نرم لہجے کا فسوں ۔۔۔ فیروز عابد

 

’’عجیب سناٹا ہے‘‘

’’کہاں پھنس گیا‘‘

’’کیا ہوا۔۔۔۔؟‘‘

’’یہ کیسی خاموشی ہے، ابھی رات اتری بھی نہیں۔۔ یہ کیسا گاؤں ہے۔۔۔۔؟‘‘

’’سناٹا ہے۔۔۔۔ تم کیا کہہ رہے ہو۔ کیسا سناٹا، کیسی خاموشی۔۔۔۔۔؟‘‘

دیکھو گھروں کے کواڑ بند ہیں۔۔۔۔ دھول سے اَٹے تنگ راستے ہیں۔۔ ‘‘

’’تم ابھی سے گھبرا گئے۔۔۔۔ پورے گاؤں کے سروے میں کئی دن تو لگ ہی جائیں گے۔ دیکھو کھڑکیوں سے مدھم مدھم روشنی آ رہی ہے۔۔ لوگوں نے گھروں میں چراغ، لمپو یا پھر لالٹین روشن کر لیے ہیں ‘‘ کہاں پھنس گیا۔۔۔۔ وحشت ہو رہی ہے۔۔۔۔ رکشا والا بھی عجیب تھا۔۔ کہا آگے راستہ تنگ ہے، سائیکل وین نہیں جا سکتا۔۔ ‘‘

’’اس نے غلط کیا کہا۔۔ میں اور تم اور اگر کوئی تیسرا ہم سے قدم سے قدم ملاکر چلے تو پھر مٹی کے اوبڑ کھابڑ راستے میں گر جائے گا۔۔ رکشا والے نے کہا تھا بائیں طرف برگد کا درخت ملے گا بس اس کے بغل سے نکل جانا۔۔۔۔ کئی قدم کے فاصلے پر ان سارے مکانوں سے ذرا اونچا مکان ملے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی مکھیا جی کا گھر ہے۔۔۔۔۔ ‘‘

’’کیا مصیبت ہے یہ سناٹا تو اور گہرا ہو رہا ہے۔۔۔۔ ‘‘

دوست سناٹا نہیں اندھیرا اب گہرا ہو رہا ہے۔۔۔۔ ‘‘

رکو بیگ سے ٹارچ نکالتا ہوں۔۔۔۔ ‘‘ ٹارچ کی روشنی میں برگد کا درخت نظر آ گیا۔۔۔۔ کچھ ہی فاصلے پر تھا۔۔۔۔۔ ‘‘

’’چلو راحت ملی۔۔۔۔ برگد کے بغلی کنارے سے نکل پڑیں، بس مکھیا جی کا گھر نظر آ جائے گا۔۔

’’مکھیا جی کے گھر میں شاید گیس لیمپ جل رہا تھا۔۔

’’چلو تم ہی دستک دو‘‘

’’کون ہو بھائی؟‘‘

’’ہم لوگ شہر سے سروے کے لئے آئے ہیں۔۔۔۔۔ !‘‘

’’اچھا اچھا۔۔۔۔۔ ‘‘

بھاری بھرکم کواڑ کا ایک پٹ ہی کھلا۔۔۔۔ کواڑ کھولنے والے نے کہا، آ جا ئیے ‘‘

چھوٹے سے آنگن سے گذر کر ہم ایک اور کھلے ہوئے آہنی دروازے سے اندر داخل ہوئے۔۔۔۔۔ مکھیا جی اپنی کرسی سے آدھے کھڑے ہوئے اور سامنے رکھی کرسیوں کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔ ’’دور سے چل کر آ رہے ہیں۔۔۔۔ سانس ٹھیک کر لیجیے تو پھر باتیں کریں گے۔۔۔۔ ارے رام دیال ان کے تازہ دم ہونے کے لئے کنوئیں سے پانی نکال لیو اور وہ جو کمرہ ہے اس میں بستر لگا دئیو۔۔ آج آرام کر لیں۔۔ ہاں بتاشا پانی۔۔ چوڑا اور دودھ یہیں لے آئیو۔۔ ‘‘ آپ میرے نام کا کاغذ دکھا دیجیے۔۔ اچھا چھورئیے۔ پہلے آپ لوگ فریش ہو جائیے۔ ‘‘ مکھیا کی شام کی ضیافت کے بعد نول شرما نے اپنے بیگ سے مکھیا اور بی ڈی او کے نام کے خطوط نکالے۔۔ اس میں تو صرف ایک ہی نام ہے نول شرما۔۔ جو سروے کریں گے۔۔ آپ ہیں یا یہ۔۔۔۔؟‘‘

’’جی میں ہوں اور یہ میرے دوست سنیل رائے ہیں۔۔ میری درخواست پر میرے ساتھ چلے آئے۔۔ ہم دونوں نے ایک ہی یونیورسیٹی سے ایم اے کیا ہے۔۔ میں نے ہندی میں اور انہوں نے پولٹیکل سائنس میں۔۔۔۔ میری نوکری لگ گئی۔۔ انھوں نے ابھی نوکری کے بارے میں سوچا نہیں ہے۔۔ یہ بس سماج سدھار کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔

سنیل رائے نے حیرت سے اپنے ڈرپوک دوست کو دیکھا

’’بڑے اچھے اور شبھ وچار ہیں۔۔ سنیل بابو کے۔۔ چلئیے آرام سے یہاں رہیے۔۔ ارے رام دیال ان کا کمرہ ٹھیک کر دیا نا۔۔۔۔ جائیے آرام کیجیے۔۔ کل بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔ !!

’’ڈر اور سناٹے کی بات کرنے والا نول کشور بہت بہادر ہو گیا۔۔ کیا بات ہے۔۔ ! سنیل نے نول کو چھیڑا۔۔۔۔

’’بھیا سنیل میں چلا سونے۔۔۔۔ تم اپنی انقلابی کتاب اس ٹمٹماتی روشنی میں پڑھو۔۔۔۔ موسم بہت خوش گوار ہے۔۔۔۔ ‘‘

سنیل کیا سوچ رہا تھا یہ بتانا مشکل ہے مگر اس کے چہرے پر اُمید بھی تھی اور نا اُمیدی بھی۔۔۔۔ وہ نول کے ساتھ یہ دیکھنے آیا تھا کہ اس گاؤں کے لوگ زندگی جی رہے ہیں یا جھیل رہے ہیں، ابھی وہ سوچ میں غرق ہی تھا کہ رام دیال کی آواز ابھری ‘‘ بابو لوگن سو جائیے، مکھیا جی کا آدیش ہے۔۔ لالٹین بجھا دیجیے گا۔

نول سو گیا تھا، سنیل کی نیند اُڑ گئی تھی۔۔۔۔ ’’آدیش، مکھیا کا آدیش۔۔۔۔۔ ‘‘

بہت دیر رات گئے اس کی آنکھ لگی۔۔

مگر

کیا ہوا سنیل کیوں چیخ رہے ہو۔۔۔۔ کہاں سناٹا ہے، کیسا سناٹا ہے؟ سنیل کی آنکھوں میں دردو کرب کی پرچھائیاں تھیں۔

’’تصویریں دھندلی ہو گئی ہیں۔۔ ہر طرف ہنگامہ تھا۔ خون ہی خون۔ بچے، جوان، عورتیں اور بوڑھے۔۔۔۔ پتہ نہیں کون لوگ تھے۔ لہو لہان۔۔۔۔ ہنگاموں میں سناٹا۔۔۔۔ شکستگی، خوف، ڈر اور نسلوں کی تباہی کا سناٹا۔۔۔۔ ‘‘ سنیل اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

’’تم مکھیا کے گھر کیوں آئے۔۔۔۔ ‘‘ سنیل نے اچانک نول سے سوال کیا

’’بی ڈی او کی طرف سے رہنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔۔۔۔ مجھ سے کہا گیا کہ میں مکھیا جی سے مل لوں۔۔ ‘‘ صبح ہو گئی تھی۔۔۔۔ شاید بچے بھی تنگ راستوں میں نکل آئے تھے۔۔ مکھیا جی کے کارندے رام دیال نے ان کے نہانے دھونے اور کھانے پینے کا بندوبست کر دیا تھا۔

مکھیا جی اپنے کمرے میں سراپا انتظار تھے۔

’’تو پھر کام شروع کر دیجیے۔۔۔۔ ‘‘ مکھیا جی نے کہا

پہلے بی ڈی او صاحب سے مل لیں ‘‘ نول نے کہا

’’کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔ اس گاؤں میں کل باون پھونس کی چھونپڑیاں ہیں۔۔ میرا مکان ان سے الگ ہے۔ آپ کہاں جائیں گے۔۔ یہاں بیٹھے آرام سے سروے رپورٹ تیار کیجیے۔۔۔۔ ‘‘

’’مگر مکھیا جی یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔۔ ‘‘ سنیل رائے نے کہا

مکھیا جی نے سنیل کی طرف غور سے دیکھا اور کہا‘‘ آپ نا ہی بولیں۔۔ یہ کام آپ کا نہیں آپ سروے بابو کے دوست ہیں اس لیے۔۔۔۔۔۔۔ آپ چاہیں تو گاؤں دیکھ لیں، گھوم لیں۔۔ سنیل رائے اندر ہی اند گھلتا رہا۔

اب کام شروع کریں سروے بابو۔۔۔۔ ہم آپ کو چھونپڑی نمبر ایک سے باون تک کے رہنے والوں کے نام، پیشہ، ذات، دھرم اور ان کے اناج جیسے چاول، گیہوں، کراسن تیل وغیرہ اور سب ہی کچھ جن کی خانہ پری کرنی ہے ہم بتادیں گے۔۔۔۔۔ ‘‘

سنیل نے ایک نظر مکھیا جی پر ڈالا اور باہر نکل گیا۔۔

’’راستے میں دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے والے ایک بچے نے پوچھا آپ مکھیا کاکا کے متر ہیں۔۔۔۔ گاؤں دیکھیں گے۔ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

وہ اس لڑکے کے ساتھ پھونس کے دو رویہ چھوٹے بڑے، ٹوٹے پھوٹے مکانوں کو دیکھتا آگے بڑھتا رہا۔۔ باون جھونپڑیوں والے گاؤں میں نہ پیپل کا درخت تھا اور نہ نیم کا۔۔۔۔ ہر طرف خاردار جھاڑیاں۔۔۔۔ اچانک وہ ٹھٹھک کر رک گیا ان تمام مکانوں سے ذرا الگ باہر سے خوب صورت ایک مکان تھا۔ لڑکے نے بے ساختہ کہا ’’ یہ ماسٹرنی دادی ماں کا گھر ہے۔۔۔۔ چلئیے گا بڑی اچھی ہیں۔۔۔۔ ‘‘

’’اندر جاؤ اور ان سے کہو شہر سے ایک آدمی آیا ہے جو ان سے ملنا چاہتا ہے۔۔ ‘‘

لڑکا اندر گیا اور اس کے ساتھ وہ خاتون دروازے تک آ گئیں۔۔۔۔ ساٹھ سال سے اوپر ہو گی ان کی عمر۔۔۔۔ پر وقار متبسم چہرا۔۔۔۔ سبز کنارے کی سفید ساڑی۔۔ سر پر بہت سلیقے سے سجا پلو۔۔۔۔۔

سنیل نے نمسکار کیا۔۔ انھوں نے جواب میں اپنا ہاتھ اٹھایا اور اندر آنے کی دعوت دی۔۔ کافی کشادہ، بڑا اور سجا سجا یا کمرہ تھا پیٹرومکس لیمپ جل رہا تھا۔۔ انھوں نے بائیں طرف کا پردہ اٹھایا اور دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔۔ کچھ دیر بعد ایک ٹرے میں دو گلاس شربت لے آئیں۔۔۔۔ انھوں نے بہت اخلاق سے سنیل اور لڑکے کو گلاس پیش کیا۔ لڑکا شرمایا مگر انھوں نے اسے راضی کر لیا۔۔۔۔ سنیل نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شربت پینے لگا۔۔

’’آپ اکیلی رہتی ہیں۔۔۔۔۔ ‘‘

’’ہاں میں اب تنہا ہوں، میرے ساتھ اس گاؤں کی ایک جوان بیوہ ہے جو میرے ساتھ رہتی ہے، وہ میری ہمدرد و مددگار ہے۔۔۔۔ ‘‘

’’مگر آپ‘‘

’’میں پینشن یافتہ خاتون ہوں۔۔ اپنے شوہر کے قتل کے بعد مجھے سروس کا آفر ملا مگر بہت دور جانے کو کہا گیا۔۔۔۔ میں اپنے شوہر کی یاد جو اس گاؤں سے جڑی ہے، اس سے دور جانا میرے لئے نا ممکن تھا۔۔۔۔ !‘‘

’’مگر آپ کے شوہر کا قتل؟‘‘

وہ کسی اور بلاک کے بی ڈی او تھے۔۔۔۔ انہیں اس بلاک کا بھی چارج دیا گیا تھا۔۔ وہ معاشی بدحالی اور معاشرتی تصادم کی نہیں ایکتا کی بات کرتے تھے

’’وہ اکیلے تھے، ہار گئے اور ایک دن ان کو قتل کر کے اسی گاؤں کے کنوئیں میں پھینک دیا گیا۔۔ جب سارا نظام ہی سڑ گل جائے تو پھر کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔۔ میں کہیں نہیں گئی۔۔ ‘‘ ’’یہ تو پرولیا، بانکوڑہ اور بھوج پور کے گاؤں سے بھی زیادہ وحشی گاؤں۔۔۔۔ ‘‘ یہ کہہ کر سنیل کا نپ کانپ سا گیا۔۔ ‘‘

میرا خیال ہے آپ ایک اچھے خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔۔ سسٹم اتنے الجھاوے والا ہو گیا ہے کہ اب نئے نظام کے بارے میں سوچنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ آپ کی گفتگو سے متاثر ہوں جائیے اور زندگی سے مصافحہ کیجیے۔۔ یوں اس طرح اس بے آب و گیاہ پھونس کے گاؤں میں مت گھومئیے کہ یہاں کا سناٹا بہت ہولناک بھی ہو سکتا ہے۔۔ ’’بیٹا میرا خیال ہے دوپہر کے ساڑھے بارہ بج رہے ہیں۔۔ مجھے ضروری فرض ادا کرنا ہے۔۔۔۔ ‘‘

’’آپ کا نام‘‘

’’میں ایک بیوہ خاتون ہوں۔۔ آپ کی ماں جیسی ہوں۔۔۔۔ یہی میری پہچان ہے یہی میرا نام ہے۔۔ ‘‘ سنیل نے ان کا شکریہ ادا کیا اور لڑکے کے ہمراہ دوسری طرف نکل گیا۔۔ سنیل نے اس لڑکے سے بھی ان کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا۔۔ بس بے آب و گیاہ دھول سے اَٹے تنگ راستوں پر گھومتا رہا۔۔ واقعی یہاں سناٹا ہے۔۔۔۔ ٹھیک کہا تھا نول نے۔۔ مگر ایسا سناٹا کیوں۔۔ کیسا ڈر، کون سا خوف۔۔ وہ بڑ بڑاتا گیا اور چلتا رہا۔۔۔۔ برگد کا ایک ہی درخت، نہ پیپل اور نہ نیم کا درخت، نہ کتے اور نہ بلیاں۔۔۔۔ وہ بے مقصد اِدھر سے اُدھر گھومتا رہا۔۔۔۔۔ آخر کب تک۔۔۔۔ !!

اس نے مکھیا جی کے دروازے پر دستک دی رام دیال نے دروازہ کھولا۔۔ نول کا غذات سمیٹ رہا تھا۔۔ مکھیا جی کرسی پر براجمان تھے۔

کہیے سنیل جی ہمارا گاؤں کیسا لگا؟ دیکھا آپ نے سب ٹھیک ٹھاک ہے نا۔۔۔۔ کہیں کوئی ہنگامہ، فساد اور لڑائی جھگڑا نہیں۔۔۔۔ ہم ہیں نا۔۔۔۔ ‘‘ مکھیا کی آواز میں کھوکھلا پن تھا۔ سنیل کو رام دیال نے کمرے تک پہنچا دیا تھا۔۔ اس نے رات ہی میں نول کے پاور بینک سے اپنے موبائل کو چارج کر لیا تھا۔۔

صبح اٹھتے ہی اس نے نول سے کہا کہ وہ جا رہا ہے۔ ماں کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ پتا جی بہت پریشان ہیں۔ پریشان کیوں نہ ہوں ان کا اکلوتا بیٹا ان سے دور دوسروں کے دکھوں پر مرہم لگا نے جہاں تہاں بھٹک رہا ہے۔۔ اسے کہیں بھی کامیابی نہیں ملی۔۔ زندگی جھیلنے والوں نے زندگی جینے کے اس طریقے کو مسترد کر دیا۔

وہ سسک پڑا۔

پانچ سال سے میں اپنے اندر کی آواز کو دور گاؤں گاؤں لے جاتا رہا مگرزندگی جھیلنے کے طریقے کو ہی لوگوں نے جینے کا شعار بنا لیا۔۔ یہاں تمہارے ساتھ آیا تو پہلی بار لرز گیا باون پھونس کی جھونپڑیوں کے اندر کا دکھ اور کرب مجھے معلوم نہیں مگر کل شام مکھیا کے دروازے کے باہر ایک پرانے ماڈل کی موٹر بائیک اور اس کے گھناونے چہرے والے سوار نے مجھے اندر سے توڑ دیا۔۔ اسی وقت وہ خاتون یاد آئیں جن سے میں کل ملا تھا، جن کے نرم لہجے میں چھپے اس طوفان نے مجھے ایک مشورہ ددیا تھا۔۔ ‘‘ سناٹا کب بہت مہیب اور بھیانک ہو جائے کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔ مجھے ان کے شوہر یاد آ گئے اور میں کانپ گیا۔۔۔۔

واقعی کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس ملک میں نہ جانے کتنی جگہوں میں ایسا بھیا نک سناٹا ہے۔۔ ہر صوبے کا سناٹا الگ الگ نوعیت کا ہے۔۔ مگر بہت سارے گاؤں کا سناٹا ایک ہی جیسا ہے اور ایسے سناٹے کو توڑنا اتنا آسان نہیں۔۔۔۔ میں جا رہا ہوں، میری ماں اور میرے پتا کی آنکھیں میری راہ تک رہی ہیں۔ وہ مکھیا کے مکان سے نکل کر برگد کے پیڑ کی بغل سے نکلا۔ ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ پتہ نہیں اسے کیا خیال آیا دل پر ہاتھ رکھتا مکھیا کے مکان کی طرف تیز تیز قدموں سے واپس آنے لگا۔ اس نے مسکرا کر موٹر بائیک والے شخص کو دیکھا اور مکھیا جی کے دروازے پر دستک دی۔ رام دیال نے دروازہ کھولا۔۔۔۔ ’’کیا ہوا بابو؟‘‘ اس نے حیرت سے کہا۔ ’’میرا قلم کمرے میں چھوٹ گیا ہے ‘‘ اس نے کہا۔ رام دیال نے بہت ہی پھرتی دکھائی اور اسے قلم لاکر دے دیا۔ ’’تھینک یو رام دیال جی۔۔۔۔ یہ میری بائیں جیب میں دل کے قریب رہتا ہے۔ اب قلم دل کے ساتھ مل کر کیا محبت کی فصل اُگا سکے گا۔۔ دیکھتے ہیں۔۔۔۔ ‘‘ اتنا کہہ کر اس نے رام دیال کو دیکھا، بائیک والے کو دی کھا اور سنسان بستی سے تیر کی طرح نکلتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔ !!!!

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے