اسلوب احمد انصاری ۔۔۔ مظفّرؔ حسین سید

علم کے مسکن کی تھا جو روشنی وہ دیدہ ور

اس دشت کم نظراں میں، ایک دیدہ ور، دانش ور کی حیثیت سے اسلوب احمد انصاری اردو و انگریزی علم و ادب کے آسمان کا ایک درخشندہ ستارہ تھے۔ ایک ایسا ستارہ جس کی تا بنا کی سے صد ہا افراد منوّر ہوئے اور ان کی راہ نما ئی میں علم و دانش کی منزلیں سر کیں۔ درا صل عالم ایک سراج منوّر ہوتا ہے، جس کی ضوسے صد ہا نبراس فیض نور حا صل کر کے خود منیر ہو جا تے ہیں۔ گذشتہ دنوں ان کی رحلت سے جو خلا ء پیدا ہوا ہے، وہ تو خیر کبھی پر ہو گا ہی نہیں، تا ہم قومی و عالمی ادب کا جو نقصان ہوا ہے، اس کی تلا فی بھی ممکن نظر نہیں آتی۔ یوں تو ہر ذی علم و صاحب دانش کے ارتحال سے جو جگہ خالی ہو جا تی ہے، وہ کبھی بھر تی نہیں ہے۔ کیونکہ ہر عالم کا اپنا مقام، اپنا مر تبہ اور اپنی افادیت ہو تی ہے۔ جس کا نعم البدل عام طور پر نہیں ملتا۔ لیکن اسلوب صاحب جیسے بے مثل صاحب علم و ہنر کی رخصت واقعتاً ایک ایسا خسارہ ہے، جس کا ازالہ شا ید کبھی ممکن نہ ہو گا۔ بہر کیف یہ امر باعث اطمینان ہے کہ انہوں نے ایک طویل و کا مر ان حیات پا ئی جس کا بیشتر حصہ فعال تھا، انہوں نے اپنی عمر عزیز کے ایک ایک لمحے کا استعمال بڑی کفایت اور احتیاط سے کیا، جس کا ثمر یوں بار آور ہوا کہ جہان علم و ادب کو  تقریباً تین درجن اعلیٰ و ارفع کتب کا حصول ہوا، جن میں سے ہر تصنیف ایک صدف آبدار ہے، دو درجن کے قریب تصانیف اردو میں اور ایک درجن سے زائد  انگریزی میں۔ ان کی معیاری انگریزی تصنیفات، انگلستان و امر یکہ کے مقتدر نا شر ین نے شائع کیں اور اردو کی تمام مطبوعات آج ہندو پاک کے موقر ترین اداروں کا سر ما یہ ہیں۔ اس کے علا وہ ارفع و اعلیٰ معیار کے حا مل تین دقیق قسم کے جریدے، ایک اردو میں اور دو انگریزی میں، انہوں نے بر سہابرس تک پا بندی کے ساتھ شائع کئے، جن کی اہمیت مسلّم اور ان کے مشمولات و مندرجات مستند تھے۔ انہیں وہ تمام اعزازات و اکرا مات پیش کئے گئے جو، اس میدان میں ممکن تھے (کتب و رسائل کی فہارس، نیز انعامات کے حوالے، و سیع پیما نے پر اخبارات ورسائل میں شائع ہو چکے ہیں، لہذا ان کی تفصیل سے گریز)

اگر چہ انصاری صاحب کا مقام تو لّد دہلی تھا۔ لیکن ان کا وطنی تعلق سہارنپور سے تھا، وہ حسباً، نسباً شیخ انصاری تھے اور ان کاسلسلہ سہارنپور کے خانوادۂ انصاریان تک دراز تھا۔ قا بل ذکر ہے کہ فرنگی محل، لکھنؤ اور غازی پور کی طرح شیوخ انصاریان کی ایک شاخ کا تعلق سہارنپور سے بھی ہے۔

اسلوب صاحب سے اس نا رسا کے کو ئی بہت گہرے روا بط نہ تھے، کیونکہ ان کی سنجید گی و برد باری، نیز کم سخنی بے مثال تھی، دوئم عمر اور درجات علم کا فصل حائل رہتا تھا۔ بہر کیف اس خاکسار سے ان کا تعلق دو سطح پر تھا۔ اوّل وہ اس نا چیز کے استاد محترم اور دوئم اس کے وا لد محترم کے ہم درس تھے۔ وا لد محترم بغیر کسی تکلّف کے بیان فر ما تے تھے کہ ’’جب نتیجہ آیا تو اسلوب احمد کو اوّل مقام حا صل ہوا اور ہمیں دوئم، یوں بھی کہ وہ صرف پڑھا کو تھے اور ہم کھیلتے کودتے بھی تھے ‘‘۔ اسلوب صاحب نے دانش گاہ سید کے علا وہ عالمی شہرت یا فتہ دانش گاہ علمی آکسفرڈ سے بھی اعلیٰ تعلیم حا صل کی تھی۔

جیسا کہ سطور با لا میں عرض کیا گیا، اسلوب صاحب انتہائی کم سخن اور خاموش طبع تھے۔ سابق صدر جمہو ریہ فخر الدّین علی احمد اور سابق شیح الجامعہ ڈاکٹر عبدالعلیم کے بعد ان کی کم گو ئی ایک مثال تھی۔ کئی کئی سوا لات کے عوض فقط ایک مختصر مگر جا مع جواب موصول ہوتا تھا۔ وہ خشک مزاج ضرور تھے، مگر بد اخلاق نہیں تھے، تمام مرا تب و آداب کا لحاظ رکھتے تھے، نہ کسی سے کوئی سخت بات کہتے تھے، نہ کسی کی دل آزاری کر تے تھے، کام کی بات ضرور کر تے تھے، مگر، فضول گفتگو سے اجتناب کر تے تھے۔

ہم ان کے شا گر دان رشید میں تو شا مل نہ تھے، مگر ہمیشہ ان سے حصول فیض کے مواقع حا صل ہوتے رہتے تھے۔ اس خاکسار کے علا وہ کیرل کا ایک نو جوان تھا، عبدالرب، پی، کے، جو ایک ریا ستی و زیر کا پسر عزیز تھا اور درسگا ہی اقامت گاہ میں بھی شاہزادوں کی طرح رہتا تھا۔ مگر غرّہ اور غرور اسے مس کر کے بھی نہ گزرتے تھے۔ وہ درا صل عرب نژاد مو پلا مسلمان تھا، اور کیرل کا با سی ہونے کے با وصف سفید فام اور مردانہ و جا ہت کا پیکر تھا۔ را قم السطور کی اس سے گہری قربتیں تھیں، تعلیمی سطح پر بھی و غیر تدریسی و نجی سطح پر بھی، اس وقت اس کا خواب کیرل سے اوّلین انگریزی روز نا مہ نکالنے کا تھا، کیونکہ تب تک اس ریا ست سے کو ئی انگریزی اخبار شائع نہ ہوتا تھا۔ (اس کے بہت بعد و ہاں سے ’ انڈین اکسپرس‘ کی اشاعت شروع ہو ئی۔ ) یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کا اخبار تمام تر و سائل، نیز، اثر و رسوخ کے با و جود شرمندہ  اشاعت کیوں نہ ہو سکا۔ بہر حال ابھی، کچھ عرصہ قبل تک وہ اپنی ریا ست میں و زیر تعلیم کے منصب پر فائز تھا، اور اس نے کسی خاص جلسہ کی صدا رت کی غرض سے یا بطور مہمان خصوصی شر کت کے لئے مادر درسگاہ میں اپنی حاضری بھی درج کرائی تھی۔ اگر چہ زمانہ ہوا، اس و زیر با تدبیرسے ہمارا ربط خاص نہیں، تا ہم خیریت معلوم ہو تی رہتی ہے۔ خیریہ ذکر توبہ سلسلۂ پس منظر آ گیا، قا بل ذکر امر یہ ہے کہ یہ نا چیز اور عبدالرّب دونوں ہی اسلوب صاحب کی بار گاہ میں باریاب تھے، ایک اور طالب علم کر ناٹک کا تھا، جس کے وا لد محکمۂ بر ید میں کسی اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے۔ یاد آتا ہے کہ علی گڑھ میں پہلی بار اسی نے مسا لاڈ وسا کا مزہ چکھا یا تھا۔ ہم تینوں اسلوب صاحب کی اصول پر ستی اور عدیم الفر صتی کے با وصف، حسب خواہش ان کے حجرہ صدارت میں حا ضر ہو سکتے تھے اور خاص اغراض کے تحت ان کے دولت کدہ پر بھی حاضری کی اجازت تھی، مگر جو از معقول شرط تھا۔ ان کی خرد نوازی کا عالم یہ تھا کہ وہ ہم ہر سہ طلباء کے مضامین کی اصلاح بھی اپنے قلم سے کر دیا کر تے تھے۔ یادش بخیر وہ بھی کیا دن تھے، جب لائق تر ین اساتذہ مشفق ہوا کر تے تھے اور مشاغل علم و تعلم کے علا وہ ذاتی سطح پر بھی اپنے شاگردوں کی ہمت افزائی کا فرض خیر انجام دیتے تھے مگر آج کے علی گڑھ میں شا ید یہ سب صرف حسین یادیں ہیں، بس۔

ویسے اسلوب صاحب کی ایک محدود شفقت و محبّت کے علا وہ اس کم سواد کو ایک دیگر استادسلا مت الہّ خاں کی سر پرستی و رہنمائی بھی حا صل تھی، ان سے ایک جذباتی تعلق تھا، ان کے دولت کدہ واقع راہ شبلی پر مسلسل اور مستقل باریابی تھی۔ یاد آتا ہے کہ را قم نے ایک مر تبہ مولنٰا آزاد کی شخصیت کو موضوع بنا کر ایک مضمون قلم بند کیا اور اسے علی گڑھ میگزین (انگریزی) میں شرمندۂ اشاعت کرا نے کا خواب پا لا، کہ اس وقت یہ بھی بڑا اعزاز تھا۔ سلا مت صاحب جریدے کے نگراں تھے اور اسلوب صاحب سرپر ست۔ ہما ری خام خیالی تھی کہ ہم نے اس نگارش کو اوّلاً اسلوب صاحب کی خد مت میں پیش کیا تو انہوں نے دستی، گنجلک تحریر پر ایک (غائر نہیں ) سر سری نظر ڈالی اور فر ما یا کہ ’’ منا سب ہو کہ سلا مت صاحب کو ہی دیں ‘‘۔ درا صل ہمیں وہ مضمون سلامتؔ صاحب کو براہ را ست ہی پیش کرنا چاہئے تھا کہ ان کا، کار منصبی تھا اور ان سے ہی متعلق تھا۔ مگر ہمیں خدشہ لا حق تھا کہ کہیں ازلی شفقت کے زیر اثر وہ پسند اور انتخاب میں استادا نہ محبت سے لبریز رعایت سے کام نہ لیں۔ خیر، ایک شام کسی ہم جماعت کے سا تھ خاں صاحب کے یہاں حاضری ہو ئی، تمام کوائف حال سماعت کرنے کے بعد انہوں نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگا یا اور گو یا ہوئے کہ، ’’بھائی ہم تو مدرس ہیں اور آپ کے قدر  شناس، بر اہ را ست ہی آ جاتے۔ صدر شعبہ کے ذہن پر کیوں بار ڈالا‘‘۔ درا صل اس رد عمل میں ایک خاص پہلو پنہاں تھا، سلا مت صاحب اور اسلوب صاحب میں ذہنی ہم آہنگی نہ تھی، بلکہ ایک قسم کا بعد تھا۔ ہم نے عرض کیا کہ بہ بوجہ قربت خاص، تکلف جائز اور وا جب تھا۔ خیر، وہ مضمون تو شائع ہو گیا کہ یہ کو ئی بہت اہم بات نہ تھی، اس کے بعد وہ مضمون شعبہ انگریزی کی با ضابطہ اجازت سے موقر روزنامہ ’ہندوستان ٹائمز‘ میں مولنٰا آزاد کے یوم پیدائش کی رعایت سے شائع ہوا اور بہ حسن اتفاق و سیع حلقوں میں پسند بھی کیا گیا۔

یہاں ہمیں یہ اعتراف کرنے میں بھی باک نہیں کہ شعبہ میں ہمیں سلاؔ مت صاحب سے کہیں زیادہ مزا جی و  طبعی قربت تھی، اور ایک خاص قسم کا ربط شا گر دی تھا البتّہ، تحفظ ادب کے باعث ایک نوع کا فا صلہ قائم رکھنا لا زم تھا۔ اب یہ علی گڑھ کی غلط بخشی کی رو ایت کہ سلا مت صاحب اپنی تمام تر اہلیت، لیاقت، علمیت و بصیرت کے با وصف کبھی پرو فیسر نہ ہو سکے اور یہ کو ئی مثال وا حد نہیں، ہما رے اساتذۂ محترم، معین احسن جذبی اور ہاشم قدوائی بھی اس منصب کو سر فراز کرنے سے محروم رہے اور یہی نہیں، اردو دنیا کے دو انتہا ئی موقر نام بھی اس فہرست میں شا مل ہیں، فراق گورکھپوری اور را لف، رسل۔ گو کہ آجکل اکثر مضمون نگار حضرات، زور بیان میں ان دونوں کے اسمائے گرا می کے سا تھ پروفیسر کا سابقہ استعمال کر تے ہیں۔ درا صل سلا مت صاحب کی ہستیِ جا و ید اس امر کی متقاضی ہے ان پر ایک مبسوط مضمون قلم بند کیا جائے، یہ ان کے اس شا گرد نار شید پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔

اسلوب صاحب ما ہر ادب تھے، ما ہر زبان تھے، ما ہر درس تھے اور طلبا ء کے تئیں مثالی رہنما تھے۔ انہوں نے ہم جیسے غبی طلباء کو جو نشان راہ دکھائے تھے وہ آئندہ کی عملی زندگی میں قدم بہ قدم کام آئے، آج تک آ رہے ہیں، اور آئندہ بھی یقیناً آتے رہیں گے، کہ حقیقی قائد کی راہ نما ئی کبھی از کار رفتہ نہیں ہو تی اور عالم کے علم کی روشنی کبھی معدوم نہیں ہو تی۔

اسلوب صاحب کا شوق مطالعہ جنون کی حدود تک رسا تھا بلکہ عملاً وہ کرم کتاب تھے۔ راقم کے وا لد محترم اکثر بہ تلطّف یاد کر تے تھے کہ ’’ اسلوب احمد کا زیادہ وقت مطالعۂ کتب میں ہی گزر تا تھا، اس کے علا وہ کو ئی شغل نہ تھا اور اگر تعطیل کا دن ہوتا تو سولہ سترہ گھنٹے مسلسل کتاب میں غرق نظر آتے ‘‘۔ اسی ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ شعبہ انگریزی میں ہما رے ایک استاد اور اسلوب صاحب کے رفیق صغیر نے بیان کیا تھا کہ ایک مر تبہ اہل خانہ کے بے حد اصرار پر اسلوب صاحب ما رے باندھے، کسی سرد مقام پر گئے، مگر ایک انبار کتب کے سا تھ۔ وہاں وہ تقریباً ایک ماہ رہے، لیکن اس پو رے عرصے میں ان کے اہل قا فلہ سیرو تفریح میں مشغول اور وہ خود ہمہ تن مطالعے میں غرق رہے۔ وا پسی پر احباب نے در یافت کیا کہ مو سم گر ما کا کوہستانی سفر کیسا رہا، تو بڑی معصومیت سے فر ما یا کہ ’’مجھے تو کچھ پتہ نہیں، نہ میں نے کچھ خاص دیکھا۔ میں تو بس کتا بیں پڑھتا رہا‘‘۔ ظاہر ہے کہ تمام حاضر ین گفتگو ششدر رہ گئے ہو نگے۔ غالباً میر تقی میرؔ کے بعد یہ جہان ادب میں گو شتہ نشینی و شوق مطالعہ کی چند مثالوں میں سے ایک ہو گی۔ یاد رہے کہ میرؔ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے دوران قیام لکھنؤ، نواب اودھ کی فرا ہم کر دہ حویلی کے نہ تو دریچے کھو لے نہ با ہر کے ارزاں حسن فطرت کے مظاہر کا مشاہدہ کیا۔ جب ایک دن نو اب صاحب میرؔ کے پاس بغرض ملاقات تشریف لائے، تو غرفہ وا کیا اور خار جی دلکش مناظر کے با رے میں ان کی رائے طلب کی تو میرؔ بڑی بے نیا زی سے گو یا ہوئے کہ ’’ میں نے نہ با ہر نظر ڈالی، نہ کچھ دیکھا نہ مجھے کچھ خبر، کہ میں اپنے باطن کی دنیا اور اپنے خیالوں میں غرق رہتا ہوں ‘‘۔ یہی کچھ حال اسلوب کا بھی تھا۔ ایسی عرق ریزا نہ کتب بینی اور غور و فکر کی مثالیں اب کہاں ؟

اسلوب صاحب کے تعلق سے دو دلچسپ واقعات یادداشت کا حصّہ ہیں۔ ہما رے دور طلب علمی کے ایک حبیب دیرینہ اور اب کرم فر ما، شعبۂ انگریزی میں پرو فیسری کے منصب پر رونق افروز ہیں، نیز، اس کے علا وہ بھی ما در درسگاہ میں اپنے معیاری علمی کارناموں کے لئے وہ نیک نام ہیں، جب بی۔ ایس۔ سی میں انہیں تیسرے در جے کے نمبر ات حا صل ہوئے تو ما یو سی نے ان کا احاطہ کر لیا، اب مستقبل میں کیا تعلیم حا صل کر یں، یہ اہم سوال ان کے سا منے تھا۔ دانش گاہ کے مرکزی چائے خانے میں ہم دونوں محو گفتگو تھے اور یہی مسئلہ درپیش تھا، کہ اچانک ہم نے انہیں ایک غیر معمولی مشورہ دیا کہ ’’ انگریزی ایم۔ اے میں داخلہ لے لو‘‘۔ وہ بری طرح چو نکے، جیسے ہم نے چاند کی جا نب ہمکنے کی بات کہہ دی ہو اور بو لے ’’ مگر مجھے تو کچھ خاص انگریزی آتی نہیں ‘‘۔ تو ہم نے شرارت سے کہا کہ ’’ فکر نہ کرو وہ یہاں اکثر و بیشتر لوگوں کو نہیں آتی اور انگریزی میں داخلے کے لئے، انگریزی آنا شرط اوّل نہیں ‘‘۔ ’’ مگر داخلہ کیسے ہو گا اب تو داخلے ختم ہونے کے مرا حل میں ہیں اور میں نے انگریزی ایم۔ اے کا فا رم بھی نہیں بھرا ہے ‘‘۔ ان دنوں انگریزی جیسے مضمون میں بھی داخلوں کی بھر مار اور مارا ماری نہ تھی، کیونکہ نادان معاشرے کا رخ سا ئنس اور صرف سا ئنس کی جا نب تھا۔ یوں بھی ان دنوں کا علی گڑھ اتنا بے مہر نہ تھا، نہ ضابطے کی حکمرانی تھی، نہ اصولی قیود۔ با ہمی ربط کی بناء پر بہت سے مشکل کام سہل ہو جا یا کرتے تھے۔ ہم نے کہا، ’’ تم قطعی پریشان نہ ہو، ایک درخواست دے دو، تبادلے کی اور صدر شعبہ انگریزی سے عدم اعتراض کے رسمی دستخط کرا لاؤ، اور اس کے بعد صرف رسمی کا ر روا ئی رہ جائے گی‘‘۔ خیر صاحب و ہیں سا دہ کاغذ پر قلم گھسیٹ درخواست لکھی گئی اور وہ فوراً را ہیِ شعبۂ انگریزی ہو گئے کہ کار نیک میں دیر کیوں ہو؟ باور ہو کہ جناب اسلوبؔ احمد انصاری صدر شعبۂ انگریزی تھے۔ اگر چہ ہم نے ان سے کو ئی رابطہ نہیں کیا تھا مگر ہمیں یقین تھا کہ اپنی بے نیا زی کے تحت وہ زیادہ غور و خوض کی زحمت نہیں کر یں گے۔ ابھی چائے کی دو سری پیا لی ختم نہ ہو ئی تھی کہ وہ ہشاش بشاش واپس آ گئے افتاں و خیزاں، چہرے پر وحشت نہیں شاد مانی کے آثار۔ ہمیں سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ اس جوان مرد نے میدان مار لیا۔ انہوں نے بڑے پر مسرت جوش کے سا تھ اسلوب صاحب کے اجا زتی دستخط دکھائے اور تفصیل بیان کی کہ ’’حا کم مہر بان نے درخواست پڑھ کر ایک ہی سوال کیا کہ آپ انگریزی میں ایم۔ اے کیوں کرنا چا ہتے ہیں ؟ تو میں نے جواباً عرض کیا کہ ہم نے سنا ہے کہ انگریزی میں ایم اے کرنے سے انگریزی آ جا تی ہے، سو ہم نے بھی سو چا کیوں نہ ہم بھی یہ بدیسی زبان سیکھ لیں۔ اس پر اسلوب صاحب کے لبوں پر حسب عادت خفیف سا تبسم آویزاں ہوا اور انہوں نے بہ کمال خامشی دستخط ثبت فر ما دئے، اس کے علا وہ ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہیں ہوا‘‘۔ بس روز آئندہ ہی تمام کاغذی کار روائیاں مکمّل ہو گئیں اور ان کا داخلہ انگریزی ایم۔ اے میں ہو گیا۔ اب خیر سے وہ انگریزی کے جیّد اساتذہ میں شمار ہیں۔ دکتور بھی ہیں، پر و فسور بھی، اور علمی کار نا مے بھی قا بل ذکر ہیں۔ جن کے چرچے سات سمندر پار تک ہیں۔ بعد کے بر سوں میں جب انہوں نے اوّل درجے کے ثمرات کے سا تھ انگریزی میں ایم۔ اے کر لیا تو اس خاکسار کی نیکی کا اعتراف کئی بار کیا کہ ’’بھا ئی، آپ کا مشورہ کام آ گیا ورنہ ہم حد از حد دوئم در جے میں ایم۔ ایس۔ سی کر لیتے اور کہیں معمولی سی نو کری کر رہے ہو تے، ہم نے بہ صد انکسار ہر بار یہی کہا کہ ’’سب قسمت کے کھیل ہیں۔ تمہاری صلاحیتوں کو صحیح سمت مل گئی‘‘۔

انہی انگریزی داں پر دفسور سے وا بستہ ایک واقعہ اور بھی ہے کہ ان کے ایک ہم سبق، جو ما دردرسگاہ کے ایک جّید استاد اور اہم شاعر کے فر زند بھی تھے، ان سے ان کی کچھ بحث و تمحیص ہو گئی۔ معاملہ اسلوب صاحب تک پہنچا تو انہوں نے دونوں کے بیانات کمال توجہ سے سماعت فرمائے اور قبل ازیں کہ وہ کو ئی فیصلہ صادر کرتے، اس نو جوان نے کہا کہ ’’سر‘‘ یہ ہما را کیریر خراب کرنا چا ہتے ہیں ‘‘۔ا س پر اسلوب ایک دم بر افروختہ ہو گئے اورسخت لہجے میں جواب دیا کہ ’’میاں، ابھی آپ ایم۔ اے کے سال اوّل میں ہیں، آپ کا کیریر ہی کیا ہے جو اُسے کو ئی تباہ کرے گا‘‘۔ وہ نوجوان اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ اب یہ الگ بات کہ جب سال دوئم کا نتیجہ آیا تو ہمارے مذکورہ دو ست نے اگر چہ اوّل درجے کے نمبرات حا صل کر لئے تھے، مگر ان کی امتیازی حیثیت درجہ دوم کی ہی رہی۔ جبکہ ان کے حریف مقام اوّل پر فائز ہوئے۔ شا ید غلط بخشی کی یہ ایک اور مثال تھی۔ بہر حال یہ سب تو کھیل کا حصّہ ہے، ویسے مو صوف آں بھی فی الوقت اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں اور خوب رواں دواں ہیں۔

انصاری صاحب نے ایک عمر تک اعلیٰ سطحی درس و تدریس کے فرائض، انجام دئے، اور خوش بختی سے انہیں وہ دور نصیب ہوا، جب پروفیسری کے منصب خال خال تھے، نیز صدر شعبہ کا عہد منصبی خاصا طویل المدت تھا، یوں انہیں آزادانہ طور پر مسلسل کام کرنے کے مواقع ملے، جس کا استفادہ انہوں نے بہ کمال احسن کیا۔ اسلوب صاحب انگریزی و اردو کے ان معدودے چند علما ء میں شمار ہوں گے، جنہیں ہر دو بانوں پر قدرت اور ہر دو ادب پر دسترس حاصل تھی، استاد تو وہ انگریزی زبان و ادب کے تھے، مگر اردو زبان و ادب پر بھی انہیں مثالی عبور حا صل تھا، نیز ان کا شمار اردو کے موقر و مستند نقّاد ان ادب میں ہوتا ہے۔ بلکہ متنی تنقید کے تو غالباً وہ مو جد ہیں۔ دو سرا قا بل ذکر امر یہ ہے کہ انگریزی ادب پر ان کی تنقیدی صلاحیت کو جس سطح پرتسلیم کیا گیا، وہ شناخت و اعزاز ہندوستان کے چنیدہ انگریزی داں حضرات کو ہی حا صل ہوئے ہیں۔ انگریزی ادب میں ولیم بلیک پران کی رائے حرف آخر کی حیثیت رکھتی تھی، نیز مطالعات شیکسپیر کے بھی وہ جیدّ عالم تسلیم کئے جا تے تھے۔ دو سری جا نب، اردو میں وہ غالبؔ اور اقبالؔ جیسے دو اعلیٰ پائے کے شعراء کے محاسن کلام و اسلوب نگارش کے ما ہر تسلیم کئے گئے، اور یہ بات اپنی جگہ منفرد اور ممتاز ہے کہ ایک ہی عالم دویکسر، مختلف المزاج دنیائے ادب کا شناور تسلیم کیا گیا۔

 

ان کی رخصت اک دیدہ ور کی رخصت ہے، اک دور کا خاتمہ ہے۔

ع آہ! وہ سو رج جو اپنی روشنی خود جی گیا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے