان کا کوئی وجود نہیں ہے، جب کہ لفظ یا حرف کو علامت بنا کر کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اس سلسلے میں افسانے کا اقتباس ملاحظہ کریں:

’’۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ تم زخمی کیسے ہوئے۔ تمہاری شکل تو الف سے ملتی جلتی ہے اور الف تو ہر چیز کی ابتدا ہے۔‘‘

’’س‘‘ نے سوال کیا۔

’’دوست! الف کو الف نہیں رہنے دیا۔ اسے لفظوں کے بیچ اس طرح گرفتار کیا گیا کہ اس کا وجود ہی بگڑ گیا۔۔‘‘

’’س‘‘ نے پھر سوال کیا۔ لفظوں کی جنگ لڑتے لڑتے در اصل لفظ ہمارے ساتھ چپک جاتے ہیں، اور ہم اپنے آپ کو لفظوں کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے‘‘ اس نے بڑے اطمینان کے ساتھ کہا۔ ‘‘ ایسا کیوں کہہ رہے ہو؟ اگر پیسے کم ہیں تو بولو۔‘‘

’’نہیں! یہ بات نہیں، تمہاری عمر تو ہزاروں برس ہے۔‘‘ وہ کیسے؟ لڑکی نے پوچھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ وہ حیران رہ گیا۔ عورت نے بات کا سلسلہ جاری کرتے ہوئے کہا۔ ’’بڑی مشکل سے لائی ہوں میں اسے اس کا باپ مانتا ہی نہیں تھا کرتا بھی کیا بیٹی کو کہاں رکھتا۔ تین بیٹے تھے، بہوؤں کو بھی آنا تھا۔ لہٰذا سودا بیٹوں کے حق میں گیا۔ گھر بنانے کے لیے بیٹی کاسودا کیا۔‘‘۶؂

نسوانی کردار نگاری کے ساتھ ساتھ ان کے افسانوں میں مردانہ کردار بھی کہانیوں کی زینت بڑھاتے ہیں۔ مردانہ کردار سماج سے ہی لیے گئے ہیں۔ یہ کہیں باپ تو کہیں بیٹا ہوتا ہے یا پھر خاوند ہوتا ہے۔ یہ مرد کہیں عورت کے حق میں اور کہیں اسی عورت کو پامال کرتا نظر آتا ہے۔ غرض یہ کہ مرد کو لالچی، خود غرض اور مطلبی بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ جب کہ ان کے افسانوں میں عورت مظلوم، بے بس، لاچار اور بے سہارا نظر آتی ہے۔ یہی وہ مسائل ہیں جو آج بھی ہمارے سماج میں ہر جگہ پنپتے نظر آتے ہیں، لیکن کسی کی نظر ان پر نہیں جاتی۔ کہانی کار بڑا زیرک اور دور اندیش ہوتا ہے۔ اس کی نہ صرف سامنے کی نظر بلکہ اندر کی نظر بھی بڑی تیز ہوتی ہے، وہ سماج میں ہو رہی تبدیلی کو بہت جلد پہچان لیتا ہے۔ لہرؔ نے اس کیفیت کو افسانہ ’’جسم بستی‘‘ میں بڑے خوب صورت انداز سے بیان کیا ہے:

’’تمام پارٹیوں نے متفقہ طور پر ثریا کو اپنا امید وار بنا دیا، یعنی کہ عورت کے تئیں ہمدردی و وفا داری دکھائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ثریا الیکشن جیت گئی اور ممبر اسمبلی بن گئی۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ اسمبلی کے اندر جاتے ہی اس حوالہ سسٹم کے خلاف آواز اٹھائے گی، تاکہ آئندہ کسی عورت کو حوالہ کرنے کی کوئی جرات نہ کر سکے۔۔ ۔۔ ۔۔ آوازوں نے پھر اسے گھیرنا شروع کر دیا۔ ایک لاکھ روپے کیوں کہ جاگر ناتھ کا چیف منسٹر بننا ضروری ہے۔ دو لاکھ روپے اور ساتھ میں داس رام آپ کی ذات کا بھی ہے۔ ثریا حیران رہ گئی۔ پھر وہی آوازیں ’حوالے ہو جاؤ‘ ’میری ہو جاؤ‘ ’جو چاہو گی وہ ملے گا۔ شہزادی بن جاؤ گی، مالامال ہو جاؤ گی‘۔ منسٹری سے آگے بہت آگے ثریا کو محسوس ہوا کہ یہاں بھی ضمیر بکتے ہیں، آتما بکتی ہے، آتما پرماتما کا روپ ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ عورت صرف جسم ہے، وہ کسی بھی روپ میں ہو، وہ کہیں بھی ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا، چاہے منسٹر ہو جائے یا کوٹھے پر رہے، حوالہ سسٹم ختم نہیں ہو گا۔‘‘۷؂

آنند لہرؔ بھی اسی حیثیت کے مالک ہیں۔ ان کے افسانوں میں کردار نگاری کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ راجندر سنگھ بیدی اور پریم چند سے بہت قریب نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کی کہانیاں بھی سماجی مسائل کو پیش کرتی ہیں۔ لہرؔ بیدی اور پریم چند جیسے افسانہ نگاروں سے کافی متاثر نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی کردار نگاری ان کے ہم پلہ ہیں۔ انور کمال حسینی ان کی افسانہ نگاری اور ان کے کردار نگاری کے بارے میں رقم طراز ہیں:

’’۔۔ ۔ ان کے افسانے زندگی کے قاشیں ہوتے ہیں، جو زندگی کی طرح کھٹے، میٹھے کڑوے، کسیلے اور تیز ہوتے ہیں۔ اور ان افسانوں کے کردار کسی دور دیس کے اجنبی نہیں ہوتے، بلکہ ہمارے معاشرے کے جانے پہچانے افراد ہوتے ہیں۔۔‘‘۸؂

آنند لہرؔ کے افسانوں میں سماج، ذات، معاشرہ، سیاست، بے روز گاری، سرمایہ داری، غریبی، جنسی خواہشات کے ساتھ ساتھ فرسودہ رسومات، مذہبی ڈھونگ اور ضعیف الاعتقادی کا بھی تجزیہ ملتا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں کو زندگی سے قریب لانے کی کوشش کی ہے، اور اس میں وہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ ان کی عبارت میں چھوٹے چھوٹے جملے شامل ہوتے ہیں۔ روانی اور سلاست ان کے ہر مضمون میں پائی جاتی ہے۔ ان کے افسانوں میں روزمرہ کی باتیں عام ہوتی ہیں۔ ہر قاری چاہے وہ کم پڑھا لکھا ہو یا زیادہ ان کے افسانوں کو اچھی طرح سمجھ لیتا ہے۔ وہ قلم اور الفاظ کی عظمت کو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ کم الفاظ میں زیادہ اور مکمل بات کہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں عام بول چال کی زبان پائی جاتی ہے۔ اسیر کشتواڑی ان کے افسانوں کی زبان کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ انحراف‘‘ لہرؔ صاحب کے تجریدی افسانوں کا ایک خوبصورت مرقع ہے، جو پڑھنے اور غور سے تعلق رکھتا ہے۔ مصنف کا ہنر اور اس کی کامیابی ورق ورق سطر سطر لفظ لفظ سے ظاہر ہے۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جو لہرؔ کو ادبی دنیا میں ایک منفرد اور بلند مقام دلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔‘‘۹؂

آنند لہرؔ کی زبان کا جہاں تک تعلق ہے، اس میں چاشنی، شگفتگی اور مٹھاس ہے۔ یہ عام سے موضوع کو اس طرح کے اسلوب میں ڈھال لیتے ہیں کہ وہ آفاقی بن جاتا ہے۔ مختصر جملے ان کے افسانوں کی جان ہیں۔ وہ جو کچھ اپنے اردگرد دیکھتے ہیں، اسے صفحۂ قرطاس پر اتار دیتے ہیں۔ وہ قاری کو ذہن میں رکھ کر لکھتے ہیں اور اسے اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لہرؔ کے افسانے موجودہ دور میں زبان کے اعتبار سے بے مثال ہیں۔ مثلاً:

’’آج پھر کوئی طوفان آنے والا ہے‘‘

’’تمھیں کیسے پتہ لگا۔‘‘ پانی کے بدن والے شخص نے پوچھا۔

’’آج پھر لوگ بچوں کو کہانیاں سنارہے ہیں۔‘‘

لوگ جب بھی بچوں کو پرانی کہانیاں سناتے ہیں تو طوفان ضرور آتا ہے۔ ایک بہت پرانے جوگی کا خیال ہے کہ لوگ صرف جوانی کی کہانیاں سناتے ہی نہیں، بلکہ دہراتے ہیں اور انھیں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ حالاں کہ جوانی کی صرف ایک ہی کہانی ہے۔ کیوں کہ تمام لوگوں کو ایک ہی جیسے برس اور مہینے نصیب ہوتے ہیں اور تمام آنکھوں کے اندر ایک ہی طرح کی خواہشیں ابھرتی ہیں اور لوگ چوں کہ جھوٹ بولتے ہیں اور بچے ان کی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں، اس لیے دریا میں طوفان آ جاتا ہے۔‘‘۱۰؂

انھوں نے سرحد کے مسائل اور انسانوں کی تقسیم کے بعض اہم مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ ان مسائل میں دہشت گردی بھی شامل ہے، جن پر انھوں نے افسانے لکھے۔ ان افسانوں میں سرحد کے اس پار، گولائی، رشتے، چھوٹی سی آواز اور بنجارن وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے کشمیر کے پس منظر پر ایک ناول ’’اگلی عید سے پہلے‘‘ بھی لکھا۔ کشمیر میں ہو رہی قتل و غارت سے پیدا شدہ حالات کی عکاسی ان کے ہاں ترجیحی بنیادوں پر سامنے آتی ہے۔ ریاست کی دبی کچلی عوام اور ان کی زندگی کے مسائل، بھوک، بے روزگاری، جہالت، محرومی وغیرہ کو انھوں نے بڑی مہارت سے اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔ اور دوسری طرف سماج میں بسنے والے شریف النفس اشکال میں چھپے بھیڑیا صفت انسانوں کے مزاج کا تجزیہ خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

آنند لہرؔ کے افسانوں کے پلاٹ عملاً مربوط اور لچک دار ہوتے ہیں۔ وہ اپنے گرد و پیش کی زندگی سے کہانی کا پلاٹ لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے روزمرہ زندگی کے درپیش مسائل ان کے افسانوں کے موضوعات ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے، اسے اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا ہے وحدت تاثر کو انھوں نے بڑی کامیابی کے ساتھ برتا ہے۔ جس سے ان کے افسانے حقیقت سے بالکل قریب نظر آتے ہیں مثلاً سرحد کے اس پار، بنجارن، گولائی، زخم، راستے کا پہاڑ، سولہواں برس وغیرہ۔

آخر میں مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ آنند لہر دور حاضر کے ایک نمائندہ افسانہ نگار ہیں، جن کے افسانے اردو افسانہ نگاری کی روایت میں اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے روایتی افسانے کیساتھ ساتھ علامتی افسانے بھی لکھے، اور افسانوی تکنیک میں تجریدی تجربے بھی کیے۔ اسیر کشتواڑی ان کے افسانوں میں روایت او جدیدیت کا حسین امتزاج دیکھتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں:

’’واقعی یہ تجریدی افسانے ہیں۔ بنیادی طور پر روایتی افسانوں سے الگ ہیں۔ تجریدی افسانوں اور علامتی افسانوں سے بغاوت کر کے چند روایتی افسانوں میں بھی تجربے کیے، جو کامیاب ہیں۔ جس کی مثال افسانوی مجموعہ ’’سرحد کے پار‘‘ ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کی تیزی اور معاشرے کی شکست و ریخت میں جو نئے مسائل ابھر کر سامنے آئے ہیں، انھوں نے انسانی ذہن میں انتشار پیدا کر دیا ہے۔ آج کے افسانہ نگار کواس انتشار سے پیدا ہونے والی صورت حال سے اثر لے کر اپنی تحریر میں اور انداز بیان میں وسعت پیدا کرنی چاہیے۔ لہرؔ سے اس ضمن میں امیدیں وابسطہ ہیں کہ وہ قانون کی موشگافیوں سے وقت نکال کر کچھ اور کارنامے سرانجام دیں۔ ‘‘۱۰؂

٭٭٭

 

حواشی

__________________________

 

۱۔ آنند لہر۔ انحراف، ۲۰۰۲ء، ص ۴

۲۔ ڈاکٹر نصرت چودھری، جموں و کشمیر میں اردو افسانہ، (رسالہ شیرازہ، جموں)، ص ۲۸

۳۔ آنند لہر۔ انحراف، ۲۰۰۲ء، ص ۴

۴۔ شمس الرحمن فاروقی، رسالہ ہماری زبان (ہفتہ وار) ۱۹

۵۔ آنند لہر۔ انحراف، ۲۰۰۲ء، ص ۵

۶۔ آنند لہرؔ ، سرحد کے اس پار، سیمانت پرکاشن، دہلی، ۲۰۰۱ء، ص ۶۶۔ ۶۷

۷۔ آنند لہرؔ ، سرحد کے اس پار، سیمانت پرکاشن، دہلی، ۲۰۰۱ء، ص ۷۳

۸۔ انور کمال حسینی، آنند لہرؔ ایک جدید افسانہ نگار، انحراف، ملک بک ڈپو، دہلی، ۲۰۰۲ء، ص ۳۔ ۴

۹۔ اسیر کشتواڑی، آنند لہر کو ایک خط میں لکھتے ہیں، ستمبر ۲۰۰۲ء

۱۰۔ اسیر کشتواڑی، آنند لہر کو ایک خط لکھتے ہیں، جون ۲۰۰۲

٭٭

ماخذ:

http://www.urdulinks.com/urj/?p=819

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے