ڈاکٹر محمد ریاض انجم: حکایتوں کی روایت کے پاسباں ہم ہیں ۔۔۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا

علم ہے نافع مگر قاری ہیں اکثر بے خبر

قصور میں کھولا دبستاں ریاض نے سب سے جدا

بابا بلھے شاہ کی دھرتی قصور میں مقیم ادیان عالم، فلسفہ، ادب، فنون لطیفہ، تاریخ، نفسیات، علم بشریات اور لسانیات کا یگانۂ روزگار فاضل پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ علم و ادب کے اس دائرۃ المعارف کا وجود اللہ کریم کی بہت بڑی نعمت ہے۔ وطن عزیز اور دنیا بھر میں جو لاکھوں تشنگان علم اس سر چشمۂ علم سے فیض یاب ہوئے وہ اس وقت ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر محمد ریاض انجم بھی ہیں جن کا پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کے ساتھ عقیدت کا وہی تعلق ہے جو علی گڑھ تحریک کے دوران میں مولانا الطاف حسین حالیؔ کا سر سید احمد خان کے ساتھ تھا۔ ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کی مستحکم شخصیت پر تحقیق، تجزیہ اور تنقید کا جو معیار پیش نظر رکھا ہے وہ ان کی ذہانت اور دیانت کی دلیل ہے۔ میں یہاں علامہ اقبال کے ایک سو اکتالیسویں یوم پیدائش کے موقع پر سال 2018 میں شائع ہونے والی ان کی وقیع تصنیف ’’ مسٹر اردو ‘‘ کا حوالہ دوں گا۔ اس کتاب میں انھوں نے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کے بارے میں تمام دستیاب اہم معلومات اور بنیادی مآخذ کو یک جا کر دیا ہے۔ اس کتاب کا ایک ایک لفظ حقائق کی کلید اور گنجینۂ معانی کا طلسم ہے۔ شعبہ تدریس سے وابستہ ڈاکٹر محمد ریاض انجم اپنی ذات میں ایک انجمن اور شارح علم و ادب ہیں اور پاکستانی ادبیات پر ان کی گہری نظر ہے۔ اپنی بیس کے قریب معرکہ آرا تصانیف سے انھوں نے پاکستانی ادبیات کی ثروت میں جو اضافہ کیا ہے وہ تاریخ ادب کا اہم واقعہ ہے۔ ایک وسیع المطالعہ ادیب، زیرک نقاد اور محنتی محقق کی حیثیت سے اس جواں ہمت اور پر عزم دانش ور نے تخلیق ادب سے منسلک ہر شعبہ میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ صرف تینتالیس سال کی عمر میں اس نوجوان ادیب کی لائق صد رشک و تحسین علمی و ادبی کامرانیوں کے اعتراف میں انھیں اب تک پاکستان کے پانچ اہم ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔ یہ وہ اعزاز ہے جس میں کوئی نوجوان ادیب ان کا شریک و سہیم نہیں۔ اس شہرِ نا پرساں میں بے حسی کے قفل جمود کو توڑنے والے اس جری تخلیق کار نے ایک بزرگ ادیب کی خدمت میں ہدیۂ سپاس پیش کر کے اپنی سعادت مندی کا ثبوت دیا ہے۔ افق ادب پر ڈاکٹر محمد ریاض انجم کی بلند پروازی دیکھ کر مجھے اختر الایمان کا یہ شعر یاد آ گیا:

کون ستارے چھو سکتا ہے

راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے

اپنی تالیف ’’خوشبو کے امین‘‘ میں ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے تین سو کے قریب مکاتیب شامل کیے ہیں جو مشاہیر ادب نے مختلف اوقات میں پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کے نام لکھے تھے۔ ان میں سے کچھ نام ایسے بھی ہیں جو ہماری بزم ادب سے اُٹھ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے۔ ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے مکتوب نگاری کی سحر نگاری کو سامنے لانے کی جو کوشش کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائق تحسین ہے۔ اپنے جذبات کو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر انھیں زیبِ قرطاس کرنا انسانی فطرت اور مزاج میں شامل ہے۔ ان مکاتیب کے الفاظ کی تہہ میں اتر کر مکتوب نگار کے قلبی جذبات و احساسات کی غواصی کرنا عطیۂ خداوندی ہے۔ یہ مکاتیب پڑھ کر اس خیال سے آ نکھیں بھیگ بھیگ گئیں کہ اجل کے بے رحم ہاتھوں سے خلوص، مروّت، ایثار اور دردمندی کاوہ سب تانا با ہی بکھر گیاجس کو یک جا کرنے میں ہم الم نصیبوں کی زندگی بیت گئی۔ رفتگاں کی یاد سے نڈھال پس ماندگان یہ مکاتیب پڑھ کر اشک رواں کی لہر کو دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ سمے کے سم کے ثمر نے تو باغ کا باغ ہی لہو رنگ کر دیا جس کے باعث شہر کا شہر ہی سوگوار دکھائی دیتا ہے۔ اب مسموم ماحول سے نکل کر چمن آرائی کی کوئی سعی کریں تو تقدیر ہماری ہر تدبیر کو خندۂ استہزا میں اُڑا دیتی ہے۔ قلزمِ فنا کی تلاطم خیز موجیں جاہ و جلال کے کیسے کیسے نشانوں کو بہا لے گئیں۔ سیل زماں کے تھپیڑوں نے شہرت وثروت کے سب بکھیڑوں کو قصۂ پارینہ بنا دیا۔ گئی رُتوں کا کوئی راز دان ملے تو اس سے یہ دریافت کریں کہ گردشِ ایام کا شکار فروغ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم دیکھنے کی آرزو میں جاں بہ لب ستم کشوں کا ابھی اور کتنی خزاؤں سے واسطہ پڑنے والا ہے اور کتنے دورِ فلک ابھی اور آنے والے ہیں۔۔ عصری آ گہی سے لبریز یہ مکاتیب متعدد چشم کشا صداقتوں کے امین ہیں۔ افکارِ تازہ کی چشم کشا صداقتوں سے معطران گراں قدر مکاتیب کے مطالعہ سے قاری جہانِ تازہ کے بارے میں آ گہی حاصل کرتا ہے۔

ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے اپنی تالیف ’’ زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ ‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کے وہ تمام مضامین شامل کیے ہیں جو غالب شناسی کے موضوع پر لکھے گئے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ غالب شناسی کے موضوع پر اب تک جو کام ہوا ہے اس میں بالعموم حالی ؔ کے خیالات پر انحصار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد ریاض انجم کا خیال ہے کہ غالب شناسی کے لسانی اور ساختیاتی پہلو پر سب سے پہلے پروفیسرڈ اکٹر سید مقصود حسنی نے توجہ مرکوز رکھی۔ پس نو آبادیاتی دور میں بر صغیر کے ممالک میں ارضی، ثقافتی، تہذیبی اور معاشرتی حوالے جو تغیر و تبدل وقوع پذیر ہوا ڈاکٹر محمد ریاض انجم کی اس پر گہری نظر ہے۔ ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے واضح کیا ہے کہ دیوان غالب میں شامل 185 غزلوں پر ڈاکٹر سید مقصود حسنی نے جس منفرد انداز میں داد تحقیق دی ہے وہ ان کی جدت پسند طبیعت اور تحقیق و تنقید کی رفعت کی مظہر ہے۔ غالب کے فکر و خیال اور اسلوب کی جدت، ندرت اور لسانی و ساختیاتی حوالوں کو زیر بحث لا کر اس ابد آ شنا شاعر کے اسلوب کو سمجھنے کے لیے نئے معائر کا تعین کر دیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کی اس کتاب کی ترتیب میں ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے جس محنت، لگن اور تحقیق سے کام لیا ہے وہ ان کےذ وق سلیم کی آئینہ دار ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی نے غالب کی شاعری کی تفہیم کے سلسلے میں جن فکر پرور اور خیال افروز مباحث کا آغاز کیا ہے ان کا احوال اس کتاب میں شامل ہے۔ ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے اپنی تصانیف میں محض معروضیت پر انحصار نہیں بل کہ حرفِ صداقت کو زادِ راہ بنا کر روشنی کے سفر کا آغاز کیا ہے حریتِ ضمیر سے جینے کی تمنا اور حریت فکر کے سوتے بھی اس نوعیت کے منفرد اسلوب ہی سے پھوٹتے ہیں۔ اپنے اشہبِ تحقیق کی جولانیوں سے ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے متعدد پنہاں حقائق کو منظر عام پر لا کر زبانِ خلق کو نقارۂ خدا کی حیثیت عطا کی ہے۔ ان کے جذبِ دروں کے معجز نما اثر سے علوم و فنون میں تحقیق و تجسس کے متعدد نئے در وا ہونے کے قوی امکان ہیں۔ ان کی تحقیقی کتب کے مطالعہ سے قارئین کے ذہن میں ایسے خیالات نمو پائیں گے جو انھیں دریافت، تحقیق اور تنقید کے نئے آفاق کی جستجو پر مائل کریں گے۔ ڈاکٹر محمد ریاض انجم کی علمی و ادبی کامرانیاں قارئین کے لیے ایسی فقید المثال شادمانیاں ثابت ہوں گی جن سے دلوں کو مرکزِ مہر و فا کرنے میں مدد ملے گی۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ان تصانیف سے تحقیق و تفحص کی روایت کو پروان چڑھانے میں مدد ملے گی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے