فصیل ہجر پر اترا ہے مہتاب شناسائی
چمک اٹھا ہے اک مدت کے بعد ایوان تنہائی
لکھا جو کچھ ہے دیواروں پر وہ پڑھنے سے کیا حاصل
ادھر سے پھیر لو نظریں یہی ہے شرط دانائی
میں اپنی ذات کے اندر اگر خوش ہوں تو پھر مجھ کو
پریشاں کسی طرح باہر کی ہر صورت نظر آئی
جو سچ پوچھو تو خود روشنی بد ظن چراغوں سے
ہوا کو لگ رہا ہے مفت میں الزام رسوائی
کبھی چہرہ، کبھی آنکھیں کبھی لب بول اٹھتے ہیں
چھپانے سے بہر صورت کہاں چھپتی ہے سچائی
جگر کے زخم پھولوں کی طرح اب تک مہکتے ہیں
پڑی ان پر نہ جانے کس گھڑی چشم مسیحائی
خزاں ہوتی تو کچھ ہوتا، سہیلؔ اس کو کہیں گے کیا
ہوئی ہے پتھروں سے موسم گل میں پذیرائی
٭٭٭
قدرت جو ہمیں طاقت تخسیرِ انا دے
ہم لوگ نہ پہنیں یہ تصنع کے لبادے
مجھ سے بی جوابوں پہ مصر کیوں ہو چراغو
تم بھی تو سمجھتے ہو ہواؤں کے ارادے
اب ایسی ہوا ڈھونڈ کے لاؤ گے کہاں سے
ٹوٹے ہوئے پتوں کو جو شاخوں سے ملا دے
ہم حال کے پیکر کو تراشیں گے کچھ ایسے
ماضی کے دریچوں میں جو جھانکے، نہ صدا دے
در پردہ سہیلؔ اس میں کئی دست ہنر ہیں
تو بھی تو کبھی ہجر کے شعلوں کو ہوا دے
٭٭٭
اب ایسی ہوا ڈھونڈ کے لاؤ گے کہاں سے
ٹوٹے ہوئے پتوں کو جو شاخوں سے ملا دے
واہ بہت جوبصورت غزل۔