غزلیں ۔۔۔ طارق بٹ

نقش تیرا میں جاں سے دھویا نئیں

خود کو رویا ہوں، تجھ پہ رویا نئیں

 

کھو گیا ہے سمے کی دھند میں تو

دل کے منظر نے تجھ کو کھویا نئیں

 

آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہے

جیسا سنتے تھے ویسا ہویا نئیں

 

سانس لیتی ہیں تیری تصویریں

کون تصویر میں تو گویا نئیں

 

اک ترا دھیان ہے دشا اپنی

ہم نئی منزلوں کے جویا نئیں

 

عمر بھر عشق انتساب رہا

ہم نے اس نام کو ڈبویا نئیں

 

تو، کہ نشتر زنی پہ آمادہ!

خار تک میں کبھی چبھویا نئیں

 

سبز ہو کر نہ دی زمیں دل کی

کیا سے کیا بیج اس میں بویا نئیں

 

بار لائی ہر ایک شاخِ ملال

اک ترا ہجر ہی تو ڈھویا نئیں

٭٭٭

 

 

 

کوئی

مانتی ہی نہیں وہ شادی پر

ایسی صورت میں کیا کرے کوئی

 

 

 

تھی یوں بھی خونِ دل کی  کشید، پھر اس کے نشے میں چُور بھی ہم

بے دردا  تیری  چاہت  پر  مامور بھی تھے، مجبور بھی ہم

 

لائی تھی اُسے  دانے کی ہوس، خود جال میں آیا تھا پنچھی

یہ سوچ سپاہ بھی اپنی تھی اس گھیرے میں محصور بھی ہم

 

آئے تو بہت پر خام گرے اک شاخِ شجر کے سارے پھل

اِس شاخِ شجر کے پھلنے پر، مسرور بھی تھے، رنجور بھی ہم

 

اک لاگ کی آگ میں راکھ ہوئے سب رشتے ناتے نام و نسب

رہتی جو کوئی اک چنگاری، سرمد بھی تھے ہم، منصور  بھی ہم

 

کس رنگ بیاں کی جائے گی اِس ذرّۂ روشن کی تمثیل

اک پل کو جہاں ہم خاکی ہیں اک پل میں وہیں ہیں نور بھی ہم

 

ہو سینۂ سنگ کہ آنکھ کا تل، دونوں ہی ترے جلوے کے امیں

وہ برقِ تجلی تھی ہم پر، موسیٰ بھی ہمیں تھے طور بھی ہم

 

ہر آن بدلتی رہتی ہے جیون کی ندی دھارا اپنا

کہیں پیر گئے کہیں ڈوب رہے کسی موج بہے کچھ دور بھی ہم

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے