پیغام آفاقی! ۔۔۔ محمد علم اللہ

حسرت رہی کہ’ تم ‘سے دوبارہ نہ مل سکا

 

اب کوئی شام نہیں آئے گی ان آنکھوں میں

تیری کرنوں نے جلا ڈالی ہیں پلکیں میری

پیغام آفاقی

 

پاکستان سے نوجوان ادیب باسط آزر کا میسیج آیا ’’ایک دوست سے علم ہوا کہ آپ سے پیغام آفاقی صاحب کے بارے میں معلومات مل سکتی ہیں، سو برائے مہربانی، اگر ان کے بارے میں ریسنٹ اپڈیٹ ہو تو آگاہ کیجئے گا ‘‘آزر کی بات سے مجھے اس بات کا اندازہ ہی نہ ہوا کہ ان کے ریسنٹ اپڈیٹ سے کیا مراد ہے۔ میں نے بھی استفہامیہ انداز میں ریسنٹ اپڈیٹ کا مطلب ؟ لکھ کر انھیں جوابی پیغام بھیجا۔ گویا میں خود جاننا چاہتا ہوں کہ اس سے آپ کی کیا مراد ہے ؟۔ آفاقی صاحب کی بہادری، ہمت اور حوصلہ نے اس بات کا اندازہ ہی نہ ہونے دیا تھا کہ وہ بیمار تھے۔ حالانکہ انھیں کینسر جیسا مہلک مرض لاحق تھا، لیکن ان کے بہت سے قریبی دوستوں کو بھی اس بات کا علم نہیں تہا کہ ان کی ایک کیمیو  تھراپی بھی ہو چکی ہے۔

ابھی باسط آزر کا جواب آیا نہیں تھا کہ میں نے فیس بُک کھولا تو دیکھا آفاقی صاحب کے چاہنے والوں کی قطار لگی ہے ، ان کے دوستوں اور عزیزوں کی صف کھڑی نظر آئی، جو ان کی صحت و عافیت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ پیغام آفاقی صاحب کے کینسر کے عارضہ میں مبتلا ہونے کی خبر سن کر ایسا لگا جیسے یہ بیماری مجھے لاحق ہو گئی ہے۔ میرے اندر خوف و ہراس کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ پھر بھی خداوند قدوس کی ذات سے امید تھی کہ اللہ آفاقی صاحب کو ٹھیک کر دے گا اور وہ بہت جلد شفا یاب ہو کر ہمارے درمیان موجود ہوں گے۔ مگر ’’وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے‘‘۔

ع الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

انتقال کی خبر سن کر دل دکھ سے بھر گیا۔ ذہن اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہ تھا کہ اب آفاقی صاحب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ایک ہوک سی دل میں اٹھی اور جانے کیا کیا باتیں یاد آتی رہیں، دیر تک ان کے بارے میں سوچتا رہا، ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ، آنکھوں کے سامنے یوں پھرنے لگا جیسے اب آفاقی صاحب کوئی نئی داستان چھیڑنے والے ہیں، محفل جمی ہے اور سب ہمہ تن گوش بیٹھے ہیں۔ سخن سنجوں کو کیا پتہ تھا کہ داستان گو اتنی جلدی آناً فاناً  سب کو مایوس و غمگسار چھوڑ کر، ہمیشہ کے لئے چلا جائے گا، نگری کے اس پار جہاں سے واپس کوئی نہیں آتا۔ آفاقی صاحب نے ہمیں سوچنے کا بھی موقع نہیں دیا کہ ہم ان سے انھیں کے الفاظ میں کہتے۔

رات تاریک تر ہو رہی ہے ، مٹ رہا ہے ستاروں کا جلوہ

ہو گئے غم کے بادل نمایاں، ٹھہرو ٹھہرو کہاں جا رہے ہو

چھا گئی ہر شجر پہ اداسی، سو گئے آج بلبل کے نغمے

کر کے تم سارے گلشن کو ویراں، ٹھہرو ٹھہرو کہاں جا رہے ہو

آفاقی صاحب اس صدی کے ان قد آور لکھاریوں میں سے تھے ، جن پر بجا طور پر زمانے کو ناز ہو سکتا ہے۔ میری ان سے فیس بُک کے ذریعہ شناسائی ہوئی اور یہ شناسائی اس قدر بڑھی کہ میں ان سے ملنے کے لئے بے تاب ہو گیا، کہ جس شخصیت کو میں نے محض کتابوں میں پڑھا، رسالوں اور اہل علم کے ذریعے سنا اور جانا ہے وہ شخصیت کیسی ہو گی؟۔ قریب سے جاننے کی جستجو بڑھ گئی اور آخرکار وہ دن بھی آ گیا جب ان سے ملاقات ہوئی اور وہ ملاقات یادوں کا درپن بن گئی۔ جب کسی شخصیت سے بالمشافہ ملاقات نہ ہوئی ہو تو اس شخصیت کا ایک ہیولہ ہمارے ذہن میں بن ہو جاتا ہے۔ میرے ذہن میں بھی ایسا ہی کچھ اختر علی فاروقی المعروف پیغام آفاقی مرحوم کے تعلق سے تھا کہ پولس ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والا یہ افسر بھی شاید ہمارے ملک کے عام پولس والوں سے ملتا جلتا ہو گا، رویہ بھی ویسے ہی کرخت اور غصہ والا ہو گا وغیرہ۔

مگر جب ان تک رسائی ہوئی اور میں نے ان کو قریب سے دیکھا تو وہ کوئی اور ہی مرنجان مرنج قسم کی سدا بہار شخصیت تھی، علم و ادب کا ایک کوہ گراں، شفقت و محبت کا پیکر، با ذوق، آرٹ اور فن کا پارکھ۔ ہمیں دیکھتے ہی گلے سے لگا لیا اور سیدھے اپنے ڈرائنگ روم میں لے گئے۔ چند منٹ بعد ہی انواع و اقسام کے ناشتے ، چائے اور گفتگو کا دور شروع ہوا۔ صبح سے دو پہر، دو پہر سے شام، شام سے رات ہو گئی، ہم باتوں میں اس قدر محو ہوئے کہ گذرے وقت کاپتہ ہی نہ چلا۔ ادب کی جب بات نکلی تو آفاقی صاحب نے قدیم سے لے کر جدید اور اسلوب سے لے کر تکنیک تک پوری بساط بچھا دی۔

ع وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

تہذیب، تاریخ اور ثقافت کا تذکرہ ہوا تو کئی صدیوں کو آئینہ کر دیا، فلم اور اس کے تکنیک پر بات نکلی تو ایسی ایسی باریکیاں اور نکات پر گفتگو ہوتی رہی کہ مجھ جیسا طفل مکتب محض سننے پر ہی اکتفا کر سکتا تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں کی صورتحال اور ان کے مسائل کا حل، آزادی کے بعد لٹریچر کا رول، ہندوستان پاکستان کے ادیب و شاعر۔ کہاں کیا تخلیق ہو رہا ؟ اس وقت کس قسم کے ادب کی ضرورت ہے ؟، نوجوانوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں ؟، عمر رسیدہ افراد کو کیا کرنا چاہئے ؟۔ ادیب اور شاعر کیا کر رہے ہیں اور ان کو کیا کرنا چاہئے ؟ ایک وسیع جہان موضوعات تھا جس پر باتیں ہوتی رہیں۔ برسوں سے میرے ذہن میں پلنے والے انتشار، فلسفہ، تاریخ اور نہ جانے کن کن موضوعات کے بارے میں میرے الم غلم سوالات بھی تھے۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ انھوں نے میرے سارے سوالات کے جوابات انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ دیے۔

آفاقی صاحب کو ان سے ملاقات سے قبل میں محض ادیب اور ایک سرکاری افسر کے طور پر جانتا تھا اور حیرت بھی کیا کرتا تھا کہ پولس ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والا بندہ ادب سے کیسے جڑ سکتا ہے کہ یہاں تو ’’ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو ‘‘والی بات ہے ، لیکن شوق، ہمت اور جستجو انسان سے کیا کچھ نہیں کر وا دیتی۔ آفاقی صاحب ایک عمدہ نثر نگار کے ساتھ ساتھ خوش بیان شاعر بھی تھے۔ ملاقات کے دوران جب انھوں نے اپنا شعری مجموعہ درندہ میرے ہاتھوں میں تھمایا تو دبے لفظوں میں میں نے ان سے کہا ’’ آپ نے اس کا نام ’درندہ‘ کیوں رکھا یہ تو انتہائی غیر شاعرانہ نام ہے ؟‘‘

تو آفاقی صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ اسی لئے تو یہ نام رکھا ہے ، پھر وضاحت کی کہ در اصل یہ استعارہ ہے ’رقیب ‘ کا۔

پیغام صاحب ادب میں پروپیگنڈا کے شدید مخالف تھے۔ اعزاز و انعام کو انھوں نے کبھی اہمیت نہیں دی۔ ان کا ماننا تھا کہ ادیب کا اصل اعزاز اس کے قارئین ہیں۔ ان کے ناول کے سلسلے میں میں نے کہا کہ آپ اس کو پن گوئن یا آکسفورڈ جیسے کسی بڑے ادارے سے کیوں نہیں چھپواتے ؟ تو انھوں نے کہا کہ اچھے پکوان کی خوشبو خود بخود دور تک پھیلتی جاتی ہے ، اس کے لئے بڑے ہوٹل اور خوشنما بورڈ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انھوں نے کہا میں تو چاہتا ہوں میری کتاب گلی اور نکڑ میں چھپنے والے دو ٹکے کے کاغذ میں چھپے ، لیکن لوگ اس کو پڑھیں، اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں مجھے خوشی نہیں مل سکتی۔

آفاقی صاحب محض ایک اچھے ادیب ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ تھے ، کتنوں کے مشفق اور مربی، شاید ان کی انہی خوبیوں کی وجہ سے لوگ ان کے اسیر تھے ، جس کا اندازہ ہندو پاک سمیت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ان کی محبین، شاگردوں اور عزیزوں سے لگایا جا سکتا ہے۔

آفاقی صاحب کو فلم اور آرٹ سے بھی بے حد دلچسپی تھی اس سلسلہ میں جے این یو سمیت کئی اداروں میں ان کا لیکچر انتہائی دلچسپی کے ساتھ سنا جاتا تھا، وہ جے این یو کے مہمان اساتذہ میں شامل تھے۔ انھوں نے ٹیلیوژن سیریل کی ہدایت کاری بھی کی تھی، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ نہ وہ ماس کمیونی کیشن کے طالب علم تھے اور نہ ہی کبھی کسی فلم کی کوئی تربیت لی تھی، اس کے برعکس فلم کے طلبہ کو پڑھایا اور کئی ایسی ٹیمیں تیار کر دیں جو مختلف چینلوں اور میڈیا صنعت میں کام کر رہی ہیں۔ آفاقی صاحب نے اس کا قصہ کچھ یوں سنایا تھا۔

جب انھوں نے ناول لکھا تو اس کی بہت دھوم مچی، اسی درمیان ان کے ذہن میں فلم بنانے کا خیال آیا، لیکن جب انھوں نے اس خیال کو پکانا شروع کیا تو اس نے مستقل ایک سیریل کا روپ دھار لیا۔ انھیں دنوں دور درشن میں ڈائریکٹروں سے ٹینڈر طلب کیا گیا تھا کہ وہ اپنے پر پوزل ڈالیں، اتفاق سے انھوں نے پر پوزل ڈالا اور وہ پاس ہو گیا۔ لیکن پاس ہونے کے بعد سرد خانہ کا شکار رہا، کام جمع کرنے کی تاریخ قریب سے قریب تر آتی جا رہی تھی، خیال آیا کسی ڈائریکٹر سے بات کر کے کام کرا لیا جائے ، یکے بعد دیگرے کئی ڈائریکٹروں سے بات کی گئی، لیکن ان کے مزاج اور طبیعت پر کوئی ڈائریکٹر کھرا نہ اترا۔ آخرکار انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خود اس کو ڈائریکٹ کریں گے ، اسکرپٹ لکھیں گے اور خود ہی ایڈٹ کرائیں گے۔ کئی مہینوں کی انتھک محنت اور مطالعہ سے انھوں نے ساونڈ، لائٹ، اسکرپٹنگ، ڈیزائننگ، میک اپ، سیٹ سازی پر معروف کتابیں منگائیں اور ساری کتابیں چاٹ ڈالیں، اپنے گھر کے بالا خانہ کو اسٹوڈیو بنایا اور کام شروع ہو گیا۔ ایکٹر، آرٹسٹ کی تلاش شروع ہوئی تو فیس اور ان کے نخرے دیکھ کر ایک مرتبہ پھر انھوں نے نئی پیڑھی کو اس فن میں اتارنے کا فیصلہ کیا اور نوجوانوں کو اداکاری، مکالمہ اور جملوں کے زیر و بم سے متعارف کرانے لگے ، یوں بہت جلد انھوں نے ایک ٹیم تیار کر لی اور سیریل بھی بن کر تیار ہو گیا، ان کے بقول اس سیریل میں کوئی بھی بڑا یا چھوٹا اداکار نہیں تھا جو پہلے کہیں کام کر چکا ہو بلکہ سب کے سب ان کے ذریعہ ٹرینڈ کئے گئے نوجوان تھے ، لیکن اس کے باوجود سیریل انتہائی کامیاب رہا اور لوگوں نے کافی پذیرائی کی۔ سیریل کا ’’ نام ٹوٹنے کے بعد ‘‘تھا۔ ( 2)۔

آفاقی صاحب کی یہ بہت بڑی خصوصیت تھی کہ وہ نوجوانوں اور نئے لکھنے والوں کی ہمیشہ ہمت افزائی کیا کرتے۔ خود میرے کئی افسانوں پر انھوں نے کئی مفید مشورے دئے۔ میں نے ان سے ایک مرتبہ مطالعہ کے لئے کچھ کتابوں کی نشاندہی کی گذارش کی تو انھوں نے کہا۔ پڑھنے سے زیادہ سوچنے اور سوچ کو لکھ ڈالنے پر توجہ دیں، آپ رائٹر ہیں پرو فیسر نہیں، اور لکھنے کے لئے خیالات کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوچنے کی عادت ہی آپ کو بتاتی جائے گی کہ کیا پڑھنے کی ضرورت ہے ورنہ دنیا میں اچھی کتابیں اتنی ہیں کہ کئی عمریں گذر جائیں۔

ہمارے ہاں اردو ادیبوں کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے مصنفین کی کتابوں کو در خور اعتناء نہیں سمجھتے ، حالانکہ اس سے بہر حال قوت مشاہدہ اور فکر و فن میں اضافہ ہوتا ہے۔ آفاقی صاحب ایک اچھے قلم کار کے لئے دیگر زبانوں پر عبور کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے ، اس کے لئے انھوں نے اکیسویں صدی فکشن کے تحت ایک ٹرانسلیشن اکیڈمی بھی تشکیل دی تھی، جس کا ایک صفحہ بھی فیس بُک پر بنایا تھا، وہ مجھے مستقل اس کے ایڈمن بن جانے پر ضد کرتے رہے ، لیکن میں نے ان سے کہا وہاں تو خود ہی بڑے بڑے ماہرین زبان و ادب موجود ہیں میں اس ذمہ داری کو کماحقہ ادا نہیں کر سکوں گا، تو انھوں نے مجھے سخت لفظوں میں سر زنش کرتے ہوئے کہا تھا، اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔ اور انگریزی کی چند سطریں (1) میں تحریر کی تھیں۔

خوف آپ کو کبھی بھی کامیاب نہ ہونے دے گا۔ پھر ہم خوف کیوں کھائیں۔ نتیجے دو ہی نکل سکتے ہیں یا تو ہم کامیاب ہو کر سرخرو ہوں گے یا پھر ناکام ہو جائیں گے۔ دونوں چیلنجوں کا زندگی کے ہر میدان میں مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہئے۔ پھر آپ محسوس کریں گے کہ دنیا آپ کی مٹھی میں ہے۔ انھوں نے مجھے آئی ایس کی تیاری کے لئے بھی کئی مرتبہ ابھارا، وہ اس وقت بھی ایسی ہی عزم و ہمت دلانے والے کلمات سے مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے ، ان کا کہنا تھا پہلے جاب سیکیور کیجئے پھر چاہے جتنا چاہیں لکھیں۔

انگریزی اورمدیگر زبانوں کے ادب سے انھیں اچھی واقفیت تھی۔ بات بات میں وہ اپنے سامعین یا قارئین کو موٹے موٹے نام لے کر مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے ، لیکن ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہوں نے چیخوف، ہیگو، شیکسپیر، جیسے نابغہ روزگاروں کو پڑھا ہی نہیں بلکہ گھول کر پیا ہے۔

علی گڑھ اور ان کی یادوں کا بڑے دلچسپ انداز میں دیر تک تذکرہ کرتے۔ میری ان سے جب ملاقات ہوئی تو اور چیزوں کے علاوہ علی گڑھ سے متعلق بھی انھوں نے بہت ساری چیزیں بتائیں۔ کہنے لگے :

جب وہ علی گڑھ گئے تو انگریزی آنرس میں داخلہ لے لیا۔ لٹریچر کی کلاس بڑی مشکل محسوس ہوتی تھی کہ اس کے استعارات اور تشبیہات سے واقفیت نہ تھی، پھر انگریزی کے کچھ معروف ناولوں کو اٹھایا اور اس کے ترجمے ، چند ہفتہ میں سارے پڑھ ڈالے اس سے اصطلاحات اور مفہوم کو سمجھنے میں کافی مدد ملی اور پھر وہ اس کلاس کے ٹاپر ثابت ہوئے۔

آفاقی صاحب در اصل ایک مہم جو شخص تھے جو کسی بھی چیز کو ایک مہم کے طور پر لیتے اور اس کو پورا کر کے چھوڑتے۔ میرے خیال میں ہر کامیاب آدمی کا ایسا ہی رویہ رہتا ہو گا۔ اس کے بغیر کامیابی شاذ ہی ملتی ہے۔

ناول کے مصنف کو تخلیق کار اس لئے کہا جانا چاہئے کہ وہ انسانی کردار تخلیق کرتا ہے اور ان کرداروں کے لئے معاشرہ تخلیق کرتا ہے اور یہ تخلیقات اتنی توانا ہوتی ہیں اور ان کے اندر پنپنے کی ایسی طاقت پنہاں ہوتی ہے کہ اگلے موسموں میں وہی معاشرے کی شکل میں زمین پر چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بلاشبہ آفاقی صاحب جسمانی طور پر ہم سے جدا ہو گئے ہیں لیکن جب تک اردو ادب زندہ ہے ان کا پیغام آفاقی اور سنہری حروف میں نیر وتاباں رہے گا۔ اور ان کی فکر اگلے موسموں میں بھی گُل کھلاتی رہے گی۔ بقول اقبال:

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں

وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حاشیہ۔۔۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

(1)انگریزی اقتباس جو آفاقی صاحب نے 7 جون 2015 رات آٹھ بج کر اٹھارہ منٹ پر فیس بُک ان باکس میں مجھے ارسال کیا۔

۔ Being scared will not help you. So why to be scared. There will be only two results. Yes. No. Keep. ready to face both۔ and you will feel in command and control of yourself.

(2)۔ سیریل کے نام کی جانکاری معروف ناول نگار مشرف عالم ذوقی نے دی۔

٭٭٭

This entry was posted in زمرے کے بغیر. Bookmark the permalink.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے