ع۔ عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تو مگر کہاں
قاضی عبد الستار صاحب کی مراجعت جہان دگر صرف ایک قد آور ادیب وو قلم کار کی رحلت نہیں، بلکہ ایک عہد کا اختتام ہے، ایک دور کا انجام بے خیر ہے اور ایک مخصوص و منفرد نثری اسلوب کی وفات حسرت آیات ہے۔ اس عہد کا آخری عظیم نثر نگار رخصت ہو گیا۔ اب خلاء ہی خلاء ہے، تاریکی ہی تاریکی ہے۔ انتظار حسین کی رحلت پر قاضی صاحب نے فرمایا تھا، ’’آخری افسانہ نگار چلا گیا، اب پریم چند، منٹو اور قرأۃ العین تو کیا کوئی عبد اللہ حسین بھی پیدا نہیں ہو گا‘‘۔ ان کی بات صد فی صف درست تھی اور اب تازہ حقیقت تلخ یہ ہے کہ انتظار حسین کے بعد تو قاضی صاحب کا دم غنیمت تھا، مگر اب کسی قاضی عبد الستار کے منصۂ شہود پر آنے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔
قاضی صاحب صرف ادیب نہیں تھے، وہ ادیب ساز تھے، ادیب گر تھے، انہوں نے افسانہ نگاروں کی ایک پوری نسل کی ذہنی و قلمی تربیت کی، جس کا ثبوت یہ ہے کہ آج کے اکثر لائق تذکرہ افسانہ نگار، ان کے شاگرد ہیں۔ یہ ایک مثال نادر تھی اور غالباً اردو ادب کی تاریخ میں پہلی بار کہ کسی نثار کے باضابطہ تلامذہ جمع تھے، استاد نے نہ صرف ان کی راہ نمائی کی، بلکہ اصلاح بھی کی۔ پریم چند سے لے کر کرشن، بیدی، عصمت، قاسمی اور منٹو تک اور اس کے بعد قراۃ العین حیدر تک کسی نامور ادیب کے کسی باقاعدہ شاگرد کا واضح سراغ نہیں ملتا۔ یہ افتخار صرف اور صرف قاضی عبد الستار کو ہی حاصل ہوا کہ آج ان کے تلامذہ کی ایک مجسم کہکشاں منور ہے۔ بمقابلہ اردو شاعری، جہاں تلمّذ کی مثال ہر دور میں رہی ہے، نثری تلامذہ کی مثال صرف اور صرف قاضی عبد الستار کے شاگردوں کی شکل میں نظر آتی ہے۔
مضمون ہذا خالصتاً تاثراتی نگارش ہے۔ تنقیدی ہرگز نہیں، اس لئے کہ ابھی بے تکلّف تنقید کا وقت نہیں، کہ اس کے لئے فصل درکار ہے۔ تاہم اقتضائے بیان کے تحت قاضی عبد الستار صاحب کی چند نمائندہ تخلیقات کا اجمالی، تعارفی تذکرہ بھی شامل تسطیر کیا جا رہا ہے۔
قاضی عبد الستار صاحب نے بہت زیادہ نہیں لکھا، گو بہت کم بھی نہیں لکھا۔ ان کے ناول اور ناولچے کوئی درجن بھر ہوں گے اور افسانے چند درجن، سوسے بھی کم۔ یہاں ان کی تمام تخلیقات کی فہرست سازی مطلوب نہیں، کہ یہ کام تذکرہ نگاروں اور ادبی مورخین کا ہے۔ سر دست صرف چند نمایاں تخلیقات کا ذکر ہی با محل ہے۔
راقم ترقیم کی ذاتی رائے میں ان کا بہترین ناول ’شب گزیدہ‘ ہے جو جاگیرداری کے آخری دور کی سبق آموزد استان الم ہے، جس میں عہد زمینداری، نیز زمیندارانہ معاشرے کا ایسا زندہ و تابندہ خاکہ پیش کیا گیا ہے، جس کی مثال نہیں ملتی، تبھی تو قرأۃ العین حیدر جیسی مشکل پسند وانا پرست عظیم ادیبہ یہ کہنے پر مجبور ہوئیں کہ ’شب گزیدہ‘ سے بہتر کہانی صرف قاضی عبد الستار ہی لکھ سکتے ہیں‘۔ قاضی صاحب کا ناولچہ ’غبار شب‘ اپنی جگہ بے مثل ہے۔ اس میں آمادۂ رخصت زمینداری، مسلم اقتدار کے زوال اور شکست و ریخت سے دوچار ایک ایسے معاشرے کی داستان ہے، جو عبرت انگیز بھی ہے، استعجاب خیز بھی اور خیرہ چشم بھی۔ ’غبار شب‘ جیسا دھما کہ خیز انجام شاید کم قصّوں کو نصیب ہوا ہو گا۔
ان کا ایک ضخیم ناول ’تاجم سلطان‘ اپنے خواب ناک ماحول، بے مثل تخلیقی نثر نگاری اور ایک المناک انجام کے لئے لا مثال ہے۔ اگرچہ اس کی طوالت بے جواز محسوس ہوتی ہے اور اسی بنا پر ایک طاقت ور ناول آخر میں اپنا اثر کھونے لگتا ہے، تاہم ہنر مند مصنف نے ایک متوقع مگر تہلکہ خیز انجام سے اسے ایک یادگار تخلیق بنا دیا ہے۔ ان کے دیگر ناولوں میں ان کی تخلیق اوّل ’پہلا اور آخری خط‘ اپنی جگہ اہم ہے۔ البتہ راقم کی نظر میں ’حضرت جان‘ ان کا سب سے کمزور ناول ہے، نیز اس کی حیثیت علوی نہیں۔
ادبی تاریخ نگاری قاضی عبد الستار کا وصف خاص تھی۔ بلکہ عوامی تاریخی ناول نگاروں کے بر عکس انہوں نے بدرجہ کمال تاریخ کو ادب کا حصہ بنایا۔ اگر چہ ان سے قبل بھی کئی عمدہ تاریخی ناول تصنیف ہوئے، تاہم مسلسل کئی عدد تاریخی ناول صرف قاضی صاحب نے ہی لکھے۔ جن میں ’دارا شکوہ‘، صلاح الدین ایوبی اور خالد بن ولید شامل ہیں۔ غالبؔ قاضی صاحب کا ایک شاہکار، عمدہ ناول ہے، جسے نیم تاریخی اور نیم داستانوی قرار دیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، قاضی صاحب کے افسانے بہت کم تعداد میں ہیں، اگرچہ زیادہ تر افسانوں کا پس منظر اودھ کے دیہات ہیں اور ان کا موضوع بھی زوال آمادہ، بلکہ زوال شدہ زمینداری ہی ہے۔ تاہم ان کے بیشتر افسانوں میں دیہات کی دگرگوں صورتحال کے علاوہ ایک بڑی سماجی تبدیلی کی آہٹ، بلکہ خبر ملتی ہے۔ ان کا شاہکار افسانہ ’پیتل کا گھنٹہ‘ ہے، جو بیک وقت ایک مٹتے ہوئے معاشرے کا نوحہ بھی ہے اور ایک بڑی سماجی تبدیلی کا نقیب بھی۔ تفصیل کا محل نہیں، ورنہ صرف اس ایک افسانے پر ایک طول طویل مضمون رقم کیا جا سکتا ہے۔ ان کا دوسرا رومانی و المیاتی افسانہ ’رضو باجی‘ ہے، جو موثر بیانیے، نیز مستحکم کردار نگاری کی ایک زبردست مثال ہے۔
خیال عام کے بر عکس قاضی صاحب کے یہاں محض زمیندارانہ پس منظر ہی نہیں، بلکہ غریب و کمزور دیہی معاشرہ بھی ہے۔ یہاں قاضی صاحب، پریم چند سے یوں مختلف نظر آتے ہیں کہ قاضی صاحب کے یہاں اگر ایک طرف ظلم و استحصال ہے تو دوسری طرف احتجاج، بغاوت، ایک عہد نو کی خبر اور ایک جہد نو کی تصویر بھی، ان کے یہاں دیہی معاشرہ کڑے تیوروں کے ساتھ ایک آنے والے انقلاب کی نوید بھی سناتا ہے۔ یہی قاضی صاحب کی انفرادیت ہے۔
اس مختصر جائزے میں قاضی صاحب کے تمام افسانوں کا تجزیہ ممکن نہیں، لہٰذا ضرورت نگارش کے تحت محض چند اشارے کئے گئے ہیں۔
نظریہ عام یہ ہے کہ قاضی عبد الستار نے صرف دیہی پس منظر کو ہی موضوع قلم بنایا ہے، لیکن یہ حقیقت نہیں۔ ان کے شہری پس منظر کے چند افسانے بھی اتنے ہی موثر ہیں، جن میں بالخصوص ’ماڈل ٹاؤن‘ لایق ذکر ہے، کہ ان کے عام رویّے کے برعکس جدید شہری زندگی کا مرقع پیش کرتا ہے، اور جدید معاشرے کے نئے مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔
قاضی صاحب کا ایک اور امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے تاریخی افسانے بھی رقم کئے ہیں، اور وہ بھی تمام تر ادبی معیار ات کے مطابق، نیز تاریخی استناد کی شرط کے ہم رشتہ۔ ان کے نمائندہ تاریخی افسانے، ’نیا قانون‘ اور ’لہو کا عطر‘ ہیں۔ ’چنگیز خاں کی موت‘ بھی ایک طاقت ور افسانہ ہے، مگر اس میں ایک واقعاتی غلطی در آئی ہے، جس سے اس نگارش تاریخی کی سند مجروح ہوتی ہے۔ مزید تفصیل کا نہ محل ہے، نہ تنگی قرطاس اس کی اجازت بخشتی ہے ورنہ، ع۔ سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لئے۔
خلاصہ کلام کے طور پر راقم یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ قاضی عبد الستار اگر صرف ’دارا شکوہ‘ اور ’شب گزیدہ‘، یہی دو ناول اور محض دو افسانے، ’پیتل کا گھنٹہ‘ اور ’رضو باجی‘ لکھ کر قلم رکھ دیتے، تب بھی اتنے ہی عظیم ادیب ہوتے۔ کیونکہ یہ چاروں تخلیقات ان کے شاہکار ہیں، نیز اردو ادب کے نئے کلاسیک کا درجہ رکھتی ہیں۔ علاوہ ازیں قاضی عبد الستار کا بے مثل اسلوب اور ان کی شگفتہ و شائستہ نثر ان کے ہمیشہ زندہ رہنے کی ضمانت ہے۔
٭٭
قاضی عبد الستار صاحب کی زندگی مرزا غالبؔ کے اس شعر سے عبارت تھی ؎
حسد سزائے کمال سخن ہے، کیا کیجے
ستم بہائے متاعِ ہنر ہے، کیا کیجے
وہ تا حیات اپنے کمال فن و تخلیقیت بے مثل کے عوض حاسدین و معترضین کا شکار رہے اور انہیں ان کی ادبی مہارت تامہ کی سزا مسلسل ملتی رہی۔ ہمارے ادب عالیہ کے لئے اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے۔ نیز ہمارے ادبی معاشرے کی اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ ایک جائز و فائز ادیب کی منصفانہ قدر افزائی نہ کر سکا۔
ہم قاضی صاحب کے شاگرد رشید نہ سہی، مگر شاگرد عزیز ضرور تھے، نیز، اوّل و سابق کے درجے میں۔ دوران قیام علی گڑھ قاضی صاحب سے ملاقاتیں آئے دن ہوتی تھیں، بلکہ روز ہوتی تھیں۔ مگر ایک مرتبہ، شاید چند ہفتے گزر گئے اور ہم قاضی صاحب کے درِ دولت پر نہ جا سکے، کچھ تو جھجک اور کم ہمتی اور کچھ دیگر نامعقول اشغال۔ اس وقت تک ہمیں کئی ادبی مقابلوں میں انعامات مل چکے تھے، مگر افسانہ نہیں پڑھا تھا، نہ کسی نے پڑھوایا تھا۔ ہمیں علم ہوا کہ دو دن بعد، دانش گاہ کی انجمن ادب( یونیورسٹی لٹریری کلب) میں ’ شامِ افسانہ‘ ہے جس میں انعام بھی ملے گا۔ بس ایک دن گزرا کہ ہم نے اپنے تین عدد افسانے بغل میں دابے اور ایک ادب دوست کی رفاقت میں، قاضی صاحب کے دروازے پر دستک دے دی۔ اگلے دن شامِ افسانہ منعقد ہونے والی تھی۔ قاضی صاحب اپنی روایتی شان سے برآمد ہوئے، بڑی شفقت سے ملے، حسب معمول پُرتکلف چائے پلائی۔ قصہ مختصر، ہم نے انھیں اپنے دو افسانے سنائے، بغیر کسی درمیانی وقفے کے۔ وہ خاموش رہے، پھر ہم نے اپنا تیسرا افسانہ سنایا، جس کا عنوان تھا ’پاگل‘۔ ہم نے جب افسانے کی آخری سطریں پڑھیں، جو اس کا نقطۂ عروج بھی تھیں، تب قاضی صاحب نے اپنی مخصوص طویل ’ہونہہ‘ بھری اور گویا ہوئے: ۔ ’’ہاں، یہ ہے، اسی کو پڑھیے اور ضرور پڑھیے‘‘۔ ہم ان کا مدعا سمجھ گئے، ہم نے طے کر لیا کہ باقی دو افسانے ہم تلف کر دیں گے۔ اس کے بعد ہم نے کوئی درجن بھر افسانے لکھے، جو سب ہندوستان اور پاکستان کے معتبر رسائل میں شائع ہوئے، اردو میں بھی اور ہندی میں بھی، ریڈیو سے نشر بھی ہوئے۔ ماہنامہ ’آجکل‘ کے ذریعہ منعقدہ کل ہند مقابلے میں ہمارے ایک افسانے کو پہلا انعام بھی ملا۔ لیکن اس تفصیل کا محل یہاں نہیں، قاضی صاحب کی آڑ میں اپنی جھوٹی سچی تعریف کرنا ہمیں مطلوب نہیں، یہ صرف چند اذکار تھے، بطور تسلسل۔
قاضی صاحب نے ہماری فتح یابی پر شاباشی دی اور مزید ہمت افزائی کی۔ تب تک ہم دل ہی دل میں قاضی صاحب کو اپنا استاد تسلیم کر چکے تھے اور اپنی ہر تحریر انھیں دکھانے اور سنانے لگے تھے، ان کی سمع خراشی ہو تو ہو، ہمیں اپنی خود غرضی کے چلتے اس کی پروا نہ تھی۔ (قاضی صاحب کی سپرستی میں ان گنت ادبی کامیابیاں نصیب ہوئیں، جن کی تفصیل سے سردست گریز ہی مناسب ہے)۔ اب ہماری ہمت دراز ہو چکی تھی، ہم اکیلے کے ساتھ لوگ آ گئے تھے اور کارواں بننے لگا تھا۔ پیغام آفاقی، سیّد محمد اشرف، طارق چھتاری، ابن کنول، غیاث الرحمن، غضنفر، صغیر افراہیم اور مصاعد قدوائی جیسے ہونہار افسانہ نگار اپنا ادبی سفر شروع کر چکے تھے۔ یہ سب قاضی صاحب کے شاگرد تھے، ہمارے ہم سفر تھے، رفیق جد و جہد تھے، سب کے ساتھ احبابی رشتہ آج بھی استوار ہے۔ قاضی صاحب کی سربراہی میں ہمارا ادبی قافلہ رواں دواں تھا۔ ہم میں سے کئی نوجوان، دانشگاہی سطح پر مختلف ادبی انجمنوں کے منصب دار تھے، اس لیے کوئی ادبی جلسہ کرنا اب ہمارے بائیں ہاتھ کی ایک انگلی کا کھیل تھا اور پھر ہماری اپنی ادبی انجمن بھی تھی، جس کے جلسے اکثر و بیشتر اور کبھی کبھی آئے دن بھی ہوتے تھے۔ ہماری ان چھوٹی چھوٹی محفلوں میں بڑے بڑے لوگ آتے تھے، جن میں عصمت چغتائی کے علاوہ خواجہ احمد عباس، حضرت آوارہ، صالحہ عابد حسین، عابد سہیل، سردار جعفری، اختر الایمان، زبیر رضوی، پروفیسر محمد حسن، قمر رئیس اور اصغر وجاہت جیسی ہستیاں شامل تھیں۔ مقامی اکابر میں معین احسن جذبیؔ، بشیر بدرؔ، شہریار، جاوید کمال، رویندر بھرمر، کے۔ پی۔ سنگھ، اصغر عبّاس اور زیدی جعفر رضا وغیرہ ہمارے سرپرست تھے۔ ہمارے دوست افسانہ نگاروں کے علاوہ پڑھے لکھے نوجوانوں کا ایک لشکر تھا، جو ہماری محفلوں کی رونق بھی تھا، ہماری ادبی معرکہ آرائیوں میں شریک بھی اور ہر موقعے پر ہمارے دفاع میں سینہ سپر بھی۔ ان میں جاوید حبیب، اختر الواسع، سیّد محمد امین، وامق فیضان الرحمن، عبدالرحیم قدوائی، اسعد بدایونی، مکتوب الرحمن قاسمی، اور محمد احمد شیون، شامل تھے، یہ صرف چند نام ہیں جو یاد آ رہے ہیں، ان میں سے کچھ شاعر بنے، کچھ نقاد، کچھ صحافی، کچھ استاد اور کچھ اعلیٰ افسر۔
یادش بخیر، علی گڑھ کے دن بھی کیا دن تھے دور دانشگاہ ہی میں ہماری ادبی ہنگامہ آرائیوں کا نقطۂ عروج ایک دو روزہ کل ہند محاضرہ تھا، جس کا عنوان تھا، ’’اردو کہانی کے بیس برس‘‘، تیسرے دن محفل افسانہ تھی۔ یہ نام کا نہیں بلکہ کام کا کل ہند اجلاس تھا، کیونکہ اس میں علی گڑھ کے علاوہ مرکز میں دہلی سے لے کر مشرق میں لکھنؤ و پٹنہ، وسط میں بھوپال اور دکن میں حیدرآباد تک سے ممتاز ادباء تشریف لائے تھے اور شریک ہوئے تھے۔ مذاکرہ کا افتتاح پروفیسر محمد حسن نے کیا تھا۔ مختلف جلسہ ہائے موقر کی صدارت، اقبال متین، عابد سہیل، غیاث احمد گدی اور قمر رئیس نے فرمائی تھی۔ اس کے ممتاز شرکا میں انور عظیم، اقبال مجید، بلراج مینرا، عقیل رضوی اور علی احمد فاطمی وغیرہم کے علاوہ مقامی سطح پر نمتا سنگھ، نجمہ شہریار، م۔ ندیم، اظہار الحسن اور احمد رشید نے بحیثیت افسانہ نگار شرکت کی تھی۔ اس تاریخی واردات ادب کے سرپرست قاضی صاحب ہی تھے، ان ہی کے نام پر بڑے بڑے ادیب جمع ہوئے تھے، لیکن ان کی نوازش اور محبت کہ انھوں نے مہتمم، ہمیں مقرر کیا تھا۔ اس مذاکرے کی انفرادیت یہ تھی کہ اسے ہم چند قلندروں نے اپنے بل بوتے پر منعقد کیا تھا۔ اس کی پشت پر کوئی ادارہ نہ تھا بلکہ کئی ادارے اور با اثر حضرات، اجتماعی طور پر اس کو ناکام کرنے کے لیے شب و روز سرگرداں تھے۔ بہرحال مذاکرہ ہوا اور خوب ہوا۔ یہ سمینار علی گڑھ کی ادبی تاریخ میں آج بھی یادگار ہے کیونکہ یہ عوامی پروگرام تھا، سرکاری نہیں۔ علی گڑھ میں ہم نے اتنی ادبی محفلیں منعقد کیں کہ انھیں بے شمار ہی کہا جائے گا۔ بڑے بڑے قد آور ادیب و شاعر شریک ہوئے، بیرونی بھی اور مقامی بھی، اور مقامی بھی وہ جن کا ایک مقام تھا۔ قاضی صاحب ہر موقعے پر، ہر مرحلے پر ہمارے راہنما تھے۔ رہبر بھی اور رفیق اکبر بھی۔
علی گڑھ میں بھی اور علی گڑھ سے باہر بھی، متعدد ادبی مجالس میں ہمیں قاضی صاحب کے ہمرکاب ہونے کا شرف حاصل رہا۔ بھوپال میں آل انڈیا ریڈیو کی شامِ افسانہ ہو یا مدھیہ پردیش ساہتیہ اکادمی کا مذاکرہ، جس میں قاضی صاحب نے ’وقت‘ کے موضوع پر بے مثل تقریر کی تھی۔ اس جلسے میں ہندی کے مشہور ادیب اشوک باجپیئی سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ یاد آتا ہے کہ اس یادگار بزم میں کوثر چاند پوری اور قمر احسن بھی تھے۔ لکھنؤ میں ترقی پسند ادب پر مذاکرہ تھا، ہم نے نئے افسانے پر مضمون پڑھا، میر محفل سردار جعفری تھے، مہمانِ خصوصی حسن کمال۔ مختلف جلسوں کی صدارت، پروفیسر محمد حسن، قمر رئیس اور قاضی عبد الستار نے کی۔ اس کے علاوہ، وہاب اشرفی، اظہار اثر، عتیق اللہ اور کوئی درجن بھر قلم کار شریک تھے۔ ہمارے تیکھے مضمون کو اکابر و اصاغر، سب نے انگیز کیا اور ہم نے اسے اپنی سرفرازی پر محمول کر لیا۔
اسی طرح الٰہ آباد میں ایک سمینار میں ہم نے قاضی صاحب کی معیت میں شرکت کی۔ ہم نے اقبالؔ پر ایک مقالہ پڑھا، جس پر قمر رئیس نے بڑا یادگار جملہ ارشاد کیا، انھوں نے فرمایا، ’’ اس مضمون کے بعد میرے مضمون کی ضرورت باقی نہیں رہتی، کیونکہ میرے مضمون کے بیشتر نکات ان کے مضمون میں آ چکے ہیں، تاہم، میں نے مضمون لکھا ہے اس لیے پڑھوں گا۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ قمر رئیس کی عظمت تھی، ورنہ کوئی اور ہوتا تو اس سے یہ جملہ ہرگز ہرگز سرزد نہ ہوتا، سچ ہوتا تب بھی نہیں۔ خیر ہم نے ان کی بات کو پورا سچ تو نہیں مانا کہ اس میں کچھ محبت اور شفقت بھی یقیناً شامل تھی۔ بہرحال وہ لمحہ ہمارے لیے یادگار تھا۔ جلسے کے بعد عابد سہیل اور عقیل رضوی نے بھی ہماری پیٹھ ٹھوکی، اس جلسے میں قاضی صاحب نے ادب و شاعری کے تاریخی تناظر اور بالخصوص اقبالؔ کے حوالے سے ایک شعلہ بار، مگر فکر انگیز تقریر کی، غالباً خطبۂ صدارت تھا، جس پر عش عش تو سب نے کیا، لیکن وہاں موجود مولانا شاہد فاخری کے پسر ناصر فاخری تو جیسے قاضی صاحب کے دیوانے ہو گئے، اس کے بعد قاضی صاحب کے طفیل، اگلے کئی دن تک ہم سب کی آؤ بھگت ہوتی رہی۔ ہمارے دوست علی احمد فاطمی، اس سمینار کے منصرم تھے۔ ایک مرتبہ فاطمی نے الٰہ آباد میں افسانے پر ایک زبردست مذاکرہ اور محفلِ افسانہ منعقد کی، جس کے مہمانِ خصوصی انتظار حسین تھے، پروفیسر محمد حسن اور کلام حیدری بھی تشریف لائے تھے۔ اس محفل میں ہمارے ہمراہ علی گڑھ سے سیّد محمد اشرف اور طارق چھتاری گئے تھے اس کے علاوہ سلام بن رزاق، انور قمر اور عبد الصمد سمیت کئی اور افسانہ نگار تھے جن میں زیادہ تر نوجوان تھے۔ قاضی صاحب کا افسانہ تو حاصلِ محفل تھا ہی، اشرف اور طارق کے افسانے بہت خوب تھے، ہم نے بھی ایک افسانہ پڑھا اور اگلے دن ایک مختصر کہانی، زبانی سنائی جس کی تعریف احمد ہمیش جیسے جدیدیت پسند نے، بے اختیار کی۔ اسی اجلاس میں بلونت سنگھ، اُپندر ناتھ اشک اور پریم چند کے فرزند امرت رائے سے ملاقاتیں ہوئیں۔ الٰہ آباد میں ایک پروگرام افسانے کا اور بھی ہوا تھا۔ جس کی تفصیل اب یاد نہیں۔
علی گڑھ کی ادبی محفلوں کے ذیل میں ایک واقعہ اور، شیخ الجامعہ علی محمد خسرو صاحب کی شریکِ حیات طیبہ خسرو بڑی ادب نواز تھیں، وہ خود بھی کہانیاں لکھتی تھیں، ہم پر مہربان تھیں اور قاضی صاحب کی زبردست مداح۔ وہ ہماری دلداری اور ہمت افزائی کے لیے ہماری چھوٹی چھوٹی محفلوں میں رونق افروز ہوا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنی رہائش گاہ، یعنی قصر شیخ الجامعہ میں ایک شعری نشست منعقد کی، جس میں اس عہد کے تمام مقامی اکابرین، بشمول جذبیؔ شریک تھے۔ ہرچند کہ موقع نہیں تھا، مگر وہ مصر ہوئیں کہ قاضی صاحب افسانہ سنائیں۔ قاضی صاحب افسانہ لائے ہی نہیں تھے، اس دلیل کو ناکام کرنے کے لیے طیبہ خسرو نے قاضی صاحب کا ایک ناول انھیں پیش کر دیا، جس کے چند صفحات انھیں سناتے ہی بنی۔ طیبہ آپا نے ہماری بڑی سرپرستی کی، ان کی کرم فرمائیاں، ہمیں اب بھی یاد ہیں۔ ہم خسرو صاحب کے دربار میں تو وقت ناوقت باریاب تھے ہی، مگر طیبہ آپا کی عنایات خسروانہ، جناب خسرو کے حساب میں نہ تھیں، وہ سیاسی معاملات تھے اور یہ خالصتاً ادبی۔
ایک بار ہم نے ایک کارستانی اور کی۔ علی گڑھ شہر میں ایک عوامی مشاعرہ تھا، اس مشاعرے کے روح رواں ہمارے دوست، مشہور صحافی محمد احمد شیونؔ تھے لہٰذا اس کی نظامت ہماری جھولی میں آ گری، ہم نے قاضی صاحب سے صدارت کی استدعا کی۔ شاعری سے تمام تر انغباض کے باوجود، ہماری دلجوئی کی خاطر وہ آمادہ ہو گئے۔ کیفؔ بھوپالی میرِ محفل تھے، وہی مشاعرے پر چھائے رہے۔ ہم نے ایک جسارت اور کی، ہم نے قاضی صاحب سے درخواست کر ڈالی کہ وہ اپنے متروک کلام میں سے چند شعر ہی سنادیں، انھوں نے بہ کمالِ شفقت ہماری یہ خواہشِ بے جا تو مسترد کر دی، البتہ ان کی صدارتی تقریر ہمیشہ کی طرح زوردار تھی اور ایسی عام فہم کہ عوام الناس نے تا دیر تالیاں بجائیں۔
اپنے احباب دیرینہ میں قاضی صاحب سب سے زیادہ ذکر اپنے قریب ترین دوست، کنور پال سنگھ (کے۔ پی سنگھ) کا کرتے تھے، جن کے بارے میں ان کا یہ جملہ مشہور تھا کہ ’’میری نظر میں علی گڑھ کا سب سے خوبصورت آدمی کے۔ پی سنگھ ہے‘‘، باور ہو کہ موصوف، سر تا پا سیاہ فام تھے، مگر قاضی صاحب کی نظر میں گل فام۔
جہاں تک خردوں کا سوال ہے، تو ان کے تئیں قاضی صاحب کی محبت و شفقت اور ان کا لحاظ، کہیں بخل کا شکار نظر نہیں آتا تھا، وہ آخر تک اپنے شاگرد انوار علیگی اور تنویر نیرّ کو بے اختیار یاد کرتے تھے اور دوسروں کا ذکر بھی، جب محل ہو، کمال فیاضی سے کرتے تھے۔ راقم الحروف کو معتبر ذرائع سے یہ اطلاعات ملتی رہتی تھیں کہ قاضی صاحب اس ناچیز کا ذکر بھی بڑی محبت سے کرتے تھے اور اکثر کرتے تھے، ہم بھی ان کی ہر ممکنہ خدمت کو اپنا فرض اور قرض استادی خیال کرتے تھے۔ یوں تو قاضی صاحب بڑے نازک مزاج اور بڑے ٹھسّے والی ہستی تھے، لیکن خیال خاطر احباب کے تحت اکثر وہ اپنے مزاج اور معیار سے سمجھوتہ بھی کر لیتے تھے، اس ضمن میں ہمارے تجربات ان گنت ہیں۔
یہاں ایک الزام عاید ہو سکتا ہے کہ قاضی مرحوم کی آڑ میں ہم اپنی داستان سنارہے ہیں، لیکن یقین جانئے کہ مانگے کے اجالے سے اپنا چہرہ روشن کرنے کی ہماری کوئی نیت نہیں۔ در اصل گذشتہ پچاس برس کے عرصے میں ہم قاضی صاحب کی داستان کے ایک کردار سرگرم رہے ہیں، اور ہماری کہانی بھی اگر کبھی کہی جائے گی تو قاضی صاحب اس میں سب سے بلند قد اور حاوی کردار ہوں گے۔ افسوس یہ ہے کہ مرحوم اپنے شاگردوں کا ایک تذکرہ لکھ رہے تھے، مگر ان کی نا گہانی موت کے سبب وہ نا تمام یا شاید بے آغاز ہی رہ گیا، ورنہ کئی پوشیدہ باب وا ہوتے۔ کتنوں کی رونمائی اور کتنوں کی بے نقابی ہوتی۔
شاید کم لوگوں کو علم ہو گا، کہ بظاہر تیز و تند و سخت گیر نظر آنے والے قاضی صاحب خاصے بذلہ سنج تھے۔ جملے بازی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ معاملہ دو آتشہ تھا۔ لکھنؤ کی دلنشیں زبان اور علی گڑھ کی رعایتِ لفظی، دونوں کی آمیزش جو تھی ان کے یہاں۔ ان کی خوش مذاقی اور لطف گوئی کی مثالیں چند نہیں، بہت ہیں، مگر سر دست صرف ایک حوالہ۔ شعبۂ اردو میں ایک استاد تھے نادر علی خاں، غالباً مولوی تو نہیں تھے مگر زبردست قسم کے با شرع تھے، قد آور، لحیم، شحیم اور باریش، انھیں دیکھ کر لگتا کہ اصلی پٹھان ایسے ہی ہوتے ہوں گے، گو کہ وہ نسلاً راج پوت تھے۔ بڑے کلّے ٹھلّے کے آدمی تھے، با شرع ہونے کے سبب ان کا لباس تھا، شیروانی، اس کے نیچے لمبا کرتا اور ٹخنوں سے اونچا پاجامہ، جس کی وجہ سے ان کے پاجامے کا صرف چند انگشت حصہ ہی نظر آتا تھا۔ لکھنؤ میں قاضی صاحب کے ہم سبق رہ چکے تھے، اور شاید باہم بے تکلفی بھی تھی۔ ایک دن قاضی صاحب نے انھیں روکا، سلام عرض کیا، پھر مخاطب ہوئے، ’’مولانا، ایک بات دریافت کرنا تھی‘‘۔ ’’جی فرمائیے‘‘۔ نادر صاحب کی آواز بڑی گونج دار تھی۔ قاضی صاحب پھر گویا ہوئے، ’’اسراف کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے‘‘۔ نادر صاحب نے فرمایا، ’’ممنوع ہے، اس کے لئے سخت وعید آئی ہے، شریعت ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتی‘‘۔ بس اتنا سننا تھا کہ قاضی صاحب کو موقع مل گیا، انھوں نے فرمایا، ’’پھر آپ کے لیے میرا ایک مشورہ ہے‘‘۔ ’’جی فرمائیے‘‘۔ نادر صاحب نے اپنی گرجدار آواز میں کہا ’’آپ پاجامہ ترک کر دیں اور کرتا تھوڑا سا اور نیچا کرا لیں، ویسے بھی آپ موزے تو پہنتے ہی ہیں۔ اس طرح آپ کے وسیع و عریض پاجامے پر جو کپڑا صرف ہوتا ہے، وہ بچے گا تو کسی مستحق کے کام آئے گا اور آپ اسراف سے محفوظ ہوں گے‘‘۔ نادر صاحب کو شاید قاضی صاحب سے یہ توقع نہ تھی۔ ’’لاحول ولا قوۃ‘‘، انھوں نے جزبز ہو کر کہا، ’’قاضی صاحب! آپ ایک ثقہ اور نستعلیق آدمی ہیں، آپ سے ہمیں ایسے مذاق کی قطعاً امید نہ تھی‘‘۔ ’’مذاق نہیں حضرت، میں نے تو ایک شرعی مسئلہ بیان کیا تھا‘‘۔ اتنا کہہ کر قاضی صاحب نے اپنی راہ لی اور ردِّ عمل کے لیے نادر صاحب وہیں ایستادہ رہ گئے۔
ہمارے زمانے کے علی گڑھ میں نوابی دور اور جاگیردارانہ عہد کی یادگار چند حضرات تھے، یا کم از کم جن کے پس منظر سے ہم واقف تھے۔ اوّل، قاضی صاحب جو اودھ کے ایک مشہور و موقر زمیندار گھرانے کے چشم و چراغ تھے، ان کے علاوہ وارث کرمانی جو فارسی کے استاد اور اردو کے شاعر تھے اور کوکب قدر، جو نواب واجد علی شاہ کی براہِ راست اولاد میں تھے، لیکن بہت سادہ بلکہ سادہ لوح۔ وارث صاحب کے اندر بھی کبھی کوئی کّر و فر اور کوئی جاگیردارانہ شان لوگوں کو نظر نہیں آتی تھی۔ ویسے چودھری نعیم بھی تھے، مگر وہ امریکہ رسید ہو چکے تھے، اس کے علاوہ کنور اخلاق محمد خاں شہر یار تھے، جو ماضی کے کسی راج گھرانے کے سپوت تھے۔ اور بھی کچھ حضرات ہوں گے، جن سے ہم واقف نہ تھے۔ اس ذکر کا مدعا یہ ہے کہ ہمیں تو زمینداری، جاگیرداری کا نمونہ اور اشرافی اقدار کے پیکر قاضی صاحب ہی نظر آتے تھے، اپنی ہر آن، ہر شان میں، جیسے نوابوں کے نواب۔
قاضی صاحب کے ساتھ کئی ادبی نا انصافیاں ہوئیں۔ گو کہ انھیں گیان پیٹھ کے علاوہ ہندوستان میں کسی بھی ادیب کو مل سکنے والے تقریباً تمام انعامات اور اعزازات مل چکے تھے، ما سوا ساہتیہ اکادمی انعام کے۔ وہ عرصۂ دراز تک ساہتیہ اکادمی کے جج رہے تھے، ساہتیہ اکادمی نے ان کے فن کی عظمت کا اعتراف بھی کئی مرتبہ کیا تھا، لیکن یہ گراں قدر انعام جو ان کے شاگردوں کو مل چکا تھا، اس کے علاوہ ان سے کہیں کم تر، غیر اہم اور غیر معروف لوگوں کو بھی مل چکا تھا، اپنی بے وقعتی کی حد تک، مگر قاضی صاحب کو نہیں ملا۔ ہرچند کہ قاضی صاحب جس مقام پر تھے وہاں وہ ان تمام تر انعامات و اعزازات سے بالا تر تھے۔ ساہتیہ اکادمی ہی کیوں قاضی صاحب ’گیان پیٹھ‘ انعام تک کے سزا وار تھے۔ ویسے تو قاضی صاحب کا سب سے بڑا اعزاز اور سب سے بڑی سرفرازی یہ تھی کہ ہندوستان گیر سطح پر ان کے درجنوں شاگرد پروفیسر و صدور شعبہ تھے اور ہیں، شاید کئی ایک شیخ الجامعہ بھی ہوں، اور جو اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ہیں، وہ اس کے علاوہ ہیں۔
قاضی صاحب کا مطالعہ تواریخ زبردست اور تاریخی شعور خوب پختہ تھا۔ ہمارے خیال میں اگر قاضی صاحب تاریخ کے استاد ہوتے تو بھی بہت اعلیٰ درجے کے اور اسلامی تاریخ، عہدِ وسطیٰ کی تاریخ، بالخصوص مغل عہد کی تاریخ پر ان کا قول حرفِ آخر ہوتا اور تحریر خاتم۔ ایک مرتبہ قاضی صاحب کے ساتھ دہلی کا لال قلعہ دیکھنے کا اتفاق ہوا، ہماری رہبری کر رہے تھے ہمارے دوست عتیق انور، جو محکمۂ آثارِ قدیمہ میں افسرِ اعلیٰ تھے، ان دنوں وہ لال قلعے کے نگراں تھے۔ ہم تو خیر تاریخ کے محض طالب علم ہونے کے دعوے دار ہیں، مگر اپنے فن کے ماہر عتیق انور بھی قاضی صاحب کی فراہم کردہ معلومات اور ان کی باریک بینی کے قائل ہو گئے تھے، قاضی صاحب نے لال قلعے کے فنِ تعمیر اور اس کی تاریخی حیثیت کے ذیل میں ایسے ایسے نکتے وا شگاف کیے، جو اکثر کتابوں میں نہیں ملتے۔ در اصل قاضی صاحب تاریخ کو بین السطور پڑھتے تھے۔ اس دن ایک لطیفہ بھی ہوا، جیسے ہی ہم لوگ لال قلعے کے لاہوری دروازے سے اندر داخل ہوئے، ایک سردار جی جو غالباً باضابطہ راہنما تھے، لپک کر آئے اور رہبری کی پیش کش کی، جس پر قاضی صاحب نے فرمایا، ’’اب ایسا گیا گزرا وقت بھی ہم پر نہیں آیا کہ ہم لال قلعہ آپ کی راہنمائی میں دیکھیں‘‘۔ وہ بے چارے کیا سمجھے ہوں گے، البتہ تیور دیکھ کر واپس ہو گئے۔
قاضی صاحب ایک مرتبہ دہلی تشریف لائے تو عالمی اردو کانفرنس کے دفتر میں قدم رنجہ فرمایا، محض اپنے اس شاگرد نا اہل سے ملنے کی غرض سے۔ عالمی اردو کانفرنس کے طویل و عریض، شاندار دفتر کی سیر کرنے کے بعد انھوں نے ایک تاریخی جملہ، اس کے بانی علی صدیقی کے گوش گزار کیا، ’’مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ نے اردو کو اس کی غربت سے نکال کر اسے خوشحالی کا لباس پہنایا‘‘۔ اس کے چند ہفتے بعد عالمی اردو کانفرنس کا اوّلین سالانہ جلسہ ہوا تو قاضی صاحب کو خصوصی دعوت دی گئی، ان کی خدمت میں ’عالمی اردو انعام‘ پیش کیا گیا اور معقول نذرانہ بھی۔ اس جلسے میں دنیا بھر سے درجنوں اردو ادیب و شاعر شریک ہوئے تھے۔ کون تھا، جو وہاں نہیں تھا، سرحد کے دونوں جانب سے بھی اور سات سمندر پار سے بھی، ان سب کے نام گنانا بھی ممکن نہیں۔ اُن کے علاوہ دلیپ کمار، نوشاد اور طلعت محمود بھی تشریف لائے تھے، ہم وہاں یوں پیش پیش تھے کہ ہم عالمی اردو کانفرنس کے ترجمان ’اردو مورچہ‘ کے مدیر با اختیار تھے اور اس وقت، اس پرچے کی دھوم تھی۔
ہم علی گڑھ سے دہلی آ چکے تھے اور یہاں چونکہ کارِ جہاں دراز تھا، اس لیے علی گڑھ جانا خال خال ہی ہوتا تھا۔ تاہم، قاضی صاحب کی سرپرستی ہمیں مسلسل حاصل تھی، ہم نے اپنی ادارت میں ماہانہ ’حالِ ہند‘ کا علی گڑھ نمبر نکالا تو اس کی رسم اجرا قاضی صاحب کی صدارت میں سیّد حامد کے دستِ مبارک سے ہوئی۔ اس خصوصی شمارے کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ آج تک قدر دانوں کی درازوں اور مداحوں کے ذہنوں میں وہ پرچہ محفوظ ہے اس کے بعد ہم نے ہفتہ وار ’آئینہ‘ کا سر سیّد نمبر نکالا تو اس میں قاضی صاحب کا مصاحبہ نمایاں طور پر شامل تھا۔ کچھ ہماری نالائقی اور کچھ بے حسی کہ ہم تو علی گڑھ بہت کم جا پاتے تھے لیکن قاضی صاحب جب بھی دہلی تشریف لاتے، اچانک ان کا حیرت خیز نزول، ہمارے اس وقت کے دفتر میں ہوتا اور ہم انتہائی خوش ہوتے ہوئے بھی شرمندہ ہو جاتے تھے۔
در اصل ہم دہلی آ تو گئے تھے، مگر ہمارا دل علی گڑھ میں ہی رما تھا۔ دیگر احباب کے وسیلے سے عموماً اور قاضی صاحب کے تعلق سے خصوصاً۔ عالم وارفتگی یہ تھا کہ ہر ہفتہ دانشگاہ سید کے طواف کے باوجود ہم ہر ہفتہ ہی کم از کم ایک خط قاضی صاحب کو ضرور لکھتے تھے، جس میں دہلی کی ادبی سرگرمیوں، ممتاز ادباء شعراء سے ملاقاتوں نیز ذاتی مصروفیات کا ذکر ہوتا تھا، قابل ذکر یہ کہ اپنی تمام تر بے نیازی کے با وصف قاضی صاحب ہر خط کا جواب رقم بھی کرتے تھے اور مرسل بھی، (جبکہ ان کے اکثر خطوط یا تو ذہنی سطح پر ہی دم توڑ دیتے تھے، یا شرمندہ تحریر ہو بھی جاتے تو ان کے سپرد برید کرنے کی نوبت نہیں آتی تھی)۔ ان دنوں ایک دلچسپ اور قدرے عجب طرز کا انگریزی روزنامہ جاری ہوا تھا، جس کا عنوان ’مارننگ ایکو‘ (بازگشت صبح گاہی) تھا۔ اس پرچے کو ہم بڑی پابندی سے روزانہ بذریعہ ڈاک قاضی صاحب کو روانہ کرتے تھے۔ جو انہیں اگلے دن مل جاتا تھا۔ اگرچہ وہ پرچہ قاضی صاحب کو تکمیلاً پسند نہیں تھا، بلکہ ان کے خیال میں وہ ایسی بٹیر کے مثل تھا، جس کا نہ سر تھا، نہ دم، گو کہ مزے دار تھا۔ بہر کیف ہماری دلداری کی خاطر وہ اسے پڑھتے ضرور تھے۔ ایسی بے شمار یادیں ہیں، جو شیریں بھی ہیں، تلخ بھی، دلنواز بھی اور کسک بخش بھی۔ لیکن یہی سب تو زندگی کا سرمایہ ہے۔
قاضی صاحب سے ملے بہت دن ہو گئے تھے۔ ایک مرتبہ کسی کام سے علی گڑھ جانا ہوا تو اپنے ایک دوست کے ساتھ ہم قاضی صاحب کے دولت کدے پر حاضر ہوئے، ان دنوں موصوف شبلی روڈ پر ہزاروں گز کو محیط ایک سرکاری مکان میں رہائش پذیر تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے صرف ایک سوال کیا، ’’میں ابھی تک آپ کو یاد ہوں؟‘‘ اور ہم پر گھڑوں نہیں مشکوں پانی پڑ گیا، لیکن اگلے ہی پل پرانی شفقت لوٹ آئی۔ بہت دیر تک اپنائیت بھری اور ذاتی باتیں کرتے رہے۔ اسی دوران ہمیں عارضی طور پر علی گڑھ میں ایک ٹھکانے کی ضرورت پیش آئی، قاضی صاحب کے قبضے میں میرس روڈ پر واقع ایک اچھے خاصے کشادہ مکان، وزیر منزل کا بالا خانہ تھا، جو اُس وقت ان کے استعمال میں نہیں تھا، انھوں نے ہمارے حسن طلب کو سمجھ کر اس کی چابی عنایت کر دی، جبکہ ہمیں اس مکان کے وجود کا علم بھی نہ تھا، اگر چہ ہم نے ذاتی وجوہات کی بنا پر اس مکان کو استعمال نہیں کیا، مگر قاضی صاحب کی عنایت نیک تو مندرج ہو گئی۔ اور یہ اس علی گڑھ کی بات ہے جہاں اکثر لوگ ایک رات کسی کو قیام کرانے اور ایک وقت کھانا کھلانے سے بھی محفوظ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کلّیہ نہیں، کچھ مستثنیات بھی ہوں گی، لیکن عموماً ایسا ہی ہے۔ اس کے برعکس قاضی صاحب کا سلوک اور وہ بھی ایک ایسے شخص کے ساتھ جو ان سے کئی برس بعد ملا تھا، ایک مثال ہی کہا جائے گا۔
ہمیں قاضی صاحب کے تعلق سے ایک افتخار حاصل رہا، جسے انھوں نے کبھی اپنے شاگردوں کا تو کیا اپنی اولاد کا حق بھی نہیں بننے دیا۔ وہ سفر کے دوران جہاں بھی قیام کرتے، اپنے کمرے میں کسی کو برداشت نہیں کرتے تھے، اپنے بیٹوں کو انھوں نے کئی مواقع پر الگ سے رقم دے کر ہوٹل میں دوسرے کمرے کا بندوبست کرنے کے لیے کہا، مگر اپنے ساتھ قیام کی اجازت نہیں دی، تاہم ہمیں یہ شرف، اکثر و بیشتر بلکہ تمام اسفار میں حاصل رہا کہ ہم نے ان کے ساتھ قیام کیا اور چند برس قبل بھی ہم نے قاضی صاحب کے ساتھ ایک دانشگاہ کے مہمان خانے میں قیام کیا۔ ایک دن قاضی صاحب نے اس امر کی صراحت بھی کی، ’’یہ عنایت خسروانہ صرف آپ پر ہے صاحبزادے‘‘۔ ہم نے سرِتسلیم خم کیا اور کہا، ’’آپ کی عمر اور صحت کے پیش نظر آپ کی خدمت کے لیے ہمارا حاضر رہنا ضروری ہے‘‘۔ ہمارے ساتھ ہمارے دو رفقائے کار بھی تھے، مگر ان کے قیام کا بندوبست ہم نے دوسرے کمرے میں کرایا تھا۔ یہ بات خواہ لوگوں کو معمولی لگے، لیکن قاضی صاحب کے مزاج شناسوں کو یقیناً یہ غیر معمولی لگے گی۔ ایک مرتبہ، ہم نے فون پر کہا، ’’قاضی صاحب ہم علی گڑھ آنے کے لیے بے چین اور آپ کی زیارت کے لیے بے قرار ہیں، دیکھیے، اچانک نازل ہوں گے‘‘۔ قاضی صاحب کا متوقع، مشفقانہ جواب تھا، ’’ارے بھائی، آئیے، جم جم آئیے، چشمِ ما روشن دلِ ما شاد، اور ہاں ڈنڈی بالکل نہ ماریے گا، قیام میرے ساتھ ہو گا‘‘۔ ہمارا ایک اور امتیاز۔ قاضی صاحب کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ وہ بڑے شاہ خرچ تھے، ہزاروں روپے ایک روز میں خرچ کر سکتے تھے، اور ایک لاکھ روپے خرچ کرنے کا عزم رکھتے تھے۔ ان کے سلسلے میں عام شہرت یہ بھی تھی کہ وہ خاصے محتاط، بلکہ بخیل تھے اور کسی کو قرض تک نہیں دیتے تھے، لیکن اس کے برعکس دوران تعلیم انھوں نے ہمیں کئی بار رقوم دیں اور بغیر طلب کیے دیں۔ ایک مرتبہ ہم کوئی چھوٹا سا جلسہ کر رہے تھے اور پیسے ہمیشہ کی طرح نا موجود تھے، ہم نے قاضی صاحب کو ہلکا سا اشارہ کیا، سستے زمانے میں انھوں نے سو کا نوٹ ہمارے حوالے کیا اور کمال بے نیازی سے کہا، ’’دیکھیے، واپسی کا کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔ اب ہم ان حقائق کا برملا اعتراف کیسے نہ کریں۔
ایک زمانے میں یونس خاں صاحب خاتون آہن اور اس وقت ہندوستان کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کے مقربین میں شامل تھے اور بڑے با اثر۔ ان کے پسر عزیز عادل شہر یار سے ہماری علیک سلیک تھی، اور اسی واسطے سے ہم کسی کام سے یونس خاں صاحب کے پاس جا رہے تھے، قاضی صاحب سے ذکر ہوا تو انھوں نے کہا، ’’میرا ایک پیغام آپ یونس خاں صاحب کو دے دیں‘‘۔ ہم نے کہا، ’’بسر و چشم‘‘۔ ہم خاں صاحب سے ملے، مختصر مگر پُرسکون ملاقات ہوئی، ہم نے قاضی صاحب کا پیغام ان کے گوش گزار کر دیا۔ انھوں نے انتہائی یقین دہانی بھی کرا دی۔ ہم سلام کر کے رخصت ہولیے۔ اپنے کام کی بات کرنا بھول گئے یا شاید یہ سوچا کہ ایک وقت میں دو باتیں کیسے کہیں۔ ہم حاکم کی اگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی سے ہمیشہ ڈرے، غالباً اس وقت بھی یہی خوف دامن گیر تھا۔ ہم پہلی مرتبہ بسلسلۂ تلاش روزگار دہلی آئے تو قاضی صاحب نے پروفیسر محمد حسن اور قمر رئیس صاحبان سے ملنے کا مشورہ دیا اور کہا، ’’وہ آپ کو جانتے ہیں، سفارشی خط کی ضرورت نہیں۔‘‘ ان دونوں بزرگوں نے ہماری کافی رہنمائی، نیز ہمت افزائی کی۔ اگرچہ اپنی کم آمیزی اور کجروی کے باعث ہم ان کی عنایتوں سے زیادہ مستفید نہ ہو سکے۔
ہمیں قاضی صاحب سے چند شکایتیں بھی تھیں۔ انہوں نے با اثر، با رسوخ اور با اختیار ہونے کے با وصف کبھی، از خود ہمارے مستقبل کی تعمیر میں دلچسپی نہیں لی، علی گڑھ جیسے کوفہ صفت معاشرے میں ہم نے ان کی ہم نوائی کی، معاونت کی اور اپنے ترقیاتی امکانات کی قیمت پر کی۔ ان کا مخالف خیمہ بر سر اقتدار تھا، اور ہم ان کے خیمے میں تھے، ہمیشہ رہے جبکہ ہمارے کئی احباب (اور ان کے رفقا) نے یا تو دوغلا رویّہ اپنایا، یا پھر پالا بدل لیا، نتیجتاً، آج وہ (دنیاوی طور پر) کامیاب اور سرخ رو ہیں، جبکہ ہم نے وفاداری بشرط استواری کو جزو ایمان بنائے رکھا، وضع داری و پاسداری کو ہر جنبش اور لرزش سے محفوظ رکھا اور کبھی پائے استقامت کو لغزش نہیں ہونے دی۔ ہر ظلم کو بسروچشم برداشت کیا، حتّیٰ کہ اردو ایم۔ اے میں ہمارا داخلہ تک نہیں ہوا، جو ان دنوں احمقوں کا بھی ہو جاتا تھا۔ محض اس لئے کہ ہم قاضی صاحب کے حامی، جنبہ دار اور ان کے حق کے علم بردار تھے۔ اگرچہ ہمیں اردو کی یہ اعلی سند حاصل کرنے کی کوئی شدید تمنّا نہ تھی، تاہم ایک دلچسپی ضرور تھی۔ قاضی صاحب کا دور اقتدار بھی آیا تھا، اور وہ کچھ ایسا مختصر بھی نہ تھا، بلکہ ایک زمانے میں، عصری شیخ الجامعہ ان کے مّداح نہیں، بلکہ مرید تھے، وہ جو کہتے، وہ ہو سکتا تھا اور ہوتا تھا۔ اسی پر بس نہیں، کم از کم ایک دو عشرے پر محیط عرصے میں اُردو ہی نہیں ہندی ادب میں بھی ان کی عمل داری تھی، ریڈیو اور ٹی وی، ان کی جیب میں تھے۔ ترقی و تنزّلی تو خدائے بزرگ و برتر کے اختیار کلّی میں ہے۔ ضروری نہیں کہ قاضی صاحب ہماری مدد و نصرت میں کامیاب ہی ہوتے۔ گلہ تو یہ ہے کہ انہوں نے نہ کوئی دلچسپی لی نہ استفسار حال کیا۔ اگرچہ ہم ان کی بے نیازی وبے خبری پر مکمل ایقان رکھتے ہیں، اور یہ باور کئے لیتے ہیں کہ انہوں نے قصداً بے توجہی نہیں فرمائی، ان سے فروگزاشت ہی ہوئی ہو گی، مگر ایک شک ہمارے ذہن میں بار بار سراٹھاتا ہے اور ہمیں لاجواب کرتا ہے کہ انہوں نے کئی دیگر حضرات کو دعوت دے کر بلایا اور انہیں کامرانی سے ہم کنار کیا، بلکہ بعض ایسے اشخاص کو بھی، جو ماضی میں ان کے شدید مخالف، بلکہ غنیم رہے تھے۔ وجہِ دلسوزی یہ بھی ہے کہ بعض ایسے اساتذہ و کبائر نے ہماری سر پرستی فرمائی، جن سے ہماری قربت، قبلہ قاضی صاحب کی نسبت کہیں کم تھی۔ بہر کیف، وقت گزر گیا، مگر شاخ نہال غم ہری ہے، اور شاید رہے گی۔
ہم نے قاضی صاحب کے ناول ’دارا شکوہ‘ پر ایک مضمون، بزبانِ فرنگ پیش کیا، جسے سامعین نے انگیز کر لیا اور علما و ادبا نے قبول فرما لیا۔ ہم نے دبے لفظوں میں اپنے اس انقلابی عزم کا انکشاف بھی کر دیا کہ ہم اس ناول کا انگریزی میں ترجمہ کریں گے، بلکہ شروع بھی کر دیا ہے۔ ہماری محدود معلومات کے مطابق قاضی صاحب کے فنِ تحریر پر انگریزی میں یہ پہلا مضمون تھا۔ انھوں نے بہ کمالِ عنایت اسے شرفِ قبولیت بخش دیا، بلکہ یہ بھی فرمایا، ’’میری اتنی تعریف آج تک کسی نے نہیں کی‘‘۔ ہم نے عرض کیا، ’’رعایت تلمّذ کے باوجود، ہم نے وہی لکھا ہے جو درست ہے۔ آپ اس تعریف کے سزاوار ہیں، پھر ہم نے تنقید بھی کی ہے، کچھ اشارے بھی کیے ہیں، اس لیے کہ یہ عینیت پسندی کا تقاضا تھا‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہ قاضی صاحب کی منکسر المزاجی کا ایک اظہار تھا، ورنہ ان کی شخصیت اور فن پر کتابیں لکھی جاچکی ہیں، دستاویزی فلمیں بن چکی ہیں، ان پر تحقیق کر کے دوچار نہیں، پورے پندرہ سولہ حضرات دکتورِ ادب بن چکے ہیں۔ تاہم انھیں ہماری جرأتِ رندانہ کی افزائش بھی تو مقصود تھی۔
دلچسپ بات یہ کہ قاضی صاحب نے ایک آدھ سال کے علاوہ ہمیں کوئی نصابی درس نہیں دیا، کیونکہ ہمارا اصل مضمون اردو تھا ہی نہیں، لیکن لکھنا پڑھنا، جینے کا سلیقہ، آدابِ محفل اور شعار علم و ادب، یہ سب اور بہت کچھ ہم نے قاضی صاحب سے ہی سیکھا۔ انھوں نے نہ صرف سکھایا بلکہ ہماری زنگ آلود شخصیت کو مسلسل صیقل کر کے ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم آج یہ سطریں لکھ رہے ہیں اور منہ کھول کر بات کر پاتے ہیں۔ قاضی صاحب کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ ان کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہ کرنے والوں کے اندر ایسی ہمت اور ایسا حوصلہ پیدا ہو جاتا تھا کہ وہ تاثر تو سب سے لیتے تھے مگر مرعوب کسی سے نہیں ہوتے تھے اور بے جا تو ہرگز نہیں۔ قاضی صاحب کے شاگردوں کا یہی طرۂ امتیاز ہے اور یہی ان کی شانِ منفرد۔ بقولِ جوشؔ؎
سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے
ابھی کل تک اردو کے سب سے قد آور ادیب، قاضی عبد الستار تھے جو پچاسی چھیاسی برس کی عمر میں بھی جوان ہوں نہ ہوں، رواں دواں تھے، ہم سے کہیں زیادہ مستعد تھے۔ وہ بابر کے قول پر یقین رکھتے ہوئے زندگی کو بھرپور انداز سے جیتے تھے، کیونکہ یہ ایک بار ہی ملتی ہے۔ قاضی صاحب کے مزاج کا خاصّہ یہ تھا کہ، وہ چاہتے تھے کہ سب کچھ اُن کی مرضی کے عین مطابق ہو، اور اُن کے کہے بغیر ہو، ظاہر ہے کہ عملاً یہ ممکن نہیں تھا۔ اس بات کا اعتراف اُنھیں خود بھی تھا، مگر مزاج تو مزاج ہے، وہ کیسے منقلب ہو؟
عہد حاضر کے تمام کبائر ادب، یکے بعد دگر مائل بہ رخصت ہیں، اقبال متین اور غیاث احمد گدّی کب کے راہیِ طارم ہوئے۔ انور عظیم بھی گئے، اور عابد سہیل بھی اور تا حال انتظار حسین کے بعد قد آور افسانوی ادباء میں صرف اور صرف قاضی عبد الستار، منظر ادب پر جلوہ گر تھے۔ اگر ان کا قلم آمادۂ صریر رہتا تو افسانوی ادب مزید ثروت مند ہو سکتا تھا۔ ان کا دم غنیمت تھا، پرانے بادہ کشوں میں بس اب وہی وہ تھے۔ مگر، حیف کہ وہ بھی راہیِ امصار افلاک ہوئے۔ ع۔ موت سے کس کو رستگاری ہے۔
فراقؔ نے کہا تھا کہ آنے والی نسلیں ان کے ہم عصروں کو قابل فخر خیال کریں گی کہ انہوں نے فراقؔ کو دیکھا تھا۔ ہمیں بھی اپنے اس فخر پر فخر ہے کہ ہم نے قاضی صاحب کو نہ صرف دیکھا، برتا، بلکہ ہم ان کی بارگاہِ علم و ادب کے ثمر یافتہ ہیں، یہ فخر نہیں، افتخار ہے۔ ہماری نظر میں قاضیؔ صاحب، بہ اوصاف مخصوص، نیز، اپنی بشری کمزوریوں کے با وصف واحد تھے، وحید تھے، یکتا تھے، شاید اپنی تمثیل وہ خود تھے۔ کیونکہ ان کی شخصیت میں جو کجی تھی، جو ادائے بے نیازی تھی، وہ بھی اپنی مثال آپ تھی۔ مگر ان کی شخصیت بقول حالیؔ کچھ یوں تھی۔
خاکساروں سے خاکساری تھی، سر بلندوں سے انکسار نہ تھا۔
آج قاضی عبد الستار صاحب ہمارے درمیان نہیں، مگر مادّی طور پر نہ سہی، ذہنی و تصوراتی سطح پر وہ آج بھی نہ صرف موجود ہیں، بلکہ موثر ہیں، ان کی تخلیقات و تصنیفات اس امر کی شاہد ہیں۔ اور ہمارے لئے تو وہ زندہ تھے، زندہ ہیں، زندہ رہیں گے، تابندہ رہیں گے۔
ع رفتید ولے نہ ازدل ما۔
اتمام گفتگو کے طور پر، خدائے سخن میر تقی میر کا ایک شعر درج کرنا لازم ہے، جو قاضی صاحب مرحوم کا پسندیدہ شعر تھا۔ وہ اسے اکثر پڑھتے اور سر دھنتے تھے۔ اس سیاہ بخت نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن یہی شعر ان کی یاد میں مندرج کرنا اس کی مجبوری ہو گی۔ بہر کیف شعر حاضر ہے ؎
جب نام ترا لیجے، تب آنکھ بھر آوے
اس زندگی کرنے کو، کہاں سے جگر آوے
٭٭٭