کہمن ۔۔۔ سہیلؔ غازی پوری

 

دِکھاوا

_______

 

منظر:

 

میری بیگم کی ایک سہیلی تھی

جو کہ تہذیب نو کی تھی حامل

کام جو بھی وہ سوچ لیتی تھی

اُس کو کرتی تھی، چاہے ہو مشکل

اُس کا شوہر کہیں پہ نوکر تھا

جس کو رزق حلال تھا حاصل

اپنی بیوی کے اِک دکھاوے سے

بن گیا کچھ دنوں میں وہ سائل

 

کہمن:

 

ظاہری ٹیپ ٹاپ سے لوگو!

اچھی تدبیر روٹھ جاتی ہے

اتنے منحوس ہیں قدم اس کے

گھر سے تقدیر روٹھ جاتی ہے

٭٭

 

 

 

 

دشتِ غم

_______

 

منظر:

 

ہر طرف ہے دشتِ غم پھیلا ہوا

اور اس پر ہم سفر کوئی نہیں

جس طرف نظریں اٹھا کر دیکھئے

دھوپ رقصاں ہے، شجر کوئی نہیں

گرد اڑتی ہے ہوا کے ساتھ ساتھ

یوں تو اس کے بال و پر کوئی نہیں

وہ تمازت ہے کہ جلتا ہے بدن

اب تو مرنے سے مفر کوئی نہیں

 

کہمن:

 

دشت، تنہائی، تمازت، گرد سے

ہر قدم پر اب نہ ڈرنا ہے ہمیں

اپنی ہمّت اور استقلال سے

دہشتِ غم کو پار کرنا ہے ہمیں

٭٭٭

 

 

 

سڑک پر ایک کاہل

_______

 

منظر:

 

پڑا ہے ایک کاہل اِک سڑک پر

اشاروں سے جو گڈھّے پاٹتا ہے

وہ انساں ہیں مگر کاہل بھی ایسا

نحوست کو جو خود میں آٹتا ہے

ہزاروں مکھیاں رہتی ہیں اُس پر

سگِ بے درد منہ کو چاٹتا ہے

وہ تھک جاتا ہے جب منہ چاٹنے سے

میاں کاہل کا جبڑا کاٹتا ہے

 

کہمن:

 

یقیناً ایسے لوگوں کے عمل میں

بڑا فقدان ہے انسانیت کا

جو سچ پوچھو تو اک کاہل کے ہوتے

بڑا نقصان ہے انسانیت کا

٭٭٭

 

 

دھوپ کی اوڑھنی کو اوڑھے ہوئے

____________________________

 

 

منظر:

 

دھوپ کی اوڑھنی کو اوڑھے ہوئے

گھر سے سورج نکل کر آیا ہے

مارچ اپریل کے مہینے میں

کیسا چولا بدل کر آیا ہے

ظلمتِ شب کی تلخ باتوں سے

صبح کے دل گذار لمحوں کے

سینوں پر مونگ دَل کر آیا ہے

 

کہمن:

 

ہے ہر اک شے زوال کی زد پر

اس پہ بھی اک زوال آئے گا

وقت کے بیکراں سمندر میں

شام ہوتے ہی ڈوب جائے گا

٭٭٭

One thought on “کہمن ۔۔۔ سہیلؔ غازی پوری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے