قاضی عبد الستارکی افسانہ نگاری اور ‘‘پیتل کا گھنٹہ’’ کا تجزیاتی مطالعہ ۔۔۔ صغیر افراہیم

 

تمہید

_______

 

۱۹۴۷ء سے پہلے کے افسانوں کا واضح مقصد یہ تھا کہ ان کے ذریعے انسانی ذہن کو تبدیل کیا جائے اور اسے سیاسی، سماجی اور معاشی نا برابری کے برتا ؤ کے خلاف تیار کیا جائے لہٰذا تقسیم ہند تک جن موضوعات پر خوب لکھا گیا وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی تمنا، صبح آزادی کا انتظار، غربت و افلاس، زمینداروں، مذہبی اجارہ داروں اور سیٹھ ساہوکاروں کے ذریعے کیا جانے والا استحصال ہے۔ مگر بعد کے افسانوں نے ترک وطن اور ریاستوں کے الحاق کو اپنا خاص موضوع بنایا۔ قاضی عبد الستار نے اس پس منظر میں خصوصی طور پر شرفا کی بد حالی، خاندانوں کے ٹوٹنے اور اعلیٰ سماجی اقدار کے چرمرانے کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ’’پیتل کا گھنٹہ’’ اس کی واضح مثال ہے جس میں ہندوستانی تہذیبی روایت کا گہرا شعور ملتا ہے۔

مقصد اس اکائی کا مقصد آزادیِ ہند کے بعد جاگیردارانہ تہذیب کے زوال کے اثرات سے واقف کرانا ہے۔ بدلی ہوئی صورتِ حال میں اب زمیندار محض ظالم نہیں اور کسان محض مظلوم نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت و جبلت اور حالات و حادثات کوئی بھی صورت پیدا کر سکتے ہیں اسی لیے مذکورہ منظر نامہ میں زمیندار اپنی آن بان کو بر قرار رکھنے کے ممکن جتن کرتا ہے، روا داری کو نبھاتا ہے، مہمان نوازی کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ اس طرح یہ اکائی ترقی پسند تحریک کی کوکھ سے پیدا ہونے والی نئی صورت حال کی نمائندگی کرتی ہے، مٹتی ثقافت، نئے نظام اور ان سے پیدا ہونے والی بے اطمینانی اور ذہنی پس و پیش کی تصویر اُبھارتی ہے جس میں قاضی صاحب کی فنکارانہ سوجھ بوجھ پوری طرح جلوہ گر ہے۔

 

مصنف کا تعارف

_______

 

قاضی عبد الستار قصبہ مچریٹہ، ضلع سیتا پور کے ایک صاحب حیثیت گھرانے میں ۹ فروری ۱۹۳۳ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے ہائی اسکول ۱۹۴۸ ءمیں اور انٹر میڈیٹ ۱۹۵۰ء میں آر۔ ڈی۔ کالج سیتا پور سے کیا۔ ۱۹۵۳ ءمیں لکھنؤ یونیورسٹی سے بی۔ اے۔ (آنرز)، وہیں سے ایم۔ اے۔ (اردو) کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ۱۹۵۷ء میں پی ایچ۔ ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے تحقیقی مقالہ کا عنوان تھا ‘‘اردو شاعری میں قنوطیت‘‘۔ ڈاکٹر ہونے سے ایک سال پہلے ہی وہ شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کر چکے تھے۔

جولائی ۱۹۹۳ء میں صدر شعبۂ اردو کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ ۱۹۷۳ء میں غالب ایوارڈ اور ۱۹۷۴ء میں انھیں ‘‘پدم شری’’کے اعزاز سے نوازا گیا۔ میر، بہادر شاہ ظفر ایوارڈ، اقبال سمان اور عالمی اردو اعزاز کے علاوہ متعدد انعامات و اعزازات مل چکے ہیں۔ پہلا افسانہ ‘‘اندھا’’کے عنوان سے ۱۹۴۷ء میں لکھا جو شارب ردولوی کے تعریفی کلمات کے ساتھ اگلے سال شائع ہوا۔ ‘‘پیتل کا گھنٹہ’’۱۹۶۲ء میں منظرِ عام پر آیا۔ وہ اب تک تیرہ ناول (۱۔ شکست کی آواز، ۱۹۵۴، دودِ چراغ، ‘‘شکست کی آواز ترمیم کے ساتھ،’’۱۹۶۱ [ہندی میں یہ ناول ‘‘پہلا اور آخری خط’’کے نام سے چھپا]، ۲۔ شب گزیدہ، ۱۹۵۹، ۳۔ مجّو بھیا، ۱۹۶۳، ۴۔ للّی، ۱۹۶۴، ۵۔ صلاح الدین ایوبی، ۱۹۶۴، ۶۔ بادل، ۱۹۶۵، ۷۔ غبارِ شب، ۱۹۶۶، ۷۔ دارا شکوہ، ۱۹۶۸، ۹۔ غالب، ۱۹۸۶، ۱۰۔ حضرت جان، ۱۹۹۰، ۱۱۔ خالد بن ولید ۱۹۹۵، ۱۲۔ تاجم سلطان، ۲۰۰۵، ۱۳۔ تاج پور، ۲۰۰۶ ء) اور تقریباً پچاس افسانے لکھ چکے ہیں۔ ‘‘آئینۂ ایّام’’ کے عنوان سے افسانوں کا مجموعہ ۱۹۹۵ء میں شائع ہوا تھا۔ تنقیدی نوعیت کی دو کتابیں (۱۔ اردو شاعری میں قنوطیت۔ ۲۔ جمالیات اور ہندوستانی جمالیات) بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔

 

قاضی عبد الستار کی افسانہ نگاری

______________

 

قاضی عبد الستار کے اہم افسانے ‘‘ٹھاکر دوارہ،’’ ’’گرم لہو میں غلطاں،‘‘ ’’رضو باجی‘‘، ’’لالا امام بخش‘‘، ’’پرچھائیاں‘‘، ’’جنگل’’، ’’آنکھیں‘‘ ’’نیا قانون‘‘، ’’چنگیز کی موت‘‘، ’’میراث‘‘ اور ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ ہیں اس صنف کے تعلق سے ان کا کہنا ہے کہ: ’’اچھے افسانے کو ملکۂ حسن کے جسم کی طرح اور نئی بُنی ہوئی چارپائی کی طرح تنا ہوا اور گٹھا ہوا ہونا چاہیے۔ (وہ مزید کہتے ہیں کہ) کہانی کے میدان میں انھیں لوگوں نے کار نامے انجام دیے ہیں جو قلم کی جنبشوں اور ابرو کے چند اشاروں سے معنی کی پوری پوری دنیائیں روشن کر دیتے ہیں، ماضی کے ہاتھ میں آئینہ پکڑا دیتے ہیں۔ تقدیر کے بطن میں سوئے ہوئے مستقبل کی ایسی بشارت دیتے ہیں کہ ایک ایک تفصیل آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتی ہے۔‘‘ پلاٹ کی بُنت، کرداروں کی حرکت، فضا اور ماحول کی مناسبت کے کمال کے ساتھ اسماءو صفات کے استعمال سے کہانی نہایت موثر بن جاتی ہے۔ اجزائے ترکیبی کے بر محل استعمال اور حسب ضرورت لف و نشر کی Page 6 بدولت کسا ؤ اور گٹھا ؤ پیدا ہوتا ہے اور اختصار کے ساتھ وہ طویل داستان کو افسانہ کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ تفصیلات کے اخراج کے ہر ممکنہ طریقے کو اختیار کرتے ہیں۔ قاضی صاحب کا طرز تحریر موضوع کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ تاریخی موضوعات سے ہٹ کر جو افسانے خلق کیے ہیں وہ جاگیردارانہ اور زمیندارانہ تہذیب کے زوال اور اُس کے دُور رس اثرات پر مشتمل ہیں۔ آزادی ٔ ہند کے بعد افسانے کے کینوس پر اُبھرنے والے قصبات اور گاں ؤ پریم چند کی روایت کو تو زندہ رکھتے ہیں لیکن ان سے بڑی حد تک مختلف ہیں۔ اس منظر نامہ میں نوآبادیاتی نظام کا استحصالی طبقہ دم توڑچکا ہے لیکن کسی اور شکل میں ان کا وجود بر قرار ہے۔ ظلم کے اس بدلے ہوئے طریقہ کٔ ار کو قاضی صاحب نہایت موثر انداز میں پیش کرتے ہیں۔ حقائق کی اس پیش کش سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قصبات پر بھی فنکار کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ بدلی ہوئی صورتِ حال سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں زمیندار محض ظالم نہیں اور کسان محض مظلوم نہیں بلکہ لُٹتے ہوئے زمیندار جو آن بان کو قائم رکھنے کے جتن کرتے ہیں، خاموش فریادی کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ اُن کے اسلوب کی دل نشینی اور اثر انگیزی میں پیکر تراشی قابلِ قدر ہے۔ وہ پُر شکوہ الفاظ کے سہارے جو سحر انگیز فضا خلق کرتے ہیں، قاری افسانہ ختم کر لینے کے بعد بھی اس میں دیر تک گرفتار رہتا ہے۔

 

 

 

‘‘پیتل کا گھنٹہ’’ کا تجزیاتی مطالعہ

______________

 

قاضی عبد الستار نے ۱۹۶۴ء میں افسانہ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ لکھا جو بعد میں اُن کے پہلے افسانوی مجموعہ کا سر نامہ بھی ثابت ہوا۔ ایک مخصوص معاشرہ اور تہذیب کی بدلتی ہوئی اقدار کی بھر پور عکّاسی کرنے والا اُن کا یہ افسانہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ اِس میں ایک بے جان شے (پیتل کا گھنٹہ) سے راوی کا واسطہ دو بار پڑتا ہے۔ پہلی بار قاضی انعام حسین کے یہاں غُسل کے لیے جاتا ہے اور دوسری بار اپنے گھر واپس جاتے وقت۔ سابقۂ اوّل میں راوی اُسے بغور دیکھتا ہے:

….’’وہاں دیوار سے لگا، اچھی خاصی سینی کے برابر پیتل کا گھنٹہ کھڑا تھا۔ میں نے جھُک کر دیکھا۔ گھنٹے میں مونگریوں کی مار سے داغ پڑ گئے تھے۔ دو اُنگل کا حاشیہ چھوڑ کر جو سُوراخ تھا اُس میں سُوت کی کالی رسّی بندھی تھی۔ اِس سوراخ کے برابر ایک بڑا سا چاند تھا۔ اِس کے اوپر سات پہلو کا ستارہ تھا۔ میں نے تولیہ کے کونے سے جھاڑ کر دیکھا تو وہ چاند تارا بھسول اسٹیٹ کا مونوگرام تھا۔ عربی رسم الخط میں قاضی انعام حسین آف بھسول اسٹیٹ (اودھ)کھُدا ہوا تھا۔ یہی وہ گھنٹہ تھا جو بھسول کی ڈیوڑھی پر اعلان ریاست کے طور پر تقریباً ایک صدی سے بجتا چلا آ رہا تھا۔ میں نے اسے روشنی میں دیکھنے کے لیے اُٹھانا چاہا لیکن ایک ہاتھ سے نہ اُٹھا سکا۔ دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر دیکھتا رہا۔‘‘

کہانی کی بُنت میں پیتل کا گھنٹہ اور راوی کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے اور مرکزیت حاصل ہوتی ہے قاضی انعام حسین کو اور پھر اُن کے توسط سے جاگیر دارانہ عہد کے زوال کے المیہ کو۔ اودھ کی تہذیبی، تمدّنی اور ثقافتی صداقت کو اُنھوں نے واقعات کے باہمی انضباط اور مضبوط پلاٹ کے پیکر میں اِس طرح سمو دیا ہے کہ قاری کہیں بھی ذہنی انتشار میں مُبتلا نہیں ہوتا ہے۔ زمینداری کے خاتمہ کے بعد اودھ کے خدا ترس جاگیرداروں کا جو عبرتناک حال ہوا، یہ افسانہ اُس کی بھر پور نشاندہی کرتا ہے۔ چونکہ قاضی عبد الستار اِس عروج و زوال کے چشم دید گواہ تھے، اُن کے والد قاضی عبد العلی، چچا محمود علی اور ماموں قاضی جمیل الدین زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتے تھے، اِس لیے اُنھوں نے مٹتی ہوئی تہذیب اور بدلتے ہوئے حالات میں نئے نظام کے نمود کو بخوبی پینٹ کیا ہے۔ حالات سے پیدا شدہ بے اطمینانی اور ماضی کی بازیافت کے مابین کی کشمکش مذکورہ افسانہ میں جلوہ گر ہے۔ منظر نامہ میں راوی، دیہاتی، قاضی انعام حسین، ان کی اہلیہ، تانگہ بان اور شاہ جی ہیں لیکن مرکزیت اور فوقیت حاصل ہے بھسول کے تعلقہ دار کو جو کہانی میں ہر جگہ موجود ہے۔ کبھی بلند و بالا میناروں کے پس منظر میں، کبھی کلاسیکی کاٹ کی بانات کی اچکن اور پورے پائنچے کا پاجامہ اور فرکی ٹوپی پہنے، کبھی سفید پوری مونچھیں اور حکومت سے سینچی ہوئی آنکھیں تو کبھی لمبے قد کے جھکے ہوئے، ڈوریے کی قمیض، میلا پائجامہ اور موٹر ٹائر کے تلوؤں کا پُرانا پمپ پہنے ہوئے، ماتھے پر ہتھیلی کا چھجّہ بنائے یا پھر باورچی خانے میں بیٹھے چولھے کی روشنی میں لالٹین کی چمنی جوڑتے ہوئے۔ کوئی شکوہ نہیں۔ خاموشی کے اِس سنّاٹے کو توڑنے کے لیے فنکار نے اُن کی اہلیہ کا کردار خلق کیا ہے جو دھُلے ہوئے گھڑوں کی گھڑونچی کے پاس سٹپٹائی، شرمندہ سی کھڑی ہوئی نظر آتی ہیں اور مہمان کی اچانک آمد پر الگنی پر پڑی مارکین کی دھُلی چادر گھسیٹ کر دوپٹّہ کی طرح اوڑھ لیتی ہیں، وہ بھی یوں کہ دامن میں لگا دوسرے کپڑے کا چمکتا پیوند چھُپ جائے۔ وہ سُکھ اور دُکھ کی گنگا جمنی آواز میں دعائیں دیتی ہیں جس کی گونج میں ماضی کا نوحہ بھی ہے اور بین بھی۔ افسانہ نگار نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے اُس کے تمام لوازمات سے وہ واقف ہے۔ فنِ افسانہ نگاری کے رموز پر گہری گرفت ہے۔ اس لیے بہت سلیقے سے قاری کو اپنا ہمنوا بناتے ہوئے فضا اور ماحول کے تانے بانے بُنے ہیں۔ جزئیات اور منظر نگاری سے خوب کام لیا گیا ہے بے حد منظم طریقہ سے ترتیب دیے گئے پلاٹ کا آغاز صیغہ واحد متکلم میں اس طرح ہوتا ہے:

’’آٹھویں مرتبہ ہم سب مسافروں نے لاری کو دھکّا دیا اور ڈھکیلتے ہوئے خاصی دور تک چلے گئے لیکن انجن گنگنایا تک نہیں۔‘‘

جدید دور، جمہوری دور، جس میں اشتراک اور معاونت ہے، قدیم دور جس میں آمریت ہے۔ اپنے بل بوتے پر سب کچھ چلانے یا ٹھیک ٹھاک کر لینے کا حوصلہ ہے۔ دونوں کی اچھائیوں یا بُرائیوں سے گُ ریز کرتے ہوئے وہ بیان کر دینا جو نوشتۂ دیوار ہے۔

یہ کہانی انعام حسین آف بھسول کو بنیاد بنا کر لکھی گئی ہے مگر اُن کے عروج و زوال کی نہیں ہے بلکہ بالواسطہ طور پر آزادی ٔ ہند سے پہلے کے ہندوستان اور آزادی کے بعد کے ہندوستان کی بہت سی جہتوں کو اس میں فنکارانہ ڈھنگ سے سمیٹ لیا گیا ہے۔ اِسی لیے راوی ہر جگہ قاضی انعام حسین کی موجودگی کا احساس بدلتے ہوئے منظر نامے کے ساتھ دلاتا ہے۔ شاہ جی کا کردار دیہی زندگی کی معیشت کی نئی کروٹ ہے اور صارفیت کے زمانے میں تانگہ بان کا کردار مستقبل کی نئی راہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی تانے بانے میں ماضی کے نقوش اُبھرتے ہیں:

’’سامنے وہ شاندار مسجد کھڑی تھی، جسے قاضی انعام حسین نے اپنی جوانی میں بنوایا تھا۔ مسجد کے سامنے میدان کے دونوں طرف ٹوٹے پھوٹے مکان کا سلسلہ تھا، جن میں شاید کبھی بھسول کے جانور رہتے ہوں گے، ڈیوڑھی کے بالکل سامنے دو اُونچے آم کے درخت ٹرافک کے سپاہی کی طرح چھتری لگائے کھڑے تھے۔ ان کے تنے جل گئے تھے۔ جگہ جگہ مٹّی بھری تھی۔ ڈیوڑھی کے دونوں طرف عمارتوں کے بجائے عمارتوں کا ملبہ پڑا تھا۔ دن کے تین بجے تھے۔ وہاں اس وقت نہ کوئی آدم تھا نہ آدم زاد کہ ڈیوڑھی سے قاضی انعام حسین نکلے۔‘‘

اس بیان سے بھسول کی آج اور کل کی صورت حال، دونوں کا قاری کو اندازہ ہو جاتا ہے اور یہ احساس بھی کہ جاگیر دارانہ نظام کے ختم ہوتے ہی بہت کچھ ختم ہو گیا۔ پُرانی روایات کے نقوش باقی ہیں کہ مہمان کی آمد پر اس کی خاطر مدارات میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ انتہا یہ کہ میزبان مہمان کے لیے اپنی ریاست کی آخری نشانی پیتل کے گھنٹے کو بھی بیچ دیتا ہے۔ افسانہ میں راوی کے اس مظاہرہ میں اشاروں اشاروں میں سب کچھ کہہ دیا گیا ہے۔ انداز پُر سوز ہے جس میں فنّی نزاکت بھی ہے اور حُسنِ تاثیر بھی۔

کوئی بھی فن پارہ الفاظ کی ترتیب و تنظیم سے جنم لیتا ہے۔ اُس کے وجود میں آنے کا عمل ہمیں بظاہر سیدھا سادا اور آسان معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے بغور مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمل دشوار اور پیچیدہ ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر خلق کردہ زبان قارئین کے لیے قابلِ قبول نہ ہو اور وہ اس کے اپنے تجربات و احساسات کی نمائندگی نہ کرتی ہو تو وہ خواہ کچھ بھی ہو ادب پارہ کے زمرہ میں شامل نہیں ہو سکتی ہے۔ اِس امر کے پیش نظر تقریباً تمام ادیب تخلیقی عمل میں لفظوں کے کھیل سے کھیلتے ہیں۔ اب اِس کھیل میں جس کو جتنی مہارت حاصل ہوتی ہے وہ اُتنا کامیاب ہوتا ہے۔

قاضی عبد الستار اپنے تخلیقی عمل میں بُنت کاری اور اُس کی مناسبت سے زبان پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ وہ کسی لفظ کو بلا ضرورت اور بغیر غور و فکر کے استعمال نہیں کرتے ہیں اسی لیے اُن کے یہاں زبان و بیان میں تازہ کاری کا احساس ہوتا ہے۔

مذکورہ کہانی میں زندگی کی دُھوپ چھاؤں کو اُبھارنے کے لیے فرسٹ پرسن کا استعمال نہایت قرینہ سے ہوا ہے۔ راوی تعلیم یافتہ ہے۔ اعلیٰ متوسط طبقہ کا فرد ہے۔ وہ اپنے معاشرے کو فطری انداز میں بیان کرتا ہے۔

فنکار نے زندگی کے حقیقی اظہار کے لیے ہندوستان خصوصاً اودھ کے نشیب و فراز کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ تاریخی عمل اور طبقاتی کشمکش اشاروں کنایوں میں آیا ہے۔

افسانہ نگار نے ماضی سے ہمدردی پیدا کرنے کے لیے جو زاویہ اختیار کیا ہے اُس سے جاگیردار طبقہ سے ایک انسانی ہمدردی اور اُن کے دُکھ درد کو محسوس کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

کہانی اُس وقت نیا موڑ لیتی ہے جب یکّہ کو سڑک پر کھڑی ہوئی سواری نے روک لیا اور یکّہ والا ہاتھ جوڑ کر راوی سے اُس کے بیٹھنے کی درخواست کرتا ہے اور پھر سواری سے پُوچھ بیٹھتا ہے:

’’کا شاہ جی، گھنٹہ بھی خرید لایو؟‘‘

’’ہاں کل شام معلوم نائی، کا وقت پڑا ہے میاں پر کہ گھنٹہ دے دیں۔‘‘

بلائے کے ای —– ہاں وقت وقت کی بات ہے ۔۔۔ شاہ جی ناہیں تو ای گھنٹہ —– اے گھوڑے کی دُم راستہ دیکھ کے چل‘‘—-

اور پھر اُس پر ہونے والے تبصرے کو احاطۂ تحریر میں لیتے ہوئے عابد سہیل نے ’’فکشن کی تنقید‘‘ میں لکھا ہے:

’’ایک ہی جملے میں دو فضا، یعنی ’’وقت وقت کی بات ہے‘‘ اور ’’راستہ دیکھ کے چل‘‘ کی آمیزش سے مصنّف نے ماضی اور حال کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے، اور افسانہ کا راوی خود کو ’’میاں کا بُرا وقت‘‘ تصوّر کرنے کے باوجود تانگہ پر اپنا سفر جاری رکھتا ہے جس کا رُخ مستقبل کی طرف ہے۔‘‘(ص۔ ۱۳۷) منظر اور پس منظر میں چلنے والا یہ افسانہ اچانک پیش منظر کی طرف ذہن مُلتفت کرتا ہے۔

راوی کے سامنے ’’پیتل کا گھنٹہ’’ ہے جو ساہوکار کے توسط سے بازار کی جانب جا رہا ہے۔ اب وہ ’’ڈوریے کی قمیض، میلا پاجامہ اور موٹر ٹائر کے تلوں کا پُرانا پمپ پہنے، جھُکے ہوئے’’ شخص کی ملکیت نہیں بلکہ ریشمی کُرتا اور مہین دھوتی پہنے ہوئے ساہوکار کی چیز ہے جو اُس کے مصرف سے واقف ہے اور یہیں سے طرح طرح کے سوالات اُبھرتے اور سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا یہ بے جان شئے محض نظام کی منتقلی کی علامت ہے؟ یا زمیندار طبقہ کی شکست کا المیہ؟ یا پھر خوشحالی کی بشارت! اگر ایسا ہے تو پھر لاری بگڑ کیوں گئی؟ مسافروں کے دھکّا دینے کے باوجود چلتی کیوں نہیں؟ اِس کی خرابی میں کس کا دخل ہے! ! قاضی عبد الستار نے خارجی زندگی اور شعور کی آگہی کے باہمی اشتراک سے ’’پیتل کا گھنٹہ’’ کی بُنت کی ہے۔

 

 

خلاصہ

_______

 

اس افسانہ کا موضوع زمینداری کے خاتمے سے پیدا ہونے والی کیفیت کا اظہار ہے۔ وہ جو کل تک حاکم تھے، وقت کی گردش نے انھیں بے سروساماں کر دیا ہے۔

سماجی، معاشرتی اور سیاسی بساط کے پلٹنے سے جو خلا پیدا ہوا یہ افسانہ اس کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز ظاہری اسباب اور نقوش کو مٹا دیتے ہیں مگر مثبت قدریں بر قرار رہتی ہیں۔

روا داری، انسانیت اور شرافت کا یہ وقتِ امتحان ہوتا ہے اور کہانی کا مرکزی کرداراس میدانِ عمل میں ثابت و سالم رہتا ہے۔ وضع داریوں کو نبھاتا ہے۔ خوبی یہ ہے کہ افسانہ نگار نے ماضی کے نقوش اور اس کی باز گشت کے سماجی اور ذہنی عوامل کو ماضی کی نظروں سے نہیں حال کے تقاضوں کے پس منظر میں دیکھا ہے جہاں قاضی انعام حسین اور صائمہ بیگم ہندوستانی تہذیب و تمدن کی علامت اختیار کر لیتے ہیں وہیں شاہ جی کا کردار مادّی ترقی اور عالم کاری کی شکل میں سوالیہ نشان بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔

اس افسانہ میں موضوع کی وسعت، فکر کی بلندی، تجربے کی گہرائی، مشاہدے کی گیرائی، تاریخی اور تہذیبی شعور اور فن کی پختہ کاری ہے اور پھر فنکار کی مخصوص ہُنر مندی نے اس کے ڈھانچے میں زندگی بھر دی ہے۔ اِسی لیے ’’پیتل کا گھنٹہ ’’نہ صرف ایک مخصوص تہذیب میں اقدار کی شکست کا المیہ ہے بلکہ یہ افسانہ ایک نئے نظام کے نمود، بدلتے ہوئے حالات سے پیدا شدہ بے اطمینانی اور ماضی کی بازیافت کا ترجمان بھی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے