موت کا المیہ
_______
وہ اپنے برفیلے ہاتھوں میں
میرے جسم کی گرمی بھر لے گی
اور آنکھوں کی بلوری شمعیں بجھ جائیں گی
لیکن جب دیکھے گی مجھ کو
ان پھولوں کی کومل کومل مسکانوں میں
ان کے ہاتھوں کی جنبش میں
ان کے لہو کی گردش میں
جب دیکھے گی میری پرچھائیں
اپنا ساتھ منہ لے کر رہ جائے گی؟
٭٭٭
آس
_______
اس توقع پر کہ شاید
لہلہاۓ کوئی فصل اب کے برس
ہم ہر سال
دل میں کچھ درد کے بیج
بو دیتے ہیں!
٭٭٭
عشق
_______
عشق سفاک ہے
رہ رہ کے اٹھاتا ہے اسی جاں کا سوال
جس کو دکّان ازل سے ہم لوگ
بڑی مشکل سے
لے کر آدھار آتے ہیں!
٭٭٭
غزل
_______
ہاتھوں سے اپنا ڈھال سفالی ہی کیوں نہ ہو
جام اپنا، اپنا جام ہے، خالی ہی کیوں نہ ہو
کرسی پر اپنی بیٹھ، وہ کانٹوں بھری سہی
بخشش میں لے نہ۔ مسندِ عالی ہی کیوں نہ ہو
ملتی ہو بھیک میں تو حقیقت نہ کر قبول
تعمیر کر! طلسم خیالی ہی کیوں نہ ہو
سیپی رہے گی سیپی، گہر ین نہ جائے گی
موجوں نے آسماں تک اچھالی ہی کیوں نہ ہو
جوہر کی بات اور ہے فن اور علم اور
لیکن سند سند ہے، وہ جعلی ہی کیوں نہ ہو
دنیا سے ہم کو یوں ہے کہ لینا نہیں ہے کچھ
دنیا کو دینے آئے ہیں، گالی ہی کیوں نہ ہو
آئیں اگر نہ ہاتھ مضامیں نئے نئے
کر پیش! فکر و فن کی جگالی ہی کیوں نہ ہو
اللہ کی عیال ہے مضطر خدا کی خلق
سینے سے بھینچ! دشمن غالی ہی کیوں نہ ہو
٭٭٭
غزل
_______
خجلت دہِ یاقوت یمن ہم نے بنایا
جس سنگ کو موضوع سخن ہم نے بنایا
ہر قطرے کو اک تاب و تپ اشک عطا کی
ہر ایک کو اک لعلِ عدن ہم نے بنایا
ہونٹوں کا تبسم تو زمانے کے لیے تھا!
اپنے لیے زخموں کا چمن ہم نے بنایا
پتھر وہی اب ہم پہ اٹھاتے ہیں کہ جن کو
گل پیرہن و غنچہ دہن ہم نے بنایا
تھی دھوپ بہت تیز زمانے کی تو مضطرؔ
ان جھیل سی آنکھوں میں وطن ہم نے بتایا
٭٭٭