غزلیں
عبد الرحیم نشتر
نیند میں کس نے سوچا ہو گا
سچّا اپنا سپنا ہو گا
پھر سے اس کو فون لگاؤں
کچھ تو کھٹا میٹھا ہو گا
انٹر نٹ کی رونق ہو گی
کیونکر کوئی تنہا ہو گا
کچھ دن ساتھ گزر جائیں گے
عشق بھلا کیوں رسوا ہو گا
جو مرنے کی قسمیں کھائے
اپنی جان سے چھوٹا ہو گا
بن بیاہی مائیں تو خوش ہیں
بچہ کسی کا بیٹا ہو گا
گیند اچھلتی، لہراتی ہے
یعنی کھیل مزے کا ہو گا
یہ کیسا موسم آیا ہے
چپّہ چپّہ صحرا ہو گا
ٹوٹ کے ہر پتّہ کہتا ہے
سوکھے پیڑ کا اب کیا ہو گا
٭٭٭
مت سوچو کیسا موسم ہے
آج ذرا ٹھنڈا موسم ہے
کیا کہتی ہے دل کی دھڑکن
کیا پھر سے ویسا موسم ہے؟
موسم موسم اس کو کھوجوں
میں نے بھی کھویا موسم ہے
اس کے ہاتھ ہیں سارے موسم
کیا تیرا، میرا موسم ہے
جانے کیا لوگوں نے دیکھا
کہتے ہیں اچھا موسم ہے
پھر اپنے بال و پر نوچوں
پھر پہلے جیسا موسم ہے
سرخی ہے یا سبزی، کیا ہے!
رم جھِم رم جھِم سا موسم ہے
کاش کبھی وہ دن بھی آئے
چیخ پڑوں، اپنا موسم ہے
اب چاہے جس کا ہو جائے
موسم ہے یارا، موسم ہے
٭٭٭