فہمیدہ ریاض: ترقی پسند، صوفی، فیمینسٹ شاعرہ
فہمیدہ ریاض نے ایم اے کے بعد لندن سے فلم ٹیکنک میں ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں پہلی نظم لکھی، جو ’’فنون‘‘ میں شایع ہوئی، جب انہوں نے ریڈیو پاکستان کے لیے خبریں پڑھنے کی ابتدا کی، اس وقت ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’پتھر کی زبان‘‘ اشاعت پذیر ہوا۔ کچھ عرصہ انگلینڈ میں بھی قیام کیا، جہاں یہ بی بی سی اردو سروس (ریڈیو) سے منسلک رہیں۔
فہمیدہ ریاض نے ترقی پسند فکر کا رسالہ ’’آواز‘‘ جاری کیا، جنرل ضیا الحق کے دور میں یہ رسالہ حکومتی پابندیوں کا شکار بھی ہوا۔ انہوں نے انڈیا میں کچھ عرصہ خود ساختہ جلاوطنی بھی کاٹی۔ کئی برس کے بعد سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن اور قائد اعظم اکادمی سے بھی تعلق رہا۔
ان کا رجحان بائیں بازو کے ترقی پسند حلقے کی طرف رہا، اس حوالے سے یہ زمانہ طالب علمی سے ہی خاصی متحرک رہیں۔ سابق جنرل ایوب خان کے دور میں، جب یہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں، انہیں حکومتی جبر سہنا پڑا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں بلوچستان حکومت کا تختہ الٹائے جانے پر تخلیقی اظہار کے ذریعے بھرپور مذمت کی۔ سابق جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی عدلیہ کی بحالی کی تحریک سمیت کئی موضوعات پر برابر اظہار خیال کرتی رہیں۔ انہیں تمغہ حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز سمیت کئی اہم سرکاری اعزازات سے نوازا گیا۔
اردو شاعری میں فہمیدہ ریاض کا بنیادی حوالہ نظم کا ہے۔ انہوں نے پہلی نظم 15 برس کی عمر میں لکھی، جبکہ 22 سال کی عمر میں پہلا شعری مجموعہ منظر عام پر آیا۔ انگلینڈ میں قیام کے دوران شعری مجموعہ ’’بدن دریدہ‘‘ شایع ہوا، انڈیا میں جب یہ قیام پذیر تھیں، تو ان کے شعری مجموعے ’’کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے‘‘ کی اشاعت ہوئی۔ ان کی دیگر تصنیفات میں خط مرموز، گوداوری، گلابی کبوتر، دھوپ، آدمی کی زندگی، کھلے دریچے سے، حلقہ میری زنجیر کا، قافلے پرندوں کے، یہ خانہ آب و گل، ہم رکاب، اپنا جرم ثابت ہے، میں مٹی کی مورت ہوں، کراچی، سب لعل و گہر، مرزا قلیچ بیگ، ہم لوگ اور دیگر تخلیقات شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں نسوانیت کا گہرا رنگ غالب ہے، مرد و عورت کے باہمی تعلق، عورت کا استحصال، معاشرے کی فرسودہ روایات سے بغاوت ان کی شاعری کے نمایاں موضوعات ہیں۔ انہوں نے صوفی شعرا کے حوالے سے تراجم کا بھی خاصا کام کیا، انہوں نے جن شعرا کی شاعری کے تراجم کیے، ان میں فرید الدین عطار، جلال الدین رومی، شاہ عبد الطیف بھٹائی، شیخ سعدی، فروغ فرخ زاد، شیخ ایاز اور دیگر شامل ہیں۔
فہمیدہ ریاض نے معروف مغربی نفسیات دان ’’ایرک فرام‘‘ کی کتاب ’’فیئر آف فریڈم‘‘ سے ماخوذ کردہ ایک کتاب ’’ادھورا آدمی‘‘ کے نام سے لکھی، جس میں ہماری معاشرتی جھلک ملتی ہے۔ اسی طرح انہوں نے پاکستانی معاشرے کے حساس موضوع ’’ہیرا منڈی‘‘ کے حوالے سے بھی ایک ترجمے کا کام کیا۔ مصری ناول نگار نجیب محفوظ کے ایک ناول کا ترجمہ بھی ان کے تخلیقی کاموں کی فہرست میں شامل ہے۔ بچوں کے لیے بھی کہانیوں کی ایک کتاب ’’پیڑ کی پہیلی‘‘ شایع ہوئی۔ مختلف ادبی جرائد میں ادبی و تنقیدی مضامین اور کہانیاں بھی لکھتی رہتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ان کا تازہ ناول ’’قلعہ فراموشی‘‘ شایع ہوا، جو اپنے موضوع اور متن کے اعتبار سے خاصے کی چیز ہے، لیکن فی الحال ادبی حلقوں میں اس ناول پر خاموشی ہے، مستقبل قریب میں یہ ناول اردو کے بڑے ناولوں میں شمار ہو گا، ممکن ہے فہمیدہ ریاض کا سب سے بڑا حوالہ یہی ناول بنے۔ یہ ناول چوتھی صدی عیسوی کی تاریخ سے متعلق ہے، جس میں مرکزی کردار ’’مزدک‘‘ ہے، جس کو تاریخ کا اولیں سوشلسٹ انقلابی کہا جاتا ہے۔
فہمیدہ ریاض عورتوں کے حقوق (فیمنزم) کے حوالے سے بھی ایک توانا آواز ہیں، جس کا عکس ان کی شاعری میں ملتا ہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پر انہیں تمغہ حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز سمیت کئی اعزازات دیے گئے۔ فہمیدہ ریاض سے گفتگو پیش خدمت ہے۔ یہ انٹرویو کچھ عرصہ قبل معروف لکھاری اور مصنف خرم سہیل نے لیا، دانش کے قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ یہ مکالمہ تا حال تازہ اور ملکی صورتحال سے متعلق محسوس ہوتا ہے۔
س: آپ فیمنسٹ مانی جاتی ہیں، یہ بتائیے کہ پاکستان فیمنزم صرف انگریزی طبقے تک کیوں محدود ہے؟
ج: دیکھئیے خرم۔ صرف فیمنزم ہی کیوں، جدید شعور کے جتنے بھی موضوعات ہیں، مثلاً ماحولیات، انسانی حقوق، سب ہی آپ کو انگریزی طبقے تک محدود نظر آئیں گے۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ میری نسل کے کالج کے اولین برسوں تک، یعنی ساٹھ کے عشرے تک، انگریزی طبقہ، جو اس وقت بہت چھوٹا بھی تھا، اپنے آپ کو ہر قسم کے شعور سے دور رکھتا تھا، برصغیر کے مسلمانوں میں عورتوں کے حقوق کا شعور، ان کی تعلیم کی اہمیت وغیرہ حالی اور جناب راشد الخیری وغیرہ نے پیدا کی۔ مولانا حالی نے تو پانی پت میں مسلمانوں کے لیے پہلا اسکول بھی کھولا تھا، تو آپ ان کو انگریزی طبقہ نہیں کہہ سکتے۔ مثال کے طور پر اردو ادب میں عصمت چغتائی جیسی ادیبہ تھیں، پاکستان میں کشور ناہید ہوں یا خود میں، ہم انگریزی طبقے کے نہیں ہیں، لیکن ہمارے معاشرے میں ایک تبدیلی آئی، پہلے مارشل لا نے پریس کا گلا گھونٹ دیا اور اردو پریس اس کا سب سے زیادہ شکار ہوا۔ اب ہم یہاں اردو والوں کو بالائی کے مقابلے میں متوسط طبقہ کہیں، جو کہ وہ ہیں، تو یہ متوسط طبقہ جدید شعور سے دور ہوتا چلا گیا۔ یہ غنیمت ہے، اس دور میں پاکستانی قوم میں کم از کم انگریزی طبقہ تو پیدا ہو گیا، جو مارشل لائی جکڑ بندیوں سے نسبتاً آزاد تھا۔ پرائیویٹ اسکولوں میں ہر طرح کی کتابیں پڑھتا تھا اور باہر کے ملکوں میں بھی تعلیم حاصل کر سکتا تھا۔ یہ طبقہ جدید شعور کو جذب کر سکا، یہ ایسابن سکا، جیسا کبھی ہمارے زمانے میں متوسط طبقہ ہوتا تھا۔ اب یہ تضاد ضرور ہے، اس انگریزی طبقے کا جو کہ ایک بالائی طبقہ ہے، عوام سے رابطے میں نہیں ہوتا اور یہ بالکل دوسری قوم نظر آتے ہیں، لیکن سارا مثبت کام تو انہوں نے کیا ہے۔ ہیں تو یہ بھی پاکستانی قوم کا ایک حصہ اور ان کو اس کا احساس بھی ہے۔
غور کریں تو جناح ہوں یا نہرو، یہ اپنے وقت کا انگریزی طبقہ ہی تھا، لیکن انہوں نے پوری قوم کو آزادی دلانے میں لیڈر شپ کا کردار ادا کیا۔ آپ کو ان کی کوئی اردو کی تحریر نظر نہیں آئے گی۔ اس لیے ہمیں یہ دیکھنا ہے، انگریزی طبقہ کہہ کیا رہا ہے، کیا وہ پاکستانی عورتوں کے حق میں ہے؟ اگر ہاں تو ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ ویسے سچ یہ ہے، میں تو خود اس طبقے کے ساتھ زیادہ اٹھ بیٹھ نہیں سکتی، میرا ان میں دل نہیں لگتا، لیکن یہ زبان کا نہیں، معاشی طبقاتی فرق ہے، پھر بھی میں آپ کو بتاؤں، خود میری فیمنسٹ شاعری کی قدر کرنے والا یہی انگریزی طبقہ ہے، اردو والے تو مجھے گردن زدنی قرار دے چکے تھے۔ ہمارے مخصوص حالات کی وجہ سے یہ تضاد ابھرا ہے۔ پاکستان میں اردو کا ایک ایسا خوشحال طبقہ بھی ابھرا ہے، جس نے مڈل ایسٹ میں بہت پیسہ کمایا ہے، لیکن اس پیسے کے ساتھ وہ برتر شعور ان میں پیدا نہیں ہوا، جو مڈل کلاس کا طرہ امتیاز رہا ہے، جس کی وجہ سے ان چھوٹے چھوٹے محلوں اور گھروں میں بسنے والے معاشرے کی ترقی میں ہراول دستہ بنتے تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں، ان کو معاشی بہتر کلاس تو مل گئی، لیکن سماجی بہتر کلاس تک ان کی رسائی نہیں ہوئی۔ اسی طرح معاشی طبقات، جیسے مزدور طبقہ، مڈل کلاس، اپر کلاس، اس کا کلاسیکی کردار، جیسا کہ ماضی میں تھا، وہ بدل گیا۔ میرے ذہن میں تو اس تضاد کا یہی تجزیہ آتا ہے۔
اب میں آپ کو چلیے، یہ واقعہ سناتی چلوں، جب عصمت چغتائی کا انتقال ہوا، تو اس وقت بھی میں آکسفرڈ یونیورسٹی پریس میں کنسلٹنسی کا کام کر رہی تھی، جو میں ہر کچھ برس بعد کرتی رہی ہوں۔ اس ادارے کی ایم ڈی نے مجھ سے کہا کہ ہم ان کے لیے ایک ریفرنس کرتے ہیں۔ اس وقت تک اس ادارے کی تقریبات میں صرف انگریزی زبان استعمال ہوتی تھی۔ اس لیے میں نے بھی ایک مضمون عصمت پر انگریزی میں لکھا۔ ریفرنس میں سب مقررین انگریزی میں ہی پیپر پڑھ رہے تھے۔ اس پر ایک صاحب نے اٹھ کر اعتراض کیا کہ یہ کیا اندھیر ہے کہ عصمت جیسی اردو کی جید ادیبہ پر انگریزی میں مضمون پڑھے جا رہے ہیں۔ منتظمین نے ان سے عرض کی کہ ہم تو انگریزی والے ہیں۔ اردو والے خود ایک ریفرنس کیوں نہیں کرتے؟ تو حقیقت یہ تھی کہ اردو والوں کو عصمت چغتائی کی ذرا بھی پروا نہیں تھی۔ وہ انہیں ایک فحش نگار سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی ساری توجہ نسیم حجازی، اسلامی ادب یا اپنے دوستوں اور رشتے داروں تک محدود تھی، جن کو ادیب بنا دیا گیا، پھر یہی ہوا، دوسرے دن کراچی پریس کلب میں عصمت چغتائی کا ریفرنس ہوا، میں اس میں بھی گئی تھی، تو تمام تقریریں اس موضوع پر تھیں کہ ان کو دفن کیوں نہیں کیا گیا اور نعش کو سپرد آتش کیوں کیا گیا۔ اردو والوں کے پسندیدہ موضوع بس یہ ہی رہ گئے ہیں۔ ادب میں عصمت کے رتبے اور مقام پر کوئی نہیں بول رہا تھا۔ اردو ادب کے معیار میں زوال کا تو یہ عالم ہے، میں نے ادبی رسالوں میں ایسے مضامین تک دیکھے ہیں کہ غالب شیعہ تھے یا سنّی تھے۔
‘‘خواہ مخواہ تنازعہ نہیں پیدا کرنا چاہیے، جیسے کہ شوقیہ مسلمہ باتوں کو للکاریں، لیکن تنازعہ سے نہیں ڈرنا چاہیے، ورنہ انسانی فکر کبھی بھی ایک قدم آگے نہیں بڑھے گی۔
س: آپ کا کہنا ہے، شاہ محمد مری واحد مرد مصنف ہیں، جنہوں نے آپ کی شاعری کے احساسات کو سمجھا اور لکھا ہے، آپ نے ایسا کیوں کہا؟
ج: شاہ محمد مری بلوچ ہیں، روایتی اردو والے نہیں ہیں، لیکن انہوں نے میرے مجموعے ’’بدن دریدہ‘‘ کی نظموں پر ان کی روح کو سمجھ کر لکھا۔ یہ جو بڑے بڑے اردو کے نام ہیں، جمیل جالبی صاحب سمیت انہوں نے کہیں فہمیدہ ریاض کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ جیسے کہ میں وجود ہی نہیں رکھتی، حالانکہ میں تو برسوں سے لکھ رہی ہوں۔ اردو میں صرف خالدہ حسین نے میری شاعری پر مضمون لکھا، جس میں ان باتوں کی سمجھ تھی، جو میں کہہ رہی تھی۔ شاید یہ سب مجھ پر لکھنے سے خوفزدہ رہتے تھے، جو میں نے لکھا، وہ متنازعہ تھا اور یہ لوگ کسی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔ میں سمجھتی ہوں کہ خواہ مخواہ تنازعہ نہیں پیدا کرنا چاہیے، جیسے کہ شوقیہ مسلمہ باتوں کو للکاریں، لیکن تنازعہ سے نہیں ڈرنا چاہیے، ورنہ انسانی فکر کبھی بھی ایک قدم آگے نہیں بڑھے گی۔ میں سمجھتی ہوں، جب معاشرے کے رسم و رواج از کار رفتہ اور فرسودہ ہو جاتے ہیں، تو معاشرہ خود اپنے اندر سے ایسی قوتیں پیدا کرتا ہے، جو پرانی منجمد ہو جانے والی فکر کو توڑ دیں، معاشرے اور اس کی اقدار میں تازگی لے آئیں۔ یہ ایک طریقہ ہے جس پر زندگی کار بند نظر آتی ہے۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں، ترقی پسندی، یا مارکسزم میں تصوف کے لیے بے شک جگہ نہیں، لیکن تصوف میں مارکسزم کے لیے پوری پوری جگہ ہے۔
س: آپ نے فریدالدین عطار، جلال الدین رومی، شاہ عبدالطیف بھٹائی، شیخ ایاز، فروغ فرخ زاد، نجیب محفوظ اور دیگر کا ترجمہ کیا، یہ انتخاب کیسے طے کیا؟
ج: ان سب کے علاوہ شیخ سعدی شیرازی کو بھی ترجمہ کیا اور کہانیاں، مضامین، متفرق نظمیں تو بے شمار خوش نصیبی اور ذاتی دلچسپی کے باعث میں سندھی اور فارسی اس حد تک جانتی ہوں، ان سے ترجمہ کر سکتی ہوں۔ خرم بس زندگی نے موقع دیا، یہ کہا جا سکتا ہے۔ مثلاً نجیب محفوظ کا ناول ’’افراح القبّہ‘‘ کے انگریزی اور عربی متن کو سامنے رکھ کر ترجمہ کیا۔ فروغ فرخ زاد کی کتابیں پہلی بار لندن میں مجھے میری ایک ایرانی کلاس فیلو نے دی تھیں، اسی ایرانی شاعرہ سے میں نے بے حد ذہنی اور جذباتی قربت محسوس کی تھی، تو پھر جب لندن سے پاکستان واپس آنے کے بعد موقع ملا، تو میں نے اسی کا ترجمہ کیا۔
شیخ ایاز نے اپنے ترجمے کا کام خود مجھے دیا تھا، صوفی شعرا کا کلام ہے، تو ان کی طرف میرا ایک فطری رجحان ہمیشہ سے تھا۔ یہ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں، لیکن ان کے کلام کا دروازہ میرے لیے رومی نے کھولا۔ رومی نے جو دو بڑے کام کیے، وہ ایک تو ان کی مثنوی ہے اور دوسرا دیوان کبیر، جس کو دیوان شمس تبریز بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ غزلوں، رباعیات اور قطعات کا یہ ضخیم مجموعہ انہوں نے اپنے مرشد اور محبوب شمس تبریزی کے نام کر دیا تھا۔ در اصل یہ دیوان تھا، جس نے مجھے از خود رفتہ کر دیا۔ اسے کھول کر جو نظر ڈالی تو گویا ایک دوسری دنیا میں چلی گئی۔ ان جیساشاعر تو نہ میں نے دیکھا تھا، نہ پڑھا اور نہ سنا تھا۔ جس چیز سے میں دوچار ہوئی، اسے واقعی ایک قلبی واردات کہا جا سکتا ہے اور اس کے بعد تو ترجمہ بارش کی طرح برسا۔ شیخ سعدی، عطار اور رومی کا مزید کچھ انتخاب جو مثنوی اور دیوان کبیر دونوں سے کیا گیا، تاکہ وہ شایع ہو سکے۔ یہ ترجمے بہت ہی مختصر ہیں، دوسری صورت میں تو ایک شاعرسے انصاف کرنے کے لیے ایک پوری عمر چاہیے اور رومی کے لیے تو دس بارہ عمریں بھی کافی نہ ہوں۔ آخر ان صوفی شعرا نے پوری پوری عمریں لگا کر یہ سب کچھ تخلیق کیا ہے، لیکن پھر بھی ان سب کا دوبارہ قارئین سے تعارف کرانے کے لیے یہ تراجم کار آمد بھی ہیں۔
صوفی شعرا انسان کے جذبات، احساسات اور عقل تینوں کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے انہیں ساتھ لے کر چلتے ہیں۔
س: آپ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی میں کیا کام کرتی ہیں؟
ج: یہاں جس عہدے کے نام پر مجھے تنخواہ ملتی ہے، وہ کنسلٹنٹ کا ہے، جو ایک بڑی سی چھتری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے، جو بھی کام مجھے دے دیا جائے، وہ میں کرتی ہوں۔ اس میں تراجم، دوسروں کے مسودات پر رائے کا اظہار اور خود ان کے لیے لکھنا، سب ہی شامل ہیں۔ انتظامیہ میرے کام سے مطمئن ہے، اس کی قدر بھی کرتی ہے، یہ بالکل خوش قسمتی ہے، شاعروں، ادیبوں کے ساتھ ایسا بہت کم ہوتا ہے اور تمہارے اس سے پچھلے سوال کے جواب میں یہ اضافہ کرنا چاہوں گی کہ میں نے ترجمے کے ساتھ ساتھ ایک کتاب کو ماخوذ بھی کیا ہے۔ میرے نزدیک یہ اہم تھا، ایک سماجی ماہر نفسیات ایرک فرام کی کتاب فیئر آف فریڈم میں نے پڑھی تھی، جو سماج میں فاشزم کی بنیاد کے بارے میں تھی۔ ان کا کہنا تھا، محض ایک شخص یا ایک لیڈر ملک میں فاشزم نہیں لاتا، بلکہ یہ بنیاد معاشرے کے نچلے متوسط طبقے یعنی بہت حد تک محروم طبقے میں ایک رجحان کی حیثیت سے پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے بالکل ایسا لگا، جیسے ایرک فرام نے یہ کتاب پاکستان کے بارے میں لکھی ہو۔ اس لیے ایراک فرام کے نفسیاتی اصولوں اور پاکستانی معاشرے پر مبنی میں نے ایک کتاب ’’ادھورا آدمی‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی۔ دوسری بات جو میں آپ کے اسی سوال کے جواب میں اضافہ کرنا چاہوں گی، آخر صوفی شعرا کا انتخاب میں نے کیوں کیا اور وہ مجھے کیوں پسند ہیں؟ تو سب سے بڑی دو وجوہات ہیں، جن میں اولیں یہ کہ وہ تمام انسانیت کو یکساں سمجھتے ہیں، ہندو، عیسائی، مسلمان، گورے، سانولے، سب انسان ان کی نظر میں ایک ہیں۔ یہ بات ایسی خوبصورت اور دل کی گہرائیوں میں اتر جانے والی ہے کہ ان کی تعظیم میں انسان کا سر خم ہو جائے، بقول فیض۔۔
سیکھی ہے مرے دل کافر نے بندگی
رب کریم ہے تو تری رہ گزر میں ہے
اور دوسری وجہ، جو میں نے بالخصوص رومی میں دیکھی، پھر بعد میں دوسرے صوفی شعرا کے ہاں بھی میں اس کی شناخت کر سکی، وہ شعرا انسان کے جذبات، احساسات اور عقل تینوں کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے انہیں ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ دوسرے مفکرین میں یہ رجحان عام ہے، ہم یا تو جذبات کو اہمیت دیتے ہیں یا عقل و خرد کو، جبکہ مجھ کو ہمیشہ بار بار یہ خیال آتا تھا، انسان جو کچھ بھی کرتا ہے، حتیٰ کہ جو سوچتا یا محسوس کرتا ہے، اس کے پیچھے یہ تینوں پہلو موجود ہوتے ہیں۔ انسانی عمل نہ خالص عقلی ہوتا ہے اور نہ خالص جذباتی۔ شاید ہو بھی نہیں سکتا۔ اسی لیے یہ مجھے حقیقت سے زیادہ نزدیک محسوس بھی ہوئے۔
تصوف کی بنیاد جدلیات پر ہے، جو خود مارکسزم کی بنیاد ہے۔ خصوصاً رومی یہ بات بڑی وضاحت سے بتاتے ہیں کہ دو فکری دھارے ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں، لیکن کس طرح ان کی جڑیں ایک ہوتی ہیں
س: لیکن شاعری میں تو آپ کا حوالہ ترقی پسندی ہے، پھر صوفی شعرا میں دلچسپی کیسے ہوئی؟
ج: اس چیز کو، جو بظاہر تضاد نظر آ سکتی ہے، تصوف ہی حل کرتا ہے۔ صوفی افکار پر لکھنے والوں نے بہت کم اس طرف توجہ دی، تصوف کی بنیاد جدلیات پر ہے، جو خود مارکسزم کی بنیاد ہے۔ خصوصاً رومی یہ بات بڑی وضاحت سے بتاتے ہیں کہ دو فکری دھارے ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں، لیکن کس طرح ان کی جڑیں ایک ہوتی ہیں۔ اس سے میری نظر میں یہ بات صاف ہوئی، مارکسزم کی بنیاد صرف مادیت نہیں بلکہ اخلاقی اقدار ہیں۔ انصاف اور مساوات کے لیے جد و جہد کا محرک اپنے لیے پیسے جمع کرنا نہیں بلکہ ایک اخلاقی قدر ہے، جس کی آخرکار جہات روحانی ہیں۔ بہرحال یہ ایسا موضوع ہے، جس پر تو ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے، تو پھر آپ یہ کہہ سکتے ہیں، ترقی پسندی، یا مارکسزم میں تصوف کے لیے بے شک جگہ نہیں، لیکن تصوف میں مارکسزم کے لیے پوری پوری جگہ ہے۔ اس لیے مجھے ان دونوں میں کوئی تضاد محسوس نہیں ہوتا۔
س: ان دنوں آپ کیا لکھ رہی ہیں؟
ج: گزشتہ کئی برس سے میں نے نظمیں کم اور نثر زیادہ لکھی ہے۔ ڈھائی تین برس سے ایک ناول پر کام کر رہی تھی، جو چند دن پہلے ہی ختم ہوا ہے۔ یہ ناول ’’مزدک‘‘ نامی ایسے شخص کی زندگی کی کہانی ہے، جسے تاریخ کا اولیں سوشلسٹ انقلابی کہا جاتا ہے۔ یہ چوتھی صدی عیسوی میں ایرانی سلطنت میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا پیغام تھا کہ سلطنت کے تمام امرا، وزرا اور مذہبی پیشواؤں کی دولت ان سے لے کر غریبوں میں برابر تقسیم کر دی جائے۔ یہ حیرت انگیز تحریک اپنے وقت میں بہت مقبول بھی ہو گئی تھی اور سات برس تک چلتی رہی، آخر ایران کے ایک مشہور بادشاہ نوشیروان نے انہیں قتل کر دیا اور اس تحریک کو بہ مشکل ختم کیا۔ یہ اسلام آنے سے ڈیڑھ دو سو برس پہلے کی بات ہے، تو نہایت دلچسپ اور بصیرت افروز شخصیت جب مجھے تاریخ کے اوراق میں نظر آئی، تو اس کو ایک ناول کی صورت میں لکھے بغیر نہ رہ سکی۔ اس کا بہت دلچسپ پہلو یہ ہے، مزدک خود کو ایک پیغمبر کہتے تھے اور ان کا کہنا تھا، یہ خدا کا آخری پیغام ہے۔ اس وقت کے حالات، جن سلطنتوں نے اہم کردار ادا کیا، جیسے رومن سلطنت، جن سے ایرانیوں کی جنگ رہتی تھی، یا بدو عرب قبائل، جوان کے پڑوس میں رہتے تھے، پھر یہودی آبادیاں، جو وہاں موجود تھیں۔ ان کے بارے میں لکھتے ہوئے انسان کتنا کچھ سیکھ سکتا ہے کہ آنکھوں سے جیسے پردے ہٹتے چلے جائیں۔ بہرحال یہ ایک تاریخی ناول ہے۔ اس کے علاوہ کہانیاں لکھتی رہتی ہوں۔ کچھ اپنی ہی طرح کے ادبی تنقیدی مضامین بھی لکھتی ہوں، لیکن وہ روایتی تنقید نہیں ہوتی، جو بہت اکتا دینے والی چیز ہوتی ہے۔ کچھ مختلف قسم کی تنقید نگاری ہے۔ نظم بھی کبھی ہو ہی جاتی ہے۔ اب تو ان نظموں کا ایک نیا مجموعہ شایع ہو سکتا ہے۔ سو ال یہ ہے کہ جورسالوں میں بکھری پڑی ہیں، انہیں کون اکٹھا کرے، دیکھئیے ہمت کر کے خود ہی یہ کام بھی کروں گی۔
٭٭٭