کہانی کا راوی تلہن کا تیل نکلوانے شاہ جی کے کولھُو پر جاتا ہے اور جب تک اس کے تلہن سے تیل نکالے جانے کی باری آئے وہ کولھُو کے بیل اور کولھُو سے نکالے جانے والے تیل کے عمل کا بہ غور مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ ایک تکنیکی مشاہدہ نہیں ہے کہ کولھُو سے تیل کس طرح نکلتا ہے یا یہ کوئی صحافتانہ (Journalistic) مشاہدہ بھی نہیں ہے، جس کی رپورٹ اخبار میں شاہ جی کے کولھُو کی غرض غایت اس کی آمدنی اور اخراجات اور اس سے وابستہ سماجی مُنفعت بیان کی جائے۔ اس طرح یہ کسی چھوٹی صنعت کے زمرے میں آنے والے کسی گھریلو کار خانے کے محاسن پر غور کرنے والا کوئی سیدھا سادا مشاہدہ بھی نہیں ہے۔ یہ در اصل ایک افسانوی مشاہدہ ہے جو خود کو بالآخر ایک تخلیقی عمل سے گزارے جانے میں کامیاب ہوتا ہے۔
اس افسانے کے تمام اجزاء جن سے افسانے کی تکمیل ہوئی ہے خارجی دنیا کے مظاہر ہیں اور اپنا ٹھوس وجود رکھتے ہیں مثلاً شاہ جی، شاہ جی کا کولھُو، کولھُو میں جتا ہوا سوکھا سا کھا اور زخمی بیل، بیل کی آنکھوں پر بندھی پٹی، کو لھُو میں لگا بھاری اور موٹا سا موسل بیل کے منہ پر چڑھا ہوا جاب اور پھر وہ سنہرے رنگ کا تیل جو بوند بوند کر کے برتن میں گر رہا ہے۔ بہ ظاہر اپنا ٹھوس وجود رکھنے والے یہ خارجی مظاہر افسانے میں جذب ہو کر ایک نئے افسانوی وجود میں تحلیل ہو کر اور اپنی شکل تبدیل کر کے ایک نئے داخلی وجود کی ہیئت میں اپنا تخلیقی جو ہر دکھا نا شروع کر دیتے ہیں۔ مثلاً جب افسانے کا راوی کولھُو سے نکلنے والے چمکتے ہوئے تیل کو دیکھتا ہے تو تیل صرف تیل نہیں رہ جاتا بلکہ صحت، طاقت، ذہنی برتری اور تاب دار کارناموں کا استعارہ بن جاتا ہے۔ ’’تیل کی چمک دیکھ کر میری آنکھوں میں چمکتے ہوئے چہرے، مالش زدہ اعضاء، گٹھے ہوئے جسم، کسے ہوئے پٹّھے، چکنی جلدیں، دمکتی ہوئی لاٹھیاں اور زنگ سے محفوظ مشینوں کے پرزے چمچمانے لگے۔ مضبوط اور چمکدار جسموں کے ساتھ صحت مند دماغ اور ان دماغوں کے تابدار کار نامے بھی اس تیل میں تیرنے لگے ‘‘۔ گویا کولھُو سے نکلنے والی یہ بوندیں زندگی کی اصل روح اصل جوہر اور حقیقی طاقت تھیں جو کشید کی جا رہی تھیں۔
اس موقع پر مجھے عابد سہیل کی ایک پتے کی بات یاد آ رہی ہے، افسانے کی تنقید چند مباحث میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’ہر افسانے کو دوسوالوں کے جواب ضرور دینے پڑتے ہیں پہلا سوال یہ ہے کہ اس کا ہر کردار، ہر واقعہ، ہر موڑ، ہر مکالمہ اور ساراپس منظر تخلیق کی داخلی منطق میں اپنی تعبیر اور اپنا جواز فراہم کرتا ہے یا نہیں۔ ‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ افسانے کی داخلی منطق کیا شے ہے اور اس سے کیا مراد ہے ؟ تو اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں۔ ’’افسانے کے ہر جزو کا دوسرے اجزاء اور ان اجزاء کے مجموعی تاثر سے تعلق ہم آہنگی اور ناگزیر ربط کا دوسرا نام ہی افسانے کی داخلی منطق ہے۔ ‘‘ اس کسوٹی پر اگر شاہ جی کو دیکھا جائے، بیل کے کردار کو آنکا جائے، اس کی آنکھوں کی پٹی اور منھ پر بندھے جاب کو ٹٹولا جائے اور ایک گھیرے کے اندر اندھیرے میں گھوم گھوم کر ایک دن میں سواسترہ کلو میٹر کی دوری طے کیے جانے والے بیل کے لاحاصل سفر کو محسوس کیا جائے تو افسانے کے یہ سارے اجزاء اور ان کا مجموعی تاثر سے تعلق۔
کیا یہ درست نہیں کہ آپ کسی بھی شاہ جی کے کولھُو پر چلے جایئے وہاں آپ کو ایسا ہی روایتی بیل اور روایتی کولھُو ملے گا جس میں ایک موسل ہو گا اور کولھُو سے قطرہ قطرہ تیل کشید ہو کر نکلے گا اگر یہ درست ہے اور اس کی حقیقت صرف اتنی ہی ہے تو پھر تیل نکالے جانے کا بے جان اور روز مرّہ کا واقعہ صرف اپنی جزوی حقیقت کی بنیاد پر ایک فن پارہ ہر گز نہیں کہلایا جا سکتا۔ اگر اس کے سروکار صرف اتنے ہی محدود ہیں اور اگر اس سے کسی قدر اور خیال کا اثبات یا نفی نہیں ہوتی تو پھر یہ افسانہ کسی مجذوب کی بڑ کے علاوہ اور کیا کہا جا سکے گا۔
یہی سبب ہے کہ افسانہ نگار افسانے میں واقعات کی فنکارانہ اور تخلیقی ترتیب پر بہت زوردار توجہ صرف کرتا ہے اور اس طرح ایک افسانوی حقیقت کی تخلیق کرتا ہے۔ کڑوا تیل کے کولھُو کے بیل کا کردار ہمارے عہد کی ایک بڑی حقیقت سے رشتہ جوڑ نے کی سعی کرتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ بیل کو افسانے کے مختلف اجزاء کی مدد سے اپنے عہد کے مجبور اور لاچار محکوموں کی بڑی حقیقت سے جوڑ کر ہمیں ان کے ساتھ کئے گئے استحصال کے زخموں کو دکھانا چاہ رہا ہے۔
یہ افسانہ خاصا مختصر ہے کل چھے صفحات پر مشتمل ہے اور اس کا ہیرو ظاہر ہے کہ کولھُو کا وہ بیل ہے جس کا پیٹ دونوں طرف سے دھنس گیا ہے، پیٹھ بیٹھ گئی ہے، گوشت سوکھ گیا ہے اور گردن سے پٹھے تک پورا جسم چابک کے نشان سے اٹا پڑا تھا کیونکہ ذرا بھی سست رفتاری یا لڑکھڑاہٹ پر اسے سونٹے کی مار سہنا پڑتی۔ اس بیل کا سب سے سہانا خواب کھلی اور روشن فضا میں کھلی آنکھوں سے بے روک ٹوک گھومنا، مخملی گھاس، کو چرنا نالوں اور چشموں سے پانی پینا تھا مگر اس خواب میں کھو جانے پر اسے جگانے کے لئے سونٹے کی وہ آواز تھی جو اس کی پیٹھ پر پڑنے سے پیدا ہوتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ بیل کے مالک شاہ جی کو اس بیل سے ہمدردی نہ تھی کیونکہ شاہ جی بیل کی آنکھوں پر پٹّی اسلئے باندھتا تھا کہ ایک ہی چھوٹے سے دائرہ میں بار بار گھومنے سے کہیں بیل چکرا کر گر نہ پڑے۔ اب یہ بات الگ تھی کہ اس طرح بیل کے گر پڑنے اور اسے پھر دوبارہ چلنے کے لئے اٹھانے کے جتن میں خاصا وقت خراب ہوتا جس کے سبب شاہ جی کی آمدنی پر اثر پڑتا۔ شاہ جی سے دورانِ گفتگو راوی کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تیل نکالی ہوئی کھلی بھی کولھُو کے بیل کو جس کی محنت کے سبب کھلی سے تیل نکالا گیا تھا اس بیل کو نہ کھلا کر ان جانوروں کو دی جاتی ہے جو شاہ جی کی گاڑی کھینچتے ہیں یا کھیت جوتتے ہیں۔ بیل اگر چہ کمزور اور بوڑھا ہو چکا ہے مگر شاہ جی اسے تیل نکالنے کی مشقت سے اس لئے سبکدوش نہیں کرنا چاہتا کہ نیا بیل نہ تو آسانی سے کولھُو میں جتے گا اور نہ اس مہارت کے ساتھ اپنے کام ہی کر سکے گا۔ جس مہارت سے بوڑھا بیل کرتا تھا مگر جب راوی کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک نوجوان اور کسے ہوئے جسم والے پھرتیلے بچھڑے کو شاہ جی آہستہ آہستہ اس کام کے لئے تیار کر رہا ہے تو راوی کی نگاہوں میں اس تنومند بچھڑے کا ڈیل ڈول اچانک بگڑ جاتا ہے قددب جاتا ہے پیٹ دھنس جاتا ہے پٹھا پچک جاتا ہے، کھال داغ دار ہو جاتی ہے اور بدن گوبر میں سن جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر افسانے کا راوی اپنے اندرونی جذبات کا اظہار یوں کرتا ہے۔ ’’میرے جی میں آیا کہ میں کمرے سے باہر جاؤں اور بچھڑے کی رسی کھول دوں۔ یہ بھی جی میں آیا کہ اور نہیں تو آگے بڑھ کر بیل کی آنکھوں کی پٹی ہی نوچ دوں ‘‘ لیکن راوی دونوں ہی کام نہیں کر پاتا وہ تو تیل نکلوانے کو لھُو پر آیا تھا سو اپنی باری کا انتظار کرتا رہا اور بیل کے جسم پر پڑنے والے سونٹوں کی سڑاک سڑاک کی آوازیں سنتا رہا۔
کڑوا تیل کے بیانیہ نے قاری تک خود کو پہچانے کے لئے ترسیل کی زیادہ ذمہ داری خود ہی اٹھائی ہے استعارے سیدھے سادے اور شفاف ہیں۔ ۲۵ برس پہلے جس طرح ہمارا جدید افسانہ ایک پہیلی بن کر اسے Decode کرنے کا خاصا بڑا بوجھ قاری پر ڈال کر الگ ہو جایا کرتا تھا اس کے ناکام نمونوں نے اس عہد کے تازہ کار افسانہ نگاروں کو جو عبرت پکڑائی ہے وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ بہ قول مہدی جعفر ’’جو لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ افسانوں کے حق میں یہ لازم ہے کہ وہ تجربہ ہی یا علامتی ہوں یا جو شفاف بیانیہ ہوں یا جو شفاف بیانیہ کو کم تر سمجھتے ہیں سن ۸۰ کے بعد کا افسانہ ایسے چیلنج کو قبول کر کے دانستہ، نادانستہ طور پر لکھا گیا ہے۔ ‘‘یہاں یہ بات بھی باور کرانا ضروری ہے کہ ادب خود کو محض جزوی سچائیوں سے ہی نہیں بلکہ سموچی حقیقتوں سے جوڑنے کی سعی کرتا ہے اس لئے ہر ادیب کو اپنے علمی، ذوق، فنّی صلاحیتوں اور وژن کے مطابق تخلیق میں کامیابی یا ناکامی ہوتی ہے۔
’کڑوا تیل‘ کے پڑھنے کے بعد پہلی قرات میں ہی جو تاثر قائم ہوتا ہے وہ اس طرح ہے۔
(۱) کڑوا تیل اپنے افسانوی مارے اور ہیئت کو لطیف پر مغز جاندار اور موثر بنانے کی ایک اچھی کوشش کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
(۲) یہ پڑھے لکھے با ذوق قاری کو ایک ہی وقت میں زندگی کی کئی سطحیں مرتسم کر کے اور افسانے کو تجریدی رنگ دے کر پریشان نہیں کرتا لیکن اس کے ساتھ یہ ایک ایسا اکہرا بیانیہ بھی نہیں ہے جو قاری کے تخیل اور فکر کو ذرا بھی ایڑ نہ لگائے۔
(۳) یہ حاکم اور محکوم کے درمیان استحصالی رشتوں کے اظہار کی گھسی پٹی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ اس جوہر کو کیسے بھی فراہم کرتے رہنے کی کہانی ہے جس سے زندگی چلتی ہے، جسم کستے ہیں دماغ صحت مند ہوتے ہیں لاٹھیاں مضبوط ہوتی ہیں اور دمکتی ہیں۔
(۴) یہ ایک System کی تصویر ہے جس کو قائم و دائم رکھنے میں شاہ جی، کولھُو، کولھُو کا بیل موسل، بیل کے کندھے پر رکھا جوا، آنکھوں پر بندھی پٹّی، منھ پر رکھا چاب آسانی سے قابو میں نہ آنے والا بچھڑا اور یہاں تک تیل نکلوانے کی غرض سے کولھُو پر آیا ہوا افسانے کا راوی سب برابر کے شریک ہیں اور ان میں سے جو کوئی بھی تیل کی کشید کے کام میں رخنہ اندازی کا سبب بنے گا چاہے وہ بیل ہو ہا کولھُو، شاہ جی ہو یا راوی ناپسندیدہ قرار دے کر رد کر دیا جائے گا۔ یہ سسٹم آپ کو پسند ہو یا نا پسند عرصۂ دراز سے ایک طرح کے Status Quo کی صورت حال پر قائم ہے اور قائم رہے گا۔ اب یہ سسٹم کیسے بدلا جائے گا کون اسے بدلے گا یہ باتیں اس افسانے کا موضوع نہیں ہیں۔
(۵) کڑوا تیل اپنی علاقائی اور قومی جڑوں میں ایمانداری کے ساتھ پیوست ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بیل کی پیٹھ پر شاہ جی کے پڑتے ہوئے سونٹوں کی سڑاک سڑاک صرف راوی یا چند لوگوں کو سنائی دے رہی ہو۔ System کے ہی منھ سے نکلی ہوئی یہ آواز System کے ہی کانوں میں اب لوری بن چکی ہے۔
غضنفر کے اس افسانے پر مہدی جعفر کی چار سطری رائے میری نظر سے حال میں ہی گزری ہے انھوں نے لکھا ہے ’’غضنفر نے ’کڑوا تیل‘ (۱۹۹۵) لکھ کر لفظی نشانیوں کو منظری (Picturesque) بنا دیا ہے کولھُو کے گرد تھکا دینے والے غیر مختتم چکروں کے ساتھ بوڑھے بیل کے استحصال کی فوٹو گرافی ہے سارا بیان ایک ہجو ملیح ہے۔ بچھڑے کے استعارے میں نئی نسل شریک حال ہے عنوان کی خوبی یہ ہے کہ کولھُو کا بیل نہ کہہ کر کڑوا تیل کہا گیا ہے اسے اختتامیہ کاٹ کے لئے استعمال کرنا غضنفر کی ہنر مندی ہے۔ (نئی صدی کے گرد و نواح میں افسانے۔ ذہن جدید ۴۴)‘‘
ہم جن انسانیت سوزطریقوں سے اپنے لئے زندگی کا عطر کشید کرتے ہیں اس میں کہیں نہ کہیں انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال شامل رہا ہے، جہاں بیل مظالم سہہ کر تیل نہیں نکالتا اور اس کی جگہ مشینیں یہ کام کرتی ہیں وہاں اور بھی بڑے پیمانے پر بدلی ہوئی شکلوں میں ہونے والے استحصال عمل میں آتے ہیں، تو اس کڑوے تیل کی کشید کو ایسی غلاظت سے چھٹکارا پانے کی کیا کوئی شکل پیدا ہو سکتی ہے ؟ کہانی زیر لب یہ سوال کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
Committed تخلیق کا دانستہ یا نادانستہ طور پر ایک وصف یہ ہوتا ہے کہ زندگی جن اجزاء سے تشکیل پاتی ہے وہ انھیں سے اپنے لئے غزا فراہم کرتی ہے، افسانہ ’’کڑوا تیل‘‘ اگر چہ تاریخ نہیں ہے لیکن جبر کی تاریخ کی بواس میں مہک رہی ہے۔ یہ افسانہ معاشیات کا کوئی باب بھی نہیں ہے لیکن افسانے کی داخلی منفق کی تعمیر میں معاشیات بھی اپنا کام کر رہی ہے۔ اس طرح افسانہ نفسیات کا سبق بھی نہیں اور نہ اخلاقیات کا کوئی لکچر لیکن حاکم و محکوم کی نفسیات اور آقا وغلام کی اخلاقیات کا افسانوی فرق افسانے میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تردّد نہیں کہ ’’کڑوا تیل‘‘ کی بنائی دنیا میں جو افسانوی واقعہ تیار ہوا ہے وہ افسانے کو ایک فلسفیانہ مقصدیت تو فراہم کرتا ہے اس کے ساتھ زندگی کے منفی اور غیر منفعت بخش عوامل کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
اردو ادب کے پڑھنے والے اس کے متوسط طبقہ کے ویسے قارئین میں سے مٹھی بھر لوگ ہوتے ہیں۔ گویا اردو کا افسانہ عام طور سے دنیا کے زیادہ تعداد میں اس کو نہ پڑھنے والوں کے لئے لکھا جاتا رہا ہے لیکن دھیرے دھیرے صورت حال بدل رہی ہے۔ اس طرح اور ہن پاموک کے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے ’’بین الاقوامی میڈیا کے دور میں ایک ادیب صرف وہ شخص نہیں رہا ہے جس کے لئے اپنے وطن کے متوسط طبقے کو مخاطب کرنا ضروری ہے بلکہ آج وہ ایسا شخص ہے جو دنیا بھر کے ادبی فکشن کے قارئین سے مکالمہ کرتا ہے اور یہ مکالمہ فوری طور پر ہوتا ہے۔ ’’کڑوا تیل‘‘ اس مکالمے کی بھی ایک کوشش ہے۔
٭٭٭