30 بچوں کی ماں
ایم مبین
گھر سے نکلنے میں صرف 10 منٹ کی تاخیر ہوئی تھی اور سارے معمولات بگڑ گئے تھے۔
اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اب وہ پورے ایک گھنٹہ تاخیر سے ڈیوٹی پر پہونچے گی اور اِس ایک گھنٹہ میں کیا کیا فسانے بن گئے ہوں گے ‘ اُسے اِس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا۔
سندھیا سے کسی بات کی توقع نہیں تھی کہ وہ کچھ ایسا کرے جس سے کوئی نئی کہانی نہ بن پائے۔
چنٹو نے رو رو کے پورا کمرہ سر پر اُٹھا رکھا ہو گا۔ رونے کی وجہ سے اُس کی آنکھیں سُرخ ہوکر سوج گئی ہوں گی جو شام تک سوجی رہے گی۔
اُس کی آنکھوں کو دیکھتے ہی شوانی اُس پر برس پڑے گی۔
” آج پھر چنٹو کو رُلا دیا ؟ میں تم کو الگ سے پیسے کس بات کے دیتی ہوں ؟ اگر تم چنٹو کے ساتھ بھی عام بچوں کا سا سلوک کرو تو پھر عام بچوں میں اور چنٹو میں فرق کیا ہے ؟ میں تمہاری سسٹر سے شکایت کر دوں گی کہ تم مجھ سے الگ سے پچاس روپے لیتی ہو۔”
دھمکی ایسی تھی کہ جس کے تصور سے ہی وہ کانپ اُٹھتی تھی۔
اگر سسٹر کو پتہ چلا کہ وہ شوانی اور دُوسری عورتوں سے بھی الگ سے پیسہ لیتی ہے تو وہ ایک لمحہ بھی اُسے کیئر ہوم میں رکھنے نہیں دے گی۔
اُس کی نوکری جاتی رہے گی۔ اور نوکری چلی گئی تو ؟
اس تصور سے ہی اُس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں اُبھر آئیں۔ چنٹو کی عادت سی بن گئی تھی کہ وہ جیسے ہی ماں سے بچھڑتا تھا ‘ دہاڑیں مار مار کر رونے لگتا تھا۔ صرف اُسی کی گود میں بہل پاتا تھا۔
آج شوانی اُسے سندھیا کے پاس یہ سوچ کر چھوڑ گئی ہو گی کہ وہ تو تھوڑی دیر میں آ جائے گی اور روتے چنٹو کو بہلا لے گی۔
لیکن بدقسمتی سے وہ آج ایک گھنٹہ لیٹ پہونچ رہی ہے۔
تھوڑی دیر سے آنکھ کھلی جس کی وجہ سے گھر سے نکلنے میں دس منٹ لیٹ ہو گئی تھی جس کی وجہ سے جو بس اُسے ریلوے اسٹیشن تک لے جاتی تھی ‘چھوٹ گئی۔
دُوسری بس آنے میں 15 منٹ لگ گئے۔
اسٹیشن پہونچی تو لوکل چھوٹ گئی تھی۔ دُوسری ٹرین 15۔20منٹ لیٹ آئی جو راستے میں دس منٹ لیٹ ہو گئی۔ پھر ریلوے اسٹیشن سے کیئر ہوم کے لئے بس کا انتظار
ہر جگہ تاخیر تاخیر تاخیر !
اُسے پتا تھا اُس کے دیر سے آنے سے نہ تو سسٹر اُسے کچھ بولے گی اور نہ سندھیا۔
دونوں کو پتا تھا کہ وہ کافی دُور سے آتی ہے۔ سات بجے ہوم پہونچنے کے لئے اُسے رات ساڑھے پانچ بجے گھر چھوڑنا پڑتا ہے۔ اِس کے باوجود وہ کبھی کبھار ہی لیٹ ہوتی تھی۔ اس میں اِس کا عمل دخل نہیں ہوتا تھا۔ لوکل یا بس لیٹ ہونے کی وجہ سے ہی تاخیر سے کیئر ہوم پہونچ پاتی تھی۔
اور پھر دِن بھر 30 بچوں کی ماں بن کر اُن کا خیال رکھتی تھی۔کبھی کبھی تو بچوں میں اِتنی اُلجھ جاتی تھی کہ دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھا پاتی تھی۔
روزانہ کا یہ معمول تھا جب بھی وہ دوپہر کا کھانا کھاتی تھی۔ اُس کی گود میں کوئی نہ کوئی روتا ہوا بچہ ضرور ہوتا تھا۔ وہ کھانا بھی کھاتی اور بہلاتی بھی۔
کیئر ہوم میں جتنے بھی گاہک تھے سب اُس سے خوش تھے۔
چھوٹے بچے تو زبان سے اِس کی خدمت کے بارے میں اپنے ماں باپ کو کہہ نہیں پاتے تھے۔ لیکن جب وہ اُسے دیکھ کر ماں کی گود سے اُس کی طرف ہاتھ پھیلا کر مسکراتے ، لپکتے تھے تو ماں باپ اندازہ لگا لیتے تھے وہ اُن کے بچوں کا کتنا خیال رکھتی ہے۔
ہاں بڑے بچے جو بول سکتے تھے وہ ماں باپ سے تعریف کرتے تھے۔
” رادھا آنٹی بہت اچھی ہیں ، ہم سے بہت پیار کرتی ہیں ، ہمارا بہت خیال رکھتی ہے ، ہم سے بڑی اچھی اچھی باتیں کرتی ہیں۔ "
اِس وجہ سے گاہکوں میں اُس کی امیج بہت اچھی تھی۔
لیکن کبھی کبھی کوئی نہ کوئی ایسی بات ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے اُس کی امیج کو دھکّا پہونچنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا تھا۔بلکہ اُسے اپنی نوکری بھی خطرے میں محسوس ہوتی تھی۔
اور نوکری خطرے میں پڑنے کے تصور سے ہی وہ کانپ اُٹھتی تھی۔
بوڑھے ماں باپ ، دو جوان بہنیں اور دو نکمّے ، آوارہ بھائیوں کی نگہداشت کا سارا بوجھ اُسی پر تھا۔ سسٹر اُسے تنخواہ کے طور پر 3 ہزار روپے دیتی تھی۔
اُسے اِس بات کا علم تھا کہ وہ اچھی سے اچھی غیر سرکاری نوکری بھی کرتی تو شاید اُسے اِتنی تنخواہ نہیں ملتی۔ اِس کے علاوہ بچوں کے ماں باپ اُسے خوشی سے چالیس پچاس روپے ہر مہینہ دے دیتے تھے۔ یہ سوچ کر کہ اِس لالچ سے شاید وہ اُن کے بچے کا اچھی طرح سے خیال رکھے گی۔
اس نوکری کے چھوٹ جانے کا مطلب تھا پھر سے ایک بار بے کاری کے غار میں بھٹکنا ، ماں باپ کی جھڑکیاں ، بہنوں کے طعنے اور بھائیوں کی گالیاں سننا۔
گھر کے حالات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ اگر اُسے کسی کے گھر میں برتن مانجھنے کا کام بھی مل جاتا تو وہ بھی کرنے کے لئے تیّار ہو جاتی۔
اس کے مقابلے تو یہ کافی اچھا ، مختلف اور آمدنی والا کام تھا۔
اُسے کیئر ہوم میں 30 بچوں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی۔
شہر کی ایک بڑی سی رہائشی کالونی میں سسٹر روزی نے یہ چلڈرن کیئر ہوم جاری کر رکھا تھا۔
اِس کالونی میں زیادہ تر افراد نوکری پیشہ تھے۔ ان میں سے کئی ایسے بھی تھے کہ دونوں میاں بیوی نوکری کرتے تھے۔ ان کے گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
بچے دو ماہ سے لے کر دس سال تک تھے۔
اُن بچوں کو وہ کس کے سہارے اکیلے گھر میں چھوڑ کر دُور دراز کے علاقوں میں نوکری کے لئے جائیں ؟
پورے وقت کے لئے وہ نوکرانی نہیں رکھ سکتے تھے۔ کیونکہ ایسے کاموں کے لئے نوکرانیاں اتنی تنخواہ کی مانگ کرتی تھیں جو اُن کی کل تنخواہ کے نصف سے بھی زائد ہوتی تھی۔
ایسے تمام نوکری پیشہ افراد کا وہ واحد سہارا سسٹر روزی کا چلڈرن کیئر ہوم تھا۔
مائیں اپنے بچے ڈیوٹی پر جاتے ہوئے کیئر ہوم میں چھوڑ جاتی تھیں اور شام کو ڈیوٹی سے واپس آتے ہوئے اُنھیں واپس اپنے گھروں کو لے کر جاتی تھیں۔
اِس طرح اس کیئر ہوم میں روزانہ سیکڑوں بچے آتے اور دِن بھر وہاں رُک کر شام کو واپس اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے۔
ان بچوں کی دیکھ بھال کے لئے سسٹر روزی نے کئی نوکرانیاں رکھی تھیں۔وہ بھی اُن میں سے ایک تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھیا بھی تھی۔ دونوں مل کر 30 بچوں کا خیال رکھتی تھیں۔
سندھیا اور اُس میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
وہ ایک گریجویٹ ، سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔
لیکن سندھیا ایک جاہل ، اُجڈ اور گنوارقسم کی عورت تھی۔
وہ سویرے 7 بجے سے رات کے 8۔9 بجے تک ڈیوٹی دینے پر یقین رکھتی تھی، بچوں کا کس طرح خیال رکھا جائے اُس نے سیکھا نہ تھا اور نہ اُس نے سیکھنے کی ضرورت محسوس کی تھی۔
” ارے ! میں اپنے بچوں کا اِس طرح سے خیال نہیں رکھتی ہوں تو کیا اِن لوگوں کا خیال رکھوں۔ اُن کے ماں باپ نے کیا اُنھیں ہمارے لئے جنا۔ پیدا کیا اُنھوں نے اور یہاں ہمارے پاس لاقر چھوڑ گئے۔ "
” سندھیا تم اس کام کے پیسے بھی تو لیتی ہو ؟ "
” بی بی میں پیسے ان بچوں پر نظر رکھنے کے لیتی ہوں۔ یہ کمرے کے باہر تو نہیں جارہے ہیں۔ کوئی اُنھیں اغوا کرنے کی کوشش تو نہیں کررہا ہے ؟ رات دِن ان کی خدمت کرنے کے نہیں ؟ "
سندھیا کی باتوں اور حرکتوں سے اسے اُلجھن ہوتی تھی۔ اسے سندھیا کی نہ تو کوئی بات پسند تھی اور نہ کوئی حرکت۔ کبھی کبھی دِل میں آتا تھا کہ وہ سسٹر سے اس کی شکایت کر دے یا پھر سسٹر سے کہہ کر سندھیا کے بدلے میں کسی اور کو اپنے معاون کے طور پر مانگ لے۔
مگر اس کا انجام کیا ہو گا اُسے اس بات کا اندازہ تھا۔
اور وہ سسٹر سے سندھیا کی شکایت کرتی تو سسٹر اُسے فوراً اُسے اِس کام سے نکال دیتی۔
یا وہ سندھیا کے بدلے میں کسی اور کو مانگ لیتی تو سندھیا جس کسی کے ساتھ رہتی اُ س کی حرکتوں کی وجہ سے وہ سسٹر سے اُس کی شکایت ضرور کرتی اور سسٹر اُسے کام پر سے نکال دیتی۔
اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ سندھیا کی نوکری جائے۔
کیونکہ اُسے پتا تھا سندھیا بھی اُسی کی طرح بہت ضرورت مند ہے۔
اِسی نوکری پر اُس کا گھر چلتا تھا۔
اُس کا ایک آوارہ شرابی شوہر تھا جو کام نہیں کرتا تھا لیکن روزانہ شراب پینے کے لئے اُس سے لڑجھگڑ کر پیسے ضرور لے جاتا تھا۔ اُس کے چار بچے تھے۔ سب سے چھوٹا لڑکا 2 سال کا تھا۔وہ اُن سب کو اکیلا اپنے گھر چھوڑ کر آتی تھی۔ ان سب کا خیال اس کی بڑی لڑکی رکھتی تھی۔ جس کی عمر 10 سال کے قریب ہو گی۔
سندھیا کا اس نوکری سے نکال دیا جانا ان سب کے لئے بھکمری کا پیغام لے کر آتا۔ اس لئے وہ سندھیا اور اس کی حرکتوں کو برداشت کئے جا رہی تھی۔
ان کے پاس جو 30 بچے تھے ان میں سے تقریباً دس بچے ایک سال سے بھی کم عمر کے تھے۔چنٹو اور رنیتو صرف دو ماہ کے تھے۔ دس بچے پانچ سال سے کم کے تھے باقی پانچ سال سے بڑے تھے۔
بڑے بچے ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھے۔
جب ان کے ماں باپ اُنھیں چھوڑ کر جاتے تھے تو ان کا اسکول کا بستہ ان کے ساتھ ہوتا تھا۔وہ بچے ایک کونے میں بیٹھ کر پڑھائی کیا کرتے تھے ، جب ان کے اسکول کا وقت ہو جاتا تو وہ دونوں ان بچوں کو یونیفارم پہنا کر تیار کرتیں اور اسکول کی بس یا رکشا تک چھوڑ آتیں۔
ان میں سے کچھ بچے اسکول چھوٹنے کے بعد سیدھے گھر چلے جاتے تھے۔ کیوں کہ تب تک ان کے ماں باپ گھر واپس آ جاتے تھے۔کچھ بچے اسکول سے دوبارہ کیئر ہوم میں آ جاتے تھے۔ کیونکہ ان کے ماں باپ دیر سے گھر آتے تھے۔ اِس لئے وہ ڈیوٹی سے آ کر اُنھیں کیئر ہوم سے لے کر جاتے تھے۔
پانچ سال کے بچے آپس میں یا پھر کمرے میں رکھے کھلونوں سے کھیلا کرتے تھے۔
سب سے بڑا مسئلہ 2 ماہ سے 1 سال کی عمر کے جو بچے تھے ‘ ان کا تھا۔ ایک ایک لمحہ ان کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ اُنھیں وقت پر دُود ھ ، دوائیں یا دُوسری چیزیں دینا۔ پیشاب ، پاخانے کی صورت میں اُن کے کپڑے تبدیل کرنا ، رونے کی صورت میں اُنھیں بہلانا۔
پھر عام طور پر اس عمر کے بچے صرف ماں باپ سے ہی بہلتے ہیں۔ ایک بار اگر رونا شروع کر دیں تو پھر اُنھیں بہلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
بڑے بچوں کو تو مار کے خوف سے چپ کرایا جاسکتا ہے۔
لیکن اِس عمر کے بچوں کے سامنے یہ ہتھیار بھی ناکارہ ثابت ہوتا تھا۔ ایسی بچوں کا وہ ماں بن کر خیال تو رکھ سکتی تھی لیکن ماں نہیں بن سکتی تھی۔ بچے ماں کے لمس سے ہی چپ ہو جاتے ہیں۔ بھلے وہ اُنھیں لاکھ ماں سا لاڈ ، پیار ، دُلار دے لیکن ماں کا لمس کیسے دے سکتی تھی۔جس سے وہ آشنا تھے۔
اُسے پتا تھا اگر اس نے کسی بھی بچے کو سنھالنے میں ذرا بھی لاپرواہی کی تو اِس کی سزا اسے ہی بھگتنی پڑے گی۔
راہیہ کو ہر ایک گھنٹے کے بعد دوا دینی پڑتی تھی۔ اگر اس نے اسے باقاعدگی سے دوا نہیں دی تو وہ بیمار ہو جائے گی۔ راہیہ کی ماں صرف رات بھر اسے سنبھالے گی۔دُوسرے دِن وہ اس کے پاس چھوڑ کر جائے گی اور دُوسرے بچوں کے ساتھ بیمار راہیہ کو اسی کو سنبھالنا پڑے گا۔ گوتم کو ہر ایک گھنٹے پر دُودھ دینا پڑتا تھا۔ اگر اُسے دودھ نہ ملے تو وہ رو رو کر سارا کمرہ سر پر اُٹھا لیتا تھا۔ اور اُسے روتا دیکھ کر دوسرے بچے بھی رونے لگتے تھے۔بچوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی کو روتا ہوا دیکھتے ہیں تو خود بھی رونا شروع کر دیتے ہیں۔
اِس سے بہتر تھا کہ 15۔20 روتے ہوئے بچوں کو سنبھالنے کے بجائے گوتم نہ روئے اس بات کی ترکیب کی جائے۔
نِکیتا صرف 8 مہینے کی ہے۔اس کا باپ اسے وہاں چھوڑ جاتا ہے۔ اور اسے لینے کے لئے بھی آتا ہے۔اس کی ماں جب وہ 5 مہینے کی تھی تو کسی کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ ا ب اس کا باپ ہی ماں بن کر اس کی پرورش کررہا ہے۔
اشونی کی صرف ماں ہے۔اُس کے باپ نے کسی اور کے ساتھ دُوسری شادی کر لی ہے۔ مجبوراً اپنا گھر چلانے کے لئے اس کی ماں کو نوکری کرنی پڑی۔ وہ آٹھ مہینے کاہے۔اس کی ماں اس کے پاس اشونی کو چھوڑ کر نوکری کرنے جاتی ہے۔
جب ماں باپ کیئر ہوم میں بچے چھوڑ کر جاتے ہیں تو ان کے لئے سیکڑوں ہدایتیں دے جاتے ہیں۔
” ہر دو گھنٹے کے بعد دُودھ پلاتی رہنا ، دوا باقاعدگی سے دینا ، اگر پاخانہ یا پیشاب کرے تو فوراً صاف کر دینا ، زیادہ دیر کھلا رہنے سے اُسے سردی ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر نے سختی سے منع کیا ہے تو بچے کو سردی نہیں ہونی چاہیئے۔ اس بار سردی ہوئی تو اسے نمونیہ ہونے کا ڈر ہے۔ دوپہر کو کپڑے بدل کر کاجل پاؤڈر لگا دینا۔ شام کو بچہ اچھی حالت میں ہونا چاہیئے۔ اسے راہل سے دُور رکھنا ، راہل بیمار ہے کہیں اس کی بیماری اسے نہ لگ جائے۔
چھوٹے بچوں کے لئے تو ہدایتیں تھیں۔ بڑے بچوں کے لئے کوئی ہدایتیں نہیں ہوتی تھیں۔ کیونکہ بچے خود ہدایت دیتے تھے۔
” ممی نے کہا ہے۔ 11 بجے دوائی دیجئے گا۔ "
” ممی نے کہا ہے۔10 بجے وہ چاکلیٹ کھا لینا جو اُنھوں نے دی ہے۔ "
” ممی نے نہلا کر کپڑے بدلنے کے لئے کہا ہے۔ "
بچے خود فرمائش کرتے ، ایسے بچوں کی فوراً فرمائش پوری کرنی پڑتی تھی۔ نہ کرنے کی صورت میں وہ باپ سے شکایت کر دیتے ، ماں باپ اُسے باتیں سناتے اور سسٹر روزی کو بھی شکایت کر دیتے اور اسے سسٹر روزی کی بھی باتیں سننی پڑتیں۔ ان تمام خوف اور ڈر سے بے نیاز کوئی تھا تو وہ سندھیا۔
ہر بچے سے وہ پوچھتی۔
” اے آج ٹفن میں کیا لایا رے ؟ "
اگر بچے کے ٹفن میں کوئی اچھی چیز رہتی تو وہ اسے خود کھا جاتی تھی۔ بچوں کے چاکلیٹ بسکٹ بھی آدھے سے زیادہ خود کھالیتی تھی۔ ذرا ذرا سی بات پر بچوں کو بری طرح مارتی تھی اور اُنھیں دھمکاتی بھی تھی۔ اگر اُنھوں نے اپنے ماں باپ سے شکایت کی تو کل اس سے زیادہ مار پڑے گی۔
اس دھمکی کے بعد بچے شکایت نہیں کرتے تھے۔اگر کسی نے کچھ کہہ دیا اور اسے باتیں سننی پڑتی تھی تو دُوسرے دِن اس بچے کو اس بری طرح مارتی تھی کہ وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرتا تھا۔
اُسے یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا۔
اُس کی سوچ الگ تھی۔
اُسے ماں باپ کے دِلوں کا پتا تھا۔
ماں باپ اپنے بچوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی جدا نہیں کرتے تھے۔ اگر وہ جدا کرتے بھی ہیں تو ان کی کوئی نہ کوئی مجبوری ہوتی ہے۔ جو ماں باپ اپنے بچوں کو ان کے پاس چھوڑ جاتے ہیں وہ سب مجبور ہیں۔ پیٹ کی خاطر ، روزی ، روٹی کی خاطر وہ اتنا بڑا پتھر اپنے دِل پر رکھتے ہیں۔
ایسے میں ان ماں باپ کے جذبات سے کیوں کھیلا جائے۔
سسٹر روزی ان بچوں کو سنبھالنے کے اسے پیسے دیتی ہے۔
پھر اپنے کام سے ایمانداری کیوں نہ برتی جائے۔ بے ایمانی برت کر کیا حاصل؟
اُس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔
وہ ماں نہیں بنی تھی۔ لیکن ان 30 بچوں کو سنبھالتے ہوئے کب وہ ان 30 بچوں کی ماں بن گئی تھی اسے بھی پتہ نہیں چل سکا تھا۔