نظمیں ۔۔۔ ستیہ پال آنند

نظمیں

ستیہ پال آنند

 

دسویں درویش کا سوال

___________________________________________

 

اور دسویں نے پوچھا آنند سے

عمر کی اسّی منزلوں کے بعد

اور آگے چلے تو ہو، لیکن

تم سے پہلے جو شخص تھے، یعنی

اس تمہاری ہی شخصیت کے روپ

جس کو تم آج پہنے پھرتے ہو

وہ کہاں رہ گئے ہیں نو آنند؟

کس پڑاؤ پہ چھوڑ آئے انہیں ؟

٭٭٭

 

 

 

میں ٹریساز تو نہیں

__________________________________________

 

میں ٹریسیاز تو نہیں ، مجھ کو

علم ہی کب ہے، جانتا کیا ہوں ؟

 

نسلِِ ِ  آدم کا رازِ   افزائش

بیج کے پھوٹنے میں ہے،  یا پھر

ہے کوئی معجزہ ٔ نورِ   وصال؟

کیا فقط اپنے حفظ کی خاطر

سانپ کو ہے طلب پٹاری کی؟

یا کوئی ایسا فرض، جو قدرت

سے مرے جسم کو ودیعت ہے؟

وہ زمیں جس میں بیج  پلتا ہے

سوچتی کیا ہے؟  اُس کے محسوسات

کیا ہیں ؟  کیا چاہتی ہے وہ دھرتی

سانپ جس میں پناہ لیتا ہے؟

سیپ کیا چاہتی ہے موتی سے؟

فرض کوئی تو مشترک ہے، جسے

خود مرا جسم۔ ۔ اور اس کا جسم

جانتا بھی ہے، جانتا بھی نہیں !

ََََََ یہ اذیت گہِ وجود، کہ میں

صرف ’’نر‘‘  ہوں ،  ادھوری مشتِ    خاک

اور ’’مادہ‘‘ سے میرا رشتہ ہے

بیج اور خاک کے تصادم کا!

___________________________________________

Tiresias عورت اور مرد دونوں کی جنسی خصوصیات کا حامل Thebes میں رہنے والا  یونانی دیو مالا کا gyno-andromorphical    یا  hermaphrodite    نا بینا کردار، جس کا ذکر یونانی کلاسیکی ادب کے علاوہ ٹی ایس ایلیٹ کی شہرہ آفاق نظم The Waste Land میں ملتا ہے۔

 

 

ماریشیس کے ساحل پر

 

Absurd Poetry یعنی لایعنیت کی شاعری کا ایک نمونہ

___________________________________________

(۱)

ایک لڑکا سر کے بل ایسے کھڑا ہے

نرم گیلی ریت پر

جیسے اسے آکاش کی اونچائی  میں پانی

سمندر کی اتھاہ گہرائی میں آکاش

ساحل پر جمے لوگوں کے جمگھٹ ،سب کو الٹا دیکھنا ہے

آتے جاتے لوگ اس کے سامنے چادر پہ سِّکے پھینکتے ہیں

تو وہ ہلتا بھی نہیں ہے۔۔۔۔ہاں، اگر اک نوٹ کوئی پھینک دے، تو

یک بیک سرعت سے اس پر کنکری رکھتا ہے تا کہ نوٹ چادر پر رہے

اٹھکھیلیاں کرتی ہوا میں اڑ نہ جائے

صرف میں ہی دیکھتا ہوں

نوٹ تک آنے میں اس کو وقت لگتا ہے کہ اس کے

دونوں پاؤں ہی نہیں ہیں!

(۲)

ایک چوزہ، سر کٹا ، جو

نزع کے عالم میں گیلی ریت پر

اپنے تڑپنے کا فقط خود ہی تماشائی بنا ہے

(وقت ضائع کر رہا ہے)

پاس انگیٹھی میں جلتی آگ پر کالی سلاخوں میں پروئے

’’سیخ مرغابے‘‘  ہیں،جن کو دیکھ کر میرا تو جی متلا گیا ہے۔

گوشت کے قتلوں کا بیوپاری

کٹے سر کا گلابی پھول ہاتھوں میں لیے

اب بے حس و بے جان چوزہ بھی اٹھا لیتا ہے

۔۔۔بگھّی کے ادھر آنے سے پہلے۔

(۳)

(الف)۔۔کالی بگھّی، ان سیاحوں کی سواری

ریت پر چلنا جنہیں دشوار لگتا ہے، کہ وہ تو

ہوٹلوں میں قیمتی قالین پر چلنے کے عادی ہو چکے ہیں۔

(ب)۔۔ناریل آدھا

شکستہ، راستے میں

ریت پر لیٹا ہوا بے جان سورج

گہن کا کھایا ہوا سا

مجھ کو ایسے دیکھتا ہے ، جیسے میں ہی

راہُو  یا کیتُو  ہوں، اس کا نصف حصہ کھا گیا ہوں۔

(ج)۔۔شام اب ڈھلنے کو ہے ۔۔۔۔ جاؤں کہاں؟

سب لوگ تو اب ہوٹلوں، اپنے گھروں کو چل چکے ہیں

اور میرے پاس؟ اب شاید یہی اک راستہ ہے

لوٹ جاؤں۔

(۴)

میں اکیلا چل رہا ہوں

’’بیوٹی فل ہے اور’’ ینگ‘‘ بھی ہے ، بہت ہی ’’کھوب سورت‘‘

دل کو بہلائیں گے، صاحب؟صرف دس ڈالر میں!‘‘

دو قدم آگے کو چل چکتا ہوں

تو مجھ پر یہ کھلتا ہے کہ وہ تو ’’پِمپ‘‘ ہے، جسموں کا بیوپاری

مجھے گاہک سمجھتا تھا، حرامی!

(۴)

لوٹ چلتا ہوں

کنارے پر بنے اک پھوس کے چھپر میں شاید

چائے خانہ یا کوئی ڈھابہ ہے

اک کپ چائے پی لوں؟

پھوس کے چھپّر کے باہر ایک بڑھیا

ادھ مری کتیا سی، اپنی ٹانگ کھجلاتی ہوئی بیٹھی ہے

اس کی آنکھ چھپّر میں لٹکتے

ایک کیلینڈر کے کاغذ میں مقید

اس جواں عورت کے پستانوں پہ ہے جو ہنس رہی ہے۔

پھوس کے چھپّر کے اندر اک قدم رکھتا ہوں

پچھواڑے کے حصے سے کوئی کہتا ہے

’’آ جاؤ!‘‘

دھندلکے میں مجھے لگتا ہے، دنیا سو نہیں سکتی

کہ آنکھیں تو کھلی ہیں

اور ڈھیلی چارپائی پر سجی سنوری وہی عورت ہے

جو کیلینڈر کے کاغذ میں مقید ہنس رہی تھی!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے